مندرجات کا رخ کریں

"امام حسن مجتبی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 55: سطر 55:


== بچپن اور جوانی کا زمانہ ==
== بچپن اور جوانی کا زمانہ ==
مشہور قول کی بنا پر آپ کی تاریخ ولادت [[15 رمضان]] [[سنہ 3 ہجری]] ہے۔<ref>کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۱، ص۴۶۱؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۵۳۷۔</ref> لیکن بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت [[سنہ 2 ہجری]] بھی لکھا گیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۱، ص۴۶۱؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۹۰ش، ج۶، ص۳۹</ref> آپ [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۹۰ش، ج۶، ص۴۰</ref>، [[پیغمبر اکرمؐ]] نے آپ کی کان میں [[اذان]] دی <ref>ابن حنبل، مسند، دار صادر، ج۶، ص۳۹۱؛ ترمذی، سنن الترمذی، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۳۶؛ ابن بابویہ، علی بن حسین، الامامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۴۲</ref> اور ولادت کے ساتویں روز ایک گوسفند کے ذبح کر کے آپ کا [[عقیقہ]] کیا گیا۔<ref>نسائی، سنن النسائی،  دارالکتب العلمیۃ، ج۴، ص۱۶۶؛ کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۶، ص۳۲-۳۳؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۰۶ق، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۳۷</ref>
مشہور قول کی بنا پر آپ کی تاریخ ولادت [[15 رمضان]] [[سنہ 3 ہجری]] ہے۔<ref> کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۱، ص۴۶۱؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۵۳۷۔</ref> لیکن بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت [[سنہ 2 ہجری]] بھی لکھا گیا ہے۔<ref> کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۱، ص۴۶۱؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۹۰ش، ج۶، ص۳۹</ref> آپ [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔<ref> مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۹۰ش، ج۶، ص۴۰</ref>، [[پیغمبر اکرمؐ]] نے آپ کے کان میں [[اذان]] دی <ref> ابن حنبل، مسند، دار صادر، ج۶، ص۳۹۱؛ ترمذی، سنن الترمذی، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۳۶؛ ابن بابویہ، علی بن حسین، الامامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۴۲</ref> اور ولادت کے ساتویں روز ایک گوسفند کے ذبح کرکے آپ کا [[عقیقہ]] کیا۔<ref> نسائی، سنن النسائی،  دار الکتب العلمیۃ، ج۴، ص۱۶۶؛ کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۶، ص۳۲-۳۳؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۰۶ق، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۳۷</ref>


بعض منابع کے مطابق [[امام علیؑ]] نے پیغمبر اکرمؐ کی توسط سے آپ کا نام "حسن" رکھنے سے پہلے اپنے بیٹے کا نام حمزہ<ref>ابن عساکر، تاریخ مدینۃ الدمشق، ج۱۳، ص۱۷۰</ref> یا حرب<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۱۶۵</ref> رکھنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جب رسول خدا نے امام علی سے سوال کیا کہ اپنے بیٹے کا نام کیا رکھا ہے تو آپ نے فرمایا میں اس کام میں خدا اور اس کے رسول پر پہلی نہیں کرونگا۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۲۳۹-۲۴۴؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۳۹، ص۶۳۔</ref>
بعض منابع کے مطابق [[امام علیؑ]] نے پیغمبر اکرمؐ کی توسط سے آپ کا نام "حسن" رکھنے سے پہلے اپنے بیٹے کا نام حمزہ<ref> ابن عساکر، تاریخ مدینۃ الدمشق، ج۱۳، ص۱۷۰</ref> یا حرب<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۱۶۵</ref> رکھنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جب رسول خدا نے امام علی سے سوال کیا کہ اپنے بیٹے کا نام کیا رکھا ہے تو آپ نے فرمایا میں اس کام میں خدا اور اس کے رسول پر پہلی نہیں کرونگا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۲۳۹-۲۴۴؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۳۹، ص۶۳۔</ref>


===بچپن اور نوجوانی===
===بچپن اور نوجوانی===
آپ کی بچپن اور نوجوانی کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص معلومات میسر نہیں۔<ref>مہدوی دامغانی، «حسن بن علی، امام»، ص۳۰۴۔</ref>
آپ کے بچپن اور نوجوانی کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص معلومات میسر نہیں۔<ref> مہدوی دامغانی، «حسن بن علی، امام»، ص۳۰۴۔</ref>
آپ نے صرف آٹھ سال سے بھی کم عرصہ اپنے نانا رسول خداؐ کی زندگی کو درک کیا{{نوٹ|حسن بن علی [[سنہ 3 ہجری قمری|3 ہجری]] کو متولد ہوئے (کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۱، ص۴۶۱) اور پیغمبر اکرم نے [[سنہ 11 ہجری قمری|11 ہجری]] کو وفات پائی۔( ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۲۰۸۔)}}اس بنا پر آپ کا نام پیغمبر اکرمؑ کے [[صحابہ|اصحاب]] کے آخری طبقے میں ذکر کیا جاتا ہے۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸، ج۱۰، ص۳۶۹۔</ref>
آپ نے صرف آٹھ سال سے بھی کم عرصہ اپنے نانا رسول خداؐ کی زندگی کو درک کیا{{نوٹ|حسن بن علی [[سنہ 3 ہجری قمری|3 ہجری]] کو متولد ہوئے (کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۱، ص۴۶۱) اور پیغمبر اکرم نے [[سنہ 11 ہجری قمری|11 ہجری]] کو وفات پائی۔(ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۲۰۸۔)}}اس بنا پر آپ کا نام پیغمبر اکرمؑ کے [[صحابہ|اصحاب]] کے آخری طبقے میں ذکر کیا جاتا ہے۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸، ج۱۰، ص۳۶۹۔</ref>


آپؑ اور آپ کے بھائی [[امام حسینؑ]] کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی بے پناہ محبت کے بارے میں [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] منابع میں بہت سی واقعات ذکر کی گئی ہیں۔<ref>مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۴۳، ص۲۶۱-۳۱۷؛ ترمذی، سنن ترمذی، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۳۲۳-۳۲۲؛ احمد بن حنبل، المسند، دار صادر، ج۵، ص۳۵۴؛ ابن حبان، صحیح ابن حبان، ۱۹۹۳م، ج۱۳، ص۴۰۲؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۸۷۔</ref>
آپؑ اور آپ کے بھائی [[امام حسینؑ]] کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی بے پناہ محبت کے بارے میں [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] منابع میں بہت سے واقعات ذکر ہوئے ہیں۔<ref> مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۴۳، ص۲۶۱-۳۱۷؛ ترمذی، سنن ترمذی، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۳۲۳-۳۲۲؛ احمد بن حنبل، المسند، دار صادر، ج۵، ص۳۵۴؛ ابن حبان، صحیح ابن حبان، ۱۹۹۳م، ج۱۳، ص۴۰۲؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۲۸۷۔</ref>


آپ کی زندگی کے اس دور کا اہم ترین واقعہ اپنے والدین، بھائی اور نانا رسول خداؐ کے ہمراہ [[نجران]] کے عیسائیوں ساتھ ہونے والے مباہلے میں شرکت ہے اور [[آیہ مباہلہ]] میں موجود لفظ "اَبناءُنا" کا مصداق بنا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸، ج۶، ص۴۰۶ـ۴۰۷؛ شیخ صدوق، عون اخبار الرضا، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۸۵؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۶۸۔</ref> [[سید جعفر مرتضی]] کے بقول آپؑ [[بیعت رضوان]] میں بھی موجود تھے اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ آپ نے بھی حضورؐ کی بیعت کیں۔<ref>عاملی، الصحیح من السیرۃ النبی الأعظم، ۱۴۲۶ق، ج۲۱، ص۱۱۶۔</ref> [[قرآن]] کی بعض آیات آپ اور [[اصحاب کساء]] کے دوسرے ارکان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔<ref>زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ذیل آیہ ۶۱ آل عمران؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۰۵ق، ذیل آیہ ۶۱ سورہ آل عمران،احمد بن حنبل، دارصادر، مسند احمد، ج ۱، ص۳۳۱؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۷۹۹؛ شوکانی، فتح القدیر، عالم الکتب، ج۴، ص۲۷۹۔</ref> کہا جاتا ہے کہ آپ سات سال کی عمر میں اپنے نانا رسول خداؐ کے مجالس میں شرکت فرماتے اور جو کچھ حضورؐ پر [[وحی]] ہوتی اس بارے میں اپنی والدہ [[حضرت فاطمہ زہرا(س)|حضرت فاطمہ زہراؑ]] کو مطلع کرتے تھے۔<ref>ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۷۔</ref>
آپ کی زندگی کے اس دور کا اہم ترین واقعہ اپنے والدین، بھائی اور نانا رسول خداؐ کے ہمراہ [[نجران]] کے عیسائیوں ساتھ ہونے والے مباہلے میں شرکت اور [[آیہ مباہلہ]] میں موجود لفظ "اَبناءُنا" کا مصداق بننا ہے۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸، ج۶، ص۴۰۶ـ۴۰۷؛ شیخ صدوق، عون اخبار الرضا، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۸۵؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۶۸۔</ref> [[سید جعفر مرتضی]] کے بقول آپؑ [[بیعت رضوان]] میں بھی موجود تھے اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ آپ نے بھی حضورؐ کی بیعت کی۔<ref> عاملی، الصحیح من السیرۃ النبی الأعظم، ۱۴۲۶ق، ج۲۱، ص۱۱۶۔</ref> [[قرآن]] کی بعض آیات آپ اور [[اصحاب کساء]] کے دوسرے ارکان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔<ref> زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ذیل آیہ ۶۱ آل عمران؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۰۵ق، ذیل آیہ ۶۱ سورہ آل عمران،احمد بن حنبل، دار صادر، مسند احمد، ج ۱، ص۳۳۱؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۷۹۹؛ شوکانی، فتح القدیر، عالم الکتب، ج۴، ص۲۷۹۔</ref> کہا جاتا ہے کہ آپ سات سال کی عمر میں اپنے نانا رسول خداؐ کے مجالس میں شرکت فرماتے اور جو کچھ حضورؐ پر [[وحی]] ہوتی اس بارے میں اپنی والدہ [[حضرت فاطمہ زہرا(س)|حضرت فاطمہ زہراؑ]] کو مطلع کرتے تھے۔<ref> ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۷۔</ref>


[[سلیم بن قیس]] (متوفی پہلی صدی کے اواخر) نے نقل کیا ہے کہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد [[ابوبکر]] نے جب [[خلافت]] پر قبضہ کیا تو حسن بن علی اپنے والد ماجد [[امام علی]]، والدہ ماجدہ [[حضرت فاطمہ]] اور بہائی [[امام حسینؑ]] کے ساتھ رات کو [[انصار]] کے گھروں میں جاتے تھے اور ان کو حضرت علیؑ کی مدد کرنے کی دعوت دیتے تھے۔<ref>سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی‏، ۱۴۰۵ق، ص۶۶۵ و ۹۱۸۔</ref> اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آپ [[منبر رسول]] پر ابوبکر کے بیٹھنے کا مخالف تھا اور اس حوالے سے اپنی نارضایتی کا اظہار کرتے تھے۔<ref>بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۶-۲۷؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۳۰۰۔</ref>
[[سلیم بن قیس]] (متوفی پہلی صدی کے اواخر) نے نقل کیا ہے کہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد [[ابوبکر]] نے جب [[خلافت]] پر قبضہ کیا تو حسن بن علی اپنے والد [[امام علی]]، والدہ [[حضرت فاطمہ]] اور بہائی [[امام حسینؑ]] کے ساتھ رات کو [[انصار]] کے گھروں میں جاتے تھے اور ان کو حضرت علیؑ کی مدد کرنے کی دعوت دیتے تھے۔<ref> سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی‏، ۱۴۰۵ق، ص۶۶۵ و ۹۱۸۔</ref> اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آپ [[منبر رسول]] پر ابوبکر کے بیٹھنے کے مخالف تھے اور اس حوالے سے اپنی نارضایتی کا اظہار کرتے تھے۔<ref> بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۶-۲۷؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۳۰۰۔</ref>


===جوانی===
===جوانی===
امام حسنؑ کے ایام جوانی سے متعلق معلومات انتہائی محدود ہیں، کتاب "[[الامامۃ و السیاسۃ(کتاب)|الامامۃ و السیاسۃ]]" کے مطابق [[خلیفہ دوم]] کے حکم سے حسن بن علیؑ خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائی گئی [[چھ رکنی کمیٹی]] میں گواہ کے عنوان سے حاضر ہوئے۔<ref>ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۲۔</ref>
امام حسنؑ کے ایام جوانی سے متعلق معلومات انتہائی محدود ہیں، کتاب [[الامامۃ و السیاسۃ(کتاب)|الامامۃ و السیاسۃ]] کے مطابق [[خلیفہ دوم]] کے حکم سے حسن بن علیؑ خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائی گئی [[چھ رکنی کمیٹی]] میں گواہ کے عنوان سے حاضر ہوئے۔<ref> ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۲۔</ref>


[[اہل سنت]] کے بعض منابع میں آیا ہے کہ [[حسنینؑ]] سنہ 26 ہجری قمری کو جنگ افریقیہ<ref>ابن خلدون، العبر، ۱۴۰۱ق، ج۲، ص۵۷۳-۵۷۴۔</ref> اور سنہ 29 یا 30 ہجری قمری کو جنگ [[طبرستان]]<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۲۶۹۔</ref> میں شریک تھے۔ البتہ ان احادیث کی صحت و سقم سے متعلق محدثین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی بنا پر ان احادیث کے سندی اشکالات اور ائمہ معصومین کی جانب سے فتوحات کی مخالفت پر منی طرز زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض علماء من جملہ [[جعفر مرتضی عاملی]] نے ان احادیث کو جعلی قرار دیئے ہیں اور اپنی بات کی تائید میں امام علیؑ کی طرف سے حسنینؑ کو [[جنگ صفین]] میں شرکت کی اجازت نہ دینے کو بطور شاہد پیش کیا ہے۔<ref>جعفرمرتضی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الحسن، دارالسیرۃ، ص۱۵۸۔</ref> [[ویلفرد مادلونگ]] کہتے ہیں کہ امام علیؑ اپنے فرزند ارجمند کو عالم جوانی میں جنگی امور سے آشنا کرکے ان امور سے متعلق آپ کے تجربات میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔<ref>http://www۔iranicaonline۔org/articles/hasan-b-ali</ref> بعض علماء کا خیال ہے کہ حسنین شریفین کا خلفاء کے دور میں مختلف فتوحات میں شامل ہونا امت اسلامی کی مصلحت اور امام علیؑ کو اسلامی معاشرے کے گوشہ و کنار سے آگاہ کرنے نیز لوگوں کو [[اہل بیتؑ]] سے آشنا کرنے کیلئے تھا۔<ref>زمانی، حقایق پنہان، ۱۳۸۰ش، ص۱۱۸-۱۱۹۔</ref>
[[اہل سنت]] کے بعض منابع میں آیا ہے کہ [[حسنینؑ]] [[سنہ 26 ہجری]] کو جنگ افریقیہ<ref> ابن خلدون، العبر، ۱۴۰۱ق، ج۲، ص۵۷۳-۵۷۴۔</ref> اور سنہ 29 یا [[30 ہجری]] کو جنگ [[طبرستان]]<ref> طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۴، ص۲۶۹۔</ref> میں شریک تھے۔ البتہ ان احادیث کی صحت و سقم سے متعلق محدثین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی بنا پر ان احادیث کے سندی اشکالات اور ائمہ معصومین کی جانب سے فتوحات کی مخالفت پر مبنی طرز زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض علماء من جملہ [[جعفر مرتضی عاملی]] نے ان احادیث کو جعلی قرار دیا ہے اور اپنی بات کی تائید میں امام علیؑ کی طرف سے حسنینؑ کو [[جنگ صفین]] میں شرکت کی اجازت نہ دینے کو بطور شاہد پیش کیا ہے۔<ref> جعفر مرتضی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الحسن، دار السیرۃ، ص۱۵۸۔</ref> [[ویلفرد مادلونگ]] کہتے ہیں کہ امام علیؑ اپنے فرزند کو عالم جوانی میں جنگی امور سے آشنا کرکے ان امور سے متعلق آپ کے تجربات میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔<ref>http://www۔iranicaonline۔org/articles/hasan-b-ali</ref> بعض علماء کا خیال ہے کہ حسنین کا خلفاء کے دور میں مختلف فتوحات میں شامل ہونا امت اسلامی کی مصلحت اور امام علیؑ کو اسلامی معاشرے کے گوشہ و کنار سے آگاہ کرنے نیز لوگوں کو [[اہل بیتؑ]] سے آشنا کرنے کیلئے تھا۔<ref> زمانی، حقایق پنہان، ۱۳۸۰ش، ص۱۱۸-۱۱۹۔</ref>


آپ کی زندگی کے اس دور سے متعلق نقل ہونے والے دیگر اہم واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ [[عثمان]] کے خلاف حضرت علیؑ کی خدمت میں شکایت لے آتے ہیں اس موقع پر امام علیؑ نے اپنے فرزند امام حسنؑ کو عثمان کے پاس بھجتے ہیں۔<ref>ابن عبد ربہ، العقد الفرید، دارالکتب العلمیہ، ج۵، ص۵۸-۵۹۔</ref>  
آپ کی زندگی کے اس دور سے متعلق نقل ہونے والے دیگر اہم واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ [[عثمان]] کے خلاف حضرت علیؑ کی خدمت میں شکایت لے آتے ہیں اس موقع پر امام علیؑ نے اپنے فرزند امام حسنؑ کو عثمان کے پاس بھجتے ہیں۔<ref> ابن عبد ربہ، العقد الفرید، دار الکتب العلمیہ، ج۵، ص۵۸-۵۹۔</ref>  
بعض منابع میں آیا ہے کہ عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں لوگوں نے ان کے خلاف شورش کی، ان کے گھر کو محاصرے میں لے لیا، ان پر پانی بند کر دیا اور آخر کار انہیں قتل کر دیا گیا ان تمام واقعات میں امام حسنؑ اپنے بھائی امام حسینؑ اور دیگر جوانان بنی ہاشم کے ساتھ امام علیؑ کے حکم سے عثمان کے گھر کی حفاظت پر مأمور تھے۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۵۵۸-۵۵۹</ref> [[قاضی نعمان مغربی]] (متوفی 363ھ) جو کتاب [[دلائل الامامۃ]] کے مصنف بھی ہیں کے بقول جب شورشیوں نے عثمان پر پانی بند کر دیا تو امام حسنؑ اپنے والد ماجد امام علیؑ کے حکم پر عثمان کے گھر پانی پہنچاتے تھے۔<ref> قاضی نعمان، المناقب و المثالب، ۱۴۲۳ق، ص۲۵۱؛ طبری، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ق، ص۱۶۸۔</ref> بعض منابع میں اس واقعے میں آپ کے زخمی ہونے کے اطلاعات بھی موجود ہیں۔<ref>دیار بکری، تاریخ الخمیس، دارالصادر، ج۲، ص۲۶۲۔</ref>
بعض منابع میں آیا ہے کہ عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں لوگوں نے ان کے خلاف شورش کی، ان کے گھر کو محاصرے میں لے لیا، ان پر پانی بند کر دیا اور آخر کار انہیں قتل کر دیا گیا ان تمام واقعات میں امام حسنؑ اپنے بھائی امام حسینؑ اور دیگر جوانان بنی ہاشم کے ساتھ امام علیؑ کے حکم سے عثمان کے گھر کی حفاظت پر مأمور تھے۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۵۵۸-۵۵۹</ref> [[قاضی نعمان مغربی]] (متوفی 363ھ) جو کتاب [[دلائل الامامۃ]] کے مصنف بھی ہیں کے بقول جب شورشیوں نے عثمان پر پانی بند کر دیا تو امام حسنؑ اپنے والد امام علیؑ کے حکم پر عثمان کے گھر پانی پہنچاتے تھے۔<ref> قاضی نعمان، المناقب و المثالب، ۱۴۲۳ق، ص۲۵۱؛ طبری، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ق، ص۱۶۸۔</ref> بعض منابع میں اس واقعے میں آپ کے زخمی ہونے کے اطلاعات بھی موجود ہیں۔<ref> دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار الصادر، ج۲، ص۲۶۲۔</ref>


=== ازواج اور اولاد ===
=== ازواج اور اولاد ===
سطر 90: سطر 90:
البتہ آپ کو "مطلاق" کہنے والی بات کو بعض پرانے اور معاصر منابع میں تاریخی، سندی اور محتوایی اعتبار سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔<ref> مہدوی دامغانی، «حسن بن علی، امام»، ص۳۰۹۔</ref>
البتہ آپ کو "مطلاق" کہنے والی بات کو بعض پرانے اور معاصر منابع میں تاریخی، سندی اور محتوایی اعتبار سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔<ref> مہدوی دامغانی، «حسن بن علی، امام»، ص۳۰۹۔</ref>


[[مادلونگ]] کے بقول پہلا شخص جس نے یہ شایع کیا تھا کہ امام حسنؑ کی زوجات کی تعداد 90 ہیں، وہ "محمد بن کلبی" تھا اور یہ تعداد "مدائنی" (225ھ) کی جعلیات میں سے تھی۔ اس کے باوجود خود کلبی نے آپ کی گیارہ زوجات کا نام لیا ہے جن میں سے 5 کا امام کی ازواج میں سے ہونا بھی مشکوک ہے۔<ref> مادلونگ، جانشینى محمد، ۱۳۷۷ش، ص۵۱۴-۵۱۵۔</ref> قرشی اس خبر کو [[بنی عباس]] کا [[سادات حسنی]] کے مقابلے میں اٹھایا جانے والے اقدامات میں شمار کرتے ہیں۔<ref> قرشی‏، حیاۃ الامام الحسن بن على، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۵۳-۴۵۴۔</ref>
[[مادلونگ]] کے بقول پہلا شخص جس نے یہ شایع کیا تھا کہ امام حسنؑ کی زوجات کی تعداد 90 ہیں، وہ "محمد بن کلبی" تھا اور یہ تعداد "مدائنی" (225ھ) کی جعلیات میں سے تھی۔ اس کے باوجود خود کلبی نے آپ کی گیارہ زوجات کا نام لیا ہے جن میں سے 5 کا امام کی ازواج میں سے ہونا بھی مشکوک ہے۔<ref> مادلونگ، جانشینى محمد، ۱۳۷۷ش، ص۵۱۴-۵۱۵۔</ref> قرشی اس خبر کو [[بنی عباس]] کے [[سادات حسنی]] کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات میں شمار کرتے ہیں۔<ref> قرشی‏، حیاۃ الامام الحسن بن على، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۵۳-۴۵۴۔</ref>


آپ کی اولاد کی تعداد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیخ مفید نے آپ کی اولاد کی تعداد 15 ذکر کئے ہیں۔<ref> المفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۰۔</ref>
آپ کی اولاد کی تعداد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ شیخ مفید نے آپ کی اولاد کی تعداد 15 ذکر کی ہیں۔<ref> المفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۰۔</ref>


{| class="wikitable" style="text-align: center; background-color:#F1F9DC; width:50%; border-radius:4px; align:center !important; margin:auto "
{| class="wikitable" style="text-align: center; background-color:#F1F9DC; width:50%; border-radius:4px; align:center !important; margin:auto "
سطر 122: سطر 122:
{{اصلی|سادات حسنی}}
{{اصلی|سادات حسنی}}
نسل امام حسنؑ [[حسن مثنی]]، [[زید بن حسن بن علی علیہ السلام|زید]]، [[عمر بن حسن بن علی|عمر]] اور [[حسین اثرم]] سے چلی ہے۔ حسین اور عمر کی نسل کچھ عرصہ بعد ختم ہوئی اور صرف حسن مثنی اور زید بن حسن کی نسل باقی رہی،<ref> المجدی فی أنساب الطالبیین، ص۲۰۲۔</ref>  
نسل امام حسنؑ [[حسن مثنی]]، [[زید بن حسن بن علی علیہ السلام|زید]]، [[عمر بن حسن بن علی|عمر]] اور [[حسین اثرم]] سے چلی ہے۔ حسین اور عمر کی نسل کچھ عرصہ بعد ختم ہوئی اور صرف حسن مثنی اور زید بن حسن کی نسل باقی رہی،<ref> المجدی فی أنساب الطالبیین، ص۲۰۲۔</ref>  
جنہیں [[سادات حسنی]] کہا جاتا ہے۔<ref> الأنساب، ج‌۴، ص۱۵۹۔</ref> آپ کی نسل سے بہت ساری شخصیات نے دوسری اور تیسری صدی کے دوران بنی عباس کی حکومت کے خلاف مختلف سیاسی اور سماجی تحریکوں کی قیادت کی اور اسلامی دنیا کے مختلف گوشہ و کنار میں مختلف حکومتیں قائم کی ہیں۔ یہ شخصیات بعض مناطق میں [[شرفاء|شُرَفاء]] کے نام سے معروف‌‌ تھے۔<ref> یمانی، موسوعۃ مکۃ المکرمہ، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۵۸۹۔</ref>
جنہیں [[سادات حسنی]] کہا جاتا ہے۔<ref> الأنساب، ج‌۴، ص۱۵۹۔</ref> آپ کی نسل سے بہت ساری شخصیات نے دوسری اور تیسری صدی کے دوران بنی عباس کی حکومت کے خلاف مختلف سیاسی اور سماجی تحریکوں کی قیادت کی اور اسلامی دنیا کے مختلف گوشہ و کنار میں مختلف حکومتیں قائم کی ہیں۔ یہ شخصیات بعض علاقوں میں [[شرفاء|شُرَفاء]] کے نام سے معروف‌‌ تھیں۔<ref> یمانی، موسوعۃ مکۃ المکرمہ، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۵۸۹۔</ref>


{{خاندان رسالت}}
{{خاندان رسالت}}
گمنام صارف