مندرجات کا رخ کریں

"اجتہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

83 بائٹ کا ازالہ ،  28 اکتوبر 2020ء
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 72: سطر 72:


== ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کا نکتہ نظر ==
== ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کا نکتہ نظر ==
فقہائے شیعہ کے نزدیک ایسا [[اجتہاد]] "جس میں رائے، [[استحسان]] اور [[قیاس]]" پایا جائے درست نہیں ہے اور اس کے متعلق [[آئمہ طاہرین]] سے سخت لہجے میں "نہی" وارد ہوئی ہے کہ جس کے مطابق '''"دین اسلام میں شخصی رائے اور[[قیاس]] کی کوئی جگہ نہیں ہے"''' نیز شیعہ فقہاء اور علماء نے ابتداء سے لے کر آج تک اس کی مذمت کی ہے کہ شریعت میں [[اجتہاد]] سے یہ مراد نہیں ہے۔علمائے [[شیعہ]] نے جب بھی [[اجتہاد]] کے متعلق گفتگو کی تو وہاں اس کی تصریح کی ہے شریعت میں اس [[اجتہاد]] ( [[قیاس]] ، رائے، [[استحسان]] ) کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ ایسا [[قیاس]] یا شخصی رائے کہ جسے علمائے [[اہل سنت]] نے [[اجتہاد]] کا نام دیا اسے [[ائمہؑ]] کی [[روایات|احادیث]] میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا بلکہ بہت ہی سخت الفاظ میں اس سے منع کیا گیا ہے اور ایسے عملِ اجتہاد کو فعل [[ابلیس]] کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔جیسا کہ درج ذیل [[احادیث]] سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
فقہائے شیعہ کے نزدیک ایسا اجتہاد جس میں رائے، [[استحسان]] اور [[قیاس]] پایا جائے درست نہیں ہے اور اس کے متعلق [[آئمہ طاہرین]] سے سخت لہجے میں نہی وارد ہوئی ہے کہ جس کے مطابق دین اسلام میں شخصی رائے اور[[قیاس]] کی کوئی جگہ نہیں ہے نیز شیعہ فقہاء اور علماء نے ابتداء سے لے کر آج تک اس کی مذمت کی ہے کہ شریعت میں اجتہاد سے یہ مراد نہیں ہے۔ علمائے [[شیعہ]] نے جب بھی اجتہاد کے متعلق گفتگو کی تو وہاں اس کی تصریح کی ہے شریعت میں اس اجتہاد ( [[قیاس]]، رائے، [[استحسان]] ) کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایسا [[قیاس]] یا شخصی رائے کہ جسے علمائے [[اہل سنت]] نے اجتہاد کا نام دیا اسے [[ائمہؑ]] کی [[روایات|احادیث]] میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا بلکہ بہت ہی سخت الفاظ میں اس سے منع کیا گیا ہے اور ایسے عملِ اجتہاد کو فعل [[ابلیس]] کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل [[احادیث]] سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:


* [[اصول کافی]] میں روایت ہے: '''جس نے [[ قیاس]] پر عمل کیا ہے وہ ہمیشہ اشتباہ میں رہا ہے اور جس نے رائے کے ذریعے اللہ کی اطاعت کی وہ ہمیشہ (بحر ظلمت میں) غرق رہا ہے'''۔<ref>{{حدیث|من نصب نفسہ للقیاس لم یزل دہرہ فی التباس و من دان اللہ بالرائ لم یزل دہرہ فی ارتماس }}۔اصول کافی ،کلینی ج۱ باب البدع والرای والمقاییس ص 109</ref>
* [[اصول کافی]] میں روایت ہے: جس نے قیاس پر عمل کیا ہے وہ ہمیشہ اشتباہ میں رہا ہے اور جس نے رائے کے ذریعے اللہ کی اطاعت کی وہ ہمیشہ (بحر ظلمت میں) غرق رہا ہے۔<ref>{{حدیث|من نصب نفسہ للقیاس لم یزل دہرہ فی التباس و من دان اللہ بالرائ لم یزل دہرہ فی ارتماس}}۔ اصول کافی، کلینی ج۱ باب البدع والرای والمقاییس ص 109</ref>
* [[وسائل الشیعہ]] میں [[امام صادق  ؑ]] سے روایت ہے : اصحاب [[قیاس]] پر نفرین خدا ہو کیونکہ انہوں نے  کتاب خدا و سنت [[رسول]]  ﷺ  کو تبدیل کر دیا ہے اور دین خدا میں سچوں پر تہمت لگائی ہے۔<ref>وسائل الشیعہ ، حرعاملی ،ج26 ص59 ش33194</ref>
* [[وسائل الشیعہ]] میں [[امام صادق  ؑ]] سے روایت ہے: اصحاب [[قیاس]] پر نفرین خدا ہو کیونکہ انہوں نے  کتاب خدا و سنت [[رسول]]  ﷺ  کو تبدیل کر دیا ہے اور دین خدا میں سچوں پر تہمت لگائی ہے۔<ref>وسائل الشیعہ، حر عاملی ،ج26 ص59 ش33194</ref>
* [[امیر المؤمنین]] نے فرمایا: '''دین خدا میں [[قیاس]] سے کام نہ لیں کیونکہ امر خدا کو [[قیاس]] نہیں کیا جاتا اور عنقریب ایک قوم آئے گی جو ( امر دین میں )[[قیاس]] سے کام لے گی اور یہ لوگ دین کے دشمن ہیں''' ۔<ref>{{حدیث|'''لا تقیسوا الدین فان امر اللہ لا یقاس و سیاتی قوم یقیسون و ہم اعداء الدین''' }}۔وسائل الشیعہ، حر عاملی، ج27 ص52 ش33186۔ </ref>
* [[امیر المؤمنین]] نے فرمایا: دین خدا میں قیاس سے کام نہ لیں کیونکہ امر خدا کو قیاس نہیں کیا جاتا اور عنقریب ایک قوم آئے گی جو ( امر دین میں )[[قیاس]] سے کام لے گی اور یہ لوگ دین کے دشمن ہیں۔ <ref>{{حدیث|'''لا تقیسوا الدین فان امر اللہ لا یقاس و سیاتی قوم یقیسون و ہم اعداء الدین'''}}۔وسائل الشیعہ، حر عاملی، ج27 ص52 ش33186۔ </ref>


اس کے علاوہ اور [[روایات|احادیث]] بھی ہیں جن میں [[قیاس]] سے منع کیا گیا ہے۔ نیز حضرت [[امام جعفر صادق]] ؑ سے ایسی روایات بھی منقول ہیں جن میں آپ نے [[ابو حنیفہ]] کا نام لے کر ان کی سرزنش اور انہیں قیاس پر عمل کرنے سے منع کیا کیونکہ ابو حنیفہ احکام شرعی میں قیاس پر عمل کرتے تھے۔ ایک دفعہ ابو حنیفہ ایک صحابی کے ساتھ حضرت امام صادق کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا:
اس کے علاوہ اور [[روایات|احادیث]] بھی ہیں جن میں [[قیاس]] سے منع کیا گیا ہے۔ نیز حضرت [[امام جعفر صادق]] ؑ سے ایسی روایات بھی منقول ہیں جن میں آپ نے [[ابو حنیفہ]] کا نام لے کر ان کی سرزنش اور انہیں قیاس پر عمل کرنے سے منع کیا کیونکہ ابو حنیفہ احکام شرعی میں قیاس پر عمل کرتے تھے۔ ایک دفعہ ابو حنیفہ ایک صحابی کے ساتھ حضرت امام صادق کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا:
اے [[نعمان]]! [[قیاس]] سے دوری اختیار کرو کیونکہ میرے والد نے مجھ سے اپنے والد بزرگوار رسول اللہ کی حدیث بیان کی: جو شخص دین کے معاملے میں اپنی رائے استعمال کرے گا وہ جہنم میں ابلیس کے ساتھ ہو گا کیونکہ اس نے یہ کہہ: تو نے مجھے آگ سے اور آدم کو مٹی سے ہیدا کیا ہے،سب سے پہلے [[قیاس]] کیا۔ لہذا تم رائے اور [[قیاس]] کو چھوڑ دو۔ کسی نے یہ نہیں کہا:دین خدا میں کوئی برہان نہیں ہے کیونکہ دین الہی رائے اور اندازوں پر نہیں بنایا گیا۔<ref> {{حدیث| یا نعمان!ایاک والقیاس فان ابی حدثنی عن ابیه رسول اللہ: من قاس شیئا من الدین برایه قرنه اللہ مع ابلیس فی النار فان اول من قاس ابلیس  حین قاس قال :خلقتنی من نار و خلقتہ من طین ، فدعوا الرائ و القیاس و ما قال قوم لیس لہ فی دین اللہ برھان فان دین اللہ لم یوضع بالاراء و المقاییس}}۔علل الشرایع ، شیخ صدوق ،ج1 ص89</ref>
اے [[نعمان]]! قیاس سے دوری اختیار کرو کیونکہ میرے والد نے مجھ سے اپنے والد بزرگوار رسول اللہ کی حدیث بیان کی: جو شخص دین کے معاملے میں اپنی رائے استعمال کرے گا وہ جہنم میں ابلیس کے ساتھ ہو گا کیونکہ اس نے یہ کہہ: تو نے مجھے آگ سے اور آدم کو مٹی سے ہیدا کیا ہے، سب سے پہلے قیاس کیا۔ لہذا تم رائے اور قیاس کو چھوڑ دو۔ کسی نے یہ نہیں کہا: دین خدا میں کوئی برہان نہیں ہے کیونکہ دین الہی رائے اور اندازوں پر نہیں بنایا گیا۔<ref> {{حدیث| یا نعمان!ایاک والقیاس فان ابی حدثنی عن ابیه رسول اللہ: من قاس شیئا من الدین برایه قرنه اللہ مع ابلیس فی النار فان اول من قاس ابلیس  حین قاس قال: خلقتنی من نار و خلقتہ من طین ، فدعوا الرائ و القیاس و ما قال قوم لیس لہ فی دین اللہ برھان فان دین اللہ لم یوضع بالاراء و المقاییس}}۔علل الشرایع ، شیخ صدوق ،ج1 ص89</ref>
ان احادیث کی روشنی میں [[قیاس]] کے درست نہ ہونے کے بارے میں کسی قسم کا شبہ باقی نہیں رہتا اس مقام پراس بات کوبھی جان لینا چاہئے کہ مکتب تشیع میں احکام دین میں اپنی رائے اور قیاس سے کسی موضوع کے متعلق حکم لگانے کو اجتہاد نہیں کہا جاتا بلکہ اس مکتب میں اجتہاد کا معنی اور ہے۔
ان احادیث کی روشنی میں قیاس کے درست نہ ہونے کے بارے میں کسی قسم کا شبہ باقی نہیں رہتا اس مقام پراس بات کوبھی جان لینا چاہئے کہ مکتب تشیع میں احکام دین میں اپنی رائے اور قیاس سے کسی موضوع کے متعلق حکم لگانے کو اجتہاد نہیں کہا جاتا بلکہ اس مکتب میں اجتہاد کا معنی اور ہے۔


اس کی وضاحت آسان لفظوں میں اس طرح کی جا سکتی ہے کہ [[اجتہاد]] کہ جسے اہل سنت کے ہاں [[قیاس]] اور [[رائے]] کہا گیا ہے اس کی حقیقت یہ تھی کہ فقیہ نص کے نہ ہونے کی صورت میں اپنی رائے اور ذوق کے ذریعے ایک حکم بیان کرتا تھا یعنی اگر اس فقیہ سے پوچھا جائے کہ اس حکم شرعی کا ماخذ، منبع اور دلیل کیا ہے؟ تو وہ کہے گا میری اپنی نظر اور رائے اس حکم کی دلیل ہے۔ یہ وہ اجتہاد ہے جسے اہل سنت قیاس سے تعبیر کرتے ہیں ۔یہی قیاس(اجتہاد) آئمہ کی نظر میں درست نہیں تھا اسی اجتہاد اور قیاس کو روایات میں منع کیا گیاہے اور شروع سے لے کر آج تک علمائے شیعہ ایسے اجتہاد اور قیاس کی نفی کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اس کی وضاحت آسان لفظوں میں اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اجتہاد کہ جسے اہل سنت کے ہاں قیاس اور [[رائے]] کہا گیا ہے اس کی حقیقت یہ تھی کہ فقیہ نص کے نہ ہونے کی صورت میں اپنی رائے اور ذوق کے ذریعے ایک حکم بیان کرتا تھا یعنی اگر اس فقیہ سے پوچھا جائے کہ اس حکم شرعی کا ماخذ، منبع اور دلیل کیا ہے؟ تو وہ کہے گا میری اپنی نظر اور رائے اس حکم کی دلیل ہے۔ یہ وہ اجتہاد ہے جسے اہل سنت قیاس سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی قیاس (اجتہاد) آئمہ کی نظر میں درست نہیں تھا اسی اجتہاد اور قیاس کو روایات میں منع کیا گیاہے اور شروع سے لے کر آج تک علمائے شیعہ ایسے اجتہاد اور قیاس کی نفی کرتے چلے آ رہے ہیں۔


==رسول اکرم (ص) اور اجتہاد ==
==رسول اکرم (ص) اور اجتہاد ==
گمنام صارف