"خطبہ شقشقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 7: | سطر 7: | ||
| موضوع = [[خلفائے ثلاثہ]] کے طرز عمل پر تنقید، [[ناکثین]]، [[قاسطین]] اور [[مارقین]] کی طرف اشارہ | | موضوع = [[خلفائے ثلاثہ]] کے طرز عمل پر تنقید، [[ناکثین]]، [[قاسطین]] اور [[مارقین]] کی طرف اشارہ | ||
| صادر از = [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] | | صادر از = [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] | ||
| اصلی راوی = [[عبد | | اصلی راوی = [[عبد اللہ بن عباس|ابن عباس]] | ||
| دوسرے روات = | | دوسرے روات = | ||
| اعتبارِ سند = معتبر | | اعتبارِ سند = معتبر | ||
سطر 21: | سطر 21: | ||
نہج البلاغہ کے مکمل تراجم اور شرحوں میں اس خطبے کی شرح کے علاوہ فارسی اور عربی زبان میں خطبہ شقشقیہ کی خصوصی شرحیں بھی موجود ہیں، ان میں [[محمدرضا حکیمی]] کی کتاب شرحُ الْخُطبۃ الشِّقشِقیہ اور علی اصغر رضوانی کی کتاب آہی سوزان کا نام لیا جا سکتا ہے۔ | نہج البلاغہ کے مکمل تراجم اور شرحوں میں اس خطبے کی شرح کے علاوہ فارسی اور عربی زبان میں خطبہ شقشقیہ کی خصوصی شرحیں بھی موجود ہیں، ان میں [[محمدرضا حکیمی]] کی کتاب شرحُ الْخُطبۃ الشِّقشِقیہ اور علی اصغر رضوانی کی کتاب آہی سوزان کا نام لیا جا سکتا ہے۔ | ||
==اہمیت اور تعارف== | |||
خطبہ شِقشِقیّہ [[نہج البلاغہ کے خطبوں کی فہرست|نہج البلاغہ]] کے مشہور خطبوس میں سے ایک ہے<ref>شیخ مفید، الجَمَل، ۱۳۷۱ش، ص۱۲۶۔</ref> جسے [[شیعہ]] اور [[اہل سنت و جماعت|اہل سنت]] دونوں منابع میں نقل کیا گیا ہے۔<ref>حکیمی، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ، ۱۴۰۲ق، ص۱۲۶۔</ref> اس خطبے کو نہج البلاغہ کے اہم ترین خطبوں میں شمار کیا گیا ہے؛ چونکہ اس میں [[خلافت|پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی]] جیسے اہم مسئلے پر صراحت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۳۱۸۔</ref> چونکہ [[امام علی علیہالسلام|امام علیؑ]] اس خطبے میں خلفائے ثلاثہ کی اصل خلافت پر سوال اٹھاتے ہیں اس بنا پر اس خطبے کو [[نہج البلاغہ|نہج البلاغہ]] غور طلب خطبوں میں شمار کیا گیا ہے؛<ref>ابنمیثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۵۱۔</ref> کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی اور خلافت کے مسئلے پر امام علیؑ کے واضح موقف کی بنا اہل سنت کے اندر اس خطبے کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات پیدا ہونے کا باعث بنا ہے<ref>مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۳۱۸۔</ref> یہاں تک کہ بعض اہل سنت نے نہ صرف اس خطبے بلکہ خود نہج البلاغہ کے معتبر ہونے کا انکار کیا ہے۔<ref>حکیمی، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ، ۱۴۰۲ق، ص۱۲۶۔</ref> | |||
اس خطبے میں [[خلفائے ثلاثہ]] کی خلافت کی تاریخ امام علیؑ کی زبانی بیان ہوئی ہے۔ اس خطبے کے اہم اور بنیادی موضوعات میں مسئلہ خلافت، خلفائے ثلاثہ کے دور کی سیاسی حالات، [[25 سالہ خاموشی|امام کی 25 سالہ خاموشی]] کی وجوہات، خلافت کو قبول کرنے کے محرکات، امام کے دور کے سیاسی گروہ اور ان کے دین سے انحراف کے اسباب۔<ref>ملاحظہ کریں: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ۱۴۱۴ق، خطبہ ۳، ص۴۸-۵۰۔</ref> اس خطبہ کو امام علیؑ کے کلام کے ایک حصے ({{عربی|تِلْکَ شِقْشِقَۃٌ ہَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ}}) کے اعتبار سے خطبہ شِقشِقیہ (شِقشِقہ یعنی آگ کا وہ شعلہ جو دل سے بلند ہوتا ہے)<ref>مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، ۱۳۸۶ش، ج۱، ص۳۱۸۔</ref> اور اس خطبے کے پہلے جملے ({{عربی|واللّہِ لَقَدْ تَقَمَّصَہا فلان}}) کی مناسبت سے «مُقَمِّصہ» (تَقَمُّص یعنی کپڑا پہننا) کہا جاتا ہے۔<ref>بیہقی، معارج نہج البلاغہ، ۱۴۰۹ق، بخش۲، ص۸۰۔</ref> | |||
[[عبد اللہ بن عباس|ابنعباس]] کی روایت کے مطابق امام علیؑ نے اس خطبے کو ایک چٹھی موصول ہونے پر ختم کیا پھر اسے جاری نہیں رکھا۔ اس روایت کے مطابق ابن عباس کو اس خطبے کے ادھورے رہنے پر جتنا افسوس ہوا اتنای افسوس ان کی پوری زندگی میں کسی اور چیز کے ختم ہونے پر نہیں ہوا۔<ref>نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ۱۴۱۴ق، خطبہ ۳، ص۵۰۔</ref> [[مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ (کتاب)|مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ]] کے مصنف [[سید عبد الزہراء الحسینی الخطیب]] اس بات کے معتقد ہیں کہ جس شخص نے امام علیؑ کے کلام کو قطع کیا وہ ایک جاہل یا منافق شخص تھا جس نے امام علیؑ کو اپنا مقصود بیان کرنے نہیں دیا۔<ref>الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۳۳۵۔</ref> | |||
{| class="wikitable" style="float:left" | {| class="wikitable" style="float:left" | ||
|- | |- | ||
! نسخہ کا نام !! خطبہ نمبر <ref>بہ نقل: محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، جدول اختلاف نسخ، ص | ! نسخہ کا نام !! خطبہ نمبر <ref>بہ نقل: محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، جدول اختلاف نسخ، ص ۲۳۵۔</ref> | ||
|- | |- | ||
| المعجم المفہرس اور دیگر نسخہ جات <ref>نسخہ صبحی صالح، فیض الاسلام، ابن میثم، فی ظلال، خویی، ابن ابی الحدید، | | المعجم المفہرس اور دیگر نسخہ جات <ref>نسخہ صبحی صالح، فیض الاسلام، ابن میثم، فی ظلال، خویی، ابن ابی الحدید، عبدہ، ملاصالح۔</ref>|| ۳ | ||
|- | |- | ||
| ملافتح | | ملافتح اللہ|| ۴ | ||
|اردو نسخے<ref>نسخہ مفتی جعفر حسین اور ذیشان حیدر | |اردو نسخے<ref>نسخہ مفتی جعفر حسین اور ذیشان حیدر جوادی۔</ref>|| ۳ | ||
|} | |} | ||
{{جعبہ نقل قول | {{جعبہ نقل قول | ||
سطر 55: | سطر 60: | ||
}} | }} | ||
== خطبہ کا زمان و مکان == | == خطبہ کا زمان و مکان == | ||
اس خطبے میں موجود تاریخی نکات منجملہ: [[ناکثین]] ([[جنگ جمل]] کے محرکین، سن 36 ہجری)، [[قاسطین]] ([[معاویہ]] اور اس کے پیروکار [[جنگ صفین|جنگ صفّین]] کے محرکین، سن 36 ہجری کے اواخر اور سن 37 ہجری کے ابتدائی ایام) اور [[مارقین]] (''[[خوارج]]'' [[جنگ نہروان]] کّ محرکین، سن 37 ہجری کے اواخر یا سن 38 ہجری) کے بارے میں گفتگو اور [[ابن عباس]] کا [[کوفہ]] میں قیام سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطبے کو امام(ع) نے سن 38 ہجری کے اواخر اور یا سن 39 ہجری میں ارشاد فرمایا ہے۔<ref>طالقانی، پرتوی از نہج البلاغہ، | اس خطبے میں موجود تاریخی نکات منجملہ: [[ناکثین]] ([[جنگ جمل]] کے محرکین، سن 36 ہجری)، [[قاسطین]] ([[معاویہ]] اور اس کے پیروکار [[جنگ صفین|جنگ صفّین]] کے محرکین، سن 36 ہجری کے اواخر اور سن 37 ہجری کے ابتدائی ایام) اور [[مارقین]] (''[[خوارج]]'' [[جنگ نہروان]] کّ محرکین، سن 37 ہجری کے اواخر یا سن 38 ہجری) کے بارے میں گفتگو اور [[ابن عباس]] کا [[کوفہ]] میں قیام سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطبے کو امام(ع) نے سن 38 ہجری کے اواخر اور یا سن 39 ہجری میں ارشاد فرمایا ہے۔<ref>طالقانی، پرتوی از نہج البلاغہ، ص۱۲۸۔</ref> | ||
[[شیخ مفید]]<ref>مفید، ارشاد، ج۱، | [[شیخ مفید]]<ref>مفید، ارشاد، ج۱، ص۲۸۷۔</ref> اور [[قطب الدین راوندی]]<ref>الراوندی، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ج۱، ص۱۳۳۔</ref> کے مطابق یہ خطبہ امام(ع) نے "رحبہ" نامی جگہے پر ارشاد فرمایا ہے۔ اگرچہ ممکن ہے "رحبہ" کے مختلف مصادیق پائے جاتے ہوں کیونکہ ظاہرا اس لفظ سے مراد [[مسجد کوفہ]] کے صحن میں کسی درمیانی مقام کو کہا جاتا ہے جہاں پر حضرت علی(ع) معمولا فیصلے سنایا کرتے تھے یا یہاں بیٹھ کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ [[زیاد بن ابیہ]] کے دور حکومت میں محدثین خوف اور ترس کی وجہ سے امام(ع) کا نام لینے کے بجائے "صاحب الرحبۃ" کہا کرتے تھے۔<ref>مدنی، الطراز الأول، ج۲، ص۶۱۔</ref> | ||
چنانچہ مطرزی (متوفائے | چنانچہ مطرزی (متوفائے ۶۱۰ق۔) کہتا ہے کہ "رحبہ کوفہ" سے مراد مسجد کوفہ کے درمیان میں موجود چبوترے کو کہا جاتا ہے جہاں بیٹھ کر امام علی(ع) لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح جب کہا جاتا ہے کہ آپ(ع) نے خوارج سے حاصل ہونے والے غنائم "رحبہ" پر رکھ دیا تو اس سے مراد بھی یہی مقام ہے۔<ref>مطرزی، المغرب، ج۱، ص۳۲۴۔</ref> | ||
== خطبہ کا وجہ تسمیہ == | == خطبہ کا وجہ تسمیہ == | ||
اس خطبے کو اس کے ابتدائی جملے یعنی {{حدیث|" | اس خطبے کو اس کے ابتدائی جملے یعنی {{حدیث|"واللّہِ لَقَدْ تَقَمَّصَہا فلان"}} کی وجہ سے "خطبہ مُقَمّصہ" کا نام دیا جاتا ہے، جس کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور یہاں پر امام(ع) خلافت کو لباس پہننے سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابوبکر باوجودیکہ کہ جانتا تھا کہ خلافت کی یہ لباس اس کے لئے موزون نہیں ہے، پھر بھی اسے زیب تن کیا ہے۔ لیکن اس خطبے کا مشہور نام "شقشقیہ" ہے جسے اس خطبے کے اختتام پر ابن عباس کی جانب سے جاری رکھنے کے درخواست پر امام نے فرمایا تھا کہ: {{حدیث|"ہیہاتَ یا ابنَ عباس تلک شِقشِقَۃٌ ہَدَرَت ثُم قَرَّت۔"}} یعنی افسوس ابن عباس یہ توایک شقشقہ تھا جوابھر کر دب گیا، سے لیا گیا ہے۔ اور ماہرین لغت اور نہج البلاغہ کی شرح لکھنے والے حضرات کی باتوں سے جو چیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شقشقہ سے مراد اونٹ کے منہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا ہے جو غصہ اور ہیجان کے وقت باہر نکل آتا ہے جو عام عادی حالتوں میں باہر نہیں نکلتا۔ یہاں پر امام(ع) اپنی حالت کو اس اونٹ کی حالت کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں جو غصہ اور ہیجان کی حالت میں ہو گویا ایک لحظہ کیلئے ہیجانی کیفیت میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا اور اب نارمل حالت میں ہے اب اسے جاری رکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ اس طرح آپ نے اس خطبے کو جاری رکھنے سے متعلق ابن عباس کی درخواست کو رد فرمایا۔ اس بنا پر ابن عباس کہتے ہیں کہ جس قدر اس خطبے کے نامکمل رہ جانے پر مجھے افسوس ہوا اتنا کسی اور کلام کے نامکمل رہنے پر افسوس نہیں ہوا۔ | ||
== سید رضی سے پہلے اس خطبے کے اسناد == | == سید رضی سے پہلے اس خطبے کے اسناد == | ||
اس خطبے میں خلفائے ثلاثہ پر کڑی تنقید کی وجہ سے بعض اہل سنت علماء کی جانب سے نہ تنہا اس خطبے کی سند کو مشکوک قرار دیا گیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ اہل سنت کے درمیان خود نہج البلاغہ کی سند کے مشکوک ہونے کی علت بھی یہی خطبہ ہے۔<ref>الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، ج۱، | اس خطبے میں خلفائے ثلاثہ پر کڑی تنقید کی وجہ سے بعض اہل سنت علماء کی جانب سے نہ تنہا اس خطبے کی سند کو مشکوک قرار دیا گیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ اہل سنت کے درمیان خود نہج البلاغہ کی سند کے مشکوک ہونے کی علت بھی یہی خطبہ ہے۔<ref>الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، ج۱، ص۳۳۶۔</ref> لیکن حقیقت میں یہ تردید اور اس قسم کے شکوک و شبہات باطل ہیں اور یہ خطبہ [[نہج البلاغہ]] کی اشاعت سے پہلے بھی مختلف منابع میں موجود تھا اور اس کی سند بھی خود امام علی(ع) تک ان منابع میں مذکور ہے۔ علامہ [[عبدالحسین امینی|امینی]] نے کتاب [[الغدیر]] میں [[سید رضی]] کے علاوہ 28 دوسرے راستوں سے اس خطبے کو بیان کیا ہے۔<ref>الامینی، الغدیر، ج۷، صص۱۰۹-۱۱۵۔</ref> کتاب "پرتوی از نہج البلاغہ" میں اس خطبے کے 22 سند بیان کئے ہیں جن میں سے 8 منابع کا تعلق [[سید رضی]] سے پہلے، 5 منابع سید رضی کے معاصر اور باقی 9 منابع نہج البلاغہ کی تصنیف کے بعد سے ہے۔ ''پانچویں صدی ہجری'' میں نہج البلاغہ کے علاوہ مستقل اور الگ منابع میں میں اس خطبے کو ذکر کیا گیا ہے۔<ref>رجوع کریں: طالقانی، پرتوی از نہج البلاغہ، صص۱۲۴-۱۲۸۔</ref> اس کے علاوہ اس خطبے کے بعد حصے شاہد مثال کے طور پر مختلف ادبی اور لغت کی کتابوں جیسے: ابن اثیر کی کتاب النہایہ، فیروزآبادی کی کتاب قاموس، ابن منظور کی کتاب لسان العرب اور میدانی کی کتاب مجمع الامثال وغیرہ میں بھی آئے ہیں۔<ref>طالقانی، پرتوی از نہج البلاغہ، ص۱۲۸۔</ref> ذیل میں اس خطبے کے بعد اسناد کی طرف اشارہ کرتے ہیں: | ||
#[[ابن ابی الحدید]] (متوفای | #[[ابن ابی الحدید]] (متوفای ۶۵۶ق۔) جو ایک سنّی اور معتزلی ہے اس خطبے کی تشریح کے بعد کہتے ہیں: سن 603 ہجری میں نے اپنے استاد [[مصدق بن شبیب واسطی]] سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ: اس خطبے (یعنی خطبہ شقشقیہ) کو عبداللہ بن احمد جو [[ابن خشاب]] کے نام سے معروف ہے کے پاس پڑھا۔۔۔ پھر ان سے کہا: آیا اس خطبے کو امام علی(ع) کی طرف نسبت دی جاتی ہے کیا اسے جھوٹ اور جعلی سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: خدا کی قسم میں اس طرح جانتا ہوں یہ خطبہ خود حضرت علی ہی کی ہے جس طرح میں جانتا ہوں کہ تم مصدق ہو۔ میں نے کہا اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ خطبہ سید رضی کا ہے۔ تو انہوں نے کہا: سید رضی اور اس جیسے کہاں اور یہ انداز بیاں کہاں؟ ہم نے سید رضی کی کتابیں دیکھی ہیں اور نثر میں ان کے انداز بیان سے ہم واقف ہیں انہوں نے اس خطبے میں کسی اچھی یا بری چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے۔ پھر انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا خدا کی قسم اس خطبے کو سید رضی کی ولادت سے 200 سال پہلے لکھی گئی کتابوں میں دیکھا ہے اور ان کتابوں کے مصنفوں کی لکھائی کو بھی میں جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ کتابیں کن ادیبوں اور مصنفوں کی ہیں اور یہ ساری باتیں سید رضی کے والد ابو احمد کی پیدائش سے پہلے کی ہیں۔<ref>ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۱، ص۲۰۵۔</ref> ابن ابی الحدید آگے چل کر کہتے ہیں: میں نے اس خطبے کے اکثر حصوں کو میرے استاد [[ابوالقاسم بلخی]] جو بغداد میں [[معتزلہ|معتزلیوں]] کے امام تھے، کی یادداشتوں میں بھی دیکھا ہے اور میرے استاد سید رضی سے پہلے زمانے کے ہیں۔ اسی طرح اس خطبے کے بہت سارے حصوں کو [[ابن قبہ رازی|ابوجعفر بن قبہ]] جو کہ ایک [[شیعہ]] متکلم تھے کی مشہور کتاب جو کتاب [[الانصاف (کتاب)|الانصاف]] کے نام سے معروف ہے میں بھی دیکھا ہے۔ یہ ابوجعفر شیخ ابوالقاسم بلخی رحمۃ اللہ تعالی کے شاگردوں میں سے تھا اور یہ اسی وقت سید رضی کی ولادت سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔<ref>ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۱، صص۲۰۵-۲۰۶۔</ref> | ||
#ایک اور شخصیت جس نے سید رضی سے پہلے "خطبہ شقشقیہ" کو اپنے آثار میں مستند طور پر خود امام علی(ع) سے نقل کی ہے وہ [[شیخ صدوق]] (متوفای | #ایک اور شخصیت جس نے سید رضی سے پہلے "خطبہ شقشقیہ" کو اپنے آثار میں مستند طور پر خود امام علی(ع) سے نقل کی ہے وہ [[شیخ صدوق]] (متوفای ۳۸۱ق۔) کی ذات ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ [[علل الشرائع (کتاب)|علل الشرائع]] میں<ref>الصدوق، علل الشرائع، ج۱، ص۱۵۰۔</ref> اور دوسری دفعہ [[معانی الاخبار]] میں اس خطبے کو ذکر کیا ہے۔<ref>الصدوق، معانی الاخبار، ص۳۶۱۔</ref> دونوں کتابوں میں شیخ صدوق نے اس خطبے کو دو واسطوں سے نقل کرتے ہیں اور خطبے کی اختتام پر مشکل الفاظ کی تشریح بھی کرتے ہیں۔ | ||
#[[شیخ مفید]] (متوفای | #[[شیخ مفید]] (متوفای ۴۱۳ق۔) جو [[سید رضی]] کے استاد بھی ہیں اپنی کتاب [[الارشاد (کتاب)|الارشاد]] میں اس خطبے کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بعض راویوں نے مختلف طریقوں سے اس خطبے کو نقل کئے ہیں۔<ref>المفید، الارشاد، ص۲۸۷۔</ref> اسی طرح آپ [[المسألتان فی النص علی علی(ع)]] نامی کتاب میں اس خطبے کو معروف اور مشہور خطبات میں شمار کرتے ہیں۔<ref>المفید، المسألتان فی النص علی علی(ع)، ص۲۸۔</ref> اور یہ اس بات کی نشانی ہے کہ شیخ مفید کے دور میں نہ تنہا اس خطبے کے سند میں کوئی شکوک و شبہات پائے جاتے تھے بلکہ یہ خطبہ ایک مشہور و معروف خطبہ شمار ہوتا تھا۔ پھر شیخ مفید کتاب [[الجمل (کتاب)|الجمل]] میں اس کو اس قدر مشہور قرار دیتے ہیں کہ اس کے بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔<ref>المفید، الجمل، ص۶۲۔</ref> | ||
== غصب خلافت == | == غصب خلافت == | ||
غصب خلافت کے حوالے سے اس خطبے میں امام علی(ع) نے جو خلفاء پر تنقید کی ہے یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے جس کی وجہ سے اس خطبے کی سند میں شکوک و شبہات ایجاد کی جائے کیونکہ خود امام علی(ع) نے اس خطبے کے علاوہ اور بہت سارے موارد اس موضوع پر پر بحث کی ہے جو شیعہ اور اہل سنت دونوں منابع میں نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ ذیل میں تقریب ذہن کی خاطر ان میں سے بعض موارد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ | غصب خلافت کے حوالے سے اس خطبے میں امام علی(ع) نے جو خلفاء پر تنقید کی ہے یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے جس کی وجہ سے اس خطبے کی سند میں شکوک و شبہات ایجاد کی جائے کیونکہ خود امام علی(ع) نے اس خطبے کے علاوہ اور بہت سارے موارد اس موضوع پر پر بحث کی ہے جو شیعہ اور اہل سنت دونوں منابع میں نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ ذیل میں تقریب ذہن کی خاطر ان میں سے بعض موارد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ | ||
=== اس خطبے سے ہٹ کر خلفاء کے بارے میں امام(ع) کا رویہ === | === اس خطبے سے ہٹ کر خلفاء کے بارے میں امام(ع) کا رویہ === | ||
[[جاحظ]] (متوفای | [[جاحظ]] (متوفای ۲۵۵ق۔ یعنی نہج البلاغہ کی نصنیف سے تقریبا ڈیڑھ صدی پہلے) [[البیان و التبیین]] نامی کتاب میں ایک خطبہ امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) سے نقل کرتے ہیں جس میں یوں آیا ہے: "۔۔۔ جب وہ دونوں [یعنی پہلا اور دوسرا خلیفہ] گذر گئے تو تیسرا [تیسرا خلیفہ] اٹھا اس حالت میں کہ کوئے کی طرح اس کا ہم و غم اس کا پیٹ تھا؛ وای ہو اس پر اگر اس کے دونوں پروں اور اس کے سر کو جسم سے جدا کیا جاتا تو بہتر تھا"۔<ref>الجاحظ، البیان والتبیین، ص۲۳۸۔</ref> [[ابن ابی الحدید]] نے بھی اس خطبے کو جاحظ سے ہی نقل کیا ہے۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۲۷۶۔</ref> | ||
[[ابن عبد ربہ]] (متوفای | [[ابن عبد ربہ]] (متوفای ۳۲۸ق۔) جو [[سید رضی]] سے پہلے زندگی بسر کرتے تھے اپنی کتاب [[العقد الفرید]] میں اس خطبے کو مختصر تفاوت کے ساتھ نقل کرتا ہے۔<ref>ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ج۴، ص۱۵۷۔</ref> | ||
=== ابوبکر اور عمر کا خلافت کو غصب کرنا، معاویہ کی زبانی === | === ابوبکر اور عمر کا خلافت کو غصب کرنا، معاویہ کی زبانی === | ||
[[معاویہ]]، [[محمد بن ابی بکر]] کے نام ایک خط میں کہتا ہے کہ [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی وفات کے بعد تمہارے والد [یعنی ابوبکر] اور اس کا فاروق [یعنی عمر] وہ پہلے اشخاص تھے جنہوں نے اس [یعنی علی(ع)] کا حق غصب کیا اور حکومت میں اس سے اختلافت کیا۔ یہ دونوں [یعنی ابوبکر اور عمر] اس کام (یعنی غصب خلافت) پر متحد تھے۔<ref>المسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج۳، صص۱۲- | [[معاویہ]]، [[محمد بن ابی بکر]] کے نام ایک خط میں کہتا ہے کہ [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی وفات کے بعد تمہارے والد [یعنی ابوبکر] اور اس کا فاروق [یعنی عمر] وہ پہلے اشخاص تھے جنہوں نے اس [یعنی علی(ع)] کا حق غصب کیا اور حکومت میں اس سے اختلافت کیا۔ یہ دونوں [یعنی ابوبکر اور عمر] اس کام (یعنی غصب خلافت) پر متحد تھے۔<ref>المسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج۳، صص۱۲-۱۳۔</ref> | ||
== ترجمہ == | == ترجمہ == | ||
نہج البلاغہ کے ترجمے کے ضمن میں ہونے والے ترجموں کے علاوہ اس خطبے کا مستقل اور الگ ترجمے بھی منظر عام پر آ چکی ہے ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ | نہج البلاغہ کے ترجمے کے ضمن میں ہونے والے ترجموں کے علاوہ اس خطبے کا مستقل اور الگ ترجمے بھی منظر عام پر آ چکی ہے ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ | ||
{{ستون آ|3}} | {{ستون آ|3}} | ||
#ترجمہ خطبہ | #ترجمہ خطبہ شقشقیہ۔ فارسی۔ مترجم علی انصاری۔ سن ۱۳۵۴ش ۱۴ صفحات پر مشتمل۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۳۔</ref> | ||
#خطبہ شقشقیہ کا منظوم | #خطبہ شقشقیہ کا منظوم ترجمہ۔۔۔ مترجم سیدمحمدتقی بن امیرمحمد مؤمن حسینی قزوینی ۱۲۷۰۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۳۔</ref> | ||
#ترجمہ خطبہ | #ترجمہ خطبہ شقشقیہ۔ فارسی۔ مترجم اور کتاب کا نام نامعلوم، اس کا نسخہ آستان قدس لائبریری میں موجود ہے۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۱۳۔</ref> | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
== شرحیں == | == شرحیں == | ||
{{ستون آ|2}} | {{ستون آ|2}} | ||
#تفسیر الخطبۃ الشقشقیۃ، شرح الخطبۃ | #تفسیر الخطبۃ الشقشقیۃ، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ۔ عربی۔ [[سید مرتضی |سید مرتضی]] وفات ۴۳۶۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۲۱۔</ref> مجموعہ رسائل الشریف المرتضی۔ ج۲۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/531991</ref> | ||
#الشقشقیۃ: دراسۃ موضوعیۃ لشخصیات تصدت للخلافۃ الاسلامیہ، عبدالرسول | #الشقشقیۃ: دراسۃ موضوعیۃ لشخصیات تصدت للخلافۃ الاسلامیہ، عبدالرسول الغفاری۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/28ff1ii099</ref> | ||
#امیر مؤمنین حضرت علی(ع) کی ایک جلا دینے والی آہ (خطبہ شقشقیہ کی شرح)، علی اصغر | #امیر مؤمنین حضرت علی(ع) کی ایک جلا دینے والی آہ (خطبہ شقشقیہ کی شرح)، علی اصغر رضوانی۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/2000653</ref> | ||
#سایبان سیاہ (شرح خطبہ شقشقیہ امیرمؤمنین علی علیہالسلام)، نادر | #سایبان سیاہ (شرح خطبہ شقشقیہ امیرمؤمنین علی علیہالسلام)، نادر فضلی۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/593117</ref> | ||
#الشذرات العلویہ فی شرح الخطبہ الشقشقیہ للامام علی علیہالسلام، ابوذر | #الشذرات العلویہ فی شرح الخطبہ الشقشقیہ للامام علی علیہالسلام، ابوذر الغفاری۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/2620809</ref> | ||
#شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی) | #شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی)۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/807165</ref> | ||
#شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی) | #شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی)۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/807300</ref> | ||
#شرح خطبہ شقشقیہ، مرتضی قاسمی | #شرح خطبہ شقشقیہ، مرتضی قاسمی کاشانی۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/577339</ref> | ||
#شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی) | #شرح خطبہ شقشقیہ (نسخہ خطی)۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/1804ff1ii2</ref> | ||
#خطبہ شقشقیہ، ترجمہ و شرح، محمدباقر رشاد | #خطبہ شقشقیہ، ترجمہ و شرح، محمدباقر رشاد زنجانی۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/2994093</ref> | ||
#خطبہ شقشقیہ میں شیعہ عقاید، محمد اسدی | #خطبہ شقشقیہ میں شیعہ عقاید، محمد اسدی گرمارودی۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/771346</ref> | ||
#المسائل التطبیقیہ علی الخطبہ الشقشقیہ، علی | #المسائل التطبیقیہ علی الخطبہ الشقشقیہ، علی التبریزی۔<ref>http://opac۔nlai۔ir/opac-prod/bibliographic/2091715</ref> | ||
#التوضیحات التحقیقیۃ فی شرح الخطبۃ | #التوضیحات التحقیقیۃ فی شرح الخطبۃ الشقشقیۃ۔ سید علی اکبر بن سید محمد بن سید دلدار علی، وفات ۱۳۲۶۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، صص۲۲-۲۳۔</ref> | ||
#شرح خطبہ | #شرح خطبہ شقشقیہ۔ ملا ابراہیم گیلانی گیارہویں صدی کے علماء میں سے تھے اس کا اصلی نسخہ قم میں موجود تھا۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۲۔</ref> | ||
#شرح خطبہ | #شرح خطبہ شقشقیہ۔ میرزا ابوالمعالی کلباسی وفات ۱۳۱۵۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۲۔</ref> | ||
#شرح خطبہ | #شرح خطبہ شقشقیہ۔ تاج العلماء لکہنوی متوفای ۱۳۱۲ ق۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۲۔</ref> | ||
#شرح خطبہ | #شرح خطبہ شقشقیہ۔ فارسی۔ خطبہ شقشقیہ کا منظوم ترجمہ، مترجم سیدمحمدتقی قزوینی وفات ۱۲۷۰۔ اس کا نسخہ کتابخانہ مدرسہ سپہسالار و دانشگاہ تہران میں موجود ہے۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۲۔</ref> | ||
#شرح الخطبۃ | #شرح الخطبۃ الشقشقیۃ۔ عربی۔ سید جعفر بن صادق العابد۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۲۔</ref> | ||
#شرح خطبہ | #شرح خطبہ شقشقیہ۔ سید علاء الدین گلستانہ مؤلف کتاب حدائق الحقائق اس کا نسخہ صاحب ذریعہ نے نجف میں سید محمد باقر یزدی کے یہاں دیکھا ہے۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، صص۳۲-۳۳۔</ref> | ||
#شرح الخطبۃ | #شرح الخطبۃ الشقشقیۃ۔ عربی۔ خطیب معروف سید علی ہاشمی۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۳۔</ref> | ||
#شرح خطبہ | #شرح خطبہ شقشقیہ۔ شیخ ہادی بنانی مؤلف شرح الخطبۃ الزینبیۃ معاصر شیخ انصاری۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۳۔</ref> | ||
#شرح خطبہ | #شرح خطبہ شقشقیہ۔ عربی۔ مؤلف نسخہ مورخ سدہ سیزدہم آن در کتابخانہ ملی موجود است۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۳۔</ref> | ||
#شرح خطبہ | #شرح خطبہ شقشقیہ۔ عربی۔ مؤلف نسخہ مورخ سدہ سیزدہم آن در کتابخانہ ملی موجود است۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۳۔</ref> | ||
#النقد السدید شرح الخطبۃ الشقشقیۃ لابن ابی | #النقد السدید شرح الخطبۃ الشقشقیۃ لابن ابی الحدید۔ عربی۔ شیخ محسن کریم، دو جلد، پہلی جلد سن ۱۳۸۳ کو نجف میں منظر عام پر آیا ہے۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۳۸۔</ref> | ||
#کشف السحاب فی شرح الخطبۃ | #کشف السحاب فی شرح الخطبۃ الشقشقیۃ۔ ملا حبیب إلہ کاشانی متوفای ۱۳۴۰ق۔<ref>استادی، کتابنامہ نہج البلاغہ، ص۵۵۔</ref> | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
سطر 120: | سطر 125: | ||
== خطبہ شقشقیہ کا متن اور ترجمہ == | == خطبہ شقشقیہ کا متن اور ترجمہ == | ||
{{نقل قول دوقلو طبقاتی تاشو | {{نقل قول دوقلو طبقاتی تاشو | ||
|عنوان=وَ مِنْ | |عنوان=وَ مِنْ خُطْبَۃٍ لَہُ علیہالسلام وَ ہِی الْمَعْرُوفَۃُ بِالشِّقْشِقِیۃ | ||
|رنگ | |رنگ حاشیہ= | ||
|تراز= | |تراز= | ||
|عرض= | |عرض= | ||
|أَمَا وَ | |أَمَا وَ اللَّہِ لَقَدْ تَقَمَّصَہَا فُلَانٌ وَ إِنَّہُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْہَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ | ||
|خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ | |خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ | ||
|فَسَدَلْتُ | |فَسَدَلْتُ دُونَہَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْہَا كَشْحاً | ||
|(اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی | |(اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی | ||
|وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى | |وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَۃٍ عَمْيَاءَ يَہْرَمُ فِيہَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيہَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ فِيہَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّہ۔ | ||
|اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ | |اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ | ||
|فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى | |فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى ہَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجًا | ||
|مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج) كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ | |مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج) كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ | ||
|أَرَى تُرَاثِي | |أَرَى تُرَاثِي نَہْباً حَتَّى مَضَى الْأَوَّلُ لِسَبِيلِہِ فَأَدْلَى بِہَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَہُ ـ ثُمَّ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الْأَعْشَى-: | ||
|میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔ (پھر حضرت نے بطورِ تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا۔) | |میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔ (پھر حضرت نے بطورِ تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا۔) | ||
|شَتَّانَ مَا يَوْمِي عَلَى | |شَتَّانَ مَا يَوْمِي عَلَى كُورِہَا * وَ يَوْمُ حَيَّانَ أَخِي جَابِرِ | ||
|" کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا تھا۔" | |" کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا تھا۔" | ||
|فَيَا عَجَباً بَيْنَا | |فَيَا عَجَباً بَيْنَا ہُوَ يَسْتَقِيلُہَافِي حَيَاتِہِ إِذْ عَقَدَہَا لِآخَرَ بَعْدَ وَفَاتِہِ | ||
|تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا۔ | |تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا۔ | ||
|لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا | |لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَيْہَا فَصَيَّرَہَا فِي حَوْزَۃٍ خَشْنَاءَ يَغْلُظُ كَلْمُہَا وَ يَخْشُنُ مَسُّہَا وَ يَكْثُرُ الْعِثَارُ فِيہَا وَ الِاعْتِذَارُ مِنْہَا | ||
|بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا۔ جس کے چرکے کاری تھے۔ جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی۔ جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا۔ | |بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا۔ جس کے چرکے کاری تھے۔ جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی۔ جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا۔ | ||
| | |فَصَاحِبُہَا كَرَاكِبِ الصَّعْبَۃِ إِنْ أَشْنَقَ لَہَا خَرَمَ وَ إِنْ أَسْلَسَ لَہَا تَقَحَّمَ | ||
|جس کا اس سے سابقہ پڑے ہو ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کو سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے ) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ | |جس کا اس سے سابقہ پڑے ہو ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کو سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے ) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ | ||
|فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ | |فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ اللَّہِ بِخَبْطٍ وَ شِمَاسٍ وَ تَلَوُّنٍ وَ اعْتِرَاضٍ | ||
|اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم ! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے | |اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم ! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے | ||
|فَصَبَرْتُ عَلَى طُولِ | |فَصَبَرْتُ عَلَى طُولِ الْمُدَّۃِ وَ شِدَّۃِ الْمِحْنَۃِ حَتَّى إِذَا مَضَى لِسَبِيلِہِ جَعَلَہَا فِي جَمَاعَۃٍ زَعَمَ أَنِّي أَحَدُہُمْ | ||
|میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا،یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گیا اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔ | |میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا،یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گیا اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔ | ||
|فَيَا | |فَيَا لَلَّہِ وَ لِلشُّورَى مَتَى اعْتَرَضَ الرَّيْبُ فِيَّ مَعَ الْأَوَّلِ مِنْہُمْ حَتَّى صِرْتُ أُقْرَنُ إِلَى ہَذِہِ النَّظَائِرِ | ||
|اے اللہ مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ | |اے اللہ مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ | ||
|لَكِنِّي أَسْفَفْتُ إِذْ أَسَفُّوا وَ طِرْتُ إِذْ طَارُوا فَصَغَا رَجُلٌ | |لَكِنِّي أَسْفَفْتُ إِذْ أَسَفُّوا وَ طِرْتُ إِذْ طَارُوا فَصَغَا رَجُلٌ مِنْہُمْ لِضِغْنِہِ وَ مَالَ الْآخَرُ لِصِہْرِہِ مَعَ ہَنٍ وَ ہَنٍ | ||
|مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔) ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا مادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔ | |مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔) ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا مادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔ | ||
|إِلَى أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً | |إِلَى أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً حِضْنَيْہِ بَيْنَ نَثِيلِہِ وَ مُعْتَلَفِہِ وَ قَامَ مَعَہُ بَنُو أَبِيہِ يَخْضَمُونَ مَالَ اللَّہِ خِضْمَۃَ الْإِبِلِ نِبْتَۃَ الرَّبِيعِ | ||
|یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصلِ ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ | |یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصلِ ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ | ||
|إِلَى أَنِ انْتَكَثَ | |إِلَى أَنِ انْتَكَثَ عَلَيْہِ فَتْلُہُ وَ أَجْہَزَ عَلَيْہِ عَمَلُہُ وَ كَبَتْ بِہِ بِطْنَتُہُ۔ | ||
|یہاں تک کہ وہ وقت آگیا۔ جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بَل کھِل گئے اورا س کی بد اعمالیوں نے اسی کا کام تمام کر دیا۔ اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔ | |یہاں تک کہ وہ وقت آگیا۔ جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بَل کھِل گئے اورا س کی بد اعمالیوں نے اسی کا کام تمام کر دیا۔ اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔ | ||
|فَمَا رَاعَنِي إِلَّا وَ النَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ إِلَيَّ يَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ حَتَّى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ وَ شُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِينَ حَوْلِي | |فَمَا رَاعَنِي إِلَّا وَ النَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ إِلَيَّ يَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ حَتَّى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ وَ شُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِينَ حَوْلِي كَرَبِيضَۃِ الْغَنَمِ | ||
|اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بچو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن علیہ اور حسین علیہ کچلے جارہے تھے اور میری ردا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ | |اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بچو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن علیہ اور حسین علیہ کچلے جارہے تھے اور میری ردا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ | ||
|فَلَمَّا | |فَلَمَّا نَہَضْتُ بِالْأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَۃٌ وَ مَرَقَتْ أُخْرَى وَ قَسَطَ آخَرُونَ كَأَنَّہُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّہَ سُبْحَانَہُ يَقُولُ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہا لِلَّذِينَ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لا فَساداً وَ الْعاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِينَ | ||
|مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ » یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔ | |مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ » یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔ | ||
|بَلَى وَ | |بَلَى وَ اللَّہِ لَقَدْ سَمِعُوہَا وَ وَعَوْہَا وَ لَكِنَّہُمْ حَلِيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِہِمْ وَ رَاقَہُمْ زِبْرِجُہَا | ||
|ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا۔ لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔ | |ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا۔ لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔ | ||
|أَمَا وَ الَّذِي فَلَقَ | |أَمَا وَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَ بَرَأَ النَّسَمَۃَ لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قِيَامُ الْحُجَّۃِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ وَ مَا أَخَذَ اللَّہُ عَلَى الْعُلَمَاءِ أَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّۃِ ظَالِمٍ وَ لَا سَغَبِ مَظْلُومٍ لَأَلْقَيْتُ حَبْلَہَا عَلَى غَارِبِہَا وَ لَسَقَيْتُ آخِرَہَا بِكَأْسِ أَوَّلِہَا | ||
|دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے۔ کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا | |دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے۔ کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا | ||
|وَ لَأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ | |وَ لَأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ ہَذِہِ أَزْہَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَۃِ عَنْزٍ ۔ | ||
|اور تم ا س دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔ | |اور تم ا س دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔ | ||
|قَالُوا وَ قَامَ | |قَالُوا وَ قَامَ إِلَيْہِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوغِہِ إِلَى ہَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِہِ فَنَاوَلَہُ كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيہِ مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الْإِجَابَۃَ عَنْہَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيہِ [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِہِ] قَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ ۔ فَقَالَ : ہَيْہَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ | ||
| جب بایت یہاں تک پہنچی تو عراق کا ایک شخص کھڑا ہوا اور ایک خط امام تک پہنچا دیا اور آپ اس خط کو پڑھنے میں مصروف ہوگئے اس کے بعد ابن عباس نے کہا اے کاش یا امیر المؤمنین جہاں پر بات ختم ہوئی تھی وہیں سے دوبارہ شروع کرتے تو آپ نے فرمایا | | جب بایت یہاں تک پہنچی تو عراق کا ایک شخص کھڑا ہوا اور ایک خط امام تک پہنچا دیا اور آپ اس خط کو پڑھنے میں مصروف ہوگئے اس کے بعد ابن عباس نے کہا اے کاش یا امیر المؤمنین جہاں پر بات ختم ہوئی تھی وہیں سے دوبارہ شروع کرتے تو آپ نے فرمایا | ||
|تِلْكَ | |تِلْكَ شِقْشِقَۃٌ ہَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَوَاللَّہِ مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ كَأَسَفِي عَلَى ہَذَا الْكَلَامِ أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عليہ السلام) بَلَغَ مِنْہُ حَيْثُ أَرَادَ ۔ | ||
| | |ہیہات اے ابن عباس، یہ اندرونی آگ تھی جو شعلہ ور ہوئی پھر خاموش ہو گئی! ابن عباس کہتا ہے: خدا کی قسم امیر المؤمنین کے اس نامکمل کلام کی طرح کسی بات پر مجھے افسوس نہیں ہوا کہ اس اعلی صفات کے مالک انسان کو اپنا درد دل یوں ختم کرنا پڑا ۔ | ||
}} | }} | ||
سطر 175: | سطر 180: | ||
== مآخذ == | == مآخذ == | ||
{{مآخذ}} | {{مآخذ}} | ||
* نہج البلاغہ، ترجمہ سیدجعفر شہیدی، تہران: علمی و فرہنگی، | * نہج البلاغہ، ترجمہ سیدجعفر شہیدی، تہران: علمی و فرہنگی، ۱۳۷۷۔ | ||
*[[عبدالحسین امینی|الامینی، عبدالحسین]]، [[الغدیر|الغدیر فی الکتاب والسنۃ والادب]]، قم: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، ۱۴۱۶ق- | *[[عبدالحسین امینی|الامینی، عبدالحسین]]، [[الغدیر|الغدیر فی الکتاب والسنۃ والادب]]، قم: مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، ۱۴۱۶ق-۱۹۹۵م۔ | ||
* ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، ج۱،دار احیاء الکتب العربیۃ، ۱۳۷۸/ | * ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، ج۱،دار احیاء الکتب العربیۃ، ۱۳۷۸/۱۹۵۹م۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔ | ||
*ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق: مفید محمد قمیحہ، بیروت:دار الکتب العلمیۃ، | *ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق: مفید محمد قمیحہ، بیروت:دار الکتب العلمیۃ، بیتا۔ | ||
*استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، تہران: بنیاد نہج البلاغہ، | *استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، تہران: بنیاد نہج البلاغہ، ۱۳۵۹ش۔ | ||
*الحسینی الخطیب، السید عبد الزہراء، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، ج۱، بیروت:دار الزہراء، | *الحسینی الخطیب، السید عبد الزہراء، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، ج۱، بیروت:دار الزہراء، ۱۴۰۹ق۔-۱۹۸۸م۔ | ||
*الجاحظ، البیان والتبیین، مصر: المکتبۃ التجاریۃ الکبری لصاحبہا مصطفی محمد، | *الجاحظ، البیان والتبیین، مصر: المکتبۃ التجاریۃ الکبری لصاحبہا مصطفی محمد، ۱۳۴۵ق۔/۱۹۲۶م۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔ | ||
*الراوندی، قطب الدین، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، تحقیق: السید عبد اللطیف الکوہکمری، قم: مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی العامۃ، | *الراوندی، قطب الدین، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، تحقیق: السید عبد اللطیف الکوہکمری، قم: مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی العامۃ، ۱۴۰۶۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔ | ||
*الصدوق، علل الشرائع، ج۱، نجف: منشورات المکتبۃ الحیدریۃ و مطبعتہا، ۱۳۸۵/ | *الصدوق، علل الشرائع، ج۱، نجف: منشورات المکتبۃ الحیدریۃ و مطبعتہا، ۱۳۸۵/۱۹۶۶م۔ نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔ | ||
*الصدوق، معانی الاخبار، تصحیح و تحقیق: علی اکبر الغفاری، قم: مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، ۱۳۷۹/ | *الصدوق، معانی الاخبار، تصحیح و تحقیق: علی اکبر الغفاری، قم: مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، ۱۳۷۹/۱۳۳۸ش۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔ | ||
*طالقانی، محمود، پرتوی از نہج البلاغہ، مصحّح: سیدمحمدمہدی جعفری، تہران: سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، | *طالقانی، محمود، پرتوی از نہج البلاغہ، مصحّح: سیدمحمدمہدی جعفری، تہران: سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۷۴۔ | ||
* محمدی، سیدکاظم، دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: نشر امام علی(ع)، | * محمدی، سیدکاظم، دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: نشر امام علی(ع)، ۱۳۶۹ش۔ | ||
*المسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، قم: دارالہجرۃ، | *المسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، قم: دارالہجرۃ، ۱۴۰۴ق۔-۱۳۶۳ش۔-۱۹۸۴م۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔ | ||
*مدنی، علی خان بن احمد، الطراز الأول، مشہد: مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، ۱۳۸۴ | *مدنی، علی خان بن احمد، الطراز الأول، مشہد: مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، ۱۳۸۴ ہ۔ ش۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ قاموس النور (۲۔ | ||
*مطرزی، ناصر بن عبدالسید، المغرب، محقق/ مصحح: فاخوری، محمود/ مختار، عبدالحمید، حلب: مکتبہ اسامہ بن زید، ۱۹۷۹ | *مطرزی، ناصر بن عبدالسید، المغرب، محقق/ مصحح: فاخوری، محمود/ مختار، عبدالحمید، حلب: مکتبہ اسامہ بن زید، ۱۹۷۹ م۔ | ||
*المفید، الارشاد، قم: مؤسسۃ آل البیت لتحقیق التراث، ۱۴۱۴/ | *المفید، الارشاد، قم: مؤسسۃ آل البیت لتحقیق التراث، ۱۴۱۴/۱۹۹۳م۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔ | ||
*المفید، المسألتان فی النص علی علی(ع)، تحقیق: محمدرضا الانصاری، ج۲، بیروت: ۱۴۱۴/ | *المفید، المسألتان فی النص علی علی(ع)، تحقیق: محمدرضا الانصاری، ج۲، بیروت: ۱۴۱۴/۱۹۹۳م۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔ | ||
*المفید، الجمل، قم: مکتبۃ الداوری، | *المفید، الجمل، قم: مکتبۃ الداوری، بیتا۔ (نسخہ موجود در لوح فشردہ کتابخانہ اہل بیت(ع)، نسخہ دوم)۔ | ||
{{خاتمہ}} | {{خاتمہ}} | ||