مندرجات کا رخ کریں

"اشعریہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

118 بائٹ کا اضافہ ،  16 اکتوبر 2014ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 208: سطر 208:


===ارادی افعال (نظریۂ کسب) ===
===ارادی افعال (نظریۂ کسب) ===
کیا انسان اپنے ارادی افعال میں آزاد ہے یا نہیں؟ بالفاظ دیگر کیا انسان خود اپنے ارادی افعال کا خالق ہے یا خداوند متعال ہی انسان کے ارادی افعال کا خالق بھی ہے؟ [[معتزلہ]] انسان کو اپنے کرداروں اور افعال و اعمال کا خالق بھی سمجھتے تھے؛ (نظریۂ تفویض = Theory of Devolution)۔  
کیا انسان اپنے ارادی افعال میں آزاد ہے یا نہیں؟ بالفاظ دیگر کیا انسان خود اپنے ارادی افعال کا خالق ہے یا خداوند متعال ہی انسان کے ارادی افعال کا خالق بھی ہے؟ [[معتزلہ]] انسان کو اپنے کرداروں اور افعال و اعمال کا خالق بھی سمجھتے تھے؛ (نظریۂ تفویض = Theory of Devolution)۔


اور اہل ظاہر ـ یعنی [[اہل سنت]] اور [[جبریہ]] ـ نے انسان کے ارادی افعال کو اللہ کی مخلوق قرار دیا اور ان کی نسبت خدا کو دی؛ (نظریۂ جبر (جبریت) = Determinism )۔  
اور اہل ظاہر ـ یعنی [[اہل سنت]] اور [[جبریہ]] ـ نے انسان کے ارادی افعال کو اللہ کی مخلوق قرار دیا اور ان کی نسبت خدا کو دی؛ (نظریۂ جبر (جبریت) = Determinism )۔


[[ابوالحسن اشعری]] درمیانہ راستہ تلاش کرنے کے لئے "نظریۂ کسب (اکتسابیت = Theory of Acquisition)  کے قائل ہوئے اور [[تفتازانی]] کے بقول،</ref>ج2 ص127۔</ref> انھوں نے (اشعری نے) اعلان کیا کہ خداوند متعال انسان کے ارادی افعال کا خالق ہے اور انسان ان کرداروں کا مکتسب ہے! کیونکہ اگر انسان اپنے افعال کی تخلیق پر قادر ہوتا دیگر مخلوقات کی تخلیق کی قوت سے بھی بہرہ ور ہوتا!!<ref>اشعری، مقالات، 218۔</ref>
[[ابوالحسن اشعری]] درمیانہ راستہ تلاش کرنے کے لئے "نظریۂ کسب (اکتسابیت = Theory of Acquisition)  کے قائل ہوئے اور [[تفتازانی]] کے بقول،</ref>ج2 ص127۔</ref> انھوں نے (اشعری نے) اعلان کیا کہ خداوند متعال انسان کے ارادی افعال کا خالق ہے اور انسان ان کرداروں کا مکتسب ہے! کیونکہ اگر انسان اپنے افعال کی تخلیق پر قادر ہوتا دیگر مخلوقات کی تخلیق کی قوت سے بھی بہرہ ور ہوتا!!<ref>اشعری، مقالات، 218۔</ref>
سطر 217: سطر 217:


مکتب اشعریہ کے اکابرین میں سے ہر ایک نے اکتسابیت کے حق میں اظہار خیال کیا ہے اور اس کے دفاع کا اہتمام کیا ہے۔ مثال کے طور پر [[باقلانی]] اس نظریئے کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: عمل و فعل کی ذات اللہ کی خلق کردہ ہے لیکن اس کا اچھا یا برا ہونا، انسان کی اپنی استطاعت کا ثمرہ ہے۔<ref>باقلانی‌، التمهید، ج1، ص287۔</ref>۔۔<ref>علامة حلی، کشف، 239-249۔</ref>۔<ref>تفتازانی، 2/125- 127۔</ref>۔<ref>ابن رشد، «‌الکشف»، 121-122۔</ref> اور استطاعت سے مراد فعل کے کرنے یا ترک کرنے کی خاص قوت ہے جو ـ اشاعرہ کے بقول خداوند متعال فعل کے کرنے یا ترک کرنے کے عین وقت پر اس کو انسان کے اندر خلق کر دیتا ہے (یعنی پہلے سے یہ قوت موجود نہیں ہوتی)۔ کیونکہ اشعریوں کے بقول استطاعت عَرَض (Accident) ہے اور عرض دو اوقات میں میں باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ اگر استطاعت فعل کے انجام دینے سے قبل معرض وجود میں آئے تو فعل ایک ایسی استطاعت کا معلول (Effect) ہوگا جو سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔<ref>اشعری، اللمع، 54 - 55۔</ref>۔<ref> تفتازانی، 1/249۔</ref>۔<ref>کستلی، 119-129۔</ref>
مکتب اشعریہ کے اکابرین میں سے ہر ایک نے اکتسابیت کے حق میں اظہار خیال کیا ہے اور اس کے دفاع کا اہتمام کیا ہے۔ مثال کے طور پر [[باقلانی]] اس نظریئے کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: عمل و فعل کی ذات اللہ کی خلق کردہ ہے لیکن اس کا اچھا یا برا ہونا، انسان کی اپنی استطاعت کا ثمرہ ہے۔<ref>باقلانی‌، التمهید، ج1، ص287۔</ref>۔۔<ref>علامة حلی، کشف، 239-249۔</ref>۔<ref>تفتازانی، 2/125- 127۔</ref>۔<ref>ابن رشد، «‌الکشف»، 121-122۔</ref> اور استطاعت سے مراد فعل کے کرنے یا ترک کرنے کی خاص قوت ہے جو ـ اشاعرہ کے بقول خداوند متعال فعل کے کرنے یا ترک کرنے کے عین وقت پر اس کو انسان کے اندر خلق کر دیتا ہے (یعنی پہلے سے یہ قوت موجود نہیں ہوتی)۔ کیونکہ اشعریوں کے بقول استطاعت عَرَض (Accident) ہے اور عرض دو اوقات میں میں باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ اگر استطاعت فعل کے انجام دینے سے قبل معرض وجود میں آئے تو فعل ایک ایسی استطاعت کا معلول (Effect) ہوگا جو سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔<ref>اشعری، اللمع، 54 - 55۔</ref>۔<ref> تفتازانی، 1/249۔</ref>۔<ref>کستلی، 119-129۔</ref>
==متعلقہ مآخذ==
* [[اشاعرہ اور خدا شناسی]]
* [[اشاعرہ اور عقلیت پسندی]]


==پاورقی حاشیے==
==پاورقی حاشیے==
سطر 251: سطر 256:
* کستلی، مصطفی، حاشیة علی شرح العقائد، استانبول، 1319 ہجری شمسی۔
* کستلی، مصطفی، حاشیة علی شرح العقائد، استانبول، 1319 ہجری شمسی۔
* کلاتی، یوسف، لباب العقول، به کوشش فوقیه حسین محمود، قاهره، 1977 عیسوی۔
* کلاتی، یوسف، لباب العقول، به کوشش فوقیه حسین محمود، قاهره، 1977 عیسوی۔
* لاهیجی، عبدالرزاق، گوهر مراد، به کوشش زین العابدین قربانی، تهران، 1372ہجری شمسی۔  
* لاهیجی، عبدالرزاق، گوهر مراد، به کوشش زین العابدین قربانی، تهران، 1372ہجری شمسی۔
* مقدسی، محمد، احسن التقاسیم، بیروت، 1498 ہجری قمری /1987 عیسوی۔
* مقدسی، محمد، احسن التقاسیم، بیروت، 1498 ہجری قمری /1987 عیسوی۔
* ولوی، علی محمد؛ تاریخ علم کلام و مذاهب اسلامی، موسسه انتشارات بعثت، تهران، 1367 ہجری شمسی۔
* ولوی، علی محمد؛ تاریخ علم کلام و مذاهب اسلامی، موسسه انتشارات بعثت، تهران، 1367 ہجری شمسی۔
سطر 257: سطر 262:
* فرمانیان، مهدی، مجموعه مقالات فرق تسنن، نشر ادیان، 1386 ہجری شمسی۔
* فرمانیان، مهدی، مجموعه مقالات فرق تسنن، نشر ادیان، 1386 ہجری شمسی۔
* عبدالرحمان ‌جامی‌، الدرة الفاخرة، به‌ کوشش‌ نیکولاهیر و علی‌ موسوی‌ بهبهانی‌، تهران‌، 1358ہجری شمسی۔
* عبدالرحمان ‌جامی‌، الدرة الفاخرة، به‌ کوشش‌ نیکولاهیر و علی‌ موسوی‌ بهبهانی‌، تهران‌، 1358ہجری شمسی۔
* محمد باقلانی‌، التمهید، به‌ کوشش‌ مکارتی‌، بیروت‌، 1957عیسوی۔  
* محمد باقلانی‌، التمهید، به‌ کوشش‌ مکارتی‌، بیروت‌، 1957عیسوی۔
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}


گمنام صارف