مندرجات کا رخ کریں

"سورہ انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 57: سطر 57:
<font color=green>{{عربی|وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ﴿٨٨﴾|ترجمہ=اور ذوالنون (مچھلی والے) کا (ذکر کیجئے) جب وہ خشمناک ہوکر چلے گئے اور وہ سمجھے کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے اندھیروں میں سے پکارا۔ تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ پاک ہے تیری ذات بےشک میں زیاں کاروں میں سے ہوں۔ ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں غم سے نجات دی اور ہم اسی طرح ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ }}</font>
<font color=green>{{عربی|وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ﴿٨٨﴾|ترجمہ=اور ذوالنون (مچھلی والے) کا (ذکر کیجئے) جب وہ خشمناک ہوکر چلے گئے اور وہ سمجھے کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے اندھیروں میں سے پکارا۔ تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ پاک ہے تیری ذات بےشک میں زیاں کاروں میں سے ہوں۔ ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں غم سے نجات دی اور ہم اسی طرح ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ }}</font>
</noinclude></div>
</noinclude></div>
اس سورت کی آیت نمبر 87 اور 88 کو [[نماز غفیلہ]] کی پہلی رکعت میں [[سورہ حمد]] کے بعد پڑھی جاتی ہے جس میں [[حضرت یونس]] کی داستان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین عبارت "فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَیہِ" کو حضرت یونس کی زبان سے نقل کرتے ہوئے یوں ترجمہ کرتے ہیں کہ "حضرت یونس کو گمان ہو رہا تھا کہ خدا ان پر تسلط ہونے کی قدرت نہیں رکھتا"؛ حالانکہ [[انبیاء]] سے ایسا گمان سرزد ہونا محال ہے اس بنا پر جملے کا صحیح ترجمہ [[شیعہ]] اور [[اہل‌سنت]] علماء کے نقطہ نظر سے یوں ہے کہ "حضرت یونس کو یہ گمان ہوا تھا کہ خدا آپ پر سختی نہیں کرینگے۔<ref>سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۳۳۲-۳۳۳؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۱ش، ج۷، ص۹۶۔</ref> علم اخلاق اور عرفان کے علماء آیت نمبر 88 میں موجود [[ذکر]] "{{حدیث|لَّا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَک إِنِّی کنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ}}" جو [[ذکر یونسیہ]] کے نام سے معروف ہے کی تاثیر پر تأکید کرتے ہوئے اس ذکر کے پڑھنے میں مداومت کرنے کو سیر و سلوک عرفانی میں راہ گشا قرار دیتے ہیں۔<ref>شیروانی، برنامہ سیر و سلوک در نامہ‌ہای سالکان، ۱۳۸۶ش، ص۲۲۵؛ مظاہری، سیر و سلوک، ۱۳۸۹ش، ص۱۱۴۔</ref>
اس سورت کی آیت نمبر 87 اور 88 کو [[نماز غفیلہ]] کی پہلی رکعت میں [[سورہ حمد]] کے بعد پڑھی جاتی ہے جس میں [[حضرت یونس]] کی داستان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین عبارت "فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَیہِ" کو حضرت یونس کی زبان سے نقل کرتے ہوئے یوں ترجمہ کرتے ہیں کہ "حضرت یونس کو گمان ہو رہا تھا کہ خدا ان پر مسلط ہونے کی قدرت نہیں رکھتا"؛ حالانکہ [[انبیاء]] سے ایسا گمان سرزد ہونا محال ہے اس بنا پر مذکورہ جملے کا صحیح ترجمہ [[شیعہ]] اور [[اہل‌سنت]] علماء کے نقطہ نظر سے یوں ہے کہ "حضرت یونس کو یہ گمان ہوا تھا کہ خدا ان پر سختی نہیں کرے گا۔<ref>سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۳۳۲-۳۳۳؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۱ش، ج۷، ص۹۶۔</ref> علم اخلاق اور عرفان کے علماء آیت نمبر 88 میں موجود [[ذکر]] "{{حدیث|لَّا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَک إِنِّی کنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ}}" جو [[ذکر یونسیہ]] کے نام سے معروف ہے کی تاثیر پر تأکید کرتے ہوئے اس ذکر کے پڑھنے میں مداومت کرنے کو سیر و سلوک عرفانی میں راہ گشا قرار دیتے ہیں۔<ref>شیروانی، برنامہ سیر و سلوک در نامہ‌ہای سالکان، ۱۳۸۶ش، ص۲۲۵؛ مظاہری، سیر و سلوک، ۱۳۸۹ش، ص۱۱۴۔</ref>


=== آیت نمبر 105 ===
=== آیت نمبر 105 ===
confirmed، templateeditor
8,265

ترامیم