مندرجات کا رخ کریں

"سخی مزار" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 31: سطر 31:
| دوسری خصوصیات =  
| دوسری خصوصیات =  
}}
}}
'''سخی مزار''' افغانستان کے دارالحکومت کابل کے علاقے کارته سکھی میں واقع ایک مکان ہے۔ میں ایک جگہ ہے جہاں 1182 ہجری میں پیغمبر اسلام (ص) سے منسوب کپڑے کو بدخشان سے قندھار لے جاتے ہوئے کچھ مدت کے لیے رکھا گیا تھا۔ کپڑا لے جانے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ امام علی علیہ السلام اس کپڑے کے پاس کچھ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔ تب سے یہ جگہ شیعوں اور سنیوں کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ نیز اس جگہ شمسی نئے سال کے آغاز کے دوران سخی شاہ مردان کا علَم لہرایا جاتا ہے۔
'''سخی مزار''' افغانستان کے دارالحکومت [[کابل]] کے علاقے کارته سکھی میں واقع ایک مکان ہے۔ میں ایک جگہ ہے جہاں 1182 ہجری میں [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلامؐ]] سے منسوب کپڑے کو بدخشان سے قندھار لے جاتے ہوئے کچھ مدت کے لیے رکھا گیا تھا۔ کپڑا لے جانے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] اس کپڑے کے پاس کچھ لوگوں کے ساتھ [[نماز]] پڑھ رہے ہیں۔ تب سے یہ جگہ [[شیعہ]] اور [[اہل سنت و الجماعت|سنیوں]] کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ نیز اس جگہ شمسی نئے سال کے آغاز کے دوران سخی شاہ مردان کا علَم لہرایا جاتا ہے۔


مزار کی ابتدائی عمارت افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی (1134-1186ھ /1722-1773ء) نے بنوائی تھی۔ طالبان نے 14 فروری سنہ 2023ء کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے مزار کو بند کردیا تھا کہ وہاں مشرکانہ رسمیں چل رہی ہیں۔ اس سے قبل 2016 میں داعش کی طرف سے سخی مزار کے خلاف دہشت گردانہ حملے بھی کیے گئے تھے۔
مزار کی ابتدائی عمارت [[افغانستان]] کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی (1134-1186ھ /1722-1773ء) نے بنوائی تھی۔ [[طالبان]] نے [[14 فروری]] سنہ 2023ء کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے مزار کو بند کردیا تھا کہ وہاں مشرکانہ رسمیں چل رہی ہیں۔ اس سے قبل 2016 میں [[داعش]] کی طرف سے سخی مزار کے خلاف دہشت گردانہ حملے بھی کیے گئے تھے۔


==محل وقوع==
==محل وقوع==
[[file:زیارت سخی.jpeg|تصغیر|جنوبی منظر (فوٹو:روئٹرز نیوز ایجنسی)]]
[[file:زیارت سخی.jpeg|تصغیر|جنوبی منظر (فوٹو:روئٹرز نیوز ایجنسی)]]
[[file:زیارت سخی۳.jpeg|تصغیر|مغربی منظر]]
[[file:زیارت سخی۳.jpeg|تصغیر|مغربی منظر]]
زیارت سخی اسمائی پہاڑ ( ٹی وی پہاڑ) کے مغربی دامن پر اور کابل کے علاقے کارتے سخی میں واقع ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380؛ احمدی‌نژاد بلخی، «آرامگاه‌های خاندان پیامبر(ص) در افغانستان»، ص101.</ref> اس کے بالمقابل کابل یونیورسٹی، علی آباد ہسپتال اور حسینیہ عرفان واقع ہیں۔ اس کے جنوبی حصے میں، امام علیؑ مسجد (میر علی احمد حجت نے تعمیر کی) اور اس کے باہر، سلام ٹیلے پر، مسجد اور مدرسہ علمیہ محمدیہ واقع ہیں جنہیں واعظ بہسودی نے تعمیر کرایا ہے۔ اس مزار کے مغربی اور جنوبی علاقے میں ایک قبرستان ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380؛ احمدی‌نژاد بلخی۔</ref> جہاں سید علی احمد حجت،<ref>احمدی‌نژاد بلخی، «آرامگاه‌های خاندان پیامبر(ص) در افغانستان»، ص100.</ref> امان اللہ خان کی والدہ حیات بیگم، واعظ بہسودی اور کمیونسٹ، مجاہدین اور طالبان حکومت کے تشدد سے مارے جانے والے متعدد افراد کی قبریں ہیں۔<ref>«روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاه معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.</ref>
زیارت سخی اسمائی پہاڑ ( ٹی وی پہاڑ) کے مغربی دامن پر اور کابل کے علاقے کارتے سخی میں واقع ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380؛ احمدی‌نژاد بلخی، «آرامگاه‌های خاندان پیامبر(ص) در افغانستان»، ص101.</ref> اس کے بالمقابل کابل یونیورسٹی، علی آباد ہسپتال اور حسینیہ عرفان واقع ہیں۔ اس کے جنوبی حصے میں، امام علیؑ [[مسجد]] (میر علی احمد حجت نے تعمیر کی) اور اس کے باہر، سلام ٹیلے پر، مسجد اور مدرسہ علمیہ محمدیہ واقع ہیں جنہیں واعظ بہسودی نے تعمیر کرایا ہے۔ اس مزار کے مغربی اور جنوبی علاقے میں ایک قبرستان ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380؛ احمدی‌نژاد بلخی۔</ref> جہاں سید علی احمد حجت،<ref>احمدی‌نژاد بلخی، «آرامگاه‌های خاندان پیامبر(ص) در افغانستان»، ص100.</ref> امان اللہ خان کی والدہ حیات بیگم، واعظ بہسودی اور کمیونسٹ، مجاہدین اور طالبان حکومت کے تشدد سے مارے جانے والے متعدد افراد کی قبریں ہیں۔<ref>«روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاه معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.</ref>


==== تاریخچہ ====
====تاریخچہ====
کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ سے منسوب ایک کپڑا جو سنہ 1109 سے 1181 ہجری تک فیض آباد، بدخشان میں تھا<ref>وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقه شریفه، 1366ش، ص18.</ref> اور 1182ھ کے اواخر میں یہ کپڑا احمد شاہ ابدالی کے حکم سے ولی‌ الله خان اعتماد الدوله کے ذریعے ولایت بدخشان کے علاقہ فیض آباد سے قندہار لے جایا گیا۔ سنہ 1182 ہجری کے اوائل میں یہ کپڑا کابل پہنچا اور موجودہ مزار کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ اور یہاں رکھنے کی مدت چالیس دن سے 8 مہینے تک ذکر ہوئی ہے۔ اس دوران کابل اور گردونواح سے لوگ اس کپڑے کی زیارت کے لیے آتے تھے۔<ref>وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقه شریفه، 1366ش، ص28.</ref> سنہ 1180ھ کو بھی کپڑا منتقل ہونے کا سال قرار دیا گیا ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380.</ref>  
کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ سے منسوب ایک کپڑا جو سنہ 1109 سے 1181 ہجری تک فیض آباد، بدخشان میں تھا<ref>وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقه شریفه، 1366ش، ص18.</ref> اور 1182ھ کے اواخر میں یہ کپڑا احمد شاہ ابدالی کے حکم سے ولی‌ الله خان اعتماد الدوله کے ذریعے ولایت بدخشان کے علاقہ فیض آباد سے قندہار لے جایا گیا۔ سنہ 1182 ہجری کے اوائل میں یہ کپڑا کابل پہنچا اور موجودہ مزار کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ اور یہاں رکھنے کی مدت چالیس دن سے 8 مہینے تک ذکر ہوئی ہے۔ اس دوران کابل اور گردونواح سے لوگ اس کپڑے کی زیارت کے لیے آتے تھے۔<ref>وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقه شریفه، 1366ش، ص28.</ref> سنہ 1180ھ کو بھی کپڑا منتقل ہونے کا سال قرار دیا گیا ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380.</ref>  


روایت ہوئی ہے کہ کپڑا لے جانے والے صوفیاء نے چند دنوں کے بعد دو راتوں کو لگاتار خواب میں دیکھا کہ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس ایک شخص جس نے اپنی تلوار پتھر پر رکھی ہوئی ہے کچھ لوگوں کے ساتھ کپڑے کے پاس نماز پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور سبز رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اس شخص نے اپنا تعارف امام علیؑ سے کرایا۔ اسی وجہ سے اس وقت سے یہ مقام حضرت علی علیہ السلام کی قدمگاہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ مذکورہ پتھر دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380-381.</ref> یہ پتھر مزار کی شمالی دیوار میں پہاڑ کی طرف واقع ہے جو سنگِ ذوالفقار سے مشہور ہے۔ کپڑا لے جانے والوں نے قندھار پہنچ کر احمد شاہ ابدالی کو یہ واقعہ بیان کیا تو اس نے وہاں "سخی، شاہ مردان" کے نام سے ایک مزار بنانے کا حکم دیا۔ اس مزار کی تاریخ اس کے اندر، دیوار پر کتبے پر لکھی ہوئی ہے۔.<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380-381.</ref>
روایت ہوئی ہے کہ کپڑا لے جانے والے صوفیاء نے چند دنوں کے بعد دو راتوں کو لگاتار خواب میں دیکھا کہ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس ایک شخص جس نے اپنی تلوار پتھر پر رکھی ہوئی ہے کچھ لوگوں کے ساتھ کپڑے کے پاس نماز پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور سبز رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اس شخص نے اپنا تعارف [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] سے کرایا۔ اسی وجہ سے اس وقت سے یہ مقام حضرت علی علیہ السلام کی قدمگاہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ بیدار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ مذکورہ پتھر دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380-381.</ref> یہ پتھر مزار کی شمالی دیوار میں پہاڑ کی طرف واقع ہے جو سنگِ ذوالفقار سے مشہور ہے۔ کپڑا لے جانے والوں نے قندھار پہنچ کر احمد شاہ ابدالی کو یہ واقعہ بیان کیا تو اس نے وہاں "سخی، شاہ مردان" کے نام سے ایک مزار بنانے کا حکم دیا۔ اس مزار کی تاریخ اس کے اندر، دیوار میں نصف کتبے پر درج ہوئی ہے۔<ref>بختیاری، شیعیان افغانستان، 1385ش، ص380-381.</ref>


==عمارت==
==عمارت==
[[file:Kartisaqi.jpg|تصغیر]]
[[file:Kartisaqi.jpg|تصغیر]]
مزار کی پہلی عمارت احمد خان ابدالی (1134-1186ھ /1722-1773ء) نے تعمیر کروائی تھی۔<ref>«روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاه معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.</ref> سنہ 1187ھ میں مزار کے قریب پانی کا کنواں کھودا گیا اور درخت لگائے گئے۔ سنہ 1298ھ میں افغانستان کے امان اللہ خان شاہ کی والدہ حیات بیگم نے برطانیہ سے افغانستان کی آزادی کی بحالی میں اپنے بیٹے کی کامیابی کے بعد اس کی مرمت شروع کی اور 1299ھ میں اسے مکمل کر کے ایک گنبد تعمیر کیا۔<ref>وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقه شریفه، 1366ش، ص28.</ref> میر علی احمد حجت نے اس میں ایک اور چھوٹے گنبد کو اضافہ کیا۔.<ref>«روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاه معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.</ref> حجت نے 1343 شمسی کو روضہ سخی کے جنوب میں ایک مسجد بھی بنوائی۔<ref>[http://af.farsnews.com/culture/news/13941228000201 زیارتگاه سخی در نوروز]، خبرگزاری فارس.</ref>
مزار کی پہلی عمارت احمد خان ابدالی (1134-1186ھ /1722-1773ء) نے تعمیر کروائی تھی۔<ref>«روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاه معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.</ref> سنہ 1187ھ میں مزار کے قریب پانی کا کنواں کھودا گیا اور درخت لگائے گئے۔ سنہ 1298ھ میں افغانستان کے امان اللہ خان شاہ کی والدہ حیات بیگم نے برطانیہ سے افغانستان کی آزادی کی بحالی میں اپنے بیٹے کی کامیابی کے بعد اس کی مرمت شروع کی اور 1299ھ میں اسے مکمل کر کے ایک گنبد تعمیر کیا۔<ref>وکیلی پویلزائی، تاریخ خرقه شریفه، 1366ش، ص28.</ref> میر علی احمد حجت نے اس میں ایک اور چھوٹے گنبد کو اضافہ کیا۔<ref>«روایت‌نگاری خبرنگار تسنیم از زیارتگاه معروف سخی در کابل»، خبرگزاری تسنیم.</ref> حجت نے 1343 شمسی کو روضہ سخی کے جنوب میں ایک [[مسجد]] بھی بنوائی۔<ref>[http://af.farsnews.com/culture/news/13941228000201 زیارتگاه سخی در نوروز]، خبرگزاری فارس.</ref>


==علم کشائی==
==علم کشائی==
[[پرونده:مراسم نوروز در زیارتگاه سخی.jpg|تصغیر|[[نوروز]] کے دن حضرت علیؑ سے منسوب علَم کشائی کا منظر]]
[[پرونده:مراسم نوروز در زیارتگاه سخی.jpg|تصغیر|[[نوروز]] کے دن حضرت علیؑ سے منسوب علَم کشائی کا منظر]]
ہر سال نوروز کے دن اس جگہ پر شیعہ اور اہل سنت سب مل کر حضرت علیؑ کے نام پر پرچم لہرایا جاتا ہے اور اس تقریب میں ایک شیعہ عالم دین اور ایک سنی عالم باری باری تقریر کرتے ہیں۔<ref>احمدی، «نوروز در افغانستان».</ref> اس تقریب میں سرکاری لوگ بھی شرکت کرتے ہیں اور مذکورہ علَم چالیس دن تک بلند رہتا ہے۔<ref>[https://www.tasnimnews.com/fa/news/1395/03/16/1096528 «زیارت سخی» مکان مقدس شیعیان و اهل تسنن در کابل»]، خبرگزاری تسنیم.</ref>  
ہر سال [[نوروز]] کے دن تحویل سال کے موقعے پر اس جگہ پر شیعہ اور اہل سنت سب مل کر حضرت علیؑ کے نام پر پرچم لہرایا جاتا ہے اور اس تقریب میں ایک شیعہ عالم دین اور ایک سنی عالم باری باری تقریر کرتے ہیں۔<ref>احمدی، «نوروز در افغانستان».</ref> اس تقریب میں سرکاری لوگ بھی شرکت کرتے ہیں اور مذکورہ علَم چالیس دن تک بلند رہتا ہے۔<ref>[https://www.tasnimnews.com/fa/news/1395/03/16/1096528 «زیارت سخی» مکان مقدس شیعیان و اهل تسنن در کابل»]، خبرگزاری تسنیم.</ref>  


بروز منگل 14 فروری سنہ 2023ء کو طالبان کے امر بالمعروف اور نہی از منکر پر مامور افراد نے اس مزار کو بند کر دیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق طالبان نے اس مزار کے زائرین کو بھی وہاں سے یہ کہہ کر باہر نکال دیا کہ اس جگہ پر عَلَم کو بوسہ دینے سمیت مشرکانہ افعال انجام دئے جاتے ہیں۔<ref>«تداوم فشار طالبان بر شیعیان افغانستان...»، خبرگزاری شفقنا.</ref>
بروز منگل 14 فروری سنہ 2023ء کو طالبان کے امر بالمعروف اور نہی از منکر پر مامور افراد نے اس مزار کو بند کر دیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق طالبان نے اس مزار کے زائرین کو بھی وہاں سے یہ کہہ کر باہر نکال دیا کہ اس جگہ پر عَلَم کو بوسہ دینے سمیت مشرکانہ افعال انجام دئے جاتے ہیں۔<ref>«تداوم فشار طالبان بر شیعیان افغانستان...»، خبرگزاری شفقنا.</ref>


==دہشتگردی کے حملے==
==دہشتگردی کے حملے==
سنہ 2016ء سے، سخی مزار اور اس کی طرف جانے والی سڑکوں پر دہشت گردی کے کئی حملے ہوئے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ پہلا حملہ عاشورہ کی رات 11 اکتوبر سنہ 2016ء کو داعش کے کچھ اعضا نے مزار کے اندر موجود لوگوں کے خلاف کیا۔<ref>[http://af.farsnews.com/allnews/news/13950720000592 «44 کشته و زخمی در حمله به زیارت سخی کابل»]، خبرگزاری فارس.</ref> جبکہ دوسرا حملہ 21 مارچ سنہ 2018ء کو مزار کی طرف جانے والی سڑک پر واقع ہوا<ref>[https://etilaatroz.com/58723 «نوروز خونین کابل»]، سایت روزنامه اطلاعات روز.</ref> اور مزار کی طرف علَم کشائی کے لئے جانے والے لوگوں کے درمیان تین بم پھٹنے سے 29 افراد مارے گئے اور 52 زخمی ہوئے۔<ref>[https://dailypakistan.com.pk/21-Mar-2018/751533 کابل میں سخی مزار کے قریب خود کش حملہ، 29افراد ہلاک 52 زخمی، طالبان نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کر دی] روزنامہ پاکستان۔</ref> جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کیا۔<ref>[https://fa.abna24.com/story/749304 «داعش مسئولیت حمله به مراسم جشن نوروز در کابل را به عهده گرفت»]، خبرگزاری ابنا.</ref>
سنہ 2016ء سے، سخی مزار اور اس کی طرف جانے والی سڑکوں پر دہشت گردی کے کئی حملے ہوئے، جس کی ذمہ داری [[داعش]] نے قبول کی۔ پہلا حملہ عاشورہ کی رات 11 اکتوبر سنہ 2016ء کو داعش کے کچھ اعضا نے مزار کے اندر موجود لوگوں کے خلاف کیا۔<ref>[http://af.farsnews.com/allnews/news/13950720000592 «44 کشته و زخمی در حمله به زیارت سخی کابل»]، خبرگزاری فارس.</ref> جبکہ دوسرا حملہ 21 مارچ سنہ 2018ء کو مزار کی طرف جانے والی سڑک پر واقع ہوا<ref>[https://etilaatroz.com/58723 «نوروز خونین کابل»]، سایت روزنامه اطلاعات روز.</ref> اور مزار کی طرف علَم کشائی کے لئے جانے والے لوگوں کے درمیان تین بم پھٹنے سے 29 افراد مارے گئے اور 52 زخمی ہوئے۔<ref>[https://dailypakistan.com.pk/21-Mar-2018/751533 کابل میں سخی مزار کے قریب خود کش حملہ، 29افراد ہلاک 52 زخمی، طالبان نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کر دی] روزنامہ پاکستان۔</ref> جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کیا۔<ref>[https://fa.abna24.com/story/749304 «داعش مسئولیت حمله به مراسم جشن نوروز در کابل را به عهده گرفت»]، خبرگزاری ابنا.</ref>
==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم