مندرجات کا رخ کریں

"علم کلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(عدد انگلیسی)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''کلام اسلامی''' یا '''علم کلام'''، علوم [[اسلامی]] کی ایک شاخ ہے جس میں اسلامی عقاید سے بحث اور اس کا دفاع کیا جاتا ہے۔ کلام اپنے مسائل کے اثبات اور مخاطب کو قانع کرنے کے لئے منطق کی مختلف روشوں جیسے قیاس، تمثیل و جدل سے استفادہ کرتا ہے۔ علم کلام کے مسائل اصول دین یا اصول عقاید میں منحصر نہیں ہیں۔ بلکہ [[متکلم]] کا فریضہ ہے کہ وہ تعالیم و احکام دینی کے خلاف ہونے والے تمام اعتراضات کا جواب دے۔
{{زیر تعمیر}}
'''کلام اسلامی''' [[اسلامی]] علوم کی ایک شاخ ہے جس میں [[عقائد|دینی عقائد]] کے بارے میں بحث کی جاتی ہے اور ان کا دفاع کیا جاتا ہے۔ نیز اس علم میں [[شرعی احکام]] کی علل و اسباب، دینی تعلیمات کے مجموعے اور [[افعال کا حسن اور قبح|افعال الہی]] کے بارے میں پیش کردہ سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ اس علم کا ماہر یعنی [[متکلم]]، کلامی مسائل کے اثبات اور مخاطب کو کافی و شافی جواب دینے کے لئے منطق کی مختلف روشوں جیسے [[قیاس]]، تمثیل و جدل کو بروئے کار لاتا ہے۔ اس علم کو علم [[اصول دین]]، علم [[عقائد|اصول عقائد]] اور فقہ اکبرکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔


اس علم کی تاریخ پیدائش کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ اس کا آغاز صدر [[اسلام]] میں ہی ہو گیا تھا۔ اس کا پہلا مسئلہ [[جبر و اختیار]] تھا۔ صفات خداوند کے بارے میں بحث، خاص طور پر [[توحید]] و [[عدل الہی]]، مسئلہ [[حسن و قبح]] افعال، [[قضا و قدر]]، بحث [[نبوت]]، [[معاد]]، [[تکلیف شرعی]] و [[معجزہ]] علم کلام کے مہم مباحث میں سے ہیں۔ علم کلام کے مباحث میں اختلاف اسلام میں بہت سے کلامی فرقوں کے وجود میں آنے کا سبب بنا۔ [[شیعوں]] کے مہم ترین کلامی فرقے [[امامیہ]]، [[زیدیہ]]، [[اسماعیلیہ]]، [[غلات]] و [[کیسانیہ]] اور [[اہل سنت]] کے مہم ترین کلامی فرقے [[خوارج]]، [[مُرجئہ]]، [[معتزلہ]]، [[اہل حدیث]]، [[اشاعره]]، [[ماتُریدیہ]] و [[وہابیت]] ذکر ہوئے ہیں۔
اس علم کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ صدر اسلام سے ہی اس کا آغاز ہوگیا تھا اور اس کا پہلا مسئلہ [[جبر و اختیار]] تھا۔ صفات خداوند، خاص طور پر [[توحید]] و [[عدل الہی]]، مسئلہ [[حسن و قبح]]ِ افعال، [[قضا و قدر]]، [[نبوت]]، [[معاد]] اور [[امامت]] علم کلام کے اہم ترین مباحث میں سے ہیں۔  


کلام جدید ایسا علم ہے جس میں علم کلام (قدیم) سے ہم آہنگ یا مختلف ہونے کے سلسلہ میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ کلام جدید کے مباحث یہ ہیں: اس کی تعریف، ہدف و مقصد، دین کے حدود و زبان، بشریت کے لئے دین کی ضرورت، عقل و دین، عقل و ایمان، علم و دین اور تجربہ دینی و تکثر گرائی دینی۔
علم کلام کے مباحث میں اختلاف رائے کے بموجب [[دین اسلام]] میں متعدد کلامی فرقے ظہور پذیر ہوئے۔ [[شیعوں]] کے اہم ترین کلامی فرقے [[امامیہ]]، [[زیدیہ]]، [[اسماعیلیہ]]، [[کیسانیہ]] کہلاتے ہیں جبکہ [[اہل سنت]] کے اہم ترین کلامی فرقے [[مُرجئہ]]، [[اہل حدیث]]، [[اشاعره]]، [[ماتُریدیہ]] اور [[وہابیت]] ہیں۔ [[شیخ مفید]] (متوفیٰ:۴۱۳ھ)، [[خواجه نصیر الدین طوسی]](متوفیٰ: ۶۷۲ھ) اور [[علامه حلی]](متوفیٰ:۷۲۶ھ) مذہب امامیہ کے سرخیل [[متکلمین]] میں شمار ہوتے ہیں اور قاضی عبد الجبار معتزلی، [[ابوالحسن اشعری]]، ابو حامد غزالی اور فخر رازی [[اہل سنت]] کے مشہور متکلمین میں سے ہیں۔کتاب‌ [[تصحیح الاعتقاد (کتاب)|تصحیح الاعتقاد]]، [[تجرید الاعتقاد (کتاب)|تجرید الاعتقاد]] اور [[کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد (کتاب)|کشف المراد]] شیعہ کلامی کتب شمار ہوتی ہیں اور "شرح الاصول الخمسه"، "شرح المقاصد" اور "شرح المواقف" اہل سنت کے کلامی آثار میں سے ہیں۔
 
کلام جدید ایسا علم ہے جس میں علم کلام (قدیم) سے ہم آہنگ یا اس سے مختلف ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ علم کلام جدید کے کچھ مباحث یہ ہیں: تعریف علم کلام جدید، منشا و منبع کلام جدید، دین کی زبان اور اس کا قلمرو، بشریت کے لئے دین کی ضرورت، [[عقل]] و [[دین]]، عقل و [[ایمان]]، علم (سائنس) اور دین اور مذہبی تجربہ اور تکثر گرائی دینی۔


==تعریف و نام==
==تعریف و نام==
علم کلام اسلامی علوم کا وہ حصہ ہے جس میں [[عقائد|اسلامی عقائد]] {{نوٹ| یعنی دینی تعلیمات و مسائل جن کی شناخت کرنے کے بعد ان پر دل سے [[ایمان]] لایا جائے، جیسے مسئله [[توحید]]، صفات ذات باری تعالی، [[نبوت عامہ|نبوّت عامّہ]] و [[نبوت خاصہ|خاصّہ]] وغیرہ۔ (مجموعه آثار، ج۳، ص۵۷)}}کے بارے میں بحث ہوتی ہے؛<ref> مطهری، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص57.</ref> اس طرح سے کہ اس میں ان عقائد کی وضاحت کی جاتی ہے اور ان کا دفاع کیا جاتا ہے۔<ref>مطهری، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص57.</ref> بعض محققین کیے مطابق یہ علم کلام کی بہترین تعریف ہے؛ کیونکہ اس میں علم کلام کا موضوع، ہدف اور روش سب کا احاطہ کیا ہوا ہے، اس تعریف میں نہ صرف کلامی کا دفاعی پہلو بلکہ اس کے اثباتی پہلو کو بھی مد نظررکھا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص61 تا 64؛ جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص39ـ40.</ref> البتہ اس کی دوسری تعریفیں بھی بیان ہوئی ہیں، جن میں سے ہر ایک میں اس کی  خصوصیت کو بیان کیا گیا ہے۔<ref> علم کلام کی دیگر تعاریف سے آگاہی کے لیے رجوع کیجیے: ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص61. کاشفی، کلام شیعہ، ص24.</ref> مثال کے طور کسی نے علم کلام کی تعریف یوں کی ہے: علم کلام ایک نظری علم ہے جس کی مدد سے دینی عقائد کو استدلال کے ساتھ اثبات کیا جا سکتا ہے۔<ref> ایجی، المواقف، عالم الکتب، ص7. با اندکی تفاوت: لاهیجی، شوارق الالهام، 1425ھ، ج1، ص51.</ref> یا ایسا علم ہے جس میں ذات و صفات و افعال خداوند سے بحث ہوتی ہے۔<ref> جرجانی، التعریفات، 1370شمسی، ص80.</ref>  زمخشری نے علم کلام کو فقه اکبر کے نام سے یاد کیا ہے۔<ref>زمخشری٬ کشاف٬ ج۱، ص۸۷</ref> [[محمد محسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے اپنی کتاب "مفاتیح الشرایع" میں علم کلام سیکھنے کو قلبی اطاعت گزاری کے لحاظ سے مستھب عمل ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اہل [[بدعت]] کو جواب دینا میسر ہوتا ہے۔<ref>فیض کاشانی، مفاتیح الشرایع، ج۲، ص۱۶.</ref>


علم کلام علوم اسلامی میں ایک  ہے اور اس میں اسلامی عقاید کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔<ref> مطهری، مجموعہ آثار، 1389ش، ج3، ص57.</ref> اس طرح سے کہ اس میں ان عقاید کی توضیح دی جاتی اور ان سے دفاع کیا جاتا ہے۔<ref> مطهری، مجموعہ آثار، 1389ش، ج3، ص57. بنابر نظر برخی این تعریف، تعریفی برتر است؛ چرا کہ شامل موضوع، هدف و روش علم کلام است و نہ تنها بہ جنبہ دفاعی کلام، کہ بہ جنبہ اثباتی آن (توضیح و تبیین عقاید اسلامی) توجہ کرده است (نگاه کنید بہ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص61تا64؛ جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396ش، ص39ـ40).</ref> البتہ اس کی دوسری تعریفیں بھی بیان ہوئی ہیں، جن میں سے ہر ایک میں اس کی  خصوصیت کو بیان کیا گیا ہے۔<ref> برای آگاهی از همہ تعریف‌ ها ر.ک: ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص61. کاشفی، کلام شیعہ، ص24.</ref> مثلا علم کلام ایک نظری علم ہے جس کی مدد سے دینی عقاید کو استدلال کے ساتھ اثبات کیا جا سکتا ہے۔<ref> ایجی، المواقف، عالم الکتب، ص7. با اندکی تفاوت: لاهیجی، شوارق الالهام، 1425ق، ج1، ص51.</ref> یا ایسا علم ہے جس میں ذات و صفات و افعال خداوند سے بحث ہوتی ہے۔<ref> جرجانی، التعریفات، 1370ش، ص80.</ref>
* '''نام اور وجہ تسمیہ'''
 
اس علم کا سب سے مشہور نام "کلام" ہے اور اس علم میں مہارت رکھمنے والے کو [[متکلم]] کہتے ہیں۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص67.</ref> اس علم کو کیوں "کلام" کہتے ہیں اس کے بارے میں مختلف علتیں  پائی جاتی ہیں۔{{نوٹ|وہ دلائل جو علم کلام کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں بیان ہوئے ہیں: 1: مہم ترین یا سب سے پہلا مسئلہ جس کے بارے میں متکلمین نے بحث کی ہے وہ کلام الہی کے حادث و قدیم کے بارے میں ہے۔ 2: اس علم کے ابواب کا آغاز "الکلام فی کذا۔۔۔" سے ہوتا ہے۔ 3: علم کلام انسان میں مناظرہ، جدل و گفتگو کی طاقت کو تقویت پہنچاتا ہے اور مناظرہ تکلم اور گفتگو ہی کا دوسرا نام ہے۔ 4: دلائل کی مضبوطی، سخن اور گفتگو کی مضبوطی کا سبب ہے اور علم کلام میں مضبوط  و محکم دلائل سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ 5: [[متکلمین]] نے اپنے علم کا نام کلام رکھا ہے تا کہ وہ فلاسفہ کے مقابلہ میں علم منطق سے بے نیازی کا اظہار کر سکیں۔ (جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص37ـ38) ان مذکورہ علل پر اعتراضات کئے گئے ہیں؛ منجملہ پہلی وجہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ  کلام الہی کے حدوث و قدم کی بحث سے پہلے بھی علم کلام اسی نام سے مشہور تھا۔ (رجوع کیجیے: ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص70)}} ان میں سے بہترین<ref> جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص38.</ref> تعریف یہ ہے کہ علم کلام انسان کے اندر مناظرہ و جدل کی طاقت کو تقویت پہنچاتا ہے اور مناظرہ تو تکلم و گفتگو ہی کا نام ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص73.</ref> ماضی میں علم کلام کو دوسرے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا تھا جیسے: علم اصول دین، علم اصول عقائد، فقہ اکبر، علم توحید، علم الذات و الصفات۔<ref> جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص37، پانویس 2؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص67.</ref>
* '''نام و وجہ تسمیہ'''
 
اس علم کا مشہور ترین نام کلام ہے اور اس علم کے علماء کو [[متکلم]] کہتے ہیں۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص67.</ref> کیوں اس علم کو کلام کہتے ہیں اس بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔{{نوٹ|وہ دلائل جو علم کلام کی وجہ تسمیہ کے لئے بیان ہوئے ہیں۔ 1۔ مہم ترین و اولین مسئلہ جس کے بارے میں متکلمین نے کلام کیا ہے وہ کلام الہی کے حدوث و قدم کی بحث ہے۔ اس علم کی ابواب کا آغاز الکلام فی کذا سے ہوتا ہے۔ علم کلام انسان میں مناظرے، جدل و گفتگو کی قدرت کو تقویت پہچاتا ہے اور مناظرہ تکلم اور گفتگو ہی کا دوسرا نام ہے۔ دلائل کی مضبوطی، سخن کی مضبوطی کا سبب ہے اور علم کلام استوار استدلال سے استفادہ کرتا ہے۔ متکلمین نے اپنے علم کا نام کلام رکھا ہے تا کہ وہ فلاسفہ کے مقابلہ میں علم منطق سے بے نیازی کا اظہار کر سکیں۔ (جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396ش، ص37ـ38) ان تمام دلائل پر اعتراض کئے گئے ہیں؛ منجملہ پہلی وجہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ  کلام الہی کے حدوث و قدم کی بحث سے پہلے بھی علم کلام اسی نام سے مشہور تھا۔ نگاه کریں ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص70)}} ان میں سے بہترین<ref> جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396ش، ص38.</ref> یہ ہے کہ علم کلام انسان کے اندر مناظرہ و جدال کی قدرت کو تقویت پہچاتا ہے اور مناظرہ تو تکلم و گفتگو ہی کا نام ہے۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص73.</ref> ماضی میں علم کلام کو دوسرے ناموں سے بھی جانا جاتا تھا جیسے: علم اصول دین، علم اصول عقاید، فقہ اکبر، علم توحید، علم الذات و الصفات۔<ref> جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396ش، ص37، پانویس 2؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص67.</ref>
 
==موضوع، اہداف و روش ==


==موضوع، اہداف اور روشیں ==
* '''موضوع'''
* '''موضوع'''


[[متکلمین]] علم کلام کے موضوع کے بارے میں اتفاق نظر نہیں رکھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس علم کا کوئی معین موضوع نہیں ہے۔<ref> مطهری، مجموعہ آثار، 1389ش، ج3، ص63.</ref> البتہ جو اس کے لئے موضوع کے قائل ہیں ان میں سے ہر ایک نے اس کے لئے ایک موضوع ذکر کیا ہے۔ ان میں سے اہم ترین یہ ہیں: <ref> جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396ش، ص41.</ref> موجود بما ھو موجود،<ref> علامہ حلی، نهایة المرام، مؤسسہ امام صادق(ع)، ج1، ص12؛ لاهیجی، شوارق الالهام، 1425ق، ج1، ص3.</ref> معلومات خاص (وہ معارف جن سے عقاید دینی کے اثبات کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔)،<ref> دیکھیں: تفتازانی، شرح‌ المقاصد، 1412ق، ج1، ص173.</ref> وجود خداوند، وجود ممکنات، ذات و صفات خداوند،<ref> دیکھیں: به تفتازانی، شرح ‌المقاصد، 1412ق، ج1، ص180.</ref> عقاید دینی،<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص31و32.</ref> اسی طرح سے کہا گیا ہے کہ طول تاریخ میں علم کلام کا تکامل و ارتقاء سبب بنا ہے کہ مختلف ادوار میں اس کے موضوعات مختلف ہوں۔<ref> طبقات المتکلمین، مؤسسہ امام صادق (ع)، ج1، ص17.</ref>  
[[متکلمین]] علم کلام کے موضوع کے بارے میں اتفاق نظر نہیں رکھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس علم کا کوئی متعین موضوع نہیں ہے۔<ref> مطهری، مجموعہ آثار، 1389شمسی، ج3، ص63.</ref> البتہ جو اس کے لئے موضوع کے قائل ہیں ان میں سے ہر ایک نے اس کے لئے ایک موضوع ذکر کیا ہے۔ ان میں سے اہم ترین یہ ہیں: <ref> جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص41.</ref> موجود بما ھو موجود علم کلام کا موضوع ہے،<ref> علامہ حلی، نهایة المرام، مؤسسہ امام صادق(ع)، ج1، ص12؛ لاهیجی، شوارق الالهام، 1425ھ، ج1، ص3.</ref> معلومات خاص (وہ معارف جن سے عقائد دینی کے اثبات کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔)،<ref> ملاحظہ کیجیے: تفتازانی، شرح‌ المقاصد، 1412ھ، ج1، ص173.</ref> وجود خداوند، وجود ممکنات، ذات و صفات خداوند،<ref> ملاحظہ کیجیے: تفتازانی، شرح ‌المقاصد، 1412ھ، ج1، ص180.</ref> دینی عقائد،<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص31و32.</ref> اسی طرح سے کہا گیا ہے کہ طول تاریخ میں علم کلام کا تکامل و ارتقاء سبب بنا ہے کہ مختلف ادوار میں اس کے موضوعات مختلف ہوں۔<ref> طبقات المتکلمین، مؤسسہ امام صادق (ع)، ج1، ص17.</ref>  


*'''اہداف و فوائد'''
*'''اہداف و فوائد'''


علماء و متفکرین نے علم  کلام کے اہداف ذکر کئے ہیں۔ ان میں بعض یہ ہیں:
مسلمان علماء و مفکرین نے علم  کلام کے چند اہداف ذکر کیے ہیں؛ ان میں بعض یہ ہیں:


# اسلامی عقاید کا استخراج و استنباط (تحقیقی دینی معرفت)<ref> لاهیجی، شوارق‌ الالهام، 1425ق، ج1، ص؟.</ref>
# اسلامی عقائد کا استخراج و استنباط (تحقیقی دینی معرفت)،<ref> لاهیجی، شوارق‌ الالهام، 1425ھ، ج1، ص؟.</ref>
# اسلامی اعتقادات کے مفاہیم و مسائل کی توضیح و تشریح<ref> ایجی، المواقف، عالم الکتب، ص8.</ref>
# اسلامی اعتقادات کے مفاہیم و مسائل کی توضیح و تشریح،<ref> ایجی، المواقف، عالم الکتب، ص8.</ref>
# عقاید کے نظریات کو منظم طور پر پیش کرنا<ref> کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص37.</ref>
# عقائد کے نظریات کو منظم طور پر پیش کرنا،<ref> کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص37.</ref>
# اعتقادات و تعالیم دینی کا اثبات<ref> شوارق الالهام، 1425ق، ج1، ص73ـ74.</ref>
# اعتقادات و تعالیم دینی کا اثبات،<ref> شوارق الالهام، 1425ھ، ج1، ص73ـ74.</ref>
# شبہات و اعتراضات کے مقابلہ میں دینی عقاید کا دفاع<ref> لاهیجی، شوارق ‌الالهام، 1425ق، ج1، ص73و74. فارابی، احصاء العلوم، ص76و77.</ref>
# شبہات و اعتراضات کے مقابلہ میں دینی عقائد کا دفاع۔<ref> لاهیجی، شوارق ‌الالهام، 1425ھ، ج1، ص73و74. فارابی، احصاء العلوم، ص76و77.</ref>


* '''روش'''
* '''روش'''


علم کلام اپنے اہداف، نقطہ نظرات، مسائل و مخاطبین کے مطابق استدلال میں مختلف روشوں سے استفادہ کرتا ہے۔<ref> نگاه کریں: کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص41و42؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص55.</ref> کہا گیا ہے کہ یہ علم شناخت عقاید دینی اور اس کے اثبات کے لئے ایسی روش کا محتاج ہے جو یقین آور ہو۔ جیسے روش قیاس (قیاس منطقی) البتہ یہ اپنے دوسرے اہداف کے لئے جن میں دینی عقاید کا دفاع شامل ہے، ان یقین آور روشوں کے علاوہ دوسری روشوں سے استفادہ کر سکتا ہے جیسے تمثیل، خطابہ، جدل وغیرہ کی روشیں اور روش عقلی و نقلی، تجربیاتی و تاریخی۔<ref> جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396ش، ص43و44.</ref>
علم کلام اپنے اہداف، نقطہ نظرات، مسائل و مخاطبین کے مطابق استدلال میں مختلف روشوں سے استفادہ کرتا ہے۔<ref> ملاحظہ کیجیے: کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص41 و 42؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص55.</ref> کہتے ہیں کہ یہ علم شناخت عقائد دینی اور اس کے اثبات کے لئے ایسی روش کا محتاج ہے جو یقین آور ہو؛ جیسے روش قیاس (قیاس منطقی مد نظر ہے) البتہ یہ اپنے دوسرے اہداف کے لئے جن میں دینی عقائد کا دفاع شامل ہے، ان یقین آور روشوں کے علاوہ دوسری روشوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جیسے تمثیل، خطابہ، جدل وغیرہ کی روشیں اور روش عقلی و نقلی، تجربیاتی و تاریخی۔<ref> جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396شمسی، ص43و44.</ref>
 
== تاریخچہ، عوامل پیدائش اور توسیع ==
علم کلام کے تاریخچہ کے بارے میں [[ابن ابی الحدید]] کا کہنا ہے کہ علم کلام اور عقائد جو کہ اعلیٰ ترین علوم میں سے ہیں، [[امام علیؑ]] کے کلام سے اخذ کیے گیے ہے۔<ref>ابن أبي الحديد، شرح نهج البلاغه، ۱۳۸۳شمسی، ج۱، ص۱۷.</ref> محقق اربلی نے یہ بھی صراحت کے ساتھ  کہا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے رہنماؤں؛ یعنی [[اشاعرہ]]، [[معتزلہ]]، [[شیعہ]] اور [[خوارج]] سب علم کلام کے آغاز کو امام علیؑ سے منسوب کرتے ہیں۔<ref>اربلی، كشف الغمّه في معرفة الأئمة، ۱۳۸۱ھ، ج۱، ص۱۳۱.</ref>


== تاریخچہ اور سبب پیدائش ==
مشہور نظریہ یہ ہے<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص109.</ref> کہ [[اسلامی]] فتوحات اور حکومت اسلامی کے قلمرو میں پھیلاؤ کے بعد [[مسلمانوں]] کا دوسرے ادیان و مذاہب کے افراد کے ساتھ آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا جس سے دوسرے ادیان و مذاہب کے آرا و نظریات وسیع سطح سطح پر پھیل گئے۔ لہذا مسلمانوں نے اپنے عقائد و نظریات کے دفاع اور اعتقادی اعتراضات و شہبات کے جواب کے لئے علم کلام کے مباحث اور روشوں کو رونق بخشی اور یہی چیز علم کلام کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔<ref> شبلی، تاریخ علم کلام، 1386شمسی، ص8.</ref>  
مشہور نظریہ یہ ہے<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص109.</ref> کہ [[اسلامی]] فتوحات اور حکومت اسلامی کے دائرہ میں وسعت کے بعد [[مسلمانوں]] کا اختلاط دوسرے ادیان و مذاہب کے افراد کے ساتھ ہونے لگا اور یہ چیز دوسرے ادیان و مذاہب کے آرا و نظریات کے شائع ہونے کا سبب بنی۔ لہذا مسلمانوں نے اپنے عقاید و نظریات کے دفاع اور اعتقادی اعتراضات و شہبات کے جواب کے لئے علم کلام کے مباحث اور روشوں کو رونق حاصل ہوئی اور یہی چیز علم کلام کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔<ref> شبلی، تاریخ علم کلام، 1386ش، ص8.</ref>  


دوسرے نظریوں کے مطابق، علم کلام کی تاریخ کو واضح کرنے کے لئے ہمیں ابتدائی طور پر علم کلام سے کیا مراد ہے اسے روشن کرنا پڑے گا۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص109.</ref> اگر علم کلام سے مراد دینی عقاید کے سلسلہ میں گفتگو کرنا ہو تو اس کی تاریخ ظہور [[اسلام]] کے ساتھ متصل ہے۔ اس لئے کہ یہ مباحث [[قرآن]] و [[احادیث]] اور بت پرستوں اور [[اہل کتاب]] سے [[توحید]]، [[نبوت]] و [[معاد]] کے سلسلہ میں [[پیغمبر اکرم (ص)]] سے ہونے والی بحث و گفتگو میں پیش آئے ہیں۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص109؛‌ همچنین نگاه کریں: مطہری، مجموعہ آثار، ج3، ص59.</ref>  
کچھ دیگر نظریات کے مطابق، علم کلام کی تاریخ کو واضح کرنے کے لئے ہمیں ابتدائی طور پر علم کلام سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت کرنا پڑے گی۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص109.</ref> اگر علم کلام سے مراد دینی عقائد کے سلسلہ میں گفتگو کرنا ہو تو اس کی تاریخ ظہور [[اسلام]] سے ملتی ہے۔ اس لئے کہ یہ مباحث [[قرآن]] و [[احادیث]]، پیغمبر خدا(ص) کی بت پرستوں اور [[اہل کتاب]] کے ساتھ والی گفتگو، [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] کے سلسلے ملتے ہیں۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص109؛‌ ملاحظہ کیجیے: مطہری، مجموعہ آثار، ج3، ص59.</ref>  


لیکن اگر اس سے مراد مسلمانوں کے درمیان پیش آنے والے مباحث اور دینی و کلامی فرقوں کی پیدائش ہو ہو اس کی تاریخ کی ابتداء رحلت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد ہوتی ہے۔ اس زمانہ کے مہم ترین اختلافات میں [[امامت]] و [[خلافت]]، [[قضا و قدر]]، صفات خداوند اور [[حکمیت]] کے واقعات ہیں۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص109ـ110.</ref> جن کے نتیجہ میں [[قدریہ]]، [[مشبھہ]]، [[خوارج]] وغیرہ جیسے فرقے وجود میں آئے۔ اور اگر علم کلام سے مراد ان مذاہب و فرق اسلامی کا وجود میں آنا ہے جنہوں نے علم کلام میں کسی معین روش اور تعریف شدہ اصول و قوانین بنائے ہیں تو ان کی تاریخ کی بازگشت دوسری ہجری کی طرف ہوتی ہے۔ <ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص110.</ref>
لیکن اگر اس سے مراد مسلمانوں کے درمیان پیش آنے والے کلامی مباحث اور دینی و کلامی فرقوں کی پیدائش ہو تو اس کی تاریخ کی ابتداء [[رحلت پیغمبر اکرمؐ|رحلت پیغمبر اکرم (ص)]] کے بعد ہوتی ہے۔ اس زمانہ کے اہم ترین اختلاف کے موضوعات [[امامت]] و [[خلافت]]، [[قضا و قدر]]، صفات خداوند اور [[حکمیت]] جیسے مسائل و مباحث ہیں جن کے نتیجہ میں [[قدریہ]]، [[مشبہہ]]، [[خوارج]] اوردیگر فرقے وجود میں آئے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص109ـ110.</ref> اگر علم کلام سے مراد ان مذاہب و فرق اسلامی کا وجود میں آنا ہے جنہوں نے علم کلام میں کسی معین روش اور اصول و قواعد بنائے ہیں تو ان کی تاریخ کی دوسری صدی ہجری سے ملتی ہے۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص110.</ref>


===پیدائش و ارتقاء کے اسباب===
===ظہور و ارتقاء کے اسباب و عوامل===
علم کلام کی پیدائش اور [[مسلمانوں]] کے درمیان اس کے ارتقاء کے مختلف اسباب و عوامل بیان ہوئے ہیں:


علم کلام کی پیدائش اور [[مسلمانوں]] کے درمیان اس کے ارتقاء کے مختلف اسباب و علل بیان ہوئے ہیں:  
# '''قرآنی و روائی تعلیمات اورلوگوں کی ضرورت''': علم کلام کی پیدائش کا سب سے پہلا سبب قرآنی اور روائی تعلیمات اور لوگوں کے ان کے درک و فہم کی ضرورت ہے۔<ref> ملاحظہ کیجیے: کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص48.</ref> [[قرآن کریم]] نے عقیدتی امور پر خاص توجہ مبذول کی ہے اور ان پر ایمان رکھنے کو لازمی امر قرار دیا ہے۔<ref> مثل آیہ 136 و 162 سوره نساء، آیہ 15 سوره حجرات، آیہ 177 سوره بقره، آیہ 111 سوره مائده، آیہ 158 سوره اعراف</ref> اسی بناء پر علماء نے ان تعلیمات کو سمجھنے کے لئے علم کلام کی بنیاد رکھی۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص48.</ref> {{نوٹ| یہ بات قابل ذکر ہے کہ عصر پیغمبر خدا(ص) میں غیر مسلم بھی علم کلام سے متعلق سوالات کرتے تھے۔ اس سے کبھی ان کا قصد دین اسلام کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہوتا تھا تو کبھی آنحضرت (ص) کا امتحان لینے کے لئے بھی ایسا کیا کرتے تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) کے بت پرستوں اور اہل کتاب کے ساتھ توحید، نبوت اور معاد جیسے موضوعات پر بحث و تمحیص ہوتی تھی جن کا ذکر قرآن مجید اور تاریخی کتابوں میں آیا ہے۔ (رجوع کیجیے: ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387شمسی، ص110)}}
# '''سیاسی تنازعات اور اختلافات''': بعض سیاسی و سماجی اختلافات بھی علم کلام کی رونق بخشی کا سبب بنے اور بتدریج علم کلام وجود میں آیا۔ مثلا رحلت پیغمبر(ص) کے بعد [[امامت]] و [[خلافت]] کے مسئلہ میں بحث، [[ایمان]] و [[مرتکب گناہ کبیرہ|ارتکاب گناہ کبیرہ]] کا مسئلہ اور [[حکمیت]] جسے موضوعات کو [[خوارج]] نے پیش کیا یا مثلاً مسئلہ [[جبر و اختیار]] کو [[بنی امیہ]] نے اپنی حکومت کی حقانیت کے لئے پیش کیا۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، 1387شمسی، ص49.</ref>


# '''تعلیمات قرآن و حدیث و عوامی ضرورت''': علم کلام کی پیدائش کا اولین سبب تعلیمات قرآن و حدیث اور عوام کو ان کے درک و فہم کی ضرورت بیان کیا گیا ہے۔<ref> نگاه کریں: کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص48.</ref> [[قرآن کریم]] نے عقاید کی تعلیمات پر خاص توجہ مبذول کی ہے اور ان پر ایمان رکھنے کو لازمی قرار دیا ہے۔<ref> مثل آیہ 136 و 162 سوره نساء، آیہ 15 سوره حجرات، آیہ 177 سوره بقره، آیہ 111 سوره مائده، آیہ 158 سوره اعراف</ref> اسی بناء پر علماء نے ان تعلیمات کو سمجھنے کے لئے علم کلام کی بنیاد رکھی ہے۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص48.</ref> {{نوٹ| قابل ذکر ہے کہ عصر پیغمبر (ص) میں غیر مسلم بھی علم کلام سے متعلق سوالات کرتے تھے۔ اس سے کبھی ان کا قصد دین اسلام کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہوتا تھا تو کبھی آنحضرت (ص) کا امتحان لینے کے لئے بھی ایسا کرتے تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) کے بت پرستوں اور اہل کتاب کے بعض مناظروں جیسے توحید، نبوت و معاد کا ذکر قرآن مجید اور تاریخی کتابوں میں ہوا ہے۔ (نگاه کریں: ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، 1387ش، ص110)}}
# '''مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین روابط''': جس وقت مسلمانوں نے غیر مسلموں جیسے ایرانیوں، رومیوں، [[مصر|مصریوں]] سے ارتباط پیدا کئے۔ عقائد اسلامی کے دوسرے مذاہب کے ساتھ اختلافات آشکار ہوئے اور میں تعارض کا آغاز ہوگیا۔ مسلمانوں نے [[اسلام]] کے بنیادی عقائد کے دفاع میں علم کلام کی بحثوں کو شروع کیا اور انہیں رونق بخشی۔ اس طرح سے علم کلام نے ارتقائی سفر طے کیا۔<ref> شبلی، تاریخ علم کلام، 1328ش، ص8.</ref>
# '''سیاسی منازعات و اختلافات''': بعض سیاسی و سماجی اختلافات علم کلام کے رونق حاصل کرنے کا سبب بنے اور بتدریج علم کلام وجود میں آیا۔ مثلا رحلت پیغمبر (ص) کے بعد [[امامت]] و [[خلافت]] کے مسئلہ میں بحث، [[ایمان]] و ارتکاب [[گناہ کبیرہ]] کا مسئلہ، مسئلہ [[حکمیت]] جسے [[خوارج]] نے پیش کیا یا مسئلہ [[جبر و اختیار]]، جسے [[بنی امیہ]] نے اپنی حکومت کی توجیہ کے لئے پیش کیا۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص49.</ref>
# '''دوسرے مذاہب کے ساتھ اختلاط''': اسلامی ریاستوں میں وسعت کے بعد دیگر ادیان و مذاہب کے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔انہوں نے اسلامی قوانین کی پیروی کرتے ہوئے اسلام مخالف چیزوں کو ترک کر دیا لیکن بعض چیزیں جن کے بارے میں ابتداء میں اسلامی نقطہ نظر واضح نہیں تھا، انہوں نے اپنے عقیدہ کے مطابق قرآنی و اسلامی تفسیریں پیش کیں۔{{نوٹ| مثلا یہودی خدا کی جسمانیت، خدا کی عصمت، امکان نسخ شریعت، یا جیسے عیسائی عینیت صفات و ذات خداوند، کلام الہی کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے یا جیسے زرتشتی خیر و شر کے مسئلہ میں کوشش کرتے تھے کہ اپنے دین اور اسلام میں اس کی مشترک تفسیر ان کے سامنے پیش کریں۔}}  لہذا علمائے اسلام نے کوشش کی کہ علم کلام کے مباحث کی مدد سے اسلامی نظریات کو واضح کریں اور خود ساختہ عقائد کو اس میں خلط ہونے سے بھی بچائیں۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص49و50.</ref>
# '''مسلموں اور غیر مسلموں کا اختلاط''': جب وقت مسلمانوں نے غیر مسلموں جیسے ایرانیوں، رومیوں، [[مصر|مصریوں]] سے ارتباط پیدا کئے۔ عقاید اسلامی کے دوسرے مذاہب کے ساتھ اختلافات آشکار ہوئے اور میں تعارض کا آغاز ہوگیا۔ مسلمانوں نے [[اسلام]] کے بنیادی عقاید کے دفاع میں علم کلام کی بحثوں کو شروع کیا اور انہیں رونق بخشی۔ اس طرح سے علم کلام نے ارتقائی سفر طے کیا۔<ref> شبلی، تاریخ علم کلام، 1328ش، ص8.</ref>
# '''دوسرے مذاہب کے ساتھ اختلاط''': اسلامی ریاستوں میں وسعت کے بعد دیگر ادیان و مذاہب کے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔انہوں نے اسلامی قوانین کی پیروی کرتے ہوئے اسلام مخالف چیزوں کو ترک کر دیا لیکن بعض چیزیں جن کے بارے میں ابتداء میں اسلامی نقطہ نظر واضح نہیں تھا، انہوں نے اپنے عقیدہ کے مطابق قرآنی و اسلامی تفسیریں پیش کیں۔{{نوٹ| مثلا یہودی خدا کی جسمانیت، خدا کی عصمت، امکان نسخ شریعت، یا جیسے عیسائی عینیت صفات و ذات خداوند، کلام الہی کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے یا جیسے زرتشتی خیر و شر کے مسئلہ میں کوشش کرتے تھے کہ اپنے دین اور اسلام میں اس کی مشترک تفسیر ان کے سامنے پیش کریں۔}}  لہذا علمائے اسلام نے کوشش کی کہ علم کلام کے مباحث کی مدد سے اسلامی نظریات کو واضح کریں اور خود ساختہ عقاید کو اس میں خلط ہونے سے بھی بچائیں۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص49و50.</ref>
# '''تحریک ترجمہ''': کلام اسلامی کے بعض مسائل کا ذکر اور انہیں تخصصی و منظم طور پر پیش کرنا، تحریک ترجمہ کے دور میں پیش آیا۔ اس تحریک کا آغاز دوسری صدی ہجری کے نصف دوم (سنہ 150 ھ) میں ہوا اور اس کا سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص49و50.</ref>
# '''تحریک ترجمہ''': کلام اسلامی کے بعض مسائل کا ذکر اور انہیں تخصصی و منظم طور پر پیش کرنا، تحریک ترجمہ کے دور میں پیش آیا۔ اس تحریک کا آغاز دوسری صدی ہجری کے نصف دوم (سنہ 150 ھ) میں ہوا اور اس کا سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا۔<ref> کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص49و50.</ref>


سطر 54: سطر 56:
اسلامی علم کلام کے تحول و تغیر کے مختلف مراحل ذکر ہوئے ہیں۔ تاریخ علم کلام کے محقق محمد تقی سبحانی نے اس کی تبدیلی کے چار مراحل ذکر کئے ہیں اور وہ لکھتے ہیں اس عمومی مرحلہ بندی میں اسلامی مذاہب کے درمیان اختلاف بھی پائے جاتے ہیں: 1۔ مرحلہ اصالت و استقلال 2۔ مرحلہ رقابت و اختلاط 3۔ مرحلہ ادغام و استحالہ 4۔ مرحلہ احیاء و تجدید۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ‌ها و رویش‌ ها»، ص10.</ref> یہ تقسیم بندی علم کلام کے دیگر بیرونی علوم کے ساتھ رابطے خاص طور پر فلسفہ کے ساتھ انجام پائی ہے۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ‌ها و رویش‌ ها»، ص10.</ref>
اسلامی علم کلام کے تحول و تغیر کے مختلف مراحل ذکر ہوئے ہیں۔ تاریخ علم کلام کے محقق محمد تقی سبحانی نے اس کی تبدیلی کے چار مراحل ذکر کئے ہیں اور وہ لکھتے ہیں اس عمومی مرحلہ بندی میں اسلامی مذاہب کے درمیان اختلاف بھی پائے جاتے ہیں: 1۔ مرحلہ اصالت و استقلال 2۔ مرحلہ رقابت و اختلاط 3۔ مرحلہ ادغام و استحالہ 4۔ مرحلہ احیاء و تجدید۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ‌ها و رویش‌ ها»، ص10.</ref> یہ تقسیم بندی علم کلام کے دیگر بیرونی علوم کے ساتھ رابطے خاص طور پر فلسفہ کے ساتھ انجام پائی ہے۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ‌ها و رویش‌ ها»، ص10.</ref>


محمد تقی سبحانی کے بقول: پہلے مرحلے میں صدر اسلام کی پانچ صدیاں شامل ہیں اور خود اس مرحلہ میں تین مراحل شامل ہیں۔ الف: پیدائش و شکل گیری ب: تکوین کلام نظری ج: تدوین کتب جامع کلامی۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ‌ها و رویش‌ ها»، ص12ـ18.</ref> دوسرے مرحلے میں (مرحلہ رقابت و اختلاط) متکلمین نے خندہ روئی کے ساتھ فلسفہ کے مفاہیم و روشوں کو جذب کرنے کی طرف رخ کیا اور علم کلام کی باز سازی ان مفاہیم نو کی رو سے کی ہے۔ دوسری طرف انہوں نے سختی کے ساتھ فلسفی نظریات کے مقابلہ میں علم کلام کے عقاید کے دفاع میں اقدام انجام دیئے۔ یہ مرحلہ پانچویں صدی سے نویں صدی تک جاری رہا۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ‌ ها و رویش‌ها»، ص18ـ20.</ref>
محمد تقی سبحانی کے بقول: پہلے مرحلے میں صدر اسلام کی پانچ صدیاں شامل ہیں اور خود اس مرحلہ میں تین مراحل شامل ہیں۔ الف: پیدائش و شکل گیری ب: تکوین کلام نظری ج: تدوین کتب جامع کلامی۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ‌ها و رویش‌ ها»، ص12ـ18.</ref> دوسرے مرحلے میں (مرحلہ رقابت و اختلاط) متکلمین نے خندہ روئی کے ساتھ فلسفہ کے مفاہیم و روشوں کو جذب کرنے کی طرف رخ کیا اور علم کلام کی باز سازی ان مفاہیم نو کی رو سے کی ہے۔ دوسری طرف انہوں نے سختی کے ساتھ فلسفی نظریات کے مقابلہ میں علم کلام کے عقائد کے دفاع میں اقدام انجام دیئے۔ یہ مرحلہ پانچویں صدی سے نویں صدی تک جاری رہا۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ‌ ها و رویش‌ها»، ص18ـ20.</ref>


تیسرے مرحلے میں (مرحلہ ادغام و استحالہ) علم کلام [[اہل سنت]] شدید زوال کا شکار ہوگیا جبکہ علم کلام [[شیعہ]] مکمل طور پر فلسفی ہوگیا۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ها و رویش‌ ها»، ص20ـ21.</ref> چوتھے مرحلے (احیاء و نو سازی) کا آغاز بارہویں صدی ہجری سے ہوا۔ اس مرحلہ میں بعض علماء نے کلام جدید کی تاسیس کی ضرورت کے بارے میں گفتگو کی اور علم کلام کی توسیع کے سلسلہ میں سعی کی۔ جدید سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی۔ اس جدید سلسلہ کے تعارف میں نو معتزلی، نو اشعری، نو سلفی جیسی اصطلاحات کا استعمال کیا گیا۔ عالم تشیع میں علم کلام میں [[ملا صدرا]] کے افکار و نظریات کو زندہ کرنے کے ساتھ، جسے فلسفہ نو صدرائی سے بھی یاد کیا جاتا ہے، مکتب کلامی متاخرین کا احیاء ہوا جس میں [[علامہ حلی]] جیسے [[فقہاء]] اور [[کوفہ]] و [[قم]] کے فکری مکاتب کا احیاء شامل ہے، جسے غالبی طور پر مکتب تفکیک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشهہ ها و رویش ‌ها»، ص21ـ22.</ref>
تیسرے مرحلے میں (مرحلہ ادغام و استحالہ) علم کلام [[اہل سنت]] شدید زوال کا شکار ہوگیا جبکہ علم کلام [[شیعہ]] مکمل طور پر فلسفی ہوگیا۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشہ ها و رویش‌ ها»، ص20ـ21.</ref> چوتھے مرحلے (احیاء و نو سازی) کا آغاز بارہویں صدی ہجری سے ہوا۔ اس مرحلہ میں بعض علماء نے کلام جدید کی تاسیس کی ضرورت کے بارے میں گفتگو کی اور علم کلام کی توسیع کے سلسلہ میں سعی کی۔ جدید سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی۔ اس جدید سلسلہ کے تعارف میں نو معتزلی، نو اشعری، نو سلفی جیسی اصطلاحات کا استعمال کیا گیا۔ عالم تشیع میں علم کلام میں [[ملا صدرا]] کے افکار و نظریات کو زندہ کرنے کے ساتھ، جسے فلسفہ نو صدرائی سے بھی یاد کیا جاتا ہے، مکتب کلامی متاخرین کا احیاء ہوا جس میں [[علامہ حلی]] جیسے [[فقہاء]] اور [[کوفہ]] و [[قم]] کے فکری مکاتب کا احیاء شامل ہے، جسے غالبی طور پر مکتب تفکیک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔<ref> سبحانی، «کلام امامیہ ریشهہ ها و رویش ‌ها»، ص21ـ22.</ref>
سطر 60: سطر 62:
==حدود و مہم ترین مباحث==
==حدود و مہم ترین مباحث==


علم کلام کے مسائل اصول دین یا اصول عقاید میں منحصر نہیں ہیں۔ بلکہ [[متکلم]] کا فریضہ ہے کہ وہ مجموعہ [[احکام]] و تعالیم دینی کے بارے میں پیش آنے والے تمام سوالوں کے جواب دے۔ لہذا علم کلام کا فریضہ ہے کہ وہ [[اصول دین]] سے بھی دفاع کرے اور [[فروع دین]] سے بھی۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، ص102؛ کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص40.</ref> مثلا فلسفہ [[حجاب]] کے بارے میں ہونے والے سوالات کے جوابات یا یہ کہ کیوں [[قرآن]] تدریجی طور پر نازل ہوا ہے؟ یا [[اعجاز قرآن]] یا [[فصاحت قرآن]] پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینا علم کلام کی ذمہ داری ہے۔ البتہ تعیین حکم حجاب [[فقیہ]] کی ذمے داری اور تعیین مراد و معانی آیات علم تفسیر کا فریضہ ہے۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، ص102.</ref>
علم کلام کے مسائل اصول دین یا اصول عقائد میں منحصر نہیں ہیں۔ بلکہ [[متکلم]] کا فریضہ ہے کہ وہ مجموعہ [[احکام]] و تعالیم دینی کے بارے میں پیش آنے والے تمام سوالوں کے جواب دے۔ لہذا علم کلام کا فریضہ ہے کہ وہ [[اصول دین]] سے بھی دفاع کرے اور [[فروع دین]] سے بھی۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، ص102؛ کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص40.</ref> مثلا فلسفہ [[حجاب]] کے بارے میں ہونے والے سوالات کے جوابات یا یہ کہ کیوں [[قرآن]] تدریجی طور پر نازل ہوا ہے؟ یا [[اعجاز قرآن]] یا [[فصاحت قرآن]] پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینا علم کلام کی ذمہ داری ہے۔ البتہ تعیین حکم حجاب [[فقیہ]] کی ذمے داری اور تعیین مراد و معانی آیات علم تفسیر کا فریضہ ہے۔<ref> ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلام، ص102.</ref>


کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان پہلا کلامی مسئلہ [[جبر و اختیار]] کا مشئلہ تھا۔<ref> مطهری، مجموعہ آثار، 1389ش، ج3، ص60.</ref> علم کلام کے دیگر مہم مباحث یہ ہیں: بحث صفات خداوند مخصوصا [[توحید]] و [[عدل]] الہی، مسئلہ [[حسن و قبح]] افعال، [[قضا و قدر]]، مسئلہ [[نبوت]]، [[معاد]]، [[تکالیف]] الہی و [[معجزہ]]۔<ref> نگاه کریں: فهرست کتاب‌ های کلامی. مزید: ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی، 1383ش، پیشگفتار؛ کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص57و61.</ref>
کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان پہلا کلامی مسئلہ [[جبر و اختیار]] کا مشئلہ تھا۔<ref> مطهری، مجموعہ آثار، 1389ش، ج3، ص60.</ref> علم کلام کے دیگر مہم مباحث یہ ہیں: بحث صفات خداوند مخصوصا [[توحید]] و [[عدل]] الہی، مسئلہ [[حسن و قبح]] افعال، [[قضا و قدر]]، مسئلہ [[نبوت]]، [[معاد]]، [[تکالیف]] الہی و [[معجزہ]]۔<ref> نگاه کریں: فهرست کتاب‌ های کلامی. مزید: ربانی گلپایگانی، کلام تطبیقی، 1383ش، پیشگفتار؛ کاشفی، کلام شیعہ، 1387ش، ص57و61.</ref>
سطر 77: سطر 79:
[[امامیہ]] یا [[شیعہ اثنا عشری]] اصطلاح میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ [[امام علی (ع)]] [[پیغمبر اکرم (ص)]] کے بلا فصل جانشین ہیں اور ان کے بعد ان کے فرزند [[امام حسن (ع)]] و [[امام حسین (ع)]] اور ان کے بعد امام حسین کی نسل سے ان کے نو فرزند امام ہیں۔<ref> طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص197و198؛ برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص65و66.</ref> [[روایات]] کے مطابق [[شیعوں]] کا وجود رسول خدا (ص) کے زمانہ میں ہی ہے لیکن [[بنی امیہ]] دور کے خفقان کی وجہ سے امامیہ ایک منسجم گروہ و ایک خاص کلامی مکتب کی شکل میں [[امام محمد باقر (ع)]] و [[امام جعفر صادق (ع)]] کے بعد ظہور میں آیا۔ ان دونوں اماموں کو موقع ملا اور انہوں نے شیعہ معارف و امامیہ علم کلام کی بنیاد رکھی اور اس زمانہ (دوسری صدی ہجری) میں برجستہ شیعہ [[متکلمین]] [[ہشام بن حکم]]، [[ہشام بن سالم]] و [[مؤمن طاق]] کی تربیت کی۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص65و66.</ref>  
[[امامیہ]] یا [[شیعہ اثنا عشری]] اصطلاح میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ [[امام علی (ع)]] [[پیغمبر اکرم (ص)]] کے بلا فصل جانشین ہیں اور ان کے بعد ان کے فرزند [[امام حسن (ع)]] و [[امام حسین (ع)]] اور ان کے بعد امام حسین کی نسل سے ان کے نو فرزند امام ہیں۔<ref> طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص197و198؛ برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص65و66.</ref> [[روایات]] کے مطابق [[شیعوں]] کا وجود رسول خدا (ص) کے زمانہ میں ہی ہے لیکن [[بنی امیہ]] دور کے خفقان کی وجہ سے امامیہ ایک منسجم گروہ و ایک خاص کلامی مکتب کی شکل میں [[امام محمد باقر (ع)]] و [[امام جعفر صادق (ع)]] کے بعد ظہور میں آیا۔ ان دونوں اماموں کو موقع ملا اور انہوں نے شیعہ معارف و امامیہ علم کلام کی بنیاد رکھی اور اس زمانہ (دوسری صدی ہجری) میں برجستہ شیعہ [[متکلمین]] [[ہشام بن حکم]]، [[ہشام بن سالم]] و [[مؤمن طاق]] کی تربیت کی۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص65و66.</ref>  


امامیہ علم کلام کے وصف میں ذکر ہوا ہے کہ کلام امامیہ نہ [[اصحاب]] [[حدیث]] و حنبلیوں کی عقل گریزی کے موافق ہے نہ ہی وہ [[معتزلہ]] کی افراطی عقل گرائی کی حمایت کرتا ہے اور اسی طرح سے نہ وہ [[اشاعرہ]] کی جمود گرائی اور اس کی طرف سے کشف عقاید میں عقل کے کردار کی نقی کا حامی ہے۔ امامیہ تعلیمات کے منابع [[قرآن کریم]]، [[سنت پیغمبر (ص)]] و [[ائمہ]] و عقل ہیں۔ پانچ اصل [[توحید]]، [[عدل]]، [[نبوت]]، [[امامت]] و [[قیامت]]، امامیہ کے اصول عقاید کے طور پر ذکر ہوئے ہیں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص81و82.</ref>
امامیہ علم کلام کے وصف میں ذکر ہوا ہے کہ کلام امامیہ نہ [[اصحاب]] [[حدیث]] و حنبلیوں کی عقل گریزی کے موافق ہے نہ ہی وہ [[معتزلہ]] کی افراطی عقل گرائی کی حمایت کرتا ہے اور اسی طرح سے نہ وہ [[اشاعرہ]] کی جمود گرائی اور اس کی طرف سے کشف عقائد میں عقل کے کردار کی نقی کا حامی ہے۔ امامیہ تعلیمات کے منابع [[قرآن کریم]]، [[سنت پیغمبر (ص)]] و [[ائمہ]] و عقل ہیں۔ پانچ اصل [[توحید]]، [[عدل]]، [[نبوت]]، [[امامت]] و [[قیامت]]، امامیہ کے اصول عقائد کے طور پر ذکر ہوئے ہیں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص81و82.</ref>


===زیدیہ===
===زیدیہ===
زیدیہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو [[امام حسین (ع)]] کے بعد امام [[علی بن الحسین (ع)]] کے فرزند [[زید بن علی]] کی [[امامت]] کا عقیدہ رکھتے ہیں۔<ref> سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، نشر ادیان، ص17و18.</ref> ان کے عقاید کے مطابق آنحضرت (ص) نے فقط ابتدائی تین اماموں کی امامت کی تصریح فرمائی تھی اور ان کے بعد امام وہ ہے جس میں ظالم کے خلاف علنی [[جہاد]] و مسلحانہ قیام جیسے شرایط پائے جاتے ہوں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص89.</ref> زیدیہ کے بعض کلامی نظریات یہ ہیں: نظریہ توحید، اس معنی میں کہ خداوند عالم سے تشبیہ کی نفی کی جائے، اصل وعد و وعید، اصل [[امر بالمعروف و نہی عن المنکر]] اور یہ کہ [[گناہ کبیرہ]] کا ارتکاب کرنے والا نہ [[مومن]] ہے نہ [[کافر]] بلکہ وہ [[فاسق]] ہے۔<ref> صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ش، ج2، ص81تا85.</ref>
زیدیہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو [[امام حسین (ع)]] کے بعد امام [[علی بن الحسین (ع)]] کے فرزند [[زید بن علی]] کی [[امامت]] کا عقیدہ رکھتے ہیں۔<ref> سلطانی، تاریخ و عقائد زیدیہ، نشر ادیان، ص17و18.</ref> ان کے عقائد کے مطابق آنحضرت (ص) نے فقط ابتدائی تین اماموں کی امامت کی تصریح فرمائی تھی اور ان کے بعد امام وہ ہے جس میں ظالم کے خلاف علنی [[جہاد]] و مسلحانہ قیام جیسے شرایط پائے جاتے ہوں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص89.</ref> زیدیہ کے بعض کلامی نظریات یہ ہیں: نظریہ توحید، اس معنی میں کہ خداوند عالم سے تشبیہ کی نفی کی جائے، اصل وعد و وعید، اصل [[امر بالمعروف و نہی عن المنکر]] اور یہ کہ [[گناہ کبیرہ]] کا ارتکاب کرنے والا نہ [[مومن]] ہے نہ [[کافر]] بلکہ وہ [[فاسق]] ہے۔<ref> صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ش، ج2، ص81تا85.</ref>


===اسماعیلیہ===
===اسماعیلیہ===
سطر 87: سطر 89:
==اہل سنت کے کلامی فرقے==
==اہل سنت کے کلامی فرقے==


[[خوارج]]، [[مُرجئہ]]، [[معتزلہ]]، اہل حدیث، [[اشاعره]]، [[ماتُریدیہ]] و [[وہابیت]]، [[اہل سنت]] کے کلامی فرقے ہیں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص107ـ150.</ref> [[خوارج]] [[واقعہ حکمیت]] کے بعد وجود میں آئے۔<ref> شهرستانی، الملل و النحل، 1375ش، ج1، ص106.</ref> یہ گروہ اگرچہ ابتداء میں سیاسی گروہ تھا، لیکن آگے جا کر یہ ایک دوسرے مکاتب سے جداگانہ عقاید کے ساتھ کلامی فرقوں میں شامل ہوگیا۔ خوارج کا مہم ترین عقیدہ یہ ہے کہ [[گناہ کبیرہ]] کا مرتکب شخص [[کافر]] ہے۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص17تا20.</ref>
[[خوارج]]، [[مُرجئہ]]، [[معتزلہ]]، اہل حدیث، [[اشاعره]]، [[ماتُریدیہ]] و [[وہابیت]]، [[اہل سنت]] کے کلامی فرقے ہیں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص107ـ150.</ref> [[خوارج]] [[واقعہ حکمیت]] کے بعد وجود میں آئے۔<ref> شهرستانی، الملل و النحل، 1375ش، ج1، ص106.</ref> یہ گروہ اگرچہ ابتداء میں سیاسی گروہ تھا، لیکن آگے جا کر یہ ایک دوسرے مکاتب سے جداگانہ عقائد کے ساتھ کلامی فرقوں میں شامل ہوگیا۔ خوارج کا مہم ترین عقیدہ یہ ہے کہ [[گناہ کبیرہ]] کا مرتکب شخص [[کافر]] ہے۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص17تا20.</ref>


[[خوارج]] کے عقاید کے رد عمل میں دو فرقے مرجئہ و معتزلہ وجود میں آئے۔ مرجئہ کا عقیدہ تھا کہ عمل صالح یا گناہ کا کوئی بھی اثر [[ایمان]] نہیں ہوتا ہے۔ لیکن معتزلہ نے ایک متوسط راستہ اختیار کیا<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص17ـ20.</ref> اور کہا کہ [[گناہ کبیرہ]] کا مرتکب نہ [[مومن]] ہے نہ [[کافر]] بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ہے۔<ref> تاریخ فلسفہ در اسلام، مرکز نشر دانشگاهی، ج1، ص284.</ref> معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ چشم ظاہری سے خداوند عالم کو دیکھنا غیر ممکن ہے۔ [[جبر و اختیار]] کی بحث میں معتزلہ انسان کے اختیار مطلق کے قائل ہیں۔<ref> شهرستانی، الملل و النحل، 1375ش، ج1، ص49-50.</ref>  
[[خوارج]] کے عقائد کے رد عمل میں دو فرقے مرجئہ و معتزلہ وجود میں آئے۔ مرجئہ کا عقیدہ تھا کہ عمل صالح یا گناہ کا کوئی بھی اثر [[ایمان]] نہیں ہوتا ہے۔ لیکن معتزلہ نے ایک متوسط راستہ اختیار کیا<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص17ـ20.</ref> اور کہا کہ [[گناہ کبیرہ]] کا مرتکب نہ [[مومن]] ہے نہ [[کافر]] بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ہے۔<ref> تاریخ فلسفہ در اسلام، مرکز نشر دانشگاهی، ج1، ص284.</ref> معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ چشم ظاہری سے خداوند عالم کو دیکھنا غیر ممکن ہے۔ [[جبر و اختیار]] کی بحث میں معتزلہ انسان کے اختیار مطلق کے قائل ہیں۔<ref> شهرستانی، الملل و النحل، 1375ش، ج1، ص49-50.</ref>  


[[اہل حدیث]] کا ماننا ہے کہ عقاید کو فقط [[قرآن]] و [[حدیث]] سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس فرقہ کے ماننے والے علم کلام کے مخالف تھے چاہے وہ علم کلام عقلی ہو جس میں عقاید کے لئے عقل کو ایک مستقل دلیل مانتے ہیں یا چاہے علم کلام نقلی جس میں عقل سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس گروہ کی معروف ترین شخصیت [[احمد بن حنبل]] ہیں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص120تا123.</ref> اہل حدیث کے نزدیک خداوند قدوس کو ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔<ref> سبحانی، بحوثٌ فی الملل و النحل، ج1، ص226.</ref> جبر و اختیار کی بحث میں اہل حدیث انسان کے مجبور محض ہونے کے قائل ہیں۔<ref> سبحانی، بحوثٌ فی الملل و النحل، ج1، ص220-221.</ref>  
[[اہل حدیث]] کا ماننا ہے کہ عقائد کو فقط [[قرآن]] و [[حدیث]] سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس فرقہ کے ماننے والے علم کلام کے مخالف تھے چاہے وہ علم کلام عقلی ہو جس میں عقائد کے لئے عقل کو ایک مستقل دلیل مانتے ہیں یا چاہے علم کلام نقلی جس میں عقل سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس گروہ کی معروف ترین شخصیت [[احمد بن حنبل]] ہیں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص120تا123.</ref> اہل حدیث کے نزدیک خداوند قدوس کو ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔<ref> سبحانی، بحوثٌ فی الملل و النحل، ج1، ص226.</ref> جبر و اختیار کی بحث میں اہل حدیث انسان کے مجبور محض ہونے کے قائل ہیں۔<ref> سبحانی، بحوثٌ فی الملل و النحل، ج1، ص220-221.</ref>  


[[اشاعرہ]] ابو الحسن علی اشعری (260-324 ه‍) کے ماننے والوں کو کہا جاتا ہے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375ش، ج1، ص86.</ref> اشاعرہ متون دینی میں استعمال ہونے والے صفات خداوند کی [[تاویل]] کو قبول نہیں کرتے ہیں جیسے ید اللہ (اللہ کے ہاتھ)  وجہ اللہ (اللہ کا چہرا) اور کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بھی ہے اور چہرہ بھی۔ لیکن کس طرح سے یہ ہمارے لئے واضح نہیں ہے۔<ref> شهرستانی، الملل و النحل، 1375ش، ج1، ص91-92.</ref> اشاعرہ اسی طرح سے جبر و اختیار کے مسئلہ میں نطریہ کسب کا ذکر کرتے ہیں  جو جبر و اختیار کو ساتھ میں جمع کرتا ہے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375ش، ج1، ص88-89.</ref>
[[اشاعرہ]] ابو الحسن علی اشعری (260-324 ه‍) کے ماننے والوں کو کہا جاتا ہے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375ش، ج1، ص86.</ref> اشاعرہ متون دینی میں استعمال ہونے والے صفات خداوند کی [[تاویل]] کو قبول نہیں کرتے ہیں جیسے ید اللہ (اللہ کے ہاتھ)  وجہ اللہ (اللہ کا چہرا) اور کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بھی ہے اور چہرہ بھی۔ لیکن کس طرح سے یہ ہمارے لئے واضح نہیں ہے۔<ref> شهرستانی، الملل و النحل، 1375ش، ج1، ص91-92.</ref> اشاعرہ اسی طرح سے جبر و اختیار کے مسئلہ میں نطریہ کسب کا ذکر کرتے ہیں  جو جبر و اختیار کو ساتھ میں جمع کرتا ہے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375ش، ج1، ص88-89.</ref>


[[ماتردیہ]] کے موسس ابو منصور ماتریدی (متوفی 333 ھ) ہیں۔ یہ بھی مذہب اشعری کی طرح ایک ایسی راہ کی فکر میں تھے جو اہل حدیث و معتزلہ کے وسط کی ہو۔ ماتردیہ عقل کو معتبر مانتے ہیں اور اصول عقاید کے کشف و دریافت کے لئے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ مذہب [[حسن و قبح]] افعال کو قبول کرتا ہے۔ انسان کے ارادہ کو کام کے انجام دینے میں دخیل مانتا ہے اور رویت خداوند کو ممکن مانتا ہے۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص136تا141.</ref>
[[ماتردیہ]] کے موسس ابو منصور ماتریدی (متوفی 333 ھ) ہیں۔ یہ بھی مذہب اشعری کی طرح ایک ایسی راہ کی فکر میں تھے جو اہل حدیث و معتزلہ کے وسط کی ہو۔ ماتردیہ عقل کو معتبر مانتے ہیں اور اصول عقائد کے کشف و دریافت کے لئے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ مذہب [[حسن و قبح]] افعال کو قبول کرتا ہے۔ انسان کے ارادہ کو کام کے انجام دینے میں دخیل مانتا ہے اور رویت خداوند کو ممکن مانتا ہے۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص136تا141.</ref>


[[وہابیت]] کی تاسیس [[محمد بن عبد الوہاب]] (متوفی 1206 ھ) کے ہاتھوں ہوئی۔ وہابی دیگر [[مسلمانوں]] کو عبادت میں شرک اور دین میں بدعت گزاری سے متہم کرتے ہیں۔<ref> ربانی گلپایگانی، فرق و مذاهب کلامی، 1377ش، ص175و176.</ref> وہابی تعلیمات کے مطابق، اولیائے الہی سے [[توسل]] کرنا، ان کے [[شفاعت]] طلب کرنا، قبر پیغمبر (ص) و ائمہ اہل بیت (ع) کی [[زیارت]] کے قصد سے سفر کرنا، اولیائے الہی کے آثار سے [[تبرک]] و شفا طلب کرنا، اولیائے الہی کی قبروں کی زیارت یا انہیں تعمیر کرنا، ان کی قبروں کے پاس [[مسجد]] تعمیر کرنا اور اہل قبور کے لئے نذر کرنا ۔۔۔ [[شرک]] ہے۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص146تا147.</ref>
[[وہابیت]] کی تاسیس [[محمد بن عبد الوہاب]] (متوفی 1206 ھ) کے ہاتھوں ہوئی۔ وہابی دیگر [[مسلمانوں]] کو عبادت میں شرک اور دین میں بدعت گزاری سے متہم کرتے ہیں۔<ref> ربانی گلپایگانی، فرق و مذاهب کلامی، 1377ش، ص175و176.</ref> وہابی تعلیمات کے مطابق، اولیائے الہی سے [[توسل]] کرنا، ان کے [[شفاعت]] طلب کرنا، قبر پیغمبر (ص) و ائمہ اہل بیت (ع) کی [[زیارت]] کے قصد سے سفر کرنا، اولیائے الہی کے آثار سے [[تبرک]] و شفا طلب کرنا، اولیائے الہی کی قبروں کی زیارت یا انہیں تعمیر کرنا، ان کی قبروں کے پاس [[مسجد]] تعمیر کرنا اور اہل قبور کے لئے نذر کرنا ۔۔۔ [[شرک]] ہے۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، 1389ش، ص146تا147.</ref>
confirmed، movedable
5,593

ترامیم