مندرجات کا رخ کریں

"شمر بن ذی الجوشن" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 10: سطر 10:
شمر کا باپ (ذو الجوشن) (=زرہ والا) کا نام "شُرَحبیل بن اَعْوَر بن عمرو" تھا۔<ref>ابن سعد، ج6، ص46۔</ref> اس کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ پہلا عرب تھا جس نے زرہ پہنی اور یہ زرہ ایران کے بادشاہ نے اسے دی تھی۔ دوسروں کا خیال ہے کہ اس کا سینہ چونکہ آگے کی طرف ابھرا ہوا تھا اسی وجہ سے اس کو ذوالجوشن کہا جاتا تھا۔<ref>فیروزآبادی، ذیل "جوشن"۔</ref> ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام "جوشن بن ربیعہ" تھا۔<ref>ابن سعد، طبقات، ج6 ص24۔</ref> ذوالجوشن نے اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں [[رسول اللہ]](ص) کی دعوت کو وقعت نہ دی لیکن [[فتح مکہ]] میں مسلمان مشرکین پر فتح مند ہوئے تو اس نے [بہت سے دوسروں کی مانند] اسلام قبول کیا۔<ref>ابن سعد، طبقات، ج6، ص47ـ48۔</ref>۔<ref>تاریخ مدینہدمشق، ج23، ص187ـ188۔</ref>
شمر کا باپ (ذو الجوشن) (=زرہ والا) کا نام "شُرَحبیل بن اَعْوَر بن عمرو" تھا۔<ref>ابن سعد، ج6، ص46۔</ref> اس کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ پہلا عرب تھا جس نے زرہ پہنی اور یہ زرہ ایران کے بادشاہ نے اسے دی تھی۔ دوسروں کا خیال ہے کہ اس کا سینہ چونکہ آگے کی طرف ابھرا ہوا تھا اسی وجہ سے اس کو ذوالجوشن کہا جاتا تھا۔<ref>فیروزآبادی، ذیل "جوشن"۔</ref> ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام "جوشن بن ربیعہ" تھا۔<ref>ابن سعد، طبقات، ج6 ص24۔</ref> ذوالجوشن نے اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں [[رسول اللہ]](ص) کی دعوت کو وقعت نہ دی لیکن [[فتح مکہ]] میں مسلمان مشرکین پر فتح مند ہوئے تو اس نے [بہت سے دوسروں کی مانند] اسلام قبول کیا۔<ref>ابن سعد، طبقات، ج6، ص47ـ48۔</ref>۔<ref>تاریخ مدینہدمشق، ج23، ص187ـ188۔</ref>


شمر کی ماں کا تذکرہ پلیدی کے وصف کے ساتھ ہوا ہے حتی کہ کہا گیا ہے کہ وہ بھیڑ بکریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے وقت گناہ کا ارتکاب کر گئی اور شمر اسی ناجائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ [[امام حسین]](ع) نے بھی [[واقعۂ عاشورا|واقعہ کربلا]] کے دوران شمر کو "بکری چرانے والی عورت کا بیٹا" کہہ کر پکارا تھا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص487۔</ref>۔<ref> شیخ مفید، الارشاد ج2، ص96۔</ref>
شمر کی ماں کا تذکرہ پلیدی کے وصف کے ساتھ ہوا ہے حتی کہ کہا گیا ہے کہ وہ بھیڑ بکریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے وقت گناہ کا ارتکاب کر گئی اور شمر اسی ناجائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ امام حسین(ع) نے بھی [[واقعۂ عاشورا|واقعہ کربلا]] کے دوران شمر کو "بکری چرانے والی عورت کا بیٹا" کہہ کر پکارا تھا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص487۔</ref>۔<ref> شیخ مفید، الارشاد ج2، ص96۔</ref>


==نظریاتی تبدیلی==
==نظریاتی تبدیلی==
سطر 22: سطر 22:
جب [[امام حسین]](ع) [[کربلا]] پہنچے تو لشکر [[کوفہ]] کا امیر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] جنگ اور خونریزی سے بچنے کی کوشش کررہا تھا اور وہ پرامن راہ حل کے در پے تھا<ref> شیخ مفید، الارشاد ج2، ص87ـ88۔</ref> لیکن شمر نے [[ابن زیاد]] کو ـ جو بظاہر [[عمر بن سعد]] کی روش کا حامی نظر آرہا تھا ـ جنگ کی ترغیب دلائی۔<ref>ابومخنف، وقعة الطف، ص187ـ188۔</ref>۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص482۔</ref>
جب [[امام حسین]](ع) [[کربلا]] پہنچے تو لشکر [[کوفہ]] کا امیر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] جنگ اور خونریزی سے بچنے کی کوشش کررہا تھا اور وہ پرامن راہ حل کے در پے تھا<ref> شیخ مفید، الارشاد ج2، ص87ـ88۔</ref> لیکن شمر نے [[ابن زیاد]] کو ـ جو بظاہر [[عمر بن سعد]] کی روش کا حامی نظر آرہا تھا ـ جنگ کی ترغیب دلائی۔<ref>ابومخنف، وقعة الطف، ص187ـ188۔</ref>۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص482۔</ref>


[[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری قمری کی [[روز تاسوعا|نویں تاریخ]] کی شام کو شمر 4000 افراد کا لشکر اور [[عمر بن سعد]] کے لئے [[ابن زیاد]] کا دھمکی آمیز خط لے کر [[کربلا]] پہنچا۔ [[ابن سعد]] نے خط رکھ کر شمر سے کہا: "تو نے اس کام کو تباہ کیا جس میں خیر و صلاح کی امید تھی"۔ اس کے باوجود [[عمر سعد]] نے [[ابن زیاد]] کا یہ حکم مان لیا کہ یا تو [[امام حسین]](ع) سے [[بیعت]] لے یا پھر ان کے ساتھ جنگ کرے<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص483۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص414ـ415۔</ref> اور شمر اس کی سپاہ کا امیر بن گیا۔ شمر [[حضرت عباس علیہ السلام|حضرت عباس بن علی]](ع) اور ان کے تین بھائیوں کی والدہ ماجدہ [[ام البنین(س)]] کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا چنانچہ اس نے اپنی قبائلی ریت اور جاہلی رشتوں کو زندہ کرنے [یا جاہلی انداز سے رشتوں کو بروئے کار لانے] کے لئے [[روز تاسوعا]] بوقت عصر [[حضرت عباس علیہ السلام|حضرت عباس]](ع) اور ان کے بھائیوں کو "بھانجوں" کے عنوان سے بلایا تاکہ ان کے لئے [[ابن زیاد]] سے امان نامہ حاصل کرے لیکن انھوں نے اس کی درخواست مسترد کردی اور [[امام حسین]](ع) کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص483ـ484۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89۔</ref>
[[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری قمری کی [[روز تاسوعا|نویں تاریخ]] کی شام کو شمر 4000 افراد کا لشکر اور [[عمر بن سعد]] کے لئے [[ابن زیاد]] کا دھمکی آمیز خط لے کر [[کربلا]] پہنچا۔ [[ابن سعد]] نے خط رکھ کر شمر سے کہا: "تو نے اس کام کو تباہ کیا جس میں خیر و صلاح کی امید تھی"۔ اس کے باوجود عمر سعد نے [[ابن زیاد]] کا یہ حکم مان لیا کہ یا تو امام حسین(ع) سے [[بیعت]] لے یا پھر ان کے ساتھ جنگ کرے<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص483۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص414ـ415۔</ref> اور شمر اس کی سپاہ کا امیر بن گیا۔ شمر [[حضرت عباس علیہ السلام|حضرت عباس بن علی]](ع) اور ان کے تین بھائیوں کی والدہ ماجدہ [[ام البنین(س)]] کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا چنانچہ اس نے اپنی قبائلی ریت اور جاہلی رشتوں کو زندہ کرنے [یا جاہلی انداز سے رشتوں کو بروئے کار لانے] کے لئے [[روز تاسوعا]] بوقت عصر [[حضرت عباس علیہ السلام|حضرت عباس]](ع) اور ان کے بھائیوں کو "بھانجوں" کے عنوان سے بلایا تاکہ ان کے لئے [[ابن زیاد]] سے امان نامہ حاصل کرے لیکن انھوں نے اس کی درخواست مسترد کردی اور [[امام حسین]](ع) کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص483ـ484۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89۔</ref>


===روز عاشورا===
===روز عاشورا===
[[روز عاشورا]] صبح کے وقت شمر نے [[ابن سعد]] کی سپاہ کے میسرے کی امارت سنبھالی<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص487۔</ref> اور جب اس کو خیام حسینی کے اطراف میں خندق اور جلتی ہوئی لکڑیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے گستاخانہ لب و لہجے کے ساتھ امام(ع) کے ساتھ گفتگو کی۔<ref>ابومخنف، وقعة الطف، ص205۔</ref>۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص487۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص96۔</ref>
[[روز عاشورا]] صبح کے وقت شمر نے ابن سعد کی سپاہ کے میسرے کی امارت سنبھالی<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص487۔</ref> اور جب اس کو خیام حسینی کے اطراف میں خندق اور جلتی ہوئی لکڑیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے گستاخانہ لب و لہجے کے ساتھ امام(ع) کے ساتھ گفتگو کی۔<ref>ابومخنف، وقعة الطف، ص205۔</ref>۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص487۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص96۔</ref>


[[امام حسین]](ع) نے سپاہ [[کوفہ]] کو تذکر اور تنبہ دلانے کے لئے خطبہ پڑھا اور اس کے ضمن میں اپنے خاندان کے تابندہ ماضی کی طرف اشارہ کیا اور [[اہل بیت]] کی مودت کے بارے میں [[رسول اللہ]](ع) کی ہدایات سے اپنے کلام کا آغاز کیا تو شمر نے آپ(ع) کی بات کاٹ دی تاہم [[حبیب بن مظاہر اسدی|حبیب بن مظاہر]] نے اس کو منہ توڑ جواب دیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص425۔</ref>
[[امام حسین]](ع) نے سپاہ [[کوفہ]] کو تذکر اور تنبہ دلانے کے لئے خطبہ پڑھا اور اس کے ضمن میں اپنے خاندان کے تابندہ ماضی کی طرف اشارہ کیا اور [[اہل بیت]] کی مودت کے بارے میں [[رسول اللہ]](ع) کی ہدایات سے اپنے کلام کا آغاز کیا تو شمر نے آپ(ع) کی بات کاٹ دی تاہم [[حبیب بن مظاہر اسدی|حبیب بن مظاہر]] نے اس کو منہ توڑ جواب دیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص425۔</ref>


ایک دفعہ جب [[امام حسین]](ع) کے گرانقدر صحابی [[زہیر بن قین|زُہَیر بن قَین]]، نے کوفیوں کو نصیحت کرنے کا آغاز کیا اور انہیں [[امام حسین]](ع) کی مدد و نصرت کی دعوت دی تو شمر نے ان کی طرف تیر پھینکا اور ان کی توہین کی۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص488ـ489۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص426۔</ref>
ایک دفعہ جب [[امام حسین]](ع) کے گرانقدر صحابی [[زہیر بن قین|زُہَیر بن قَین]]، نے کوفیوں کو نصیحت کرنے کا آغاز کیا اور انہیں امام حسین(ع) کی مدد و نصرت کی دعوت دی تو شمر نے ان کی طرف تیر پھینکا اور ان کی توہین کی۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص488ـ489۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص426۔</ref>
[[عبداللہ بن عمیر کلبی|عبداللّہ بن عُمَیر کلبی]] شہید ہوئے تو شمر نے اپنے غلام (رستم) کو حکم دیا کہ ان کی زوجہ کو ـ جو اپنے خاوند کی بالین پر بیٹھی تھیں ـ نیزہ مار کر شہید کرے اور اس نے ایسا ہی کیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص493۔</ref>
[[عبداللہ بن عمیر کلبی|عبداللّہ بن عُمَیر کلبی]] شہید ہوئے تو شمر نے اپنے غلام (رستم) کو حکم دیا کہ ان کی زوجہ کو ـ جو اپنے خاوند کی بالین پر بیٹھی تھیں ـ نیزہ مار کر شہید کرے اور اس نے ایسا ہی کیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص493۔</ref>


[[امام حسین]](ع) کے بہادر صحابی [[نافع بن ہلال|نافع بن ہِلال جَمَلی]] نے شدید جنگ لڑی اور ان کے دونوں بازو ٹوٹ گئے تو شمر نے انہیں اسیر کرکے شہید کیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص441ـ442۔</ref>
امام حسین(ع) کے بہادر صحابی [[نافع بن ہلال|نافع بن ہِلال جَمَلی]] نے شدید جنگ لڑی اور ان کے دونوں بازو ٹوٹ گئے تو شمر نے انہیں اسیر کرکے شہید کیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص441ـ442۔</ref>




[[امام حسین]](ع) کے بہت سے اصحاب کی شہادت کے بعد، دشمنوں نے خیام کی طرف حملہ کیا۔ شمر نے امام(ع) کے خیمے کو نیزہ مارا اور چلا کر کہا: "آگ لے کر آؤ تاکہ میں اس خیمے کو اس کے اندر موجود افراد کے ساتھ جلا دوں"۔ امام(ع) نے اس پر لعن و نفرین کردی اور حتی کہ شمر کے دوست [[شبث بن ربعی|شَبَث بن رِبعی]] نے بھی اس پر لعنت ملامت کی۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص493۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص438۔</ref>
امام حسین(ع) کے بہت سے اصحاب کی شہادت کے بعد، دشمنوں نے خیام کی طرف حملہ کیا۔ شمر نے امام(ع) کے خیمے کو نیزہ مارا اور چلا کر کہا: "آگ لے کر آؤ تاکہ میں اس خیمے کو اس کے اندر موجود افراد کے ساتھ جلا دوں"۔ امام(ع) نے اس پر لعن و نفرین کردی اور حتی کہ شمر کے دوست [[شبث بن ربعی|شَبَث بن رِبعی]] نے بھی اس پر لعنت ملامت کی۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص493۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص438۔</ref>


ایک بار عصر [[روز عاشورا|عاشورا]] [[امام حسین]](ع) کی شہادت سے قبل شمر نے  خیام اور ان میں موجود مال و اسباب لوٹنے کی غرض سے امام(ع) کے خیموں پر حملہ کرنا چاہا لیکن امام(ع) نے اسے خبردار کیا اور وہ واپس چلا گیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص499۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص450۔</ref>۔<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص118۔</ref>
ایک بار عصر [[روز عاشورا|عاشورا]] [[امام حسین]](ع) کی شہادت سے قبل شمر نے  خیام اور ان میں موجود مال و اسباب لوٹنے کی غرض سے امام(ع) کے خیموں پر حملہ کرنا چاہا لیکن امام(ع) نے اسے خبردار کیا اور وہ واپس چلا گیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص499۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص450۔</ref>۔<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص118۔</ref>
سطر 44: سطر 44:
[[امام حسین]](ع) کے قاتل اور آپ(ع) کا سر مبارک تن سے جدا کرنے والے شخص کے بارے میں روایات مختلف ہیں جن میں سے بعض روایات کا اشارہ شمر کی طرف ہے۔ "واقدی" کا کہنا ہے کہ شمر نے [[امام حسین]](ع) کو قتل کیا اور اپنے گھوڑے کے ذریعے آپ (ع) کے جسم مبارک کو پامال کیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص512۔</ref>۔<ref>ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص119۔</ref> بعض روایات میں منقول ہے کہ شمر آپ(ع) کے سینہ مبارک پر بیٹھ گیا اور آپ(ع) کا سر مبارک قفا (=پشت گردن) سے جدا کیا۔<ref>خوارزمی، مقتل الحسین، ج2، ص41ـ42۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2 ص112۔</ref>۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص500ـ501۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص453۔</ref>
[[امام حسین]](ع) کے قاتل اور آپ(ع) کا سر مبارک تن سے جدا کرنے والے شخص کے بارے میں روایات مختلف ہیں جن میں سے بعض روایات کا اشارہ شمر کی طرف ہے۔ "واقدی" کا کہنا ہے کہ شمر نے [[امام حسین]](ع) کو قتل کیا اور اپنے گھوڑے کے ذریعے آپ (ع) کے جسم مبارک کو پامال کیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص512۔</ref>۔<ref>ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص119۔</ref> بعض روایات میں منقول ہے کہ شمر آپ(ع) کے سینہ مبارک پر بیٹھ گیا اور آپ(ع) کا سر مبارک قفا (=پشت گردن) سے جدا کیا۔<ref>خوارزمی، مقتل الحسین، ج2، ص41ـ42۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2 ص112۔</ref>۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص500ـ501۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص453۔</ref>


[[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ع) کی شہادت اور خیموں کے لوٹے جانے اور جلائے جانے کے بعد، شمر نے [[امام زین العابدین علیہ السلام|امام سجاد]](ع) کو ـ جو کہ بیماری کے بستر پر لیٹے ہوئے تھے ـ قتل کرنا کا ارادہ کیا لیکن لوگوں نے اس کو باز رکھا۔<ref>ابن سعد، طبقات، ج5، ص212۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص454۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص112ـ113۔</ref>
امام حسین(ع) کی شہادت اور خیموں کے لوٹے جانے اور جلائے جانے کے بعد، شمر نے [[امام زین العابدین علیہ السلام|امام سجاد]](ع) کو ـ جو کہ بیماری کے بستر پر لیٹے ہوئے تھے ـ قتل کرنا کا ارادہ کیا لیکن لوگوں نے اس کو باز رکھا۔<ref>ابن سعد، طبقات، ج5، ص212۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص454۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص112ـ113۔</ref>


شمر ان مہم جو افراد میں سے تھا جو واقعات و حوادث میں اپنے ذاتی مفاد کے درپے ہوتا تھا اور اس تک پہنچنے کے لئے کسی بھی عمل سے اجتناب نہیں کرتا تھا۔ وہ ابرص (=برص زدہ) اور کریہ المنظر شخص تھا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج6، ص53۔</ref>۔<ref>ابن عساکر، تاریخ مدینہدمشق، ج23، ص190۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام]] نے [[عاشورا]] کے روز شمر سے مخاطب ہوکر فرمایا: "[[رسول اللہ|رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ]] نے سچ فرمایا کہ گویا میں دیکھتا ہوں کہ ایک سیاہ و سفید کتا میرے [[اہل بیت]] کا خون پی رہا ہے"۔ [[زیارت عاشورا]] میں شمر کا تذکرہ لعن و نفرین کے ساتھ ہوا ہے۔<ref>ابن قولویه، کامل الزیارات، ص329۔</ref>
شمر ان مہم جو افراد میں سے تھا جو واقعات و حوادث میں اپنے ذاتی مفاد کے درپے ہوتا تھا اور اس تک پہنچنے کے لئے کسی بھی عمل سے اجتناب نہیں کرتا تھا۔ وہ ابرص (=برص زدہ) اور کریہ المنظر شخص تھا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج6، ص53۔</ref>۔<ref>ابن عساکر، تاریخ مدینہدمشق، ج23، ص190۔</ref> امام حسین علیہ السلام نے [[عاشورا]] کے روز شمر سے مخاطب ہوکر فرمایا: "[[رسول اللہ|رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ]] نے سچ فرمایا کہ گویا میں دیکھتا ہوں کہ ایک سیاہ و سفید کتا میرے [[اہل بیت]] کا خون پی رہا ہے"۔ [[زیارت عاشورا]] میں شمر کا تذکرہ لعن و نفرین کے ساتھ ہوا ہے۔<ref>ابن قولویه، کامل الزیارات، ص329۔</ref>


===عاشورا کے بعد===
===عاشورا کے بعد===
11 [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کو [[عمر بن سعد]] نے حکم دیا کہ 72 [[شہدائے کربلا]] کے سر جدا کئے جائیں اور شمر اور کئی دیگر افراد انہیں [[کوفہ]] میں [[یزید بن معاویہ]] کے والی [[ابن زیاد]] کے پاس لے جائیں<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص503۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص456۔</ref> جن قبائل نے [[کربلا]] کی جنگ میں شرکت کی تھی انھوں نے [[ابن زیاد]] کی قربت حاصل کرنے کے لئے شہداء کے سروں کو آپس میں بانٹ لیا۔ شمر کی سرکردگی میں قبیلۂ ہوازن، 20 سر<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص504۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص468۔</ref> اور [[سید بن طاؤس]] کے بقول<ref>ابن طاؤس، اللهوف فی قتلی الطفوف، ص62ـ63۔</ref> 12 سر ابن زیاد کے پاس لے گیا۔ کہا گیا ہے کہ شمر شہداء کے سروں کے حامل افراد کو [[عمر بن سعد]] کے آگے آگے حرکت دیتا تھا۔<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ص260۔</ref>
11 [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کو [[عمر بن سعد]] نے حکم دیا کہ 72 [[شہدائے کربلا]] کے سر جدا کئے جائیں اور شمر اور کئی دیگر افراد انہیں [[کوفہ]] میں [[یزید بن معاویہ]] کے والی [[ابن زیاد]] کے پاس لے جائیں<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص503۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص456۔</ref> جن قبائل نے [[کربلا]] کی جنگ میں شرکت کی تھی انھوں نے [[ابن زیاد]] کی قربت حاصل کرنے کے لئے شہداء کے سروں کو آپس میں بانٹ لیا۔ شمر کی سرکردگی میں قبیلۂ ہوازن، 20 سر<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج2، ص504۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص468۔</ref> اور [[سید بن طاؤس]] کے بقول<ref>ابن طاؤس، اللهوف فی قتلی الطفوف، ص62ـ63۔</ref> 12 سر ابن زیاد کے پاس لے گیا۔ کہا گیا ہے کہ شمر شہداء کے سروں کے حامل افراد کو [[عمر بن سعد]] کے آگے آگے حرکت دیتا تھا۔<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ص260۔</ref>


[[عبیداللہ بن زیاد]] نے [[یزید بن معاویہ]] کا حکم پاکر [[اسیران کربلا]] اور شہداء کے سروں کو شمر اور اس کے ساتھیوں کے سپرد کرکے [[شام]] روانہ کیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص460۔</ref> شمر نے دربار [[یزید بن معاویہ|یزید]] میں [[امام حسین]](ع) اور دیگر شہدائے کربلا کے بارے میں توہین آمیز الفاظ ادا کئے۔<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ص260۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص459۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص118، شیخ نے یہ الفاظ و کلمات "زحربن قیس" سے منسوب کئے ہیں۔</ref>
[[عبیداللہ بن زیاد]] نے [[یزید بن معاویہ]] کا حکم پاکر [[اسیران کربلا]] اور شہداء کے سروں کو شمر اور اس کے ساتھیوں کے سپرد کرکے [[شام]] روانہ کیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص460۔</ref> شمر نے دربار [[یزید بن معاویہ|یزید]] میں امام حسین(ع) اور دیگر شہدائے کربلا کے بارے میں توہین آمیز الفاظ ادا کئے۔<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ص260۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج5، ص459۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص118، شیخ نے یہ الفاظ و کلمات "زحربن قیس" سے منسوب کئے ہیں۔</ref>


[[اہل بیت علیہم السلام]] کی [[مدینہ]] واپسی کے بعد شمر کی سرکاری ذمہ داری بھی ختم ہوئی اور وہ [[کوفہ]] واپس آیا۔ مروی ہے کہ وہ [[نماز]] پڑھتا تھا اور اللہ سے مغفرت کی التجا کرتا تھا اور قتل [[امام حسین]](ع) میں شرکت کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتا تھا کہ اس نے امیروں کے حکم کی تعمیل کی ہے۔<ref>ابن عساکر، تاریخ مدینہدمشق، ج23، ص189۔</ref>۔<ref>ذهبی، میزان الاعتدال، ج2، ص280۔</ref>
[[اہل بیت علیہم السلام]] کی [[مدینہ]] واپسی کے بعد شمر کی سرکاری ذمہ داری بھی ختم ہوئی اور وہ [[کوفہ]] واپس آیا۔ مروی ہے کہ وہ [[نماز]] پڑھتا تھا اور اللہ سے مغفرت کی التجا کرتا تھا اور قتل [[امام حسین]](ع) میں شرکت کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتا تھا کہ اس نے امیروں کے حکم کی تعمیل کی ہے۔<ref>ابن عساکر، تاریخ مدینہدمشق، ج23، ص189۔</ref>۔<ref>ذهبی، میزان الاعتدال، ج2، ص280۔</ref>


== انجام کار==
== انجام کار==
[[مختار ثقفی]] نے سنہ 66 ہجری قمری میں قیام کیا تو شمر نے ان کے خلاف ہونے والی جنگ میں شرکت کی لیکن مختار شمر سمیت اموی امراء کو [[کوفہ]] کے محلے "جَبّانۃُ السَبیع" میں ہونے والی جنگ میں شکست دی<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج6، ص58ـ59۔</ref>۔<ref>طبری، ج6، ص18، 29۔</ref> اور شمر [[کوفہ]] سے فرار ہوکر چلا گیا۔ [[مختار ثقفی]] نے کچھ افراد کو اپنے غلام (زِربی) کے ہمراہ اس کو تعاقب میں روانہ کیا۔ شمر نے مختار کے غلام کو قتل کیا<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج6، ص65۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج6، ص52۔</ref> اور "ساتیدَما" نامی گاؤں کی طرف بھاگ نکلا اور وہاں سے (شوش اور گاؤں صیمرہ کے درمیان واقع) "کلتانیہ" نامی گاؤں کی طرف چلا گیا<ref>طبری، تاریخ طبری، ج6، ص52 </ref> اور ایک خط [[مصعب بن زبیر|مُصعَب بن زبیر]] کے لئے بھجوایا جو مختار کے خلاف جنگ کے لئے تیار تھا لیکن مختار کے کچھ سپاہیوں نے شمر کو گھیر لیا جبکہ اس کے دوسرے ساتھی بھاگ چکے تھے۔ انھوں نے شمر کو ہلاک کردیا اور اس کا سر قلم کرکے مختار کے لئے [[کوفہ]] بھجوایا اور اس کا بدن کتوں کے سامنے ڈال دیا<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج6، ص65ـ66۔</ref> مختار نے بھی شمر کا سر [[محمد بن حنفیہ]] کے پاس [[مدینہ]] بھجوایا۔<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ص305۔</ref>
[[مختار ثقفی]] نے سنہ 66 ہجری قمری میں قیام کیا تو شمر نے ان کے خلاف ہونے والی جنگ میں شرکت کی لیکن مختار شمر سمیت اموی امراء کو [[کوفہ]] کے محلے "جَبّانۃُ السَبیع" میں ہونے والی جنگ میں شکست دی<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج6، ص58ـ59۔</ref>۔<ref>طبری، ج6، ص18، 29۔</ref> اور شمر [[کوفہ]] سے فرار ہوکر چلا گیا۔ مختار ثقفی نے کچھ افراد کو اپنے غلام (زِربی) کے ہمراہ اس کو تعاقب میں روانہ کیا۔ شمر نے مختار کے غلام کو قتل کیا<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج6، ص65۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج6، ص52۔</ref> اور "ساتیدَما" نامی گاؤں کی طرف بھاگ نکلا اور وہاں سے (شوش اور گاؤں صیمرہ کے درمیان واقع) "کلتانیہ" نامی گاؤں کی طرف چلا گیا<ref>طبری، تاریخ طبری، ج6، ص52 </ref> اور ایک خط [[مصعب بن زبیر|مُصعَب بن زبیر]] کے لئے بھجوایا جو مختار کے خلاف جنگ کے لئے تیار تھا لیکن مختار کے کچھ سپاہیوں نے شمر کو گھیر لیا جبکہ اس کے دوسرے ساتھی بھاگ چکے تھے۔ انھوں نے شمر کو ہلاک کردیا اور اس کا سر قلم کرکے مختار کے لئے [[کوفہ]] بھجوایا اور اس کا بدن کتوں کے سامنے ڈال دیا<ref>بلاذری، انساب الاشراف ج6، ص65ـ66۔</ref> مختار نے بھی شمر کا سر [[محمد بن حنفیہ]] کے پاس [[مدینہ]] بھجوایا۔<ref>دینوری، الاخبار الطوال، ص305۔</ref>


==اہل سنت کے رجال میں حیثیت==
==اہل سنت کے رجال میں حیثیت==
گمنام صارف