مندرجات کا رخ کریں

"امام حسن مجتبی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 47: سطر 47:


===امامت ===
===امامت ===
حسنؑ بن علیؑ [[شیعہ|شیعوں]] کے دوسرے امام ہیں۔ آپؑ [[21 رمضان]] سنہ [[سنہ 40 ہجری قمری|40ھ]] کو [[امام علیؑ]] کی [[شہادت]] کے بعد [[امام]] ہوئے اور دس سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۔</ref>
حسنؑ بن علیؑ [[شیعہ|شیعوں]] کے دوسرے امام ہیں۔ [[21 رمضان]] سنہ [[سنہ 40 ہجری قمری|40ھ]] کو [[امام علیؑ]] کی [[شہادت]] کے بعد [[امام]] بنے اور دس سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۔</ref>
[[شیخ کلینی]] (متوفی 329 ھ) نے اپنی کتاب [[کافی]] میں امام حسنؑ کے منصب [[امامت]] پر نصب کئے جانے سے مربوط احادیث کو جمع کیا ہے۔<ref> کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۶۲ش، ص۲۹۷-۳۰۰۔</ref> ان روایات میں سے ایک کے مطابق امام علیؑ نے اپنی شہادت سے پہلے اپنی اولاد اور شیعہ بزرگان کے سامنے اس کتاب اور تلوار کو اپنے فرزند امام حسنؑ کو عطا فرمایا جو [[امامت]] کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو اپنے بعد آپ کے فرزند "حسن بن علیؑ" کو اپنا جانیشن اور وصی مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔<ref> کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۶۲ش، ص۲۹۸۔</ref> ایک اور حدیث کے مطابق امام علیؑ نے [[کوفہ]] تشریف لے جانے سے پہلے امامت کی مذکورہ نشانیوں کو [[ام سلمہ]] کے حوالے فرمایا جسے امام حسنؑ نے کوفہ سے واپسی پر ام سلمہ سے اپنی تحویل میں لیا تھا۔<ref> کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۶۲ش، ص۲۹۸۔</ref> [[شیخ مفید]] (متوفی 413 ھ) نے اپنی کتاب [[ارشاد]] میں یوں تحریر کیا ہے کہ حسن بن علیؑ ان کی خاندان میں اپنے والد ماجد [[امام علیؑ]] کے جانشین اور وصی ہیں۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۷۔</ref> اسی طرح آپؑ کی امامت پر رسول خدا سے نقل ہونے والی بعض احادیث بھی صراحتا دلالت کرتی ہیں: {{حدیث|اِبنای ہذانِ امامان قاما او قَعَدا|ترجمہ= این یہ میرے دونوں بیٹے(حسنؑ اور حسینؑ) تمہارے امام ہیں چاہے یہ قیام کریں یا صلح۔}}»<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۰۔</ref> اسی طرح [[حدیث ائمہ اثنا عشر]]<ref>شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۵۳۔</ref> سے بھی آپ کی امامت پر استدلال کیا جاتا ہے۔<ref>طبرسی، اعلام الورى، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۷؛ شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۷، ص۴۸۲۔</ref> امام حسنؑ اپنی امامت کے ابتدائی مہینوں میں جس وقت آپ کوفہ میں تشریف رکھتے تھے، منصب خلافت پر بھی فائز تھے لیکن بعد میں معاویہ کے ساتھ کے بعد خلافت سے دستبردار ہوئے خلافت سے کنارہ کشی کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔
[[شیخ کلینی]] (متوفی 329 ھ) نے اپنی کتاب [[کافی]] میں امام حسنؑ کے منصب [[امامت]] پر نصب کئے جانے سے مربوط احادیث کو جمع کیا ہے۔<ref> کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۶۲ش، ص۲۹۷-۳۰۰۔</ref> ان روایات میں سے ایک کے مطابق امام علیؑ نے اپنی شہادت سے پہلے اپنی اولاد اور شیعہ بزرگان کے سامنے اس کتاب اور تلوار کو اپنے فرزند امام حسنؑ کو عطا فرمایا جو [[امامت]] کی نشانی سمجھی جاتی تھی اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو اپنے بعد آپ کے فرزند حسن بن علیؑ کو اپنا جانیشن اور وصی مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔<ref> کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۶۲ش، ص۲۹۸۔</ref> ایک اور حدیث کے مطابق امام علیؑ نے [[کوفہ]] تشریف لے جانے سے پہلے امامت کی مذکورہ نشانیوں کو [[ام سلمہ]] کے حوالے فرمایا جسے امام حسنؑ نے کوفہ سے واپسی پر ام سلمہ سے اپنی تحویل میں لیا تھا۔<ref> کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۶۲ش، ص۲۹۸۔</ref> [[شیخ مفید]] (متوفی 413 ھ) نے کتاب [[ارشاد]] میں تحریر کیا ہے کہ حسن بن علیؑ اولاد و اصحاب کے درمیان اپنے والد کے جانشین و وصی ہیں۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۷۔</ref> اسی طرح آپؑ کی امامت پر رسول خدا سے نقل ہونے والی بعض احادیث بھی صراحتا دلالت کرتی ہیں: {{حدیث|اِبنای ہذانِ امامان قاما او قَعَدا|ترجمہ= میرے یہ دونوں بیٹے (حسنؑ اور حسینؑ) تمہارے امام ہیں چاہے یہ قیام کریں یا صلح۔}}»<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۰۔</ref> اسی طرح [[حدیث ائمہ اثنا عشر]]<ref> شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۵۳۔</ref> سے بھی آپ کی امامت پر استدلال کیا جاتا ہے۔<ref> طبرسی، اعلام الورى، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۰۷؛ شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۷، ص۴۸۲۔</ref> امام حسنؑ اپنی امامت کے ابتدائی مہینوں میں جس وقت آپ کوفہ میں تشریف رکھتے تھے، منصب خلافت پر بھی فائز تھے لیکن بعد میں معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد خلافت سے دستبردار ہوئے اور خلافت سے کنارہ کشی کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔


===انگوٹھی کا نقش===
===انگوٹھی کا نقش===
گمنام صارف