"علم کلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
اصلاح نشانی وب، عدد انگلیسی
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (اصلاح نشانی وب، عدد انگلیسی) |
||
سطر 4: | سطر 4: | ||
اس علم کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ صدر اسلام سے ہی اس کا آغاز ہوگیا تھا اور اس کا پہلا مسئلہ [[جبر و اختیار]] تھا۔ صفات خداوند، خاص طور پر [[توحید]] و [[عدل الہی]]، مسئلہ [[حسن و قبح]]ِ افعال، [[قضا و قدر]]، [[نبوت]]، [[معاد]] اور [[امامت]] علم کلام کے اہم ترین مباحث میں سے ہیں۔ | اس علم کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ صدر اسلام سے ہی اس کا آغاز ہوگیا تھا اور اس کا پہلا مسئلہ [[جبر و اختیار]] تھا۔ صفات خداوند، خاص طور پر [[توحید]] و [[عدل الہی]]، مسئلہ [[حسن و قبح]]ِ افعال، [[قضا و قدر]]، [[نبوت]]، [[معاد]] اور [[امامت]] علم کلام کے اہم ترین مباحث میں سے ہیں۔ | ||
علم کلام کے مباحث میں اختلاف رائے کے بموجب [[دین اسلام]] میں متعدد کلامی فرقے ظہور پذیر ہوئے۔ [[شیعوں]] کے اہم ترین کلامی فرقے [[امامیہ]]، [[زیدیہ]]، [[اسماعیلیہ]]، [[کیسانیہ]] کہلاتے ہیں جبکہ [[اہل سنت]] کے اہم ترین کلامی فرقے [[مُرجئہ]]، [[اہل حدیث]]، [[اشاعرہ]]، [[ماتُریدیہ]] اور [[وہابیت]] ہیں۔ [[شیخ مفید]] (متوفیٰ: | علم کلام کے مباحث میں اختلاف رائے کے بموجب [[دین اسلام]] میں متعدد کلامی فرقے ظہور پذیر ہوئے۔ [[شیعوں]] کے اہم ترین کلامی فرقے [[امامیہ]]، [[زیدیہ]]، [[اسماعیلیہ]]، [[کیسانیہ]] کہلاتے ہیں جبکہ [[اہل سنت]] کے اہم ترین کلامی فرقے [[مُرجئہ]]، [[اہل حدیث]]، [[اشاعرہ]]، [[ماتُریدیہ]] اور [[وہابیت]] ہیں۔ [[شیخ مفید]] (متوفیٰ:413ھ)، [[خواجہ نصیر الدین طوسی]](متوفیٰ: 672ھ) اور [[علامہ حلی]](متوفیٰ:726ھ) مذہب امامیہ کے سرخیل [[متکلمین]] میں شمار ہوتے ہیں اور قاضی عبد الجبار معتزلی، [[ابوالحسن اشعری]]، ابو حامد غزالی اور فخر رازی [[اہل سنت]] کے مشہور متکلمین میں سے ہیں۔کتاب [[تصحیح الاعتقاد (کتاب)|تصحیح الاعتقاد]]، [[تجرید الاعتقاد (کتاب)|تجرید الاعتقاد]] اور [[کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد (کتاب)|کشف المراد]] شیعہ کلامی کتب شمار ہوتی ہیں اور "شرح الاصول الخمسہ"، "شرح المقاصد" اور "شرح المواقف" اہل سنت کے کلامی آثار میں سے ہیں۔ | ||
کلام جدید ایسا علم ہے جس میں علم کلام (قدیم) سے ہم آہنگ یا اس سے مختلف ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ علم کلام جدید کے کچھ مباحث یہ ہیں: تعریف علم کلام جدید، منشا و منبع کلام جدید، دین کی زبان اور اس کا قلمرو، بشریت کے لئے دین کی ضرورت، [[عقل]] و [[دین]]، عقل و [[ایمان]]، علم (سائنس) اور دین اور مذہبی تجربہ اور تکثر گرائی دینی۔ | کلام جدید ایسا علم ہے جس میں علم کلام (قدیم) سے ہم آہنگ یا اس سے مختلف ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ علم کلام جدید کے کچھ مباحث یہ ہیں: تعریف علم کلام جدید، منشا و منبع کلام جدید، دین کی زبان اور اس کا قلمرو، بشریت کے لئے دین کی ضرورت، [[عقل]] و [[دین]]، عقل و [[ایمان]]، علم (سائنس) اور دین اور مذہبی تجربہ اور تکثر گرائی دینی۔ | ||
==تعریف و نام== | ==تعریف و نام== | ||
علم کلام اسلامی علوم کا وہ حصہ ہے جس میں [[عقائد|اسلامی عقائد]] {{نوٹ| یعنی دینی تعلیمات و مسائل جن کی شناخت کرنے کے بعد ان پر دل سے [[ایمان]] لایا جائے، جیسے مسئلہ [[توحید]]، صفات ذات باری تعالی، [[نبوت عامہ|نبوّت عامّہ]] و [[نبوت خاصہ|خاصّہ]] وغیرہ۔ (مجموعہ آثار، | علم کلام اسلامی علوم کا وہ حصہ ہے جس میں [[عقائد|اسلامی عقائد]] {{نوٹ| یعنی دینی تعلیمات و مسائل جن کی شناخت کرنے کے بعد ان پر دل سے [[ایمان]] لایا جائے، جیسے مسئلہ [[توحید]]، صفات ذات باری تعالی، [[نبوت عامہ|نبوّت عامّہ]] و [[نبوت خاصہ|خاصّہ]] وغیرہ۔ (مجموعہ آثار، ج3، ص57)}}کے بارے میں بحث ہوتی ہے؛<ref> مطہری، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص57.</ref> اس طرح سے کہ اس میں ان عقائد کی وضاحت کی جاتی ہے اور ان کا دفاع کیا جاتا ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص57.</ref> بعض محققین کیے مطابق یہ علم کلام کی بہترین تعریف ہے؛ کیونکہ اس میں علم کلام کا موضوع، ہدف اور روش سب کا احاطہ کیا ہوا ہے، اس تعریف میں نہ صرف کلامی کا دفاعی پہلو بلکہ اس کے اثباتی پہلو کو بھی مد نظررکھا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص61 تا 64؛ جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص39ـ40.</ref> البتہ اس کی دوسری تعریفیں بھی بیان ہوئی ہیں، جن میں سے ہر ایک میں اس کی خصوصیت کو بیان کیا گیا ہے۔<ref> علم کلام کی دیگر تعاریف سے آگاہی کے لیے رجوع کیجیے: ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص61. کاشفی، کلام شیعہ، ص24.</ref> مثال کے طور کسی نے علم کلام کی تعریف یوں کی ہے: علم کلام ایک نظری علم ہے جس کی مدد سے دینی عقائد کو استدلال کے ساتھ اثبات کیا جا سکتا ہے۔<ref> ایجی، المواقف، عالم الکتب، ص7. با اندکی تفاوت: لاہیجی، شوارق الالہام، 1425ھ، ج1، ص51.</ref> یا ایسا علم ہے جس میں ذات و صفات و افعال خداوند سے بحث ہوتی ہے۔<ref> جرجانی، التعریفات، 1370شمسی، ص80.</ref> زمخشری نے علم کلام کو فقہ اکبر کے نام سے یاد کیا ہے۔<ref>زمخشری، کشاف٬ ج1، ص87</ref> [[محمد محسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے اپنی کتاب "مفاتیح الشرایع" میں علم کلام سیکھنے کو قلبی اطاعت گزاری کے لحاظ سے مستھب عمل ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اہل [[بدعت]] کو جواب دینا میسر ہوتا ہے۔<ref>فیض کاشانی، مفاتیح الشرایع، ج2، ص16.</ref> | ||
* '''نام اور وجہ تسمیہ''' | * '''نام اور وجہ تسمیہ''' | ||
سطر 34: | سطر 34: | ||
== تاریخچہ، عوامل پیدائش اور توسیع == | == تاریخچہ، عوامل پیدائش اور توسیع == | ||
علم کلام کے تاریخچہ کے بارے میں [[ابن ابی الحدید]] کا کہنا ہے کہ علم کلام اور عقائد جو کہ اعلیٰ ترین علوم میں سے ہیں، [[امام علیؑ]] کے کلام سے اخذ کیے گیے ہے۔<ref>ابن أبي الحديد، شرح نہج البلاغہ، | علم کلام کے تاریخچہ کے بارے میں [[ابن ابی الحدید]] کا کہنا ہے کہ علم کلام اور عقائد جو کہ اعلیٰ ترین علوم میں سے ہیں، [[امام علیؑ]] کے کلام سے اخذ کیے گیے ہے۔<ref>ابن أبي الحديد، شرح نہج البلاغہ، 1383شمسی، ج1، ص17.</ref> محقق اربلی نے یہ بھی صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے رہنماؤں؛ یعنی [[اشاعرہ]]، [[معتزلہ]]، [[شیعہ]] اور [[خوارج]] سب علم کلام کے آغاز کو امام علیؑ سے منسوب کرتے ہیں۔<ref>اربلی، كشف الغمّہ في معرفة الأئمة، 1381ھ، ج1، ص131.</ref> | ||
مشہور نظریہ یہ ہے<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص109.</ref> کہ [[اسلامی]] فتوحات اور حکومت اسلامی کے قلمرو میں پھیلاؤ کے بعد [[مسلمانوں]] کا دوسرے ادیان و مذاہب کے افراد کے ساتھ آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا جس سے دوسرے ادیان و مذاہب کے آرا و نظریات وسیع سطح سطح پر پھیل گئے۔ لہذا مسلمانوں نے اپنے عقائد و نظریات کے دفاع اور اعتقادی اعتراضات و شہبات کے جواب کے لئے علم کلام کے مباحث اور روشوں کو رونق بخشی اور یہی چیزعلم کلام کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔<ref> شبلی، تاریخ علم کلام، 1386شمسی، ص8.</ref> | مشہور نظریہ یہ ہے<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص109.</ref> کہ [[اسلامی]] فتوحات اور حکومت اسلامی کے قلمرو میں پھیلاؤ کے بعد [[مسلمانوں]] کا دوسرے ادیان و مذاہب کے افراد کے ساتھ آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا جس سے دوسرے ادیان و مذاہب کے آرا و نظریات وسیع سطح سطح پر پھیل گئے۔ لہذا مسلمانوں نے اپنے عقائد و نظریات کے دفاع اور اعتقادی اعتراضات و شہبات کے جواب کے لئے علم کلام کے مباحث اور روشوں کو رونق بخشی اور یہی چیزعلم کلام کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔<ref> شبلی، تاریخ علم کلام، 1386شمسی، ص8.</ref> | ||
سطر 70: | سطر 70: | ||
===علم کلام اور فلسفہ میں فرق اور تعلق=== | ===علم کلام اور فلسفہ میں فرق اور تعلق=== | ||
اگرچہ ان دونوں علوم میں عقلی مسائل پر بحث ہوتی ہے لیکن ان کے مابین کچھ اہم اختلافات بھی ہیں۔ اس بارے میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں لیکن آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر خدا اور دنیا جس کا ہم بھی حصہ ہیں، کے بارے میں آزادانہ طور پر بحث کی جائے اور اس میں کوئی دینی ہونے یا نہ ہونے کی شرط نہیں رکھی جائے جس کا نتیجہ لازمی طور پر یہ نکلے کہ یہ بحثیں کسی دین یا مذہب سے متفق ہو یا نہ تو اس نوعیت کی بحث کو فلسفیانہ بحث کہتے ہیں۔ لیکن اگر مفکر اس بات کا پابند ہو اور مذہب کو مخالفین سے محفوظ رکھے اور استدلال میں دین کی حرمت کو نہ چھوڑے تو اس طرح کی بحث و تحقیق کلامی بحثیں شمار ہونگی۔<ref>حلبی، تاريخ علم كلام در ايران و جہان، | اگرچہ ان دونوں علوم میں عقلی مسائل پر بحث ہوتی ہے لیکن ان کے مابین کچھ اہم اختلافات بھی ہیں۔ اس بارے میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں لیکن آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر خدا اور دنیا جس کا ہم بھی حصہ ہیں، کے بارے میں آزادانہ طور پر بحث کی جائے اور اس میں کوئی دینی ہونے یا نہ ہونے کی شرط نہیں رکھی جائے جس کا نتیجہ لازمی طور پر یہ نکلے کہ یہ بحثیں کسی دین یا مذہب سے متفق ہو یا نہ تو اس نوعیت کی بحث کو فلسفیانہ بحث کہتے ہیں۔ لیکن اگر مفکر اس بات کا پابند ہو اور مذہب کو مخالفین سے محفوظ رکھے اور استدلال میں دین کی حرمت کو نہ چھوڑے تو اس طرح کی بحث و تحقیق کلامی بحثیں شمار ہونگی۔<ref>حلبی، تاريخ علم كلام در ايران و جہان، 1376شمسی، ص7</ref> بعض مفکرین کا خیال ہے کہ کلامی مباحث کی ترقی اور وسعت کے ساتھ، کلام میں بہت سے فلسفیانہ مسائل شامل ہوئے، جیسے جواہر، اعراض اور ترکیب جسم از اجزاء کی بحث وغیرہ؛ اس کے نتیجے میں بہت سے مسائل جو کہ [[فلسفہ]] کے دائرے میں تھے وہ بھی علم کلام کے دائرے میں داخل ہوئے اور یہ اس حد تک شامل ہو گئے کہ اگر کوئی علم کلام کی کتابوں کا مطالعہ کرے- خاص کر علم کلام کی وہ کتابیں جو ساتویں صدی ہجری کے بعد لکھی گئیں- تو اسے معلوم ہوگا کہ زیادہ تر اسلامی کلامی مسائل وہی ہیں جو فلسفیوں نے - خاص طور پر اسلامی فلسفیوں نے اپنی کتابوں میں بیان کیے ہیں۔<ref>مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص60-61.</ref> دوسرے بعض مفکرین کا خیال ہے کہ فلسفہ اور علم کلام کے درمیان بنیادی فرق ان کے اصولوں اور مبانی کے لحاظ سے ہے۔ بعبارت دیگر "فلسفہ" کے مسائل عقلی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اصول اور مبانی بھی عقلی ہیں، لیکن اگر علم کلام میں اگرچہ مسائل عقلی ہوں، اس کے اصول اور مبانی [[وحی]] سے ماخوذ ہیں اور اس کا مقصد وحی کے مسائل اور عقیدتی اصول ثابت کرنا ہے؛ یعنی یہ وحی اور اس کی فرعی چیزوں کو مسلّمہ مانتا ہے اور انہیں ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن فلسفہ، اس کی اپنی تعریف کے مطابق، اپنے اصولوں اور مبانی کو عقل سے لیتا ہے اور کسی ایسی چیز کو فرض نہیں کرتا جس میں عقلی لحاظ سے مسلمہ نہ ہو۔ البتہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ فلسفی معتقد نہ ہے۔ فلسفہ اور کلام میں بنیادی فرق دراصل یہ ہے کہ کلام میں وحی کا التزام ہوتا ہے جبکہ فلسفہ میں اسی کا عدم التزام ہے۔ لیکن اس التزام کے معنی اعتقاد نہیں ہے۔<ref>.http://www.buali.ir/fa/article/394/ | ||
</ref> | </ref> | ||
سطر 100: | سطر 100: | ||
[[اشاعرہ]] ابو الحسن علی اشعری <small>(260-324 ھ)</small> کے ماننے والوں کو کہا جاتا ہے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص86.</ref> اشاعرہ متون دینی میں استعمال ہونے والی صفات خداوند کی [[تاویل]] کو قبول نہیں کرتے ہیں جیسے ید اللہ (اللہ کے ہاتھ) اوروجہ اللہ (اللہ کا چہرا) کا مطلب ہے اللہ کے ہاتھ اور چہرہ ہیں؛لیکن اس کی کیفیت کے بارے مٰں ہم نہیں جانتے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص91-92.</ref> اشاعرہ اسی طرح سے جبر و اختیار کے مسئلہ میں نطریہ کسب کا قائل ہیں جو جبر و اختیار کا درمیانی راستہ ہے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص88-89.</ref> | [[اشاعرہ]] ابو الحسن علی اشعری <small>(260-324 ھ)</small> کے ماننے والوں کو کہا جاتا ہے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص86.</ref> اشاعرہ متون دینی میں استعمال ہونے والی صفات خداوند کی [[تاویل]] کو قبول نہیں کرتے ہیں جیسے ید اللہ (اللہ کے ہاتھ) اوروجہ اللہ (اللہ کا چہرا) کا مطلب ہے اللہ کے ہاتھ اور چہرہ ہیں؛لیکن اس کی کیفیت کے بارے مٰں ہم نہیں جانتے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص91-92.</ref> اشاعرہ اسی طرح سے جبر و اختیار کے مسئلہ میں نطریہ کسب کا قائل ہیں جو جبر و اختیار کا درمیانی راستہ ہے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375شمسی، ج1، ص88-89.</ref> | ||
[[ماتردیہ]] فرقہ کے بانی ابو منصور ماتریدی <small>(متوفیٰ: | [[ماتردیہ]] فرقہ کے بانی ابو منصور ماتریدی <small>(متوفیٰ: 333ھ)</small> ہیں۔ یہ بھی مذہب اشعری کی طرح ایک ایسی راہ کی فکر میں تھے جو اہل حدیث و معتزلہ کے درمیانی راستہ ہو۔ ماتردیہ عقل کو معتبر مانتے ہیں اور اصول عقائد کے کشف و دریافت کے لئے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ مذہب [[حسن و قبح]] افعال کو قبول کرتا ہے۔ انسان کے ارادہ کو کام کے انجام دینے میں دخیل مانتا ہے اور رویت خداوند کو ممکن مانتا ہے۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص136تا141.</ref> | ||
[[وہابیت]] کی بنیاد [[محمد بن عبد الوہاب]] <small>(متوفی: 1206 ھ)</small> کے ہاتھوں رکھی گئی۔ وہابی دیگر [[مسلمانوں]] کو [[عبادت]] میں [[شرک]] اور دین میں [[بدعت]] پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، فرق و مذاہب کلامی، 1377شمسی، ص175و176.</ref> وہابی تعلیمات کے مطابق، اولیائے الہی سے [[توسل]] کرنا، ان سے [[شفاعت]] طلب کرنا، قبر پیغمبر(ص) و [[اہل بیتؑ]] کی [[زیارت]] کے قصد سے سفر کرنا، اولیائے الہی کے آثار کا [[تبرک]] کرنا اور ان سے شفا طلب کرنا، اولیائے الہی کی قبروں کی زیارت یا انہیں تعمیر کرنا، ان کی قبروں کے پاس [[مسجد]] تعمیر کرنا اور اہل قبور کے لئے نذر کرنا ۔۔۔ سارے کے سارے [[شرک]] ہیں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص146تا147.</ref> | [[وہابیت]] کی بنیاد [[محمد بن عبد الوہاب]] <small>(متوفی: 1206 ھ)</small> کے ہاتھوں رکھی گئی۔ وہابی دیگر [[مسلمانوں]] کو [[عبادت]] میں [[شرک]] اور دین میں [[بدعت]] پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، فرق و مذاہب کلامی، 1377شمسی، ص175و176.</ref> وہابی تعلیمات کے مطابق، اولیائے الہی سے [[توسل]] کرنا، ان سے [[شفاعت]] طلب کرنا، قبر پیغمبر(ص) و [[اہل بیتؑ]] کی [[زیارت]] کے قصد سے سفر کرنا، اولیائے الہی کے آثار کا [[تبرک]] کرنا اور ان سے شفا طلب کرنا، اولیائے الہی کی قبروں کی زیارت یا انہیں تعمیر کرنا، ان کی قبروں کے پاس [[مسجد]] تعمیر کرنا اور اہل قبور کے لئے نذر کرنا ۔۔۔ سارے کے سارے [[شرک]] ہیں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389شمسی، ص146تا147.</ref> | ||
سطر 112: | سطر 112: | ||
*[[اشاعرہ]]: ابو الحسن اشعری، کتاب: مقالات الاسلامیّین۔<ref> ضمیری، کتاب شناسی تفصیلی مذاہب اسلامی، 1382شمسی، ص284۔</ref> قاضی ابوبکر باقِلانی، کتاب: تمہید الاَوائِل، ابو حامد غزالی، کتاب: الاقتصاد فی الاعتقاد، فخر الدین رازی، کتاب: المُحَصَّل الاَربعین فی اصول الدین، سعد الدین تفتازانی، کتاب: شرح المقاصد۔ | *[[اشاعرہ]]: ابو الحسن اشعری، کتاب: مقالات الاسلامیّین۔<ref> ضمیری، کتاب شناسی تفصیلی مذاہب اسلامی، 1382شمسی، ص284۔</ref> قاضی ابوبکر باقِلانی، کتاب: تمہید الاَوائِل، ابو حامد غزالی، کتاب: الاقتصاد فی الاعتقاد، فخر الدین رازی، کتاب: المُحَصَّل الاَربعین فی اصول الدین، سعد الدین تفتازانی، کتاب: شرح المقاصد۔ | ||
*ماتُریدیہ: ابو منصور ماتُریدی، کتاب: التوحید۔ | *ماتُریدیہ: ابو منصور ماتُریدی، کتاب: التوحید۔ | ||
*[[سلفیہ]]: [[ابن تیمیہ]]، کتاب: مِنہاج السّنۃ النبویہ۔<ref>[http://hawzeh.thaqalain.ir/ | *[[سلفیہ]]: [[ابن تیمیہ]]، کتاب: مِنہاج السّنۃ النبویہ۔<ref>[http://hawzeh.thaqalain.ir/فهرستی-از-مهمترین-منابع-دست-اول-کلام/#دوره+کلام+معتزلی حسینیان، «فهرستی از مهمترین منابع دستاول کلامی».]</ref> | ||
==کلام جدید== | ==کلام جدید== | ||
سطر 136: | سطر 136: | ||
{{مآخذ}} | {{مآخذ}} | ||
* اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، تصحیح: | * اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، تصحیح: هلموت ریتر، بیروت، دارالنشر و فرانز شتاینر، [بیتا]. | ||
* ایجی، | * ایجی، عضدالدین عبدالرحمان بن احمد، المواقف فی علم الکلام، بیروت، عالم الکتب، [بیتا]. | ||
* بحرانی، ابن میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، تحقیق: علی حسینی اشکوری، قم، مکتبة | * بحرانی، ابن میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، تحقیق: علی حسینی اشکوری، قم، مکتبة آیتالله العظمی المرعشی النجفی، 1406ق. | ||
* برنجکار، رضا، آشنایی با فرق و | * برنجکار، رضا، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، قم، کتاب طه، چ4، 1389ش. | ||
* تاریخ | * تاریخ فلسفه در اسلام، به کوشش: میرمحمد شریف، ترجمه فارسی: زیر نظر نصرالله پورجوادی، تهران، مرکز نشر دانشگاهی، 1362ش. | ||
* تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، تحقیق: | * تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، تحقیق: عبدالرحمن عمیره، قم، الشریف الرضی، 1412ق. | ||
* جبرئیلی، | * جبرئیلی، محمدصفر، سیر تطور کلام شیعه، دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجه نصیر طوسی، تهران، انتشارات پژوهشگاه فرهنگ و اندیشه اسلامی، 1396ش. | ||
* حسینیان، | * [http://hawzeh.thaqalain.ir/%D9%81%D9%87%D8%B1%D8%B3%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D8%B2-%D9%85%D9%87%D9%85%E2%80%8C%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D9%85%D9%86%D8%A7%D8%A8%D8%B9-%D8%AF%D8%B3%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D9%84-%DA%A9%D9%84%D8%A7%D9%85/#%D8%AF%D9%88%D8%B1%D9%87+%DA%A9%D9%84%D8%A7%D9%85+%D9%85%D8%B9%D8%AA%D8%B2%D9%84%DB%8C حسینیان، «فهرستی از مهمترین منابع دستاول کلامی»، وبگاه ثقلین، تاریخ درج مطلب: 2 بهمن 1395، تاریخ بازدید: 13 دی 1399.] | ||
* | * خسروپناه، عبدالحسین، مسائل جدید کلامی و فلسفه دین، قم، انتشارات بین المللی المصطفی، چ1، 1388ش. | ||
* ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بر علم کلام، قم، | * ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بر علم کلام، قم، دارالفکر، چ1، 1387ش. | ||
* ربانی گلپایگانی، علی، فرق و | * ربانی گلپایگانی، علی، فرق و مذاهب کلامی، قم، مرکز جهانی علوم اسلامی، چ1، 1377ش. | ||
* ربانی گلپایگانی، علی، کلام تطبیقی (توحید، صفات و عدل | * ربانی گلپایگانی، علی، کلام تطبیقی (توحید، صفات و عدل الهی)، قم، انتشارات مرکز جهانی علوم اسلامی، چ1، 1383ش. | ||
* ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بر کلام جدید، قم، مرکز نشر | * ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بر کلام جدید، قم، مرکز نشر هاجر، چ5، 1389ش. | ||
* سبحانی، جعفر، بحوثٌ فی الملل و النحل، قم، | * سبحانی، جعفر، بحوثٌ فی الملل و النحل، قم، مؤسسه امام صادق، چاپ اول، 1427ق. | ||
* شبلی نعمانی، تاریخ علم کلام، | * شبلی نعمانی، تاریخ علم کلام، ترجمه سیدمحمدتقی فخر داعی، تهران، اساطیر، چ1، 1386ش. | ||
* | * شهرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد بن فتحالله بدران، قم، الشریف الرضی، 1375ش. | ||
* شیخ | * [[شیخ صدوق]]، علی بن محمد، الاعتقادات، تحقیق: علی میرشریفی و عصام عبدالسید، قم، کنگره شیخ مفید، [بیتا]. | ||
* ضمیری، | * ضمیری، محمدرضا، کتابشناسی تفصیلی مذاهب اسلامی، قم، مؤسسه آموزشیپژوهشی مذاهب اسلامی، چاپ اول، 1382ش. | ||
* صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، | * صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، تهران، انتشارات سمت، چ5، 1388ش. | ||
* طباطبایی، سید | * طباطبایی، سید محمدحسین، شیعه در اسلام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1383ش. | ||
* | * [[علامه حلی]]، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تحقیق: حسن حسنزاده آملی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1413ق. | ||
* | * علامه حلی، حسن بن یوسف، نهایة المرام، تحقیق: فاضل عرفان، اشراف: جعفر سبحانی تبریزی، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، [بیتا]. | ||
* فارابی، | * فارابی، ابونصر محمد بن محمد، احصاء العلوم، تحقیق: علی بو ملحم، بیروت، دار و مکتبة الهلال، 1996م. | ||
* کاشفی، | * فیض کاشانی، محمدمحسن، مفاتیح الشرایع، بی نا، بی تا، بی تا. | ||
* | * کاشفی، محمدرضا، کلام شیعه، ماهیت، مختصات و منابع، قم، انتشارات پژوهشگاه فرهنگ و اندیشه، چ3، 1387ش. | ||
* | * لاهیجی، عبدالرزاق، شوارق الالهام فی شرح تجرید الاعتقاد، اکبر اسد علیزاده، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1425ق (کتابخانه دیجیتال نور). | ||
* معجم طبقات المتکلمین، اشراف: جعفر سبحانی، قم، اللجنة | * مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، تهران ـ قم، انتشارات صدرا، چ15، 1389ش. | ||
* یوسفیان، حسن، کلام جدید، | * معجم طبقات المتکلمین، اشراف: جعفر سبحانی، قم، اللجنة العلمیه فی مؤسسة الامام الصادق(ع)، [بیتا]. | ||
{{ | * یوسفیان، حسن، کلام جدید، تهران، انتشارات سمت، چ3، 1390ش. | ||
* محدث اربلى، كشف الغمة في معرفة الأئمة، تبريز، بنى هاشمى، چ1، 1381ق | |||
* ابن ابى الحديد، شرح نهج البلاغة، قم، مكتبة آية الله المرعشي، 1383ش. | |||
{{پایان}} | |||
{{کلام اسلامی}} | {{کلام اسلامی}} |