مندرجات کا رخ کریں

"علم غیب" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 22: سطر 22:
#وہ آیات جن میں خود پیغمبر اکرمؐ نے اپنے بارے میں علم غیب کی نفی کی ہے؛<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref> مانند آیت «[[سورہ انعام کی آیت نمبر 50|{{عربی|قُلْ لَا أَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللَّہِ وَ لَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ}}]]؛ کہو: میں نہیں کہتا کہ خدا کے خزینے میرے پاس ہے اور میں غیب سے آگاہ اور مطلع نہیں ہوں»۔<ref>سورہ انعام، آیہ ۵۰؛ بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref>
#وہ آیات جن میں خود پیغمبر اکرمؐ نے اپنے بارے میں علم غیب کی نفی کی ہے؛<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref> مانند آیت «[[سورہ انعام کی آیت نمبر 50|{{عربی|قُلْ لَا أَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللَّہِ وَ لَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ}}]]؛ کہو: میں نہیں کہتا کہ خدا کے خزینے میرے پاس ہے اور میں غیب سے آگاہ اور مطلع نہیں ہوں»۔<ref>سورہ انعام، آیہ ۵۰؛ بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref>
#وہ آیات جن میں غیب سے آگاہی کو صرف خدا کے ساتھ مختص کی گئی ہے؛<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref> مانند آیت «[[سورہ انعام کی آیت نمبر 59|{{عربی|وَ عِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ}}]]»۔<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref>
#وہ آیات جن میں غیب سے آگاہی کو صرف خدا کے ساتھ مختص کی گئی ہے؛<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref> مانند آیت «[[سورہ انعام کی آیت نمبر 59|{{عربی|وَ عِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ}}]]»۔<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref>
اس نظریے کی رد میں قرآن کی مختلف آیات جیسے [[سورہ آل عمران]] کی آیت نمبر [[سورہ آل عمران آیت نمبر ۴۴|44]] اور [[سورہ آل عمران آیت نمبر 179|۱۷۹]] اور [[سورہ جن]] کی آیت نمبر [[سورہ جن آیت نمبر26|۲۶]] اور [[سورہ جن آیت نمبر 27|۲۷]] سے استدلال کیا گیا ہے، ان آیات کے مطابق خدا نے اپنے بعض انبیاء اور منتخب بندوں کو علم غیب عطا فرمایا ہے۔<ref>نمازی شاہرودی، علم غیب، ۱۳۹۳ہجری شمسی، ص۳۱-۳۴؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ج۲۷، ص۸۲۸۔</ref>
اسی طرح کہا گیا ہے کہ قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں علم غیب کی دو اقسام؛ علم غیب ذاتی و مستقل اور علم غیب مستفاد و وابستہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ آیات جن میں علم غیب کو صرف خدا کے ساتھ مختص کیا گیا ہے ان میں علم غیب سے مراد ذاتی و مستقل علم غیب ہے جو صرف خدا کے ساتھ متخص ہے۔ جبکہ وہ آیات جن میں غیر خدا کے یہاں پر علم غیب کی بات کی گئی هے ان سے مراد وابستہ و مستفاد علم غیب ہے؛ یعنی وہ علم غیب جسے خدا نے انبیاء اور بعض منتخب بندوں کے لئے عطا کیا ہے۔<ref>برای نمونہ ملاحظہ کریں: علامہ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۵۷-۵۸؛ سبحانی، جدال احسن، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۹۸-۱۰۰؛ سبحانی، علم غیب (آگاہی سوم)، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ص۶۳-۶۴۔</ref>
ایران کے شیعہ عالم دین اور فلسفی [[شہید مطہری]] نے قرآن کی مذکورہ دو قسم کی آیات کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم غیب کے باب میں قرآن کی اصطلاح یہ ہے کہ جو ہستی بغیر تعلیم اور کسب کے غیب پر علم پیدا کرے اسے عالم بالغیب کہا جاتا ہے جو صرف خدا ہے جبکہ انبیاء اور خدا کے بعض منتخب بندے جو غیب سے آگاہ ہوتے ہیں وہ متعلم‌ الغیب ہیں یعنی ان کا علم غیب خدا کی طرف سے عظا شده ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ج۲۷، ص۸۲۸۔</ref>
== غیب پر مطلع ہونے کا امکان==
== غیب پر مطلع ہونے کا امکان==
اسلامی تعلیمات کی رو سے خداوند متعال کسی کو بھی چاہے علم غیب سے مطلع کر سکتا ہے یعنی جو کچھ واقع ہوگئی ہے یا جو کچھ آئندہ وقوع پذیر ہے سے آگاہ کرتا ہے۔ جیسے قرآن میں آیا ہے:
اسلامی تعلیمات کی رو سے خداوند متعال کسی کو بھی چاہے علم غیب سے مطلع کر سکتا ہے یعنی جو کچھ واقع ہوگئی ہے یا جو کچھ آئندہ وقوع پذیر ہے سے آگاہ کرتا ہے۔ جیسے قرآن میں آیا ہے:
confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم