مندرجات کا رخ کریں

"علم غیب" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 28: سطر 28:


ایران کے شیعہ عالم دین اور فلسفی [[شہید مطہری]] نے قرآن کی مذکورہ دو قسم کی آیات کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم غیب کے باب میں قرآن کی اصطلاح یہ ہے کہ جو ہستی بغیر تعلیم اور کسب کے غیب پر علم پیدا کرے اسے عالم بالغیب کہا جاتا ہے جو صرف خدا ہے جبکہ انبیاء اور خدا کے بعض منتخب بندے جو غیب سے آگاہ ہوتے ہیں وہ متعلم‌ الغیب ہیں یعنی ان کا علم غیب خدا کی طرف سے عظا شده ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ج۲۷، ص۸۲۸۔</ref>
ایران کے شیعہ عالم دین اور فلسفی [[شہید مطہری]] نے قرآن کی مذکورہ دو قسم کی آیات کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم غیب کے باب میں قرآن کی اصطلاح یہ ہے کہ جو ہستی بغیر تعلیم اور کسب کے غیب پر علم پیدا کرے اسے عالم بالغیب کہا جاتا ہے جو صرف خدا ہے جبکہ انبیاء اور خدا کے بعض منتخب بندے جو غیب سے آگاہ ہوتے ہیں وہ متعلم‌ الغیب ہیں یعنی ان کا علم غیب خدا کی طرف سے عظا شده ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ج۲۷، ص۸۲۸۔</ref>
<!--
==علم غیب امامانؑ==
{{اصلی|علم امام}}
مذہب امامیہ کے مطابق ائمہ معصومینؑ کا علم غیب بھی پیغمبر اکرمؐ کی طرح خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے۔<ref> خرازی، بدایۃ المعارف، ۱۴۲۹ھ، ج۲‌، ص۴۶۔</ref> ان کے مطابق علم الہی چہ بسا پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے ائمہ معصومینؑ تک پہنچا ہے  بہ امامان منتقل شدہ است؛ بدین صورت کہ پیامبرؐ این علم را از خداوند دریافت کردہ و بہ امام علیؑ تعلیم دادہ و امام علیؑ بہ امام حسنؑ تعلیم دادہ و بہ‌ہمین ترتیب ہر امامی بہ امام بعدی تا آخرین امام، یعنی امام مہدیؑ انتقال یافتہ است۔<ref> خرازی، بدایۃ المعارف، ۱۴۲۹ھ، ج۲‌، ص۴۶۔</ref> گاہی نیز علم الہی از راہ‌ہای دیگری بہ امامؑ می‌رسد۔<ref> خرازی، بدایۃ المعارف، ۱۴۲۹ھ، ج۲‌، ص۴۷۔</ref> برای نمونہ برپایہ برخی روایاتِ موجود در منابع روایی شیعہ، جبرئیل اخبار رویدادہای آیندہ را بہ [[حضرت فاطمہ(س)]] گفت و او در [[مصحف فاطمہ(س)|مُصحف فاطمہ]] نوشت۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۳۹-۲۴۰۔</ref> ہمچنین با توجہ بہ برخی روایات، امامؑ می‌تواند از راہ [[تحدیث]] بہ‌واسطہ فرشتگان<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۳۹-۲۷۰۔</ref> یا [[الہام]]، بہ غیب آگاہی یابند۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۶۴۔</ref>
برپایہ برخی روایات، امام وارث علم پیامبران<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۴۷۰۔</ref> و صندوق‌دار علم الہی<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۱۹۲۔</ref> است۔ شیعیان بہ برخی روایات از جملہ [[حدیث مدینۃ العلم]] استناد می‌کنند کہ در آن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبرؐ]]، خودش را شہر علم و [[امام علی علیہ‌السلام|امام علیؑ]] را باب آن معرفی کردہ است۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۶ھ، ج۲۷، ص۳۴</ref>
دربارہ مقدار علم غیب امامؑ نیز برخی از متکلمان شیعہ معتقدند کہ علم آنان، محدود بہ موارد خاصی است۔<ref>حلی، اجوبۃ المسائل، ص۱۴۸۔</ref> [[شیخ مفید]] علم غیب امام را از اوصاف ضروری و شرط امامت آنان ندانستہ و گفتہ است امامانؑ بہ ضمیر برخی انسان‌ہا مطلع‌اند و بہ برخی اموری کہ ہنوز واقع نشدہ نیز علم دارند۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ھ، ص۶۷۔</ref> برخی دیگر با استناد بہ دستہ‌ای از روایات،<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۵۸-۲۶۲۔</ref> بر این باورند کہ علم امامان شامل تمام اموری است کہ در عالم روی دادہ یا خواہد داد۔<ref>مظفر، علم الامام، مکتبۃ الحیدریۃ، ص۲۳</ref>
-->


== غیب پر مطلع ہونے کا امکان==
== غیب پر مطلع ہونے کا امکان==
confirmed، templateeditor
8,601

ترامیم