مندرجات کا رخ کریں

"علم غیب" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 44: سطر 44:


==متعلقہ مقالات==
==متعلقہ مقالات==
*[[امداد غیبی]]
*[[غیبی امداد]]
*[[علم امام]]
*[[علم امام]]
== غیب پر مطلع ہونے کا امکان==
اسلامی تعلیمات کی رو سے خداوند متعال کسی کو بھی چاہے علم غیب سے مطلع کر سکتا ہے یعنی جو کچھ واقع ہوگئی ہے یا جو کچھ آئندہ وقوع پذیر ہے سے آگاہ کرتا ہے۔ جیسے قرآن میں آیا ہے:
<font color=green>{{حدیث|یعْلَمُ مَا بَینَ أَیدِیهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ یحِیطُونَ بِشَیءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء}}</font> ترجمہ، وہ جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو پبُ پشت ہے سب کوجانتا ہے اور یہ اس کے علم کے ایک حّصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر وہ جس قدر چاہے۔<ref>بقرہ، 255.</ref>
ابن سینا نیز تجربہ کو مبناء قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
:جس طرح نیند کی حالت میں غیبی امور سے مطلع ہو سکتے ہیں اور یہ چیزیں محقق بھی ہوئی ہیں، کوئی مانع نہیں ہے کہ بیداری کی حالت میں بھی یہ کام ہو سکتا ہے۔<ref>ابن سینا، ص۱۵۰-۱۵۱</ref>
===انبیاء کا غیب سے مطلع ہونا===
[[نبوت|انبیاء]] الہی کو اپنی رسالت انجام دینے کیلئے جن خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے ان میں سے ایک غیبی امور سے آگاہی ہے۔ خدا اپنے پیغمبروں کو وحی کے ذریعے گذشتہ اور آئندہ سے آگاہ کرتا ہے۔<ref>طوسی، التبیان، ج۲، ص۴۵۹</ref>
قرآن کریم [[حضرت عیسی]] علیہ السلام کا بعض غیبی امور سے مطلع ہونے پر تصریح کرتا ہے:
<font color=green>{{حدیث|وَأُنَبِّئُکم بِمَا تَأْکلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیوتِکمْ إِنَّ فِی ذَلِک لآیةً لَّکمْ إِن کنتُم مُّؤْمِنِینَ}}</font>، ترجمہ: اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو۔ ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو۔<ref>سورہ آل عمران، آیت نمبر 49۔</ref>
[[سورہ جن]] میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ خداوند متعال اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہے غیبی امور سے متعلق کہ جو صرف خدا سے مخصوص ہے، جس قدر مصحلت تقاضا کرے آگاہ فرماتا ہے۔ <ref>طباطبایی، ج۲۰، ص۸۳</ref>
<font color=green>{{حدیث|عَالِمُ الْغَیبِ فَلَا یظْهِرُ عَلَی غَیبِهِ أَحَدًا* إِلَّا مَنِ ارْتَضَی مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ یسْلُک مِن بَینِ یدَیهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا}}</font>، ترجمہ: وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے (26) مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے۔<ref>سورہ جن، آیت نمبر 26 اور 27۔</ref>
بعض مفسروں کے مطابق سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۷۹ تمام انبیاء کا غیبی امور سے مطلع ہونے کی نشاندہی کرتی ہے مخصوصا لفظ "مِن" کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ لوگ خدا کے منتخب افراد ہیں۔<ref>بہ اصطلاح، من در این آیہ، بیانیہ است نہ تبعیضیہ؛ طوسی، التبیان، ج۳، ص۶۳</ref>
===پیغمبر اکرم(ص) کا غیب سے مطلع ہونا===
تمام انبیاء میں [[پیغمبر اسلام(ص)]] کی رسالت کا زمان اور مکان کے اعتبار سے وسیع اور دائمی ہونے کی وجہ سے آپ (ص) دوسرے تمام انبیاء سے زیادہ غیبی امور سے آگاہ تھے۔ آپ خدا کے اذن سے ان تمام غیبی امور سے آگاہ تھے جو آپ کی نبوت اور رسالت کی ذمہ داری کو نبھانے کیلئے ضروری اور لازمی تھیں۔<ref> مظفر، ص۱۵</ref>
قرآن کریم میں بعض ایسی خبروں کا ذکر آیا ہے جن سے پیغمبر اکرم(ص) آگاہ تھے جبکہ نبوت اور رسالت سے پہلے آپ ان سے آگاہ نہیں تھے۔
<font color=green>{{حدیث|تِلْک مِنْ أَنْباءِ الْغَیبِ نُوحیها إِلَیک ما کنْتَ تَعْلَمُها أَنْتَ وَ لا قَوْمُک مِنْ قَبْلِ هذا}}</font>، ترجمہ:  پیغمبر علیہ السّلام یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی ہم آپ کی طرف وحی کررہے ہیں جن کا علم نہ آپ کو تھا اور نہ آپ کی قوم کو۔<ref>سورہ ہود، آیت نمبر 49۔</ref>
===ائمہ معصومین کا غیب سے مطلع ہونا===
شیعہ اعتقادات کے مطابق [[امام]] کی خصوصیات میں سے ایک امام کا شریعت سے مکمل آگاہی اور شناخت ضروری ہے کیونکہ وہ شریعت کا محافظ اور مفسر ہے۔اگر امام کو شریعت کا مکمل علم نہ ہو تو اسے اس منصب پر فائز کرنا لغو اور بیہودہ ہوجاتاہے۔<ref>مظفر، ص۱۶</ref> پس امام کیلئے دین اور شریعت کو تحریف سے محفوظ رکھنے اور اسکے پیچیدہ مسائل کو بیان کرنے کیلئے اسے شریعت سے مکمل آگاہی اور اس کی شناخت ضروری ہے۔ <ref>مفید، اوائل المقالات، ص۳۹</ref> چنانچہ دین کی جامعیت اور وسعت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک عام آدمی کیلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ شریعت پر اس طرح علم حاصل کرے  پس ضروری ہے کہ جو شخص دین کا محافظ اور مفسر ہو اسے غیر متعارف طریقے سے بعض ایسے علوم سے آگاہ کیا حائے جن سے عام آدمی مطلع نہیں ہو سکتا۔<ref>شریف مرتضی، ج۲، ص۱۵و۱۶</ref>
==علم امام کے بارے میں شیعہ نقطہ نظر==
شیعہ نقطہ نظر سے [[امام معصوم]] کو انبیاء کی طرح غیبی امور پر خدا کی طرف سے حضوری طور پر علم اور آگاہی حاصل ہے،<ref>خرازی، ج۲‌، ص۴۶</ref> اس طرح کہ امام جب چاہے یہ امور اس کے سامنے حاضر ہیں اور امام ان امور سے آگاہ ہیں نہ یہ کہ یہ چیزیں ہمیشہ ان کے حضور فعلا موجود۔<ref>مظفر، ص۶۲</ref> یہ بات کہ امام جب بھی کسی چیز کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہے تو خدا اسے اس چیز سے آگاہ فرماتا ہے، ائمہ معصومین کی طرف سے منقول کئی احادیث میں بیان ہوئی ہے۔<ref>کلینی، ج۱، ص۲۵۸</ref>
شیعہ احادیث میں [[ائمہ معصومین]] کی طرف سے بعض پیشن گوئیوں اور غیبی امور کے بارے میں دی گئی خبروں کا ذکر آیا ہے۔ ان میں سے بعض احادیث [[نهج البلاغة|نہج البلاغہ]] کے متعدد خطبات میں بیان ہوئی ہیں جیسے: [[کوفہ]] کی ویرانی کی خبر،<ref>نہج البلاغہ، خطبہ۱۰۱</ref> [[عبدالملک مروان]] کا کوفہ پر حملے کی خبر <ref>نہج البلاغہ، خطبہ ۱۰۱: ۱۸۹</ref>[[حجاج بن یوسف ثقفی]] کا مدینے کی شہریوں کا قتل عام کی خبر،<ref> نہج البلاغہ، خطبہ ۱۱۶</ref> مستقبل میں [[بصرہ]] میں خون خرابے کی خبر ،<ref>نہج البلاغہ، خطبہ ۱۰۲</ref> [[مروان بن حکم|مروان]] کے چار فاسق اور فاجر بیٹوں کی حکومت کی خبر <ref>نہج البلاغہ، خطبہ ۷۳</ref> اور خبر مغلوں کا حملہ اور ان کی جنایات کی خبر۔ <ref>نہج البلاغہ، خطبہ۱۲۸</ref>
===شیعہ متکلمین کا نظریہ===
امام کا غیبی امور سے آگاہ ہونے کے بارے میں چیدہ شیعہ متکلمین کے نظریات کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
* امام [[لوح محو و اثبات]] اور [[لوح محفوظ]] پر مطلق اور بالفعل آگاہی رکھتا ہے۔
* امام فقط [[لوح محو و اثبات]] پر مطلق اور بالفعل آگاہی رکھتا ہے۔
* امام کا غیب سے آگاہ ہونا خدا سے درخواست کرنے سے مشروط ہے۔
* علم امام کی جزئیات کے بارے میں اظہار نظر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس بارے میں توقف کرنا ضروری ہے۔<ref>قراملی، مقاله علم امام حسین به شهادت خویش</ref>
* علم امام صرف ان اشیاء تک محدود ہے جن کی امام کو اپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے ضروری اور لازمی ہے۔<ref>صالحی نجف آبادی، ص۴۵۵-۴۵۶</ref>
===وسعت علم امام===
شیعہ اعتقادات کے مطابق امام کا علم ان تمام چیزوں کو احاطہ کرتا ہے جو امام کی ذمہ داری کو نبھانے یعنی امت کی ہدایت و رہبری کیلئے لازم اور ضروری ہیں۔ <ref>صدوق، الخصال، ج۲، ص۵۲۹</ref> شیعہ احادیث میں اس بات پر تصریح کی گئی ہے کہ امام کو ان تمام چیزوں کا علم ہوتا ہے جو اس دنیا میں واقع ہوگئی ہیں یا واقع ہونگی۔ انہی روایات میں یہ بھی موجود ہے کہ خداوند متعال ایسے شخص کو جو لوگوں کے تمام سوالات کا جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتا امام اور اپنی حجت قرار نہیں دیتا۔<ref>کلینی، ج۱، ص۲۶۰‌-۲۶۱</ref>
امام کے علم کی بعض مصادیق درج ذیل ہیں:
{{ستون آ|2}}
* [[قرآن کریم]] کے [[مطلق و مقید]]، [[عام و خاص]] اور [[ناسخ و منسوخ]] سب سے امام آگاہ ہوتا ہے؛
* دوسری تمام آسمانی کتابیں؛
* جو کچھ اب تک واقع ہوئے ہیں اور جو کچھ مستقبل میں واقع ہونگے؛<ref>مظفر، ص۲۳</ref>
* موت اور رنج الم؛<ref>کشی، ص۱۳۴۸</ref>
* تمام دنیوی اور اخروی امور؛<ref>کلینی، ج۱، ص۶۱</ref>
* اپنی شہادت کی کیفت اور وقت؛<ref>کلینی، ج۱، ص۲۵۸</ref>
* اسرار الہی؛<ref>طوسی، تهذیب الاحکام، ج۶، ص۹۵</ref>
* اور احکام الہی۔<ref>مظفر، ص۱۲</ref>
{{ستون خ}}
===امام کا غیبی امور سے مطلع ہونے کی راہیں===
شیعہ مآخذ کے مطابق امام کئی راستوں سے غیبی امور سے مطلع ہوتے ہیں:
الف. '''علوم و معارف کو پیامبر (ص) سے دریافت کرنا''': [[امام رضا(ع)]] سے منقول ہے: علم امام کا علم پیغمبر(ص) کے توسط سے اس تک پہنچا ہے اور خود پیغمبر (ص) نے علم غیب کو جبرائیل کے توسط سے خداوند متعال سے دریافت کیا ہے۔ <ref>کلینی، ج۱، ص۲۵۶</ref> [[امام باقر(ع)]] سے بھی ایک حدیث میں آیا ہے کہ ائمہ معصومین ان تمام علوم سے آگاہ ہیں جن سے خدا کے فرشتے اور انبیاء آگاہ ہیں۔<ref>کلینی، ج۱، ص۲۵۵</ref>
یہ تعلیم مختلف طریقوں سے انجام پاتے تھے:
* تعلیم و تعلم کے متعارف طریقے سے: اس طرح کی تعلیم میں [[حضرت علی(ع)]] دوسرے لوگوں کی طرح رسول اکرم(ص) کے فرامین سے بہرہ مند ہوتے تھے اگرچہ آپ(ع) کی بعض خصوصیات کی وجہ سے آپ ان کلام سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہوتے تھے۔<ref> خرازی، ج۲، ص۴۶</ref>
* پیغمبر(ص) کا غیر متعارف طریقوں کے ذریعے اپنے علوم کو ائمہ تک منتقل کرنا: پیغمبر اکرم (ص) سے علم لدنی کی دریافت میں معصومین لوگوں کے ساتھ شریک نہیں ہیں اور یہ راستہ صرف اور صرف معصومین کے ساتھ مخصوص ہیں۔ یہ راستے درج ذیل ہیں:
# ایسے علوم جو پیغمبر اکرم (ص) کی عمر مبارک کے آخری لمحات میں حضرت علی تک منتقل ہوئے۔ احادیث کے مطابق ان لمحات میں ایسے علوم حضرت علی(ص) تک منتقل ہوئے جو علم کے ہزار ابواب کے برابر تھے اس طرح کہ ہر باب سے ہزار ہزار باب کھلتے تھے۔ یہ علم گذشتہ اور آئندہ کے واقعات اور موت و رنج و الم اور احکامات پر مشتمل تھا۔ یہ علم [[اسرار امامت]] میں شامل ہیں جو ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتے ہیں۔<ref>صدوق، ص۶۴۳</ref>
# [[جفر اور جامعہ| کتاب جامعہ]] کے ذریعے: یہ کتاب جسے پیغمبر اکرم (ص) حضرت علی (ع) کو املاء دیتے تھے اور حضرت علی (ع) اسے لکھتے تھے، امام کو پیش آنے علوم اور اخبار پر مشتمل تھی اور ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتے تھے۔<ref>کلینی، ج۱، ص۲۷۵</ref>
# [[جفر و جامعہ|کتاب جفر]] کے ذریعے: بعض رویات کے مطابق یہ کتاب [[انبیاء|انبیائے الهی]] اور ان کے [[جانشینوں]] کی میراث ہے، انبیاء انکے جانشین اور بنی اسرائیل کے علماء کے علوم پر مشتمل ہے۔ اسی طرح یہ کتاب [[زبور]] [[حضرت داود|داود]]، [[توریت]] [[حضرت موسی|موسی]]، [[انجیل]] [[حضرت عیسی|عیسی]] اور [[صحف]] [[حضرت ابراہیم|ابراہیم]] پر بھی مشتمل ہے۔<ref>کلینی، ج۱، ص۲۴۰</ref>
ب. '''مصحف فاطمہ کے ذریعے''': بعض احادیث کے مطابق [[مصحف فاطمہ|مصحف حضرت فاطمہ(س)]]، ان روایات کا مجموعہ ہے جو فرشتوں کا [[حضرت زہرا(س)]] سے ہمکلام ہونے کی ذریعے وجود میں آئی ہے جو [[قیامت]] تک پیش آنے والی اخبار اور واقعیات پر مشتمل ہے جنہیں حضرت زہرا حضرت علی(ع) کو سناتی تھیں اور حضرت علی(ع) انہیں تحریر فرماتے تھے۔ <ref>صفار، ص۱۱۰</ref>
امام صادق‌ (ع) سے منقول ایک حدیث کے مطابق مصحف فاطمہ مستقبل کے اخبار پر مشتمل ہے۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج۲۶، ص۱۸</ref> <ref>صفار، ص۱۴۹ و۱۵۰</ref>
ج. '''الہام اور تحدیث کے ذریعے''': [[حسن بن یحیی|حسن بن یحیی مدائنی]] سے منقول ہے کہ امام صادق (ع) سے پوچھا: جب کسی امام سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو امام کس علم کی بناء پر جواب دیتا ہے؟ تو امام(ع) نے فرمایا:
:: کبھی اس پر الہام ہوتا ہے، کبھی کسی فرشتے سے سنتا ہے اور کبھی کبھار دونوں طریقوں سے<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج۲۶، ص۵۷؛ طوسی، الامالی، ج۱، ص۴۰۸</ref>
===حکمت علم غیب ائمہ===
[[محمد رضا مظفر]] نے ائمہ کے علم غیب سے متعلق کئی حکمتیں اور علتیں ذکر فرمایا ہے:
*امت اسلام کے فائدے میں؛
*اسلامی پیشوا کی قدرت میں اضافے کی خاطر؛
*خدا کی طرف سے ائمہ کو نصب کرنے میں جو لطف اور احسان ہے اسے کمال کے درجے تک پہنچانے کیلئے۔<ref>مظفر،۲۱-۳۴</ref>
===علم غیب ائمہ کے دلایل===
معصومین سے منقول بعض احادیث کی بنا پر امام پیغمبر کے علم کے وارث <ref>کلینی، ج۱، ص۴۷۰</ref> اور علم الہی کے خزانہ دار<ref>کلینی، ج۱، ص۱۹۲</ref> ہے۔ شیعہ اس مطلب کی اثبات کیلئے بعض روایات سے تمسک کرتے ہیں منجملہ ان میں سے یہ حدیث ہے جسے[[رسول اکرم]](ص) نے  [[حضرت علی(ع)]] کے بارے میں فرمایا ہے:
:: <font color=blue>{{حدیث|انا مدینة العلم و علی بابها}}</font><ref>حر عاملی، ج۲۷، ص۳۴</ref>
ایک اور حدیث کے مطابق [[ہشام بن حکم|ہشام]] نے امام صادق(ع) سے 500 کلامی مسائل میں جواب سننے کے بعد کہا: میں جانتا ہوں کی حلال اور حرام کے تمام مسائل سے آپ آگاہ ہیں اور اس حوالے سے آپ تمام لوگوں سے زیادہ با خبر ہیں لیکن یہ [[علم کلام]] ہے؟! حضرت امام صادق‌(ع) نے جواب میں فرمایا: افسوس ہو تم پر اے ہشام! خداوند  متعال لوگوں پر کسی کو اپنی حجت قرار نہیں دیتا جس کے پاس لوگوں کی تمام ضرورتوں کا حل نہ ہو۔ <ref>کلینی، ج۱، ص۲۶۲</ref>
==دوسرے انسانوں کا غیب سے مطلع ہونا==
جس طرح پہلے گذر گیا کہ علم غیب پیغمبروں اور ائمہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کے بعض مراتب دوسرے انسانوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں ان میں سے بعض افراد کا اشارہ ملتا ہے:
{{ستون آ|2}}
* [[حضرت مریم]] <ref>سورہ آل عمران، آیت نمبر ۴۵اور ۴۵۔</ref>
* [[حضرت ابراہیم]] کی بیوی۔<ref>سورہ ہود، آیات ۶۹-۷۳ ۔</ref>
* [[حضرت موسی]] کی ماں۔<ref>سورہ قصص، آیت نمبر 7۔</ref>
* [[حضرت خضر]]۔<ref>سورہ کہف، آیت نمبر65۔</ref>
* حضرت خضر پر ایمان لانے والے جو آپ(ع) کے منکرین پر گواہ ہیں۔<ref>سورہ توبہ، آیت نمبر ۱۰۵ ۔</ref>
* [[حضرت سلیمان]] کے صحابی [[(آصف بن برخیا)]]<ref>سورہ نمل، آیت نمبر ۴۰ ۔</ref>
{{ستون خ}}
==اعتراضات==
ائمہ معصومین کے غیبی امور سے آگاہی سے متعلق مختلف اعتراضات اور اشکالات وراد کئے گئے ہیں جن کا شیعہ علماء نے جواب دئے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
* اگر ائمہ معصومین علم لدنی اور علم غیب کے مالک ہیں تو کیوں بعض روایتوں میں خود ائمہ میں سے بعض نے اعتراف کیا ہے کہ آپ(ع) اس طرح کے علوم سے باخبر نہیں ہیں؟ مثلا ایک حدیث میں امام جعفر صادق(ع) نے کسی شخص کے جواب میں جو آپ(ع) کو علم غیب کا مالک سمجھتا تھا فرمایا کہ ہمیں اس طرح کا کوئی علم نہیں ہے اور آپ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ میری ایک کنیز نے کوئی غلط کام انجام دیا ہے اور میں اسے تنبیہ کرنا چاہتا ہوں لیکن ابھی اسے پیدا نہیں کررہا ہوں۔<ref>کلینی، ج۱، ص۲۵۷</ref>
یہ اعتراض [[اہل بیت]] سے متعلق وارد ہونے والی روایات کے مجموعے پر صحیح دقت نہ کرنے کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔ قرآن اور روایات کی رو سے ائمہ معصومین علم غیب کے مالک ہیں۔ اس بنا پر وہ روایات جو معصومین کے حوالے سے علم غیب کا انکا کرتی ہیں یا یہ روایات جعلی ہیں یا [[تقیہ]] کی وجہ سے صادر ہوئی ہیں۔ اس بات پر گواہ اسی حدیث کا تتمہ ہے جس میں اشکال وارد کیا گیا ہے، اس روایت میں امام نے اپنے سے علم غیب کی نفی کی ہے لیکن بعد میں اسی راوی کے ساتھ امام کسی ایسی جگہ پر پہنچتے ہیں جہاں کوئی اور موجود نہیں اس وقت آپ قرآن کی آیت سے تمسک کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نہ صرف علم غیب کے مالک ہیں بلکہ حجت خدا کیلئے ایسے علوم سے آگاہ ہونا لازمی اور ضروری امر ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی انجام دے سکیں۔<ref>مظفر، ص۶۲</ref>
* اگر ائمہ معصومین اپنی شہادت سے باخبر تھے تو اس واقعے  کا روک تھام ان پر واجب تھا نہ یہ کہ وہ محل وقوع پر تشریف لے جائیں۔ مثلا اگر [[حضرت علی(ع)]] [[19 رمضان]] کی رات کو [[مسجد کوفہ]] میں اپنے اوپر تلوار کی وار سے آگاہ تھے تو ضروری تھا کہ آپ وہاں نہ جاتے۔ ورنہ یہ کام ایک قسم کی خود کشی ہے جو کہ حرام ہے۔
اس اعتراض کے کئی جواب دئے گئے ہیں:
بعض حضرات اعتراض سے بچنے کیلئے اس بات کے معتقد ہیں کہ امام ایسے امور سے آگاہ نہیں ہوتے جو ان کی ذمہ داری نبھانے کیلئے لازمی اور ضروری نہیں ہوا کرتیں، جیسے [[شہادت]] سے باخبر ہونا <ref>صالحی نجف آبادی، ص۴۵۵-۴۵۶</ref>
بعض دوسرے علم ظاہری اور علم باطنی کو جدا کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ امام جس طرح امور کے ظاہر سے آگاہ ہیں اسی طرح ان کے باطن سے بھی آگاہ ہیں۔ علم ظاہری کے مقام پر ائمہ معصومین کی ذمہ داری ظاہر پر عمل کرنا ہے اور اپنے معاشرتی کاموں کو علم ظاہری کی بنیاد پر انجام دینے پر مامور ہیں۔ لیکن علم باطنی کے مقام پر امامت کے اس عظیم فریضے کی انجام دہی کیلئے خدا کی دی ہوئی علم لدنی جس کی بناء پر آپ حضرات واقعے کی انتہاء اور اس کے جزئیات سے باخبر ہیں لیکن اس کے باوجود امام ظاہر پر عمل کرنے پر مامور تھے نہ باطن پر۔ اس بناء پر ائمہ معصومین اپنے علم لذنی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس واقعے کو نہیں روک سکتے تھے۔<ref>مجلسی، مراۃ العقول، ج۳، ص۱۲۴- ۱۲۵</ref>
ائمہ معصومین کے علم غیب کے بارے میں موجود احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرا نظریہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
==متعلقہ روابط==
* [[عصمت]]


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed، templateeditor
8,601

ترامیم