مندرجات کا رخ کریں

"سورہ آل عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 108: سطر 108:
|ترجمہ= لوگو! تم ہرگز اس وقت تک نیکی (کو حاصل) نہیں کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔ اور تم (راہِ خدا میں) جو کچھ خرچ کرتے ہو خدا اس کو خوب جانتا ہے۔}}
|ترجمہ= لوگو! تم ہرگز اس وقت تک نیکی (کو حاصل) نہیں کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔ اور تم (راہِ خدا میں) جو کچھ خرچ کرتے ہو خدا اس کو خوب جانتا ہے۔}}
</noinclude>
</noinclude>
{{خاتمہ}}<!--
{{خاتمہ}}
واژه «بر» را در این آیه به معنای خیر وسیع و گسترده اعم از اعتقادی و عملی تعریف کرده‌اند<ref>طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج3، ص334.</ref> و مصادیق آن را [[بهشت]]، [[تقوا]]، بودن از صالحان،<ref>طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص792.</ref> [[ایمان]] و عمل پاک<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ش، ج3، ص3.</ref> دانسته‌اند. این آیه یکی از شرایط رسیدن به مقام نیکوکاران را [[انفاق]] از اموال مورد علاقه انسان می‌داند.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ش، ج3، ص3.</ref>  
اس آیت میں لفظ "بر" سے کثیر اور وسیع خیر مراد لیا گیا ہے چاہے اعتقادات سے مربوط ہوں یا عمل سے،<ref>طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج3، ص334.</ref> اور [[بہشت]]، [[تقوا]]، صالحین میں سے ہونا،<ref>طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص792.</ref> [[ایمان]] اور عمل صالح<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص3.</ref> کو اس کے مصادیق میں سے جانا گیا ہے۔ اس آیت میں پسندیدہ اموال میں سے خدا کی راہ میں [انفاق]] کرنے کو نیکوکاروں کے مقام و مرتبے تک پہچنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونهہ، 1371ش، ج3، ص3.</ref>  


[[پرونده:آیه اعتصام.jpg|بندانگشتی|آیه اعتصام به خط نستعلیق]]
[[ملف:آیه اعتصام.jpg|تصغیر|آیت اعتصام، خط نستعلیق میں]]
===آیه وحدت یا اعتصام (103)===
===آیت وحدت یا اعتصام (103)===
{{اصلی|آیه اعتصام}}
{{اصلی|آیت اعتصام}}
<div style="text-align: center;"><noinclude>
<div style="text-align: center;"><noinclude>
{{قرآن کا متن|وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّ‌قُوا ۚ وَاذْكُرُ‌وا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَ‌ةٍ مِّنَ النَّارِ‌ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾»<br />
{{قرآن کا متن|وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّ‌قُوا ۚ وَاذْكُرُ‌وا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَ‌ةٍ مِّنَ النَّارِ‌ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾»<br />
|ترجمه= و همگى به ريسمان خدا چنگ زنيد، و پراكنده نشويد و نعمت خدا را بر خود ياد كنيد: آنگاه كه دشمنان [يكديگر] بوديد، پس ميان دلهاى شما الفت انداخت، تا به لطف او برادران هم شديد؛ و بر كنار پرتگاه آتش بوديد كه شما را از آن رهانيد. اين گونه، خداوند نشانه‌هاى خود را براى شما روشن مى‌كند، باشد كه شما راه يابيد.|اندازه=100%}}
|ترجمہ= اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو اور اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے کہ تم آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت (فضل و کرم) سے بھائی بھائی ہوگئے۔ اور تم آگ کے بھرے ہوئے گڑھے (دوزخ) کے کنارے پر کھڑے تھے جو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔}}
</noinclude>
</noinclude>
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}<!--
مفسران محتوای اصلی این [[آیه]] را دعوت به اتحاد و مبارزه با هر گونه تفرقه میان مسلمانان دانسته‌اند.<ref>مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرهنگ‌نامه علوم قرآنی، 1394ش، ج1، ص 508؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ش، ج3، ص32.</ref> در این آیه [[خداوند]] برادری و محبت را راه نجات مسلمانان از لبه پرتگاهی از آتش معرفی می‌کند. منظور از آتش را در اینجا نه آتش دوزخ بلکه آتش جنگ و نزاع و خصومت‌های طولانی‌مدت قبیله [[اوس و خزرج]] قبل از اسلام می‌دانند که خداوند با [[اسلام]] و ایجاد الفت و برادری میان آن‌ها توانست این آتش را خاموش کند.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ش، ج3، ص32.</ref>
مفسران محتوای اصلی این [[آیه]] را دعوت به اتحاد و مبارزه با هر گونه تفرقه میان مسلمانان دانسته‌اند.<ref>مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرهنگ‌نامه علوم قرآنی، 1394ش، ج1، ص 508؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ش، ج3، ص32.</ref> در این آیه [[خداوند]] برادری و محبت را راه نجات مسلمانان از لبه پرتگاهی از آتش معرفی می‌کند. منظور از آتش را در اینجا نه آتش دوزخ بلکه آتش جنگ و نزاع و خصومت‌های طولانی‌مدت قبیله [[اوس و خزرج]] قبل از اسلام می‌دانند که خداوند با [[اسلام]] و ایجاد الفت و برادری میان آن‌ها توانست این آتش را خاموش کند.<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ش، ج3، ص32.</ref>


confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم