مندرجات کا رخ کریں

"حب الوطن من الایمان" کے نسخوں کے درمیان فرق

عدد انگلیسی
(«{{خانہ معلومات روایت | عنوان = حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الْایمانِ | تصویر = حب الوطن من الایمان.jpg | تصویر کی چوڑائی= 240px | توضیح تصویر = کوفی سلطانی خط میں حب الوطن کی خطاطی | دوسرے اسامی = | موضوع = | صادر از = پیغمبر خدا(ص) سے منسوب |...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
(عدد انگلیسی)
سطر 20: سطر 20:


==اہمیت==
==اہمیت==
جملہ "حبُّ الْوطن منَ الايمان"، کا مطلب ہے "وطن سے محبت ایمان کا جز ہے"، یہ ایک مشہور حدیث کے طور پر<ref>مکارم شیرازی، نفحات الولایه، ۱۴۲۶ھ، ج۲، ص۱۴۵.</ref> [[پیغمبر اکرم (ص)]] سے منسوب ہے۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ھ، ج۱۷، ص۲۹۹.</ref> لوگوں میں اس جملے کو مقبولیت حاصل ہے اور روز مرہ محاوروں میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے نیز ادیبوں اور شعراء نے اپنی تحریروں میں اس کا ذکر کیا ہے۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص۲۱۹.</ref>
جملہ "حبُّ الْوطن منَ الايمان"، کا مطلب ہے "وطن سے محبت ایمان کا جز ہے"، یہ ایک مشہور حدیث کے طور پر<ref>مکارم شیرازی، نفحات الولایه، 1426ھ، ج2، ص145۔</ref> [[پیغمبر اکرم (ص)]] سے منسوب ہے۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج17، ص299۔</ref> لوگوں میں اس جملے کو مقبولیت حاصل ہے اور روز مرہ محاوروں میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے نیز ادیبوں اور شعراء نے اپنی تحریروں میں اس کا ذکر کیا ہے۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص219۔</ref>


== حدیث «حب الوطن من الایمان» کی سند ==
== حدیث «حب الوطن من الایمان» کی سند ==
[[شیعہ]] [[مرجع تقلید]] [[ناصر مکارم شیرازی]] کے مطابق جملہ «حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْایمانِ» شیعہ قدیمی کتب حدیثی میں موجود نہیں ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، ۱۳۸۶شمسی، ج۱۵، ص۵۰۹؛ رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص۲۱۹.</ref> یہ جملہ مرزبان بن رستم (متوفی: 302ھ) کے عربی ترجمہ مرزبانامہ میں پایا گیا ہے۔<ref>مرزبان بن رستم، مرزبان نامه، ۱۹۹۷ء، ص۱۷۸.</ref> مرزبان نامہ کو قدیم ترین ماخذ سمجھا جاتا ہے جس نے مذکورہ جملہ کو حدیث رسول خدا(ص) کے طور پر بیان کیا ہے۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص۲۲۰.</ref>
[[شیعہ]] [[مرجع تقلید]] [[ناصر مکارم شیرازی]] کے مطابق جملہ «حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْایمانِ» شیعہ قدیمی کتب حدیثی میں موجود نہیں ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1386شمسی، ج15، ص509؛ رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص219۔</ref> یہ جملہ مرزبان بن رستم (متوفی: 302ھ) کے عربی ترجمہ مرزبانامہ میں پایا گیا ہے۔<ref>مرزبان بن رستم، مرزبان نامه، 1997ء، ص178۔</ref> مرزبان نامہ کو قدیم ترین ماخذ سمجھا جاتا ہے جس نے مذکورہ جملہ کو حدیث رسول خدا(ص) کے طور پر بیان کیا ہے۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص220۔</ref>


بعض متاخرین شیعہ کی تصانیف میں یہ جملہ حدیث مرسل کے عنوان سے ذکر ہوا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، ۱۳۸۶شمسی، ج۱۵، ص۵۰۹.</ref> چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر ابو الفتوح رازی نے اپنی تفسیر "روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن" میں یہ جملہ ایک حدیث کی حیثیت سے نبی اکرم (ص) کی طرف منسوب کیا ہے جو آپ(ص) نے [[مکہ]] سے نکل کر مدینہ ہجرت کے وقت کہا تھا اور پیغمبر اکرم (ص) کا لفظ وطن سے مراد شہر مکہ تھا۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ھ، ج۱۷، ص۲۹۹.</ref> [[شیخ عباس قمی]] نے اپنی کتاب [[سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار (کتاب)|سفینۃ البحار]] میں یہ جملہ [[شیخ حر عاملی]] کی "سفینة البحار و مدینة الحکم و الآثار" نامی کتاب کے مقدمے سے نقل کیا ہے۔<ref>قمی، سفینة البحار، ۱۴۱۴ھ، ج۸، ص۵۲۴.</ref>
بعض متاخرین شیعہ کی تصانیف میں یہ جملہ حدیث مرسل کے عنوان سے ذکر ہوا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1386شمسی، ج15، ص509۔</ref> چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر ابو الفتوح رازی نے اپنی تفسیر "روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن" میں یہ جملہ ایک حدیث کی حیثیت سے نبی اکرم (ص) کی طرف منسوب کیا ہے جو آپ(ص) نے [[مکہ]] سے نکل کر مدینہ ہجرت کے وقت کہا تھا اور پیغمبر اکرم (ص) کا لفظ وطن سے مراد شہر مکہ تھا۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج17، ص299۔</ref> [[شیخ عباس قمی]] نے اپنی کتاب [[سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار (کتاب)|سفینۃ البحار]] میں یہ جملہ [[شیخ حر عاملی]] کی "سفینة البحار و مدینة الحکم و الآثار" نامی کتاب کے مقدمے سے نقل کیا ہے۔<ref>قمی، سفینة البحار، 1414ھ، ج8، ص524۔</ref>


ابن عربی اپنی تفسیر کی کتاب ،<ref>ابن‌عربی، تفسیر ابن‌عربی، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۲۹.</ref> سید محسن امین اپنی کتاب [[اعیان الشیعہ (کتاب)|اعیان الشیعہ]] <ref>امین، اعیان الشیعه، دار التعارف، ج۱، ص۲۹۶.</ref> اور شارح [[نہج البلاغہ]] مرزا حبیب اللہ خوئی<ref>هاشمی خویی، منهاج البراعة، ۱۴۰۰ھ، ج۲۱، ص۳۹۴.</ref> نے اس مشہور جملے کو حدیث جانا ہے لیکن ان منابع میں اس کی کسی سند کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ [[آیت اللہ مکارم شیرازی]] کے مطابق بعض نے اس حدیث کو جعلی قرار دیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، ۱۳۸۶شمسی، ج۱۵، ص۵۰۹</ref> سید جعفر شہیدی نے بھی اس جملے کو حدیث نہیں مانا ہے۔<ref>شهیدی، شرح مثنوی، ۱۳۷۳شمسی، ج۳، ص۵۱۲.</ref>
ابن عربی اپنی تفسیر کی کتاب ،<ref>ابن‌عربی، تفسیر ابن‌عربی، 1422ھ، ج2، ص329۔</ref> سید محسن امین اپنی کتاب [[اعیان الشیعہ (کتاب)|اعیان الشیعہ]] <ref>امین، اعیان الشیعه، دار التعارف، ج1، ص296۔</ref> اور شارح [[نہج البلاغہ]] مرزا حبیب اللہ خوئی<ref>هاشمی خویی، منهاج البراعة، 1400ھ، ج21، ص394۔</ref> نے اس مشہور جملے کو حدیث جانا ہے لیکن ان منابع میں اس کی کسی سند کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ [[آیت اللہ مکارم شیرازی]] کے مطابق بعض نے اس حدیث کو جعلی قرار دیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1386شمسی، ج15، ص509</ref> سید جعفر شہیدی نے بھی اس جملے کو حدیث نہیں مانا ہے۔<ref>شهیدی، شرح مثنوی، 1373شمسی، ج3، ص512۔</ref>


مولوی اور سعدی جیسے شعراء نے بھی اپنی نظموں میں اس جملے کو حدیث کے طور پر ذکر کیا ہے۔<ref>مولوی، مثنوی معنوی، ۱۳۷۳شمسی، ص۵۷۶؛ سعدی، کلیات، ۱۳۲۰شمسی، ص۲۰۴.</ref>
مولوی اور سعدی جیسے شعراء نے بھی اپنی نظموں میں اس جملے کو حدیث کے طور پر ذکر کیا ہے۔<ref>مولوی، مثنوی معنوی، 1373شمسی، ص576؛ سعدی، کلیات، 1320شمسی، ص204۔</ref>
{{شعر2
{{شعر2
|سعدیا حب وطن گرچه حدیثی است صحیح\\نتوان مرد به سختی که من آنجا زادم<ref>سعدی، کلیات، ۱۳۲۰شمسی، ص۲۰۴</ref>}}
|سعدیا حب وطن گرچه حدیثی است صحیح\\نتوان مرد به سختی که من آنجا زادم<ref>سعدی، کلیات، 1320شمسی، ص204</ref>}}


کہا جاتا ہے کہ بہت سے [[اہل سنت]] علماء نے اس حدیث کو جعلی قرار دیتے ہوئے اس کے مندرجات پر اعتراضات کیے ہیں۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص۲۲۱ و ۲۳۱.</ref>
کہا جاتا ہے کہ بہت سے [[اہل سنت]] علماء نے اس حدیث کو جعلی قرار دیتے ہوئے اس کے مندرجات پر اعتراضات کیے ہیں۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص221 و 231۔</ref>


===ثبوت===
===ثبوت===
آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق اگرچہ اس حدیث کا معتبر منابع میں ذکر نہیں ملتا ہے لیکن اس کی تائید میں دو دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں:
آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق اگرچہ اس حدیث کا معتبر منابع میں ذکر نہیں ملتا ہے لیکن اس کی تائید میں دو دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں:


*اس حدیث کے مضمون سے ملتا جلتا مضمون کچھ احادیث میں آیا ہے چنانکہ[[حضرت امام علیؑ]] سے منقول ہے جس میں آپؑ نے فرمایا: «عُمِّرَتِ‏ الْبُلْدَانُ‏ بِحُبِ‏ الْأَوْطَان‏؛ وطن کی محبت سے ہی شہریں آباد ہوجاتے ہیں؛ <ref>ابن‌ شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ھ، ص۲۰۷.</ref> نیز آپؑ سے منقول ہے: «مِنْ كَرَمِ الْمَرْءِ بُكَاهُ عَلَى مَا مَضَى مِنْ زَمَانِهِ وَ حَنِينُهُ‏ إِلَى‏ أَوْطَانِه‏؛ انسان کا اس کی زندگی کے گذشتہ لمحات پر گریہ کرنا اور وطن سے محبت کرنا اور اس میں دلچسپی لینا اس کی عظمت کی نشانی ہے۔»<ref>کراجکی، کنز الفوائد، ۱۴۱۰ھ،‌ ج۱، ص۹۴.</ref>  
*اس حدیث کے مضمون سے ملتا جلتا مضمون کچھ احادیث میں آیا ہے چنانکہ[[حضرت امام علیؑ]] سے منقول ہے جس میں آپؑ نے فرمایا: «عُمِّرَتِ‏ الْبُلْدَانُ‏ بِحُبِ‏ الْأَوْطَان‏؛ وطن کی محبت سے ہی شہریں آباد ہوجاتے ہیں؛ <ref>ابن‌ شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404ھ، ص207۔</ref> نیز آپؑ سے منقول ہے: «مِنْ كَرَمِ الْمَرْءِ بُكَاهُ عَلَى مَا مَضَى مِنْ زَمَانِهِ وَ حَنِينُهُ‏ إِلَى‏ أَوْطَانِه‏؛ انسان کا اس کی زندگی کے گذشتہ لمحات پر گریہ کرنا اور وطن سے محبت کرنا اور اس میں دلچسپی لینا اس کی عظمت کی نشانی ہے۔»<ref>کراجکی، کنز الفوائد، 1410ھ،‌ ج1، ص94۔</ref>  


*وطن سے محبت ایک فطری محبت ہے جو حق شناسی کے جذبے سے پیدا ہوتی ہے اور حق کو جاننا ایمان کی نشانی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، ۱۳۸۶شمسی، ج۱۵، ص۵۰۹ و ۵۱۰.</ref>
*وطن سے محبت ایک فطری محبت ہے جو حق شناسی کے جذبے سے پیدا ہوتی ہے اور حق کو جاننا ایمان کی نشانی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1386شمسی، ج15، ص509 و 510۔</ref>


==وطن سے محبت ایمان کا جز  ہونے پر اعتراض==
==وطن سے محبت ایمان کا جز  ہونے پر اعتراض==
محققین کے ایک گروہ نے "حب الوطن من الایمان" کے جملے میں جغرافیائی وطن سے محبت اور ایمان کے تعلق کو قبول نہیں کیا لہذا لفظ "وطن" کی تاویل کی ہے۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ جملہ "حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْایمانِ" میں ظاہری مفہوم کو قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ [[کافر]] اور [[منافق]] بھی اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں جبکہ وہ ایمان سے کوسوں دور ہیں۔ پس وطن سے محبت ان کے ایمان کی علامت نہیں ہو سکتی۔ نیز اگر کسی [[مومن]] کی پیدائش کفار کی سرزمین میں ہو اور وہاں پرورش پایے اور اپنے وطن سے محبت کرے تو ایسے وطن سے محبت کرنا ایمان کوئی منطقی بات نہیں ہے۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص۲۲۲.</ref>
محققین کے ایک گروہ نے "حب الوطن من الایمان" کے جملے میں جغرافیائی وطن سے محبت اور ایمان کے تعلق کو قبول نہیں کیا لہذا لفظ "وطن" کی تاویل کی ہے۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ جملہ "حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْایمانِ" میں ظاہری مفہوم کو قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ [[کافر]] اور [[منافق]] بھی اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں جبکہ وہ ایمان سے کوسوں دور ہیں۔ پس وطن سے محبت ان کے ایمان کی علامت نہیں ہو سکتی۔ نیز اگر کسی [[مومن]] کی پیدائش کفار کی سرزمین میں ہو اور وہاں پرورش پایے اور اپنے وطن سے محبت کرے تو ایسے وطن سے محبت کرنا ایمان کوئی منطقی بات نہیں ہے۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص222۔</ref>


شمس تبریزی بھی کہتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں پیغمبر خدا(ص) کی مراد جغرافیائی وطن نہیں۔ ان کی نظر میں مکہ پیغمبر خدا (ص) کا دنیاوی وطن ہے اور اس سے محبت کا آنحضرت(ص) کے ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔<ref>مقالات شمس، ج۲، ص۱۳۹، به نقل از: شهیدی، شرح مثنوی، ۱۳۷۳شمسی، ج۵، ص۳۲۹.</ref>
شمس تبریزی بھی کہتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں پیغمبر خدا(ص) کی مراد جغرافیائی وطن نہیں۔ ان کی نظر میں مکہ پیغمبر خدا (ص) کا دنیاوی وطن ہے اور اس سے محبت کا آنحضرت(ص) کے ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔<ref>مقالات شمس، ج2، ص139، به نقل از: شهیدی، شرح مثنوی، 1373شمسی، ج5، ص329۔</ref>


علوم حدیث کے دو محقق اور[[شیعہ]] سیرت نگارسید جعفر مرتضیٰ عاملی<ref>عاملی، الصحیح من سیرة النبی(ص)، ۱۴۲۶ھ، ج۴، ص۱۵۳ ـ ۱۵۴.</ref> اور سید مرتضیٰ عسکری کے مطابق اس حدیث میں محبت سے مراد وہ محبت ہے جو [[اسلام]] کے بلند مقاصد سے منسلک ہو اور وطن سے مراد عظیم اسلامی وطن ہے، نہ کہ انسان کی پیدائش کی جگہ(یعنی جغرافیائی وطن)۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص۲۲۳ و ۲۳۰.</ref>
علوم حدیث کے دو محقق اور[[شیعہ]] سیرت نگارسید جعفر مرتضیٰ عاملی<ref>عاملی، الصحیح من سیرة النبی(ص)، 1426ھ، ج4، ص153 ـ 154۔</ref> اور سید مرتضیٰ عسکری کے مطابق اس حدیث میں محبت سے مراد وہ محبت ہے جو [[اسلام]] کے بلند مقاصد سے منسلک ہو اور وطن سے مراد عظیم اسلامی وطن ہے، نہ کہ انسان کی پیدائش کی جگہ(یعنی جغرافیائی وطن)۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص223 و 230۔</ref>


==«وطن» کی عرفانی تاویل==
==«وطن» کی عرفانی تاویل==
علما کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ وطن سے مراد [[جنت]] ہے۔ اس نظریے کے مطابق مومن دنیا میں اجنبی ہے اور اپنے اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنے وطن(بہشت) کی طرف واپس جانے کا شوق رکھتا ہے۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص۲۲۴ ـ ۲۲۵.</ref> مسلم عرفاء نے وطن کے مفہوم میں وسعت پید اکرتے ہوئے اس مقام کو جہاں انسان سکون و آرامش کا احساس کرتا ہے<ref>قشیری، اربع رسائل فی التصوف، ۱۳۸۹ھ، ص۵۹</ref> حقیقی وطن قرار دیا ہے اور وہ عالم بالا<ref>شیخ اشراق، رسائل شیخ اشراق، ۱۳۷۵شمسی، ج۳، ص۴۶۲.</ref> اور حق تعالیٰ کا قُرب ہے<ref>بقلی، شرح شطحیات، ۱۳۷۴شمسی، ص۶۲۲</ref> اور وہ لوگ جنہوں نے مذکورہ حدیث میں وطن کو زمینی اور جغرافیائی وطن سے تعبیر کیا ہے انہیں باطنی اور قلبی اندھے قرار دیے ہیں کہ دنیا کی محبت ان کے اندھے پن اور بہرے پن کا سبب بنی ہے۔<ref>خوارزمی، ینبوع الاسرار، ۱۳۸۴شمسی، ج۲، ص۹۵</ref>
علما کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ وطن سے مراد [[جنت]] ہے۔ اس نظریے کے مطابق مومن دنیا میں اجنبی ہے اور اپنے اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنے وطن(بہشت) کی طرف واپس جانے کا شوق رکھتا ہے۔<ref>رحیمی، «بررسی حدیث حب الوطن من الایمان»، ص224 ـ 225۔</ref> مسلم عرفاء نے وطن کے مفہوم میں وسعت پید اکرتے ہوئے اس مقام کو جہاں انسان سکون و آرامش کا احساس کرتا ہے<ref>قشیری، اربع رسائل فی التصوف، 1389ھ، ص59</ref> حقیقی وطن قرار دیا ہے اور وہ عالم بالا<ref>شیخ اشراق، رسائل شیخ اشراق، 1375شمسی، ج3، ص462۔</ref> اور حق تعالیٰ کا قُرب ہے<ref>بقلی، شرح شطحیات، 1374شمسی، ص622</ref> اور وہ لوگ جنہوں نے مذکورہ حدیث میں وطن کو زمینی اور جغرافیائی وطن سے تعبیر کیا ہے انہیں باطنی اور قلبی اندھے قرار دیے ہیں کہ دنیا کی محبت ان کے اندھے پن اور بہرے پن کا سبب بنی ہے۔<ref>خوارزمی، ینبوع الاسرار، 1384شمسی، ج2، ص95</ref>
ساتویں صدی ہجری کے صوفی شاعر مولوی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اس معنی کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے اور کہا ہے:
ساتویں صدی ہجری کے صوفی شاعر مولوی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اس معنی کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے اور کہا ہے:


{{شعر2
{{شعر2
|مسکن یار است و شهر شاه من\\پیش عاشق این بود حب الوطن <ref>مولوی، مثنوی معنوی، ۱۳۷۳شمسی، ص۴۵۱</ref>
|مسکن یار است و شهر شاه من\\پیش عاشق این بود حب الوطن <ref>مولوی، مثنوی معنوی، 1373شمسی، ص451</ref>
از دم حب الوطن بگذر مایست\\که وطن آن سوست جان این سوی نیست
از دم حب الوطن بگذر مایست\\که وطن آن سوست جان این سوی نیست
گر وطن خواهی گذر زان سوی شط\\این حدیث راست را کم خوان غلط<ref>مولوی، مثنوی معنوی، ۱۳۷۳شمسی، ص۵۷۶</ref>
گر وطن خواهی گذر زان سوی شط\\این حدیث راست را کم خوان غلط<ref>مولوی، مثنوی معنوی، 1373شمسی، ص576</ref>
}}
}}


سطر 70: سطر 70:
تو در این اوطان، غریبی ای پسر!\\خو به غربت کرده‌ای، خاکت به سر!
تو در این اوطان، غریبی ای پسر!\\خو به غربت کرده‌ای، خاکت به سر!
آنقدر در شهر تن ماندی اسیر\\کان وطن، یکباره رفتت از ضمیر
آنقدر در شهر تن ماندی اسیر\\کان وطن، یکباره رفتت از ضمیر
رو بتاب از جسم و جان را شاد کن\\موطن اصلی خود را یاد کن<ref>شیخ بهایی، کلیات اشعار و آثار فارسی شیخ بهایی، ۱۳۵۲شمسی، ج۱، بخش۳، ص۱۰.</ref>}}
رو بتاب از جسم و جان را شاد کن\\موطن اصلی خود را یاد کن<ref>شیخ بهایی، کلیات اشعار و آثار فارسی شیخ بهایی، 1352شمسی، ج1، بخش3، ص10۔</ref>}}


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 78: سطر 78:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن‌شعبه حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول(ص)، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر نشر اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق.
* ابن‌شعبه حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول(ص)، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر نشر اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ دوم، 1404ق.
* ابن‌عربی، محیی الدین، تفسیر ابن‌عربی، لبنان، دار الکتب العلمیه، چاپ اول، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱م.
* ابن‌عربی، محیی الدین، تفسیر ابن‌عربی، لبنان، دار الکتب العلمیه، چاپ اول، 1422ق/2001م.
* ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تحقیق: محمدجعفر یاحقی و محمدمهدی ناصح، مشهد، بنیاد پژوهش‌های اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ق.
* ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تحقیق: محمدجعفر یاحقی و محمدمهدی ناصح، مشهد، بنیاد پژوهش‌های اسلامی آستان قدس رضوی، 1408ق.
*امین، سید محسن، اعیان الشیعه، تحقیق: حسن امین، بیروت، دار التعارف، بی‌تا.
*امین، سید محسن، اعیان الشیعه، تحقیق: حسن امین، بیروت، دار التعارف، بی‌تا.
* بقلی، روزبهان، شرح شطحیات، به تصحیح هانری کربن، زبان و فرهنگ ایران، تهران، بهار ۱۳۷۴ش.
* بقلی، روزبهان، شرح شطحیات، به تصحیح هانری کربن، زبان و فرهنگ ایران، تهران، بهار 1374ش.
* خوارزمی‏، کمال الدین حسین، ینبوع الأسرار، تهران، انجمن آثار و مفاخر فرهنگی‏، ۱۳۸۴ش.
* خوارزمی‏، کمال الدین حسین، ینبوع الأسرار، تهران، انجمن آثار و مفاخر فرهنگی‏، 1384ش.
* رحیمی، مرتضی، «[https://ensani.ir/fa/article/340699/بررسی-حدیث-حب-الوطن-من-الایمان- بررسی حدیث حب الوطن من الایمان]»، دوفصلنامه حدیث‌پژوهی، شماره ۱۲، پاییز و زمستان ۱۳۹۳ش.
* رحیمی، مرتضی، «[https://ensani.ir/fa/article/340699/بررسی-حدیث-حب-الوطن-من-الایمان- بررسی حدیث حب الوطن من الایمان]»، دوفصلنامه حدیث‌پژوهی، شماره 12، پاییز و زمستان 1393ش.
* سعدی شیرازی، مصلح الدین، کلیات سعدی، تصحیح: محمدعلی فروغی، تهران، چاپخانه بروخیم، ۱۳۲۰ش.
* سعدی شیرازی، مصلح الدین، کلیات سعدی، تصحیح: محمدعلی فروغی، تهران، چاپخانه بروخیم، 1320ش.
* شیخ اشراق، رسائل شیخ اشراق، تهران، تصحیح: هانری کربن، سید حسین نصر و نجفقلی حبیبی، مؤسسه مطالعات و تحقيقات فرهنگى‌، چاپ دوم، ۱۳۷۵ش.
* شیخ اشراق، رسائل شیخ اشراق، تهران، تصحیح: هانری کربن، سید حسین نصر و نجفقلی حبیبی، مؤسسه مطالعات و تحقيقات فرهنگى‌، چاپ دوم، 1375ش.
* شیخ بهایی، محمد بن حسین، کلیات اشعار و آثار فارسی شیخ بهایی، تهران، کتابفروشی محمودی، ۱۳۵۲ش.
* شیخ بهایی، محمد بن حسین، کلیات اشعار و آثار فارسی شیخ بهایی، تهران، کتابفروشی محمودی، 1352ش.
* شهیدی، سیدجعفر، شرح مثنوی، تهران، شرکت انتشارات علمی فرهنگی، چاپ اول، ۱۳۷۳ش.
* شهیدی، سیدجعفر، شرح مثنوی، تهران، شرکت انتشارات علمی فرهنگی، چاپ اول، 1373ش.
* عاملی، سید جعفرمرتضی، الصحیح من سیرة النبی الأعظم(ص)، قم، دار الحدیث، ۱۴۲۶/۱۳۸۶ش.
* عاملی، سید جعفرمرتضی، الصحیح من سیرة النبی الأعظم(ص)، قم، دار الحدیث، 1426/1386ش.
* قشیری‏، ابوالقاسم عبدالکریم، اربع رسائل فی التصوف‏، بغداد، مطبعة المجمع العلمی العراقی، ۱۳۸۹ق.
* قشیری‏، ابوالقاسم عبدالکریم، اربع رسائل فی التصوف‏، بغداد، مطبعة المجمع العلمی العراقی، 1389ق.
* قمی، شیخ عباس، سفینة البحار و مدینة الحکم و الآثار، قم، انتشارات اسوه،‌ ۱۴۱۴ق.
* قمی، شیخ عباس، سفینة البحار و مدینة الحکم و الآثار، قم، انتشارات اسوه،‌ 1414ق.
* کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، دارالذخائر، چاپ اول، ۱۴۱۰ق.
* کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، دارالذخائر، چاپ اول، 1410ق.
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ اول، ۱۳۸۶ش.
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ اول، 1386ش.
* مکارم شیرازی، ناصر، نفحات الولایه، قم، مدرسه امام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ دوم، ۱۴۲۶ق.
* مکارم شیرازی، ناصر، نفحات الولایه، قم، مدرسه امام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ دوم، 1426ق.
* مرزبان بن رستم، مرزبان نامه، ترجمه: احمد ابن محمد ابن عربشاه، بیروت، مؤسسة الإنتشار العربی، ۱۹۹۷م.
* مرزبان بن رستم، مرزبان نامه، ترجمه: احمد ابن محمد ابن عربشاه، بیروت، مؤسسة الإنتشار العربی، 1997م.
* مولوی، جلال الدین محمد، مثنوی معنوی، به کوشش: توفیق هاشم‌پور سبحانی، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۳ش.
* مولوی، جلال الدین محمد، مثنوی معنوی، به کوشش: توفیق هاشم‌پور سبحانی، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1373ش.
* نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسه دار الهجره، ۱۴۱۴ق.
* نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسه دار الهجره، 1414ق.
* هاشمی خویی، حبیب الله، منهاج البراعة فی شرح نهج البلاغه، تحقیق: ابراهیم میانجی، تهران، مکتبة الاسلامیه، چاپ چهارم، ۱۴۰۰ق.
* هاشمی خویی، حبیب الله، منهاج البراعة فی شرح نهج البلاغه، تحقیق: ابراهیم میانجی، تهران، مکتبة الاسلامیه، چاپ چهارم، 1400ق.
{{پایان}}
{{پایان}}
confirmed، movedable
4,996

ترامیم