"علم کلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←کلام جدید
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 114: | سطر 114: | ||
==کلام جدید== | ==کلام جدید== | ||
کلام جدید کی ماہیت اور اس بارے میں کہ کیا وہ کلام قدیم (کلام اسلامی) سے مکمل طور الگ اور مختلف ہے یا نہیں؟، اس سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض کا یہ ماننا ہے کہ کلام جدید وہی کلام قدیم ہے، اس فرق کے ساتھ کہ جدید شبہات و مسائل اس علم میں بیان ہوئے ہیں یا اس کے قالب اور موضوع میں ایک تبدیلی و انقلاب ایجاد کیا گیا ہے؛ البتہ بعض دیگر علماء ان دونوں علوم کو ایک دوسرے مکمل الگ مانتے ہیں<ref>ملاحظہ کیجیے: خسرو پناہ، مسائل جدید کلامی و فلسفہ دین، 1388شمسی، ص23 تا 30؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، | کلام جدید کی ماہیت اور اس بارے میں کہ کیا وہ کلام قدیم (کلام اسلامی) سے مکمل طور الگ اور مختلف ہے یا نہیں؟، اس سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض کا یہ ماننا ہے کہ کلام جدید وہی کلام قدیم ہے، اس فرق کے ساتھ کہ جدید شبہات و مسائل اس علم میں بیان ہوئے ہیں یا اس کے قالب اور موضوع میں ایک تبدیلی و انقلاب ایجاد کیا گیا ہے؛ البتہ بعض دیگر علماء ان دونوں علوم کو ایک دوسرے مکمل الگ مانتے ہیں<ref>ملاحظہ کیجیے: خسرو پناہ، مسائل جدید کلامی و فلسفہ دین، 1388شمسی، ص23 تا 30؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص143۔</ref> اور ایک خاص دینی التزام اور جانبدارانہ نظریات کو کلام قدیم کی خصوصیات میں شمار کرتے ہیں۔<ref> یوسفیان، کلام جدید، 1390شمسی، ص15و16۔</ref> | ||
دوسری طرف کہا گیا ہے کہ جس چیز کو فارسی زبان میں کلام جدید کہا جاتا ہے غالباً وہی چیز ہے جسے مغربی ممالک میں فلسفہ دین کا نام دیتے ہیں۔<ref> یوسفیان، کلام جدید، 1390شمسی، ص18۔</ref> جو مباحث کلام جدید میں بیان ہوتے ہیں وہ اکثر اس طرح سے ہیں: تعریف دین، سرچشمہ دین، ضرورت دین، دائرہ دین، زبان دین، عقل و دین، عقل و ایمان، علم و دین، تجربہ دینی، تکثر گرایی دینی۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر کلام جدید، 1389شمسی، فہرست کتاب۔</ref> | دوسری طرف کہا گیا ہے کہ جس چیز کو فارسی زبان میں کلام جدید کہا جاتا ہے غالباً وہی چیز ہے جسے مغربی ممالک میں فلسفہ دین کا نام دیتے ہیں۔<ref> یوسفیان، کلام جدید، 1390شمسی، ص18۔</ref> جو مباحث کلام جدید میں بیان ہوتے ہیں وہ اکثر اس طرح سے ہیں: تعریف دین، سرچشمہ دین، ضرورت دین، دائرہ دین، زبان دین، عقل و دین، عقل و ایمان، علم و دین، تجربہ دینی، تکثر گرایی دینی۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر کلام جدید، 1389شمسی، فہرست کتاب۔</ref> |