گمنام صارف
"اجتہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←اجتہاد کا مخصوص معنی
imported>Mabbassi م (←احادیث) |
imported>Mabbassi |
||
سطر 45: | سطر 45: | ||
* ابن منظور [[اجتہاد]] شرعی کا معنی اس طرح بیان کرتے ہیں:'''اجتہاد کرنا "یعنی کسی مسئلہ کے لیے کتاب و سنت سے [[قیاس]] کے ذریعے حکم معلوم کرنا"''' ہے ۔ | * ابن منظور [[اجتہاد]] شرعی کا معنی اس طرح بیان کرتے ہیں:'''اجتہاد کرنا "یعنی کسی مسئلہ کے لیے کتاب و سنت سے [[قیاس]] کے ذریعے حکم معلوم کرنا"''' ہے ۔ | ||
آیۃ اللہ حسین علی منتظری دراسات فی [[ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الاسلامیۃ میں [[ابن منظور]] کے قول کو [[لسان العرب]] سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :ابن منظور کی [[قیاس]] سے شاید عقلی و ظنی استحسانات اور [[قیاس سے عام معنی مراد ہو اور [[آئمہ ؑ کے زمانے میں یہی معنی رائج تھا اوراسی [[اجتہاد]] اور رائے کو ہماری روایات میں منع کیا گیا ہے ۔ | آیۃ اللہ حسین علی منتظری دراسات فی [[ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الاسلامیۃ میں [[ابن منظور]] کے قول کو [[لسان العرب]] سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :ابن منظور کی [[قیاس]] سے شاید عقلی و ظنی استحسانات اور [[قیاس]] سے عام معنی مراد ہو اور [[آئمہ ؑ]] کے زمانے میں یہی معنی رائج تھا اوراسی [[اجتہاد]] اور رائے کو ہماری روایات میں منع کیا گیا ہے ۔ | ||
*مصطفیٰ عبد الرزاق تمہید لتاریخ الفلسفہ الاسلامیۃ میں [[اجتہاد]] کو '''[[استحسان]] [[رائے]] ، استنباط اور [[قیاس]]''' کے ہم معنی سمجھتے ہیں.<ref>مقدمہ ابو مجتبی، النص والاجتہاد عبد الحسین شرف الدین موسوی ص ۱۵ </ref> | *مصطفیٰ عبد الرزاق تمہید لتاریخ الفلسفہ الاسلامیۃ میں [[اجتہاد]] کو '''[[استحسان]] [[رائے]] ، استنباط اور [[قیاس]]''' کے ہم معنی سمجھتے ہیں.<ref>مقدمہ ابو مجتبی، النص والاجتہاد عبد الحسین شرف الدین موسوی ص ۱۵ </ref> | ||
*استاد عبد الوہاب کے نزدیک [[اجتہاد کے معنی کو محمد تقی حکیم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :'''"ایسے مسائل اور موضوعات کہ جن کے بارے میں کوئی خاص نص بیان نہ ہو ئی ہو وہاں رائے اور اپنی شخصی نظر کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی حکم کو اخذ کرنا [[اجتہاد]] کہلاتا ہے"''' ۔<ref>محمد تقی حکیم ، الاصول العامۃ للفقہ المقارن ص ۵۶۴ </ref> | *استاد عبد الوہاب کے نزدیک [[اجتہاد]] کے معنی کو محمد تقی حکیم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :'''"ایسے مسائل اور موضوعات کہ جن کے بارے میں کوئی خاص نص بیان نہ ہو ئی ہو وہاں رائے اور اپنی شخصی نظر کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی حکم کو اخذ کرنا [[اجتہاد]] کہلاتا ہے"''' ۔<ref>محمد تقی حکیم ، الاصول العامۃ للفقہ المقارن ص ۵۶۴ </ref> | ||
* جمال عبد الناصر اجتہاد کی دو اقسام میں سے دوسری قسم کے ذیل میں لکھتے ہیں''' "جس مسئلے کے متعلق شریعت میں نہ تو کوئی نص ہو اور نہ ہی وہاں فقہاء کا [[اجماع]] ہو، وہاں مجتہد کا نظر و [[قیاس]] کے ذریعہ حکم اخذ کرنا اجتہاد کہلاتا ہے "'''۔<ref> الفقہ الاسلامی المقارن ،جمال عبد الناصر ج ۳ ص ۹</ref> | * جمال عبد الناصر اجتہاد کی دو اقسام میں سے دوسری قسم کے ذیل میں لکھتے ہیں''' "جس مسئلے کے متعلق شریعت میں نہ تو کوئی نص ہو اور نہ ہی وہاں فقہاء کا [[اجماع]] ہو، وہاں مجتہد کا نظر و [[قیاس]] کے ذریعہ حکم اخذ کرنا اجتہاد کہلاتا ہے "'''۔<ref> الفقہ الاسلامی المقارن ،جمال عبد الناصر ج ۳ ص ۹</ref> | ||
سطر 57: | سطر 57: | ||
اہل سنت علماء کا [[قیاس]] اور [[رائے]] وغیرہ کو [[اجتہاد]] کے ہم معنی سمجھنے کی وجہ شاید صحابہؓ کا اپنی زندگی میں رائے اور [[قیاس ]]پر عمل کرنا ہو جس کا تذکرہ بعض علماء نے روش صحابہ کو یوں ذکر کرتے ہیں : | اہل سنت علماء کا [[قیاس]] اور [[رائے]] وغیرہ کو [[اجتہاد]] کے ہم معنی سمجھنے کی وجہ شاید صحابہؓ کا اپنی زندگی میں رائے اور [[قیاس ]]پر عمل کرنا ہو جس کا تذکرہ بعض علماء نے روش صحابہ کو یوں ذکر کرتے ہیں : | ||
* خضری بک کہتے ہیں '''"صحابہؓ کے پاس جب ایسے مسائل پیش ہوتے کہ جن کے بارے میں کتاب و سنت میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہوتا تو صحابہؓ مجبور ہو کر قیاس کا سہارا لیتے جسے وہ رائے سے تعبیر کرتے ۔حضرت ابوبکر اسی طرح کرتے تھے۔ جب کتاب میں کسی حکم کو نہ پاتے اور لوگوں کے پاس سنت بھی موجود نہ ہوتی تو وہ لوگوں کو جمع کرتے اور ان سے مشورہ کرتے۔ جب تمام ایک رائے پر متفق ہو جاتے تو اس کے مطابق حکم لگاتے اسی طرح جب حضرت عمر نے شریح کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا تو اسے کہا: "جس چیز کے بارے میں قرآن کا حکم نہ ہو وہاں سنت میں دقت کرو اور اگر سنت سے بھی حکم نہ مل پائے تو اپنی رائے اور اجتہاد کے ذریعے حکم بیان کرو"۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود کے بارے میں نقل کرتے ہیں:"ان سے مفوضہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ان کے متعلق اپنی رائے کو بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو یہ خدا کی جانب سے اور اگر درست نہ ہو تو یہ میری اور شیطان کی طرف سے ہے ؛ خدا اور اس کا رسولؐ اس سے بری الذمہ ہیں"''' ۔<ref> تاریخ التشریع الاسلامی،خضری بک، ص ۶۲ </ref> | * خضری بک کہتے ہیں '''"صحابہؓ کے پاس جب ایسے مسائل پیش ہوتے کہ جن کے بارے میں کتاب و سنت میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہوتا تو صحابہؓ مجبور ہو کر قیاس کا سہارا لیتے جسے وہ رائے سے تعبیر کرتے ۔حضرت ابوبکر اسی طرح کرتے تھے۔ جب کتاب میں کسی حکم کو نہ پاتے اور لوگوں کے پاس سنت بھی موجود نہ ہوتی تو وہ لوگوں کو جمع کرتے اور ان سے مشورہ کرتے۔ جب تمام ایک رائے پر متفق ہو جاتے تو اس کے مطابق حکم لگاتے اسی طرح جب حضرت عمر نے شریح کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا تو اسے کہا: "جس چیز کے بارے میں [[قرآن]] کا حکم نہ ہو وہاں سنت میں دقت کرو اور اگر سنت سے بھی حکم نہ مل پائے تو اپنی [[رائے]] اور اجتہاد کے ذریعے حکم بیان کرو"۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود کے بارے میں نقل کرتے ہیں:"ان سے مفوضہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ان کے متعلق اپنی رائے کو بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو یہ خدا کی جانب سے اور اگر درست نہ ہو تو یہ میری اور شیطان کی طرف سے ہے ؛ خدا اور اس کا رسولؐ اس سے بری الذمہ ہیں"''' ۔<ref> تاریخ التشریع الاسلامی،خضری بک، ص ۶۲ </ref> | ||
* تاریخ مذاہب اسلامی کے مصنف ابو زہرہ کے بقول "'''صحابہؓ کے نزدیک اجتہاد ؛ قیاس ، استحسان ، برائت اصلیہ اور مصالح مرسلہ"''' کو شامل تھا ۔ | * تاریخ مذاہب اسلامی کے مصنف ابو زہرہ کے بقول "'''صحابہؓ کے نزدیک [[اجتہاد]] ؛ [[قیاس]] ، [[استحسان]] ، [[برائت اصلیہ]] اور [[مصالح مرسلہ]]"''' کو شامل تھا ۔ | ||
===[[اجتہاد]] کا عام معنی === | ===[[اجتہاد]] کا عام معنی === |