مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ حمراء الاسد" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 36: سطر 36:


بعض تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے دشمن کی نقل و حرکت سے با خبر ہونے کے لئے 3 اشخاص کو بھیجا؛ لیکن ان میں سے دو افراد قریش کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے<ref>مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۱۷۸؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۳۳۷۔</ref> اور مسلمانوں نے ان دونوں شہداء کو ایک ہی [[قبر]] میں دفن کیا۔<ref>ابن‌سعد، الطبقات الكبرى، ۱۴۱۸ھ، ج‏۲، ص۳۸۔</ref>
بعض تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے دشمن کی نقل و حرکت سے با خبر ہونے کے لئے 3 اشخاص کو بھیجا؛ لیکن ان میں سے دو افراد قریش کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے<ref>مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۱۷۸؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۳۳۷۔</ref> اور مسلمانوں نے ان دونوں شہداء کو ایک ہی [[قبر]] میں دفن کیا۔<ref>ابن‌سعد، الطبقات الكبرى، ۱۴۱۸ھ، ج‏۲، ص۳۸۔</ref>
===مشرکین کے صفوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا===
بہت سارے مورخین کے مطابق جب سپاہ اسلام حمراء الاسد نامی مقام پر پہنچے تو پیغمبر اکرمؐ نے مسلمانوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا اور حکم دیا کہ جب رات چھا جائے تو ہر ایک اپنے جمع کردہ لکڑیوں کو آگ لگائے۔ رات کے وقت 500 سے زیادہ جگہوں پر آگ روشن ہونے کی وجہ سے دشمن کے دلوں میں مسلمانوں کی طاقت کے حوالے سے خوف و ہراس پیدا ہونا شروع ہوا۔<ref>مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۱۸۰؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۳۳۸؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۲۵۹۔</ref> جب مشرکین مکہ روحاء نامی جگہے پر پہنچے اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے ان کا سامنا مَعبد نامی ایک شخص سے ہوا۔<ref>واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۳۳۸۔</ref> انہوں نے لشکر اسلام کے بارے میں معبد سے سؤال کیا تو اس نے جنگ احد کا انتقام لینے کے لئے مسلمانوں کے ایک دوسرے سے عہد پیمان باندھنے کی خبر دی اور لشکر اسلام کی عظمت پر مشمل شعر کے ذریعے اس نے ابو سفیان کے دل میں خوف و ہراس ایجاد کیا یوں مشرکین مکہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے سے منصرف ہوئے۔<ref>ذہبی، تاريخ الإسلام، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۲۲۳؛ واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ، ج۱، ص۳۳۸؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۲، ص۵۳۵۔</ref> [[قطب‌الدین راوندی|راوندی]] کے مطابق جب معبد نے روحاء کے مقام پر ابوسفیان سے ملاقات کی تو اس نے [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]] کی قیادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: «اے ابوسفیان یہ علی‌ ہیں جو لشکر اسلام سے آگے آگے آرہے ہیں» امام علیؑ کے انہی صفات کے بیان کے سبب ابوسفیان حملہ کرنے سے  منصرف ہوا۔<ref>قطب‌الدين راوندی، قصص الأنبياءؑ، ۱۴۰۹ھ، ص۳۴۳۔</ref>
بعض منابع میں آیا ہے کہ مشرکین مکہ کا مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے سے منصرف ہونے کے بعد معبد نے [[قبیلہ خزاعہ|قبیلہ خُزاعہ]] کے ایک شخص کو پیغمبر اکرمؐ کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ ابوسفیان اور ان کی ساتھی مکہ کی طرف بھاگ نکلے ہیں۔<ref>مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۱۸۱۔</ref> [[تفسیر علی بن ابراہیم قمی (کتاب)|تفسیر قمی]] کے مطابق مشرکین کے فرار ہونے سے پہلے جبرئیل پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہو کر واپس مدینہ لوٹنے کا حکم دیتے ہوئے کہا: خدا نے قریش والوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کیا ہے اور اب وہ واپس مکہ چلے گئے ہیں۔<ref>قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۱۲۴۔</ref>
[[تاریخ طبری (کتاب)|تاریخ طبری]] میں آیا ہے کہ ابوسفیان جنگ سے منصرف ہونے کے بعد مدینہ جانے والے ایک گروہ کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کے لئے پیغام بھیجا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہیں ہم بھی آپ کی طرف لوٹ آئیں گے۔ اس کے بعد اس نے مکہ کی طرف حرکت کیا۔ پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں نے جب ابوسفیان کا پیغام سنا تو سب نے پکارنا شروع کیا: «{{عربی|[[حسبنا اللہ و نعم الوکیل|حَسبُنا اللہ و نِعمَ الوکیل]]}}»<ref>سورہ آل عمران، آیہ۱۷۳۔</ref> طبری کے مطابق یہ جنگ تین دن جاری رہی۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۲، ص۵۳۶۔</ref>


==ابتدائی اقدامات==
==ابتدائی اقدامات==
confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم