مندرجات کا رخ کریں

"سورہ آل عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 84: سطر 84:
[[علامہ طباطبایی]] فرماتے ہیں اس آیت میں [[اسلام]] سے مراد اس کے لغوی معنی لغوی ہے جو اور اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام [[الہی ادیان]] کا مقصد اور ہدف ایک ہی ہے اور وہ [[خدا]] کی اطاعت اور اس کی بندگی ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ج3، ص120و121.</ref> [[تفسیر نمونہ]] میں بھی اسلام سے مراد اطاعت اور تسليم لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خدا کے نزدیک بھی دین اور شریعت کی حقیقت خدا کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ اسی بنا پر [[پيغمبر اسلامؐ]] کی شریعت کو "اسلام" کہا جاتا ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے ادیان میں آخری اور سب سے پسندیدہ دین ہے ورنہ ایک طرح سے دیکھا جائے تو تمام الهی ادیان اسلام ہے۔<ref>مكارم شيرازى، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص470و471.</ref>
[[علامہ طباطبایی]] فرماتے ہیں اس آیت میں [[اسلام]] سے مراد اس کے لغوی معنی لغوی ہے جو اور اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام [[الہی ادیان]] کا مقصد اور ہدف ایک ہی ہے اور وہ [[خدا]] کی اطاعت اور اس کی بندگی ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ج3، ص120و121.</ref> [[تفسیر نمونہ]] میں بھی اسلام سے مراد اطاعت اور تسليم لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خدا کے نزدیک بھی دین اور شریعت کی حقیقت خدا کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ اسی بنا پر [[پيغمبر اسلامؐ]] کی شریعت کو "اسلام" کہا جاتا ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے ادیان میں آخری اور سب سے پسندیدہ دین ہے ورنہ ایک طرح سے دیکھا جائے تو تمام الهی ادیان اسلام ہے۔<ref>مكارم شيرازى، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص470و471.</ref>


=== آیه مُلک (26) ===
=== آیت مُلک (26) ===
{{اصلی|آیت ملک}}
{{اصلی|آیت ملک}}
<div style="text-align: center;"><noinclude>
<div style="text-align: center;"><noinclude>
سطر 90: سطر 90:
|ترجمہ= (اے رسول(ص)!) کہو: اے خدا تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، ہر قسم کی بھلائی تیرے قبضہ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ }}
|ترجمہ= (اے رسول(ص)!) کہو: اے خدا تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، ہر قسم کی بھلائی تیرے قبضہ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ }}
</noinclude>
</noinclude>
{{خاتمہ}}<!--
{{خاتمہ}}
اس آیت میں خدا کی مالکیت سے مراد خدا کی قدرت ہے جس کے تحت خدا کائنات میں ہر طرح کی تصرف کر سکتا ہے۔<ref>مغنیہ، الکاشف، 1424ق، ج2، ص36-37.</ref> [[مفسرین]] صدر اسلام کے مسلمانوں کو اس جملے {{قرآن کا متن|تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ}} کا مصداق قرار دیتے ہیں جنہوں نے اسلام کی دعوت کو قبول کر کے اسلامی احکام پر عمل پیرا ہوئے جس کے نتیجے میں خدا نے ان کو حکومت، استحکام اور عزت عطا فرمائی اسی طرح [[مشرکین]]، [[رومیوں]] اور [[ایرانیان]]  کو جملہ {{قرآن کا متن|وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ}} کا مصداق قرار دیتے ہیں اور ان کے اس نافرمانی کی وجه سے خدا نے ان کو کمزور فرمایا اور ان کی عزت ان سے لے لئے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص727-728؛ مغنیه، الکاشف، 1424ق، ج2، ص37.</ref> بنابراین گرفتن قدرت از زورمندان و دادن آن به ضعیفان را نشانه قدرت خداوند دانسته‌اند.<ref>مغنیه، الکاشف، 1424ق، ج2، ص37.</ref>
اس آیت میں خدا کی مالکیت سے خدا کی قدرت مراد ہے جس کے تحت خدا کائنات میں ہر طرح کی تصرف کر سکتا ہے۔<ref>مغنیہ، الکاشف، 1424ق، ج2، ص36-37.</ref> [[مفسرین]]، صدر اسلام کے مسلمانوں کو اس جملے {{قرآن کا متن|تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ}} کا مصداق قرار دیتے ہیں جنہوں نے اسلام کی دعوت کو قبول کر کے اسلامی احکام پر عمل پیرا ہوئے جس کے نتیجے میں خدا نے ان کو حکومت، استحکام اور عزت عطا فرمائی اسی طرح [[مشرکین]]، [[رومیوں]] اور [[ایرانیان]]  کو جملہ {{قرآن کا متن|وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ}} کا مصداق قرار دیتے ہیں اور ان کے اس نافرمانی کی وجه سے خدا نے ان کو کمزور فرمایا اور ان کی عزت ان سے لے لئے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص727-728؛ مغنیہ، الکاشف، 1424ق، ج2، ص37.</ref> اس بنا پر طاقتوروں سے ان کی قدرت اور توانائی کو سلب کر کے اسے کمزوروں کو عطا کرنا خدا کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔<ref>مغنیہ، الکاشف، 1424ق، ج2، ص37.</ref>
[[پرونده:آیه مباهله (آل عمران 61).jpg|180px|بندانگشتی|آیه مباهله]]
[[ملف:آیه مباهله (آل عمران 61).jpg|180px|تصغیر|آیه مباہلہ]]


===آیه مباهله(61)===
===آیت مباہلہ(61)===
{{اصلی|آیه مباهله}}
{{اصلی|آیت مباہلہ}}
<div style="text-align: center;"><noinclude>
<div style="text-align: center;"><noinclude>
{{قرآن کا متن|فَمَنْ حَاجَّكَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَ أَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل‌لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَی الْكَاذِبِینَ ﴿61﴾»<br />
{{قرآن کا متن|فَمَنْ حَاجَّكَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَ أَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل‌لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَی الْكَاذِبِینَ ﴿61﴾»<br />
|ترجمه= بنابراین پس از فرارسیدن علم [وحی] به تو، هر کس درباره او [حضرت عیسی(ع)]، با تو به چالش برخیزد، به او بگو: بیایید تا فرزندانمان و فرزندانتان و زنانمان و زنانتان و جان‌هایمان و جان‌هایتان را فراخوانیم، آنگاه (به درگاه خداوند) زاری [تضرّع] کنیم تا لعنت خداوند را بر دروغگویان نهیم.|اندازه=100%}}
|ترجمہ= (اے پیغمبر(ص)) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔}}
</noinclude>
</noinclude>
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
 
<!--
دانشمندان فرقه‌های مختلف اسلامی در نوشته‌های [[کلام|کلامی]]، [[تفسیر|تفسیری]]، تاریخی و [[فقه|فقهی]]ِ، از [[آیه مباهله]] گفتگو کرده‌اند.<ref>الغفوری، «خوانش فقهی جدیدی از آیهٔ مباهله»، ص48.</ref> مفسران [[شیعه]] و برخی از مفسران [[اهل سنت]] این آیه را از فضائل [[امام علی(ع)]] و [[اهل بیت(ع)]] دانسته‌اند.<ref>زمخشری، الکشاف، 1407ق، ج1، ص369؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج8، ص247؛ بیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التأویل، 1418ق، ج2، ص21.</ref> در این آیه [[امام علی (ع)]] به منزلهٔ نَفْس و جان [[پیامبر(ص)]] معرفی شده است.<ref>صادقی تهرانی، الفرقان، 1406ق، ج5، ص168.</ref> [[امام رضا(ع)]] این آیه را بزرگترین فضیلت حضرت علی(ع) در [[قرآن]] معرفی کرده است.<ref>مفید، الفصول المختاره، 1414ق، ص38.</ref>
دانشمندان فرقه‌های مختلف اسلامی در نوشته‌های [[کلام|کلامی]]، [[تفسیر|تفسیری]]، تاریخی و [[فقه|فقهی]]ِ، از [[آیه مباهله]] گفتگو کرده‌اند.<ref>الغفوری، «خوانش فقهی جدیدی از آیهٔ مباهله»، ص48.</ref> مفسران [[شیعه]] و برخی از مفسران [[اهل سنت]] این آیه را از فضائل [[امام علی(ع)]] و [[اهل بیت(ع)]] دانسته‌اند.<ref>زمخشری، الکشاف، 1407ق، ج1، ص369؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج8، ص247؛ بیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التأویل، 1418ق، ج2، ص21.</ref> در این آیه [[امام علی (ع)]] به منزلهٔ نَفْس و جان [[پیامبر(ص)]] معرفی شده است.<ref>صادقی تهرانی، الفرقان، 1406ق، ج5، ص168.</ref> [[امام رضا(ع)]] این آیه را بزرگترین فضیلت حضرت علی(ع) در [[قرآن]] معرفی کرده است.<ref>مفید، الفصول المختاره، 1414ق، ص38.</ref>


confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم