مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ حمراء الاسد" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 45: سطر 45:


==غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہونے والی آیات==
==غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہونے والی آیات==
بعض تفسیری اور تاریخی منابع میں آیا ہے کہ [[آیہ ۱۷۲ سورہ آل عمران|آیات ۱۷۲]] تا [[آیہ ۱۷۴ سورہ آل عمران|۱۷۴ سورہ آل عمران]] دربارہ غزوہ حمراء الاسد نازل شدہ است۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۲۶ھ، ج۲، ص۳۵۷؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۳۴۰؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ھ، ج‏۳، ص۳۱۷۔</ref> ہمچنین گفتہ شدہ [[آیہ ۱۴۰ سورہ آل عمران]] و [[آیہ ۱۰۴ سورہ نساء]] نیز دربارہ ہمین غزوہ است۔<ref>طوسی، التبیان، بیروت، ج۳، ص۵۱۔</ref>
بعض تفسیری اور تاریخی منابع میں آیا ہے کہ [[سورہ آل عمران]] کی آیت نمبر [[سورہ آل عمران آیت نمبر 140|140]] اور [[سورہ آل عمران آیت نمبر 172|172]] سے [[سورہ آل عمران آیت نمبر 174|174]] تک  غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۲۶ھ، ج۲، ص۳۵۷؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۳۴۰؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ھ، ج‏۳، ص۳۱۷۔</ref> اسی طرح کہا جاتا ہے کہ [[سورہ نساء آیت نمبر 104]] بھی اسی غزوہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔<ref>طوسی، التبیان، بیروت، ج۳، ص۵۱۔</ref>


==ابتدائی اقدامات==
[[جنگ احد]] میں بعض مسلمانوں کی طرف سے [[پیغمبر اکرمؐ]] نافرمانی کے نتیجے میں مسلمانوں کی شکست کے بعد پیغمبر اکرم زخمیوں کے ساتھ مدینہ واپس آ گئے۔
پیغمبر اکرمؐ نے مکہ سے مدینہ آنے والے ایک شخص سے مشرکین مکہ کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا: مکہ کے جنگجو جو احد میں شریک تھے اپنے آپ کو اس بات پر ملامت کر رہے ہیں کہ انہوں نے آپ کو کیوں وہاں سے جانے دیا، دشمن کا لشکر جنگ احد کی کامیابی سے مغرور ہو کر دوبارہ مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔<ref>ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج 4، ص 48۔</ref>
البتہ بعض مآخذ کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ وحی کے ذریعے قریش کے ارادے سے مطلع ہوئے۔<ref>تفسیرالقمی، ج1، ص 124۔</ref>
[[غزوہ احد]] کے ایک دن بعد [[رسول اللہ|پیغمبر خداؐ]] نے [[نماز صبح]] کے بعد ـ جبکہ جنگ کے زخمی اپنے زخموں کے مداوا میں مصروف تھے ـ [[بلال بن رباح|بلال حبشی]] سے فرمایا کہ ندا دیں کہ:
:::'''{{حدیث| أن رَسُول اللَّهِ يأمركم بطلب عدوكم ولا يخرج معنا إلا مِن شهد القتال بالأمس}}'''۔ <br/>([[رسول اللہ]]ؐ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ دشمن کا تعاقب کرو اور ہمارے ساتھ کوئی بھی ([[مدینہ]]) سے باہر نہ نکلے سوائے ان کے جو کل ہمارے ساتھ جنگ میں شریک تھے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص334۔،ابن سعد، طبقات، ج2، ص39، 42ـ43۔</ref>
ایک روایت میں ہے کہ [[رسول اللہ]]ؐ نے صرف ان افراد کو اپنے ساتھ عزیمت کرنے کی اجازت دی جو [[غزوہ احد]] میں زخمی ہوئے تھے۔<ref>قمی، تفسیرالقمی، ذیل آیات 172ـ174 [[سورہ آل عمران]]۔</ref>
اول الذکر روایت کے مطابق [[غزوہ احد]] میں شرکت کرنے والے 700 مسلمانوں میں سے 70 جام شہادت نوش کرچکے تھے<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص300۔،ابن سعد، طبقات، ج2، ص39، 42ـ43۔</ref> اور باقی ماندہ تمام مجاہدین [[غزوہ]] حمراء الاسد میں شریک تھے۔<ref>ابن کثیر، البدایة والنهایة، ج2، جزء4، ص51ـ52۔</ref>
لیکن مؤخر الذکر روایت کے مطابق، اس [[غزوہ|غزوے]] میں [[رسول خداؐ]] کے ساتھیوں کی تعداد 60<ref>مقدسی، البدء والتاریخ، ج4، ص205۔</ref> یا 70 تھی،<ref>طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیات  172ـ174 [[سورہ آل عمران]]۔</ref> یعنی تقریبا اتنے ہی افراد جو [[غزوہ احد]] میں زخمی ہوئے تھے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج4، ص335۔</ref> [[سورہ آل عمران]] کی [[آیت]] 172 میں ارشاد ہوا:
::{{قرآن کا متن|'''الَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِلّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنْهُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِيمٌ}}''' <br/> ترجمہ: [صاحبان ایمان ہیں وہ] جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور [[رسول اللہ|رسول]] کی آواز پر لبیک کہی، ان میں سے جو نیک عمل بجا لانے والے اور پرہیزگار ہیں، ان کے لیے اجر عظیم ہے۔
[[رسول اللہ]]ؐ نے فرمایا:
:::'''{{حدیث|ألا عصابة تشد لامر الله، تطلب عدوها؟ فانها أنكأ للعدو، وأبعد للسمع'''}}۔ <br/> ترجمہ: بےشک ایک گروہ الہ کے فرمان کی تعمیل پر استوار ہے اور اپنے دشمن کے تعاقب میں جاتا ہے، پس یہ عمل دشمن کے لئے نقصان دہ ہے اور اس کی شہرت زیادہ اور دو رس ہے۔
اور مذکورہ بالا آیت کریمہ اور [[حدیث]] شریف سے مؤخر الذکر قول کی تائید ہوتی ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیات 172 تا 174، [[سورہ آل عمران]]۔، عاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج6، ص335۔</ref>
[[شمس شامی]] نے ان دو اقوال کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔<ref>شمس شامی، سبل الهدی و الرّشاد، ج4، ص447۔</ref> روایت ضعیفی نیز می‌گوید که پیامبرؐ از میان حاضرانِ در احد و کسانی که در آنجا حضور نیافتند، لشکری به این غزوه برد.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص403۔</ref>
بہرحال [[جنگ احد|احد]] کے زخمیوں نے [[رسول خداؐ]] کی اطاعت کرتے ہوئے ہتھیار اٹھائے۔ ان میں سے 40 افراد کا تعلق [[بنو سلمہ|بنی سلمہ]] سے تعلق رکھتے تھے جو دوسروں سے کچھ زیاد زخم اٹھا چکے تھے اور آنحضرتؐ سے آ ملے۔ [[عبداللہ بن سہل]] اور ان کے بھائی [[رافع بن سہل|رافع]] ـ جن کے پاس کوئی سواری نہ تھی ـ گرتے پڑتے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ [[جابر بن عبداللہ انصاری|جابر بن عبداللہ]] ـ [[جنگ احد]] میں شرکت نہ کرنے کے باوجود، [[رسول خداؐ]] کی اجازت سے لشکر میں شامل ہوئے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص334ـ336۔</ref>
[[رسول خداؐ]] نے [[جنگ احد]] والا پرچم [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] (اور بقولے [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]]) کے سپرد کیا اور خود بھی بےشمار زخموں کے باوجود [[مسجد]] میں تشریف فرما ہوئے اور [[نماز]] بپا کی اور بعدازاں لباس رزم زیب تن کیا اور روانہ ہوئے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص336ـ337۔، طبرسی، اعلام الوری، ج1، ص183ـ184۔، ابن شهر آشوب، مناقب، ج1، ص167۔</ref>
==غزوہ حمراء الاسد کا ہدف==
یہ [[غزوہ]] اللہ کے حکم سے انجام پایا<ref>رجوع کریں: آیات 172 تا 174 [[سورہ آل عمران]]۔، قمی، تفسیر القمی ان ہی آیات کے ذیل میں۔، طبرسی، مجمع البیان، ان ہی آیات کے ذیل میں۔</ref> اور [[رسول خداؐ]] کی اس مہم کا ہدف دشمنوں کو ایک بار پھر [[مدینہ]] پر حملہ کرنے سے خوفزدہ اور اور مسلمانوں کی قوت کا مظاہرہ، کرنا تھا اور یہ باور کرانا تھا کہ [[غزوہ احد]]  مسلمانوں کو پہنچنے والے زخم اور نقصانات ان کے حوصلے اور دشمن کے مقابلے میں ان کا عزم و ارادہ پست نہیں کرسکے ہیں۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص107۔، ابن حزم، جوامع السیرة، ص175۔</ref>
مسلمانوں کو مہم کے لئے عزیمت کا فرمان دیتے ہوئے [[رسول اللہ]]ؐ کا کلام بھی اسی حقیقت پر دلالت کرتا ہے:
:::"{{حدیث|... '''فانها أنكأ للعدو وأبعد للسمع'''"}}۔ <br/> ترجمہ: پس بےشک یہ عمل دشمن کے لئے نقصان دہ ہے اور اس کی شہرت زیادہ اور دو رس ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیات 172 تا 174، [[سورہ آل عمران]]۔، عاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج6، ص335۔، طبری، تفسیر جامع، ذیل سوره  آیت 172، [[سورہ آل عمران]]۔</ref>
ایک روایت میں منقول ہے کہ [[رسول خداؐ]] کو خبر ملی کہ [[مشرکین]] [[روحاء]] میں ہیں اور [[مدینہ]] کی طرف پلٹ آنے پر غور کررہے ہیں چنانچہ آپؐ نے مسلمانوں کو ان کے تعاقب کے لئے بلایا۔<ref>رجوع کریں:طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیات سوره آل عمران: 172ـ174۔، شمس شامی، سبل الهدی والرّشاد، ج4، ص438ـ439، 441۔</ref>
==مشرکین کا تعاقب==
[[ملف:حمراء الاسد.png|thumbnail|270px|left| <center>[[غزوہ]] حمراء الاسد کا نقشہ]]</center>
[[ملف:حمراء الاسد.jpg|thumbnail|270px|left| <center>[[مدینہ]] کی نسبت حمراء الاسد اور روحا کا محل وقوع]]</center>
[[رسول اللہ|پیغمبرؐ]] نے [[بنو اسلم]] کے تین افراد کو اپنی سپاہ کے ہراول دستے کے طور پر دشمن کے تعاقب میں روانہ کیا۔ یہ افراد منطقۂ حمراء الاسد میں دشمن کے لشکر کے قریب پہنچے لیکن ان میں سے دو افراد کو مشرکین نے شہید کیا۔ مشرکین اس علاقے میں اپنے اجتماع کے دوران ایک بار [[مدینہ]] پر چڑھائی کے لئے صلاح مشورے کررہے تھے؛ تاہم [[صفوان بن امیہ]] نے انہیں مسلمانوں کے غیظ و غضب اور انتقام سے متنبہ کیا اور خبردار کیا کہ اس بار وہ شکست بھی کھا سکتے ہیں۔ چنانچہ مشرکین نے اپنا سفر جاری رکھا اور [[مدینہ]] سے 20 میل (= 40 کلومیٹر) دور "روحاء" کے علاقے میں پڑاؤ ڈالا۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص337ـ339۔، ابن سعد، طبقات، ج2، ص49۔</ref>
[[رسول خداؐ]] اور اصحاب حمراء الاسد پہنچے تو وہیں پڑاؤ ڈالا۔ سپاہ اسلام راتوں کو [[رسول خداؐ]] کے حکم پر بہت زیادہ آگ جلاتے تھے۔ مروی ہے کہ 500 مقامات پر آگ جلائی جاتی تھی اور یہ آگ دور دراز کے علاقوں سے نظر آتی تھی۔ اس لشکر کی شہرت بہت جلد تمام علاقوں تک پہنچی۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص337ـ339۔، ابن سعد، طبقات، ج2، ص49۔</ref>
==نئے حملے سے مشرکین کا خوف==
روحا میں قیام کے دوران [[ابو سفیان]] بدستور [[مدینہ]] پر نئے حملے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور وہ قریش کو اس حملے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ [[ابو سفیان]] نے اپنے دو سواروں کے توسط سے ـ جو لشکر کے لئے اشیاء خورد و نوش فراہم کرنے کی غرض سے [[مدینہ]] جارہے تھے ـ [[رسول اللہ]]ؐ کو پیغام بھیجا کہ "باقی ماندہ مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے [[مدینہ]] لوٹ کر آئے گا۔ [[رسول اللہ]]ؐ اور مسلمانوں نے جواب دیا:
::{{قرآن کا متن|'''حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ'''}}۔ <br/> ترجمہ: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور بڑا اچھا کارساز۔<ref>[[سورہ آل عمران]] آیت 173؛ یا واقعہ خداوند متعال نے یوں بیان فرمایا ہے:{{قرآن کا متن|'''الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ'''}}۔ <br/> ترجمہ: وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے بڑا لشکر جمع کیا ہے، ان سے ڈرو تو اس سے ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور بڑا اچھا کارساز۔</ref>
اس اثناء میں [[معبد بن ابی معبد|مَعْبَد بن اَبی مَعبَد خُزاعی]]، ـ جو اپنے قبیلے کے دوسرے افراد کی مانند [[رسول اللہ]]ؐ کا حلیف اور حامی تھا ـ نے [[ابو سفیان]] سے ملاقات کی اور اپنے کلام اور اشعار سے [[قریش]] کے سرغنوں کو [[مدینہ]] پر حملہ کرنے سے باز رکھا۔ اس نے [[ابو سفیان]] سے کہا: "[[رسول اللہ|محمد]]ؐ ایسے افراد کو لے کر حمراء الاسد میں آئے ہیں جن کے چہرے غیظ و غضب کی شدت سے تمتما رہے ہیں اور میں نے اپنی زندگی میں اتنے غضبناک چہرے نہیں دیکھے ہیں"۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص338۔، ابن هشام، السیره النبویه، ج3، ص108ـ 109۔</ref> اور یوں جنگ سے تھکے ہارے اور اپنی کامیابی سے مسرور مشرکین مسلمانوں کے غضب سے خائف ہوکر تیزرفتاری سے [[مکہ]] کی جانب پلٹ گئے؛<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص339۔، بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص403۔</ref> معبد خزاعی نے ایک قاصد کے توسط سے [[رسول اللہ]]ؐ کو پیغام دیا کہ مشرکین [[مکہ]] چلے گئے ہیں۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص339ـ340۔، ابن هشام، السیره النبویه، ج3، ص109ـ110۔</ref>
==مسلمانوں کی مدینہ واپسی==
واقدی<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص334۔</ref> اور ابن ہشام کے مطابق،<ref>قس ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص108۔</ref> [[رسول اللہ]]ؐ 5 روز بعد، طبری کے مطابق 3 روز بعد<ref>طبری، تاریخ، ج2، ص535۔</ref> اور بکری کے مطابق <ref>بکری، معجم ما استعجم، ج1، ص468۔</ref> دو روز بعد [[مدینہ]] واپس آئے۔ اس مدت میں [[مدینہ]] میں آپؐ کی جانشینی کا عہدہ [[عبداللّہ بن ام مکتوم|عبداللہ بن امّ مکتوم]] کے پاس تھا۔<ref>ابن سعد، طبقات، ج2، ص49۔</ref> یہ غزوہ [[قریش]]، [[منافقین]] اور [[مدینہ]] کے [[یہودیت|یہودیوں]] کے لئے نفسیاتی شکست کا سبب بنا اور اس سے ([[غزوہ احد]] میں شکست کھانے کے بعد) مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج4، ص339ـ341۔</ref> [[سورہ آل عمران]] کی آیات 172 تا 175 [[غزوہ]] حمراء الاسد کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔<ref>رجوع کریں: واقدی، المغازی، ج1، ص340۔، ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص128۔، طبری، جامع، ذیل همین آیات۔، شمس شامی، سبل الهدی والرّشاد، ج4، ص444ـ445۔</ref>
چونکہ حمراء الاسد میں کوئی جنگ نہیں ہوئی چنانچہ [[علی بن حسین مسعودی]] نے اس کو [[غزوہ|غزوات]] کے زمرے میں شمار نہیں کیا ہے۔<ref>مسعودی، تنبیه الاشراف، ص245۔</ref> لیکن متعدد غزوات ایسے ہیں جن میں آمنا سامنا نہیں ہوا ہے اور بایں وجود وہ غزوات کے نام سے مشہور ہیں۔ غزوہ حمراء الاسد سے قبل ہونے والے اکثر غزوات میں کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے۔ (غزوات کی فہرست اور توضیحات کے لئے رجوع کریں: [[غزوہ]])۔


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
confirmed، templateeditor
8,796

ترامیم