مندرجات کا رخ کریں

"اشعریہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

8,777 بائٹ کا اضافہ ،  16 اکتوبر 2014ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 199: سطر 199:


=== عقلی حسن و قبحِ کا مسئلہ===
=== عقلی حسن و قبحِ کا مسئلہ===
اشاعرہ نے آشکارا عقلی حسن و قبح کے منکر ہیں۔<ref>اشعریہ کا خیال ہے کہ کوئی بھی عمل اپنی ذات میں اچھا ہے نہ ہی برا؛ اور بعض اعمال کے اچھے اور برے سمجھنے کے بارے میں عقل کا فیصلہ معتبر نہیں ہے بلکہ اعمال کی اچھائی اور برائی کا تعین عقل نہیں بلکہ شرع، کرتی ہے۔</ref> [[ابوالحسن اشعری]] [[اہل حدیث]] اور [[مذہب حنبلی|حنابلہ]] کی مانند، کہتے ہیں کہ عقل اس سے کہیں زیادہ عاجز و بےبس ہے کہ وہ حسن و قبح یا اصلح (زیادہ بہتر) اور غیر اصلح کا ادراک و تعین کرسکے۔ ان کے خیال میں عقلی حسن اور عقلی قبح کا قائل ہونا اللہ کی مشیت اور ارادے کو محدود بنانے کے مترادف ہے۔ چنانچہ اشاعرہ ـ اللہ کی مشیت مطلقہ کے تحفظ کی غرض سے ـ کہتے ہیں کہ حسن (اور اچھا) وہ ہے جس کا اعلان شارع نے کیا ہو اور قبیح وہ جس کا تعین اور اعلان اللہ کی جانب سے ہوا ہو۔  
اشاعرہ نے آشکارا عقلی حسن و قبح کے منکر ہیں۔<ref>اشعریہ کا خیال ہے کہ کوئی بھی عمل اپنی ذات میں اچھا ہے نہ ہی برا؛ اور بعض اعمال کے اچھے اور برے سمجھنے کے بارے میں عقل کا فیصلہ معتبر نہیں ہے بلکہ اعمال کی اچھائی اور برائی کا تعین عقل نہیں بلکہ شرع، کرتی ہے۔</ref> [[ابوالحسن اشعری]] [[اہل حدیث]] اور [[مذہب حنبلی|حنابلہ]] کی مانند، کہتے ہیں کہ عقل اس سے کہیں زیادہ عاجز و بےبس ہے کہ وہ حسن و قبح یا اصلح (زیادہ بہتر) اور غیر اصلح کا ادراک و تعین کرسکے۔ ان کے خیال میں عقلی حسن اور عقلی قبح کا قائل ہونا اللہ کی مشیت اور ارادے کو محدود بنانے کے مترادف ہے۔ چنانچہ اشاعرہ ـ اللہ کی مشیت مطلقہ کے تحفظ کی غرض سے ـ کہتے ہیں کہ حسن (اور اچھا) وہ ہے جس کا اعلان شارع نے کیا ہو اور قبیح وہ جس کا تعین اور اعلان اللہ کی جانب سے ہوا ہو۔


[[معتزلہ|معتزلی]] لطف، اصلح کی رعایت، صالح اور نیک لوگوں کو انعام اور پاداش دینا، گنہگاروں کو کیفر دینا نیز "عدم [[تکلیف ما لا یطاق|تکلیف ما لا یُطاق]]"۔<ref>تکلیف ما لا یطاق (ترکیب وصفی ) وہ ذمہ داری جس سے لوگ عاجز ہوں۔ (انجمن آرا)۔ وہ ذمہ داری جس کو برداشت نہ کیا جاسکے۔(یادداشت بخط مرحوم دهخدا): اور اگر ایسا ہو تو خدائے عادل کو ظالم قرار دینے کا شائبہ وجود میں آئے گا اور تکلیف ما لا یطاق کو جائز قرار دیا جائے گا۔(کتاب النقض ص 428)۔</ref> نیز وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے افعال کو غایت و غرض کے حامل معیاروں کے مطابق ہونا چاہئے۔  
[[معتزلہ|معتزلی]] لطف، اصلح کی رعایت، صالح اور نیک لوگوں کو انعام اور پاداش دینا، گنہگاروں کو کیفر دینا نیز "عدم [[تکلیف ما لا یطاق|تکلیف ما لا یُطاق]]"۔<ref>تکلیف ما لا یطاق (ترکیب وصفی ) وہ ذمہ داری جس سے لوگ عاجز ہوں۔ (انجمن آرا)۔ وہ ذمہ داری جس کو برداشت نہ کیا جاسکے۔(یادداشت بخط مرحوم دهخدا): اور اگر ایسا ہو تو خدائے عادل کو ظالم قرار دینے کا شائبہ وجود میں آئے گا اور تکلیف ما لا یطاق کو جائز قرار دیا جائے گا۔(کتاب النقض ص 428)۔</ref> نیز وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے افعال کو غایت و غرض کے حامل معیاروں کے مطابق ہونا چاہئے۔


اشاعرہ [[معتزلہ|معتزلی]] رائے پر شدید تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی عقل کو خدا پر حاکم قرار دیا ہے اور اس پر اپنا حکم نافذ کرتے ہیں اور یہ سب اللہ تعالی کی لامحدود آزادی اور اختیار سے ہمآہنگ نہیں ہے۔ خداوند متعال کے افعال پر کسی قسم کا وجود مترتب نہیں ہے۔ خداوند متعال جو چاہے انجام دیتا ہے اور جو بھی انجام دے نیک، درست، عینِ ثواب اور محضِ خیر ہے۔ انسان کے فعل کو عدل اور جور جیسی صفات سے متصف کیا جاسکتا ہے؛ جبکہ خدا کا فعل اس سے کہیں برتر و بالاتر ہے اور اس کے تمام افعال عدل کے زمرے میں آتے ہیں۔ (هرچه آن خسرو کند شیرین بود = جو کچھ وہ خسرو انجام دے وہ شیرین (میٹھا) ہی ہے)۔  
اشاعرہ [[معتزلہ|معتزلی]] رائے پر شدید تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی عقل کو خدا پر حاکم قرار دیا ہے اور اس پر اپنا حکم نافذ کرتے ہیں اور یہ سب اللہ تعالی کی لامحدود آزادی اور اختیار سے ہمآہنگ نہیں ہے۔ خداوند متعال کے افعال پر کسی قسم کا وجود مترتب نہیں ہے۔ خداوند متعال جو چاہے انجام دیتا ہے اور جو بھی انجام دے نیک، درست، عینِ ثواب اور محضِ خیر ہے۔ انسان کے فعل کو عدل اور جور جیسی صفات سے متصف کیا جاسکتا ہے؛ جبکہ خدا کا فعل اس سے کہیں برتر و بالاتر ہے اور اس کے تمام افعال عدل کے زمرے میں آتے ہیں۔ (هرچه آن خسرو کند شیرین بود = جو کچھ وہ خسرو انجام دے وہ شیرین (میٹھا) ہی ہے)۔


اس حوالے سے تکلیف ما لا یطاق جائز ہے؛ لطف و اصلح کی رعایت خدا پر واجب نہیں ہے اور [[قیامت]] کے دن بھی خدا پر [[واجب]] نہیں ہے کہ حتمی طور پر نیک لوگوں کو جزا اور گنہگاروں کو سزا دے؛ یعنی وعد و وعید کا وفا کرنا بھی خدا پر واجب نہیں ہے۔<ref>عبدالرزاق لاهیجی، گوهر مراد، ص348۔ ص 199۔</ref>۔<ref>شهرستانی، الملل، 1/191-192۔</ref>۔<ref>کلاتی، 392-393۔</ref>۔<ref>فخرالدین، البراهین، 1/246-247۔</ref>۔<ref>تفتازانی، 2/148- 149۔</ref>۔<ref>جرجانی، شرح، 8/181-183۔</ref>۔<ref>قوشجی، 373-374۔</ref>
اس حوالے سے تکلیف ما لا یطاق جائز ہے؛ لطف و اصلح کی رعایت خدا پر واجب نہیں ہے اور [[قیامت]] کے دن بھی خدا پر [[واجب]] نہیں ہے کہ حتمی طور پر نیک لوگوں کو جزا اور گنہگاروں کو سزا دے؛ یعنی وعد و وعید کا وفا کرنا بھی خدا پر واجب نہیں ہے۔<ref>عبدالرزاق لاهیجی، گوهر مراد، ص348۔ ص 199۔</ref>۔<ref>شهرستانی، الملل، 1/191-192۔</ref>۔<ref>کلاتی، 392-393۔</ref>۔<ref>فخرالدین، البراهین، 1/246-247۔</ref>۔<ref>تفتازانی، 2/148- 149۔</ref>۔<ref>جرجانی، شرح، 8/181-183۔</ref>۔<ref>قوشجی، 373-374۔</ref>
===ارادی افعال (نظریۂ کسب) ===
کیا انسان اپنے ارادی افعال میں آزاد ہے یا نہیں؟ بالفاظ دیگر کیا انسان خود اپنے ارادی افعال کا خالق ہے یا خداوند متعال ہی انسان کے ارادی افعال کا خالق بھی ہے؟ [[معتزلہ]] انسان کو اپنے کرداروں اور افعال و اعمال کا خالق بھی سمجھتے تھے؛ (نظریۂ تفویض = Theory of Devolution)۔
اور اہل ظاہر ـ یعنی [[اہل سنت]] اور [[جبریہ]] ـ نے انسان کے ارادی افعال کو اللہ کی مخلوق قرار دیا اور ان کی نسبت خدا کو دی؛ (نظریۂ جبر (جبریت) = Determinism )۔
[[ابوالحسن اشعری]] درمیانہ راستہ تلاش کرنے کے لئے "نظریۂ کسب (اکتسابیت = Theory of Acquisition)  کے قائل ہوئے اور [[تفتازانی]] کے بقول،</ref>ج2 ص127۔</ref> انھوں نے (اشعری نے) اعلان کیا کہ خداوند متعال انسان کے ارادی افعال کا خالق ہے اور انسان ان کرداروں کا مکتسب ہے! کیونکہ اگر انسان اپنے افعال کی تخلیق پر قادر ہوتا دیگر مخلوقات کی تخلیق کی قوت سے بھی بہرہ ور ہوتا!!<ref>اشعری، مقالات، 218۔</ref>
اشعری نے کسب یا اکتساب کو خدا اور انسان کی قدرت کا اقتران قرار دیا اور کہا کہ ارادی فعل اس اقتران کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے۔<ref>اللمع، 42۔</ref>۔<ref>جوینی، لمع...، 197۔</ref>۔<ref>جرجانی، شرح، 8/146، 233، 398۔</ref> [[جامی کے بقول اشعری کی مراد یہ ہے کہ ارادی فعل کے وجود میں انسان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ فعل اس کے وجود میں انجام پاتا ہے۔ اسی وجہ سے عادۃ اللہ کا سلسلہ انسان کے اندر قوت و اختیار کا موجب بنتا ہے اور اس کا ارادای فعل انجام پاتا ہے۔<ref>جامی، الدرة الفاخرة، ج1، ص39۔</ref>
مکتب اشعریہ کے اکابرین میں سے ہر ایک نے اکتسابیت کے حق میں اظہار خیال کیا ہے اور اس کے دفاع کا اہتمام کیا ہے۔ مثال کے طور پر [[باقلانی]] اس نظریئے کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: عمل و فعل کی ذات اللہ کی خلق کردہ ہے لیکن اس کا اچھا یا برا ہونا، انسان کی اپنی استطاعت کا ثمرہ ہے۔<ref>باقلانی‌، التمهید، ج1، ص287۔</ref>۔۔<ref>علامة حلی، کشف، 239-249۔</ref>۔<ref>تفتازانی، 2/125- 127۔</ref>۔<ref>ابن رشد، «‌الکشف»، 121-122۔</ref> اور استطاعت سے مراد فعل کے کرنے یا ترک کرنے کی خاص قوت ہے جو ـ اشاعرہ کے بقول خداوند متعال فعل کے کرنے یا ترک کرنے کے عین وقت پر اس کو انسان کے اندر خلق کر دیتا ہے (یعنی پہلے سے یہ قوت موجود نہیں ہوتی)۔ کیونکہ اشعریوں کے بقول استطاعت عَرَض (Accident) ہے اور عرض دو اوقات میں میں باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ اگر استطاعت فعل کے انجام دینے سے قبل معرض وجود میں آئے تو فعل ایک ایسی استطاعت کا معلول (Effect) ہوگا جو سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔<ref>اشعری، اللمع، 54 - 55۔</ref>۔<ref> تفتازانی، 1/249۔</ref>۔<ref>کستلی، 119-129۔</ref>


==پاورقی حاشیے==
==پاورقی حاشیے==
<small>
<small>
{{حوالہ جات|3}}
{{حوالہ جات|4}}
</small>
</small>
[[fa:اشاعره]]
== مآخذ ==
{{ستون آ|2}}
* ابن خلدون؛ مقدمه، ترجمه ­ی محمد پروین گنابادی، بنگاه ترجمه و نشر کتاب، تهران، 1352ہجری شمسی۔
* ابن سعد، محمد، کتاب الطبقات الکبیر، به کوشش زاخاو و دیگران، لیدن، 1994- 1915عیسوی۔
* ابن عساکر، علی، تبیین کذب المفتری، بیروت، 1394ہجری قمری /1984عیسوی۔
* ابن قتیبه، عبدالله، تأویل مختلف الحدیث، بیروت، دارالجیل.
* ابن ندیم، الفهرست.
* احمد محمود صبحی، فی علم الکلام، دارالنهضة العربیه، بیروت، 1411ہجری قمری۔
* اشعری، اللمع، به کوشش مکارتی، بیروت، 1953 عیسوی۔
* اشعری، علی، مقالات الاسلامیین، به کوشش ریتر، ویسبادن، 1989 عیسوی۔
* برنجکار، رضا، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، موسسه فرهنگی طه، قم، 1378 ہجری شمسی۔
* بغدادی، عبدالقاهر، الفرق بین الفرق، به کوشش محمد محیی الدین عبدالحمید، قاهره، مکتبة محمدعلی صبیح و اولاده.
* تفتازانی، عمر، شرح المقاصد، چ سنگی، استانبول، 1395 ہجری قمری۔
* جرجانی، شرح المواقف، به کوشش محمد بدرالدین نعسانی، قاهره، 1325ہجری قمری /1997 عیسوی۔
* جعفر سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، موسسه النشر الاسلامی، قم.
* جلال محمد موسی، نشأة الاشعریه و تطورها، دار الکتاب اللبنانی، بیروت، 1982 عیسوی۔
* جوینی، لمع الادلة، به کوشش فوقیه حسین محمود، قاهره، 1385ہجری قمری /1965 عیسوی۔
* سبکی، عبد الوهاب بن علی، طبقات الشافعیه، دار احیاء الکتب العربیه، بیروت.
* شهرستانی، عبدالکریم، الملل و النحل، به کوشش محمد کیلانی، بیروت، 1395 ہجری قمری / 1975 عیسوی۔
* شهرستانی، نهایة الاقدام، به کوشش آلفرد گیوم، پاریس، 1934 عیسوی۔
* صریفینی، ابراهیم، تاریخ نیسابور (منتخب السیاق عبدالغافر فارسی)، به کوشش محمد کاظم محمودی، قم، 1493ہجری قمری۔
* عبدالحسین زرین کوب، فراز ز مدرسه، نشرام‍ی‍رک‍ب‍ی‍ر‏‫، چاپ دوازدهم 1392 ہجری شمسی۔
* عبدالرحمن بدوی، تاریخ اندیشه‌های کلامی در اسلام، آستان قدس رضوی، مشهد، چاپ، 1374 ہجری شمسی۔.
* علامة حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، قم، مکتبة المصطفوی.
* فخرالدین رازی، محمد، البراهین، به کوشش محمدباقر سبزواری، تهران، 1341 ہجری شمسی۔
* قوشجی، علی، شرح تجرید الاعتقاد، چ سنگی.
* کستلی، مصطفی، حاشیة علی شرح العقائد، استانبول، 1319 ہجری شمسی۔
* کلاتی، یوسف، لباب العقول، به کوشش فوقیه حسین محمود، قاهره، 1977 عیسوی۔
* لاهیجی، عبدالرزاق، گوهر مراد، به کوشش زین العابدین قربانی، تهران، 1372ہجری شمسی۔
* مقدسی، محمد، احسن التقاسیم، بیروت، 1498 ہجری قمری /1987 عیسوی۔
* ولوی، علی محمد؛ تاریخ علم کلام و مذاهب اسلامی، موسسه انتشارات بعثت، تهران، 1367 ہجری شمسی۔
* فرمانیان، مهدی، آشنایی با فرق تشیع و تسنن، انتشارات دانشگاه ادیان و مذاهب.
* فرمانیان، مهدی، مجموعه مقالات فرق تسنن، نشر ادیان، 1386 ہجری شمسی۔
* عبدالرحمان ‌جامی‌، الدرة الفاخرة، به‌ کوشش‌ نیکولاهیر و علی‌ موسوی‌ بهبهانی‌، تهران‌، 1358ہجری شمسی۔
* محمد باقلانی‌، التمهید، به‌ کوشش‌ مکارتی‌، بیروت‌، 1957عیسوی۔
{{ستون خ}}
==پیوند به بیرون==
* منبع مقاله: [http://www.cgie.org.ir/fa/publication/entryview/9514 دائرة المعارف بزرگ اسلامی]
* فصلنامه تاریخ اسلام: [http://www.bou.ac.ir/Portal/File/ShowFile.aspx?ID=78dcd92b-20a7-4843-bb0e-b8b22dd9d722 واکاوی همگرایی و واگرایی اشاعره و حنابله در دوره سلجوقی در بغداد]


[[fa:اشاعره]]
[[زمرہ:اشاعرہ]]
گمنام صارف