مندرجات کا رخ کریں

"شریح بن ہانی حارثی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''شُرَیْح بْن ہانی حارثی مَذْحَجی کوفی''' (متوفی 78 ہجری)، [[جنگ جمل|جَمَل]]، [[جنگ صفین|صِفَّین]] و [[جنگ نہروان|نہروان]] کی جنگوں میں [[حضرت علیؑ]] کے سپہ سالاروں میں سے تھے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج4، ص565۔</ref> [[امام علی علیہ السلام]] کا ان کے نام ایک خط۔<ref>نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ56، ص447۔</ref> میں امام نے انہیں تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت اور دنیا کے فریب اور نفس کی خواہشات سے خبردار کیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج11، ص182۔</ref> [[ناصر مکارم شیرازی|آیت اللہ مکارم شیرازی]] نے [[پیام امام امیرالمؤمنین (کتاب)|شرح نہج البلاغہ]] میں ان سفارشات کی وجہ معاویہ کی جانب سے امام علی کی فوج کے سپہ سالاروں کو ورغلانے کی کوشش یا زیاد بن نضر نامی ایک اور سپہ سالار کے ساتھ شریح کے اختلافات کو قرار دیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج11، ص182۔</ref>  
'''شُرَیْح بْن ہانی حارثی مَذْحَجی کوفی''' (متوفی 78 ہجری)، [[جنگ جمل|جَمَل]]، [[جنگ صفین|صِفَّین]] و [[جنگ نہروان|نہروان]] کی جنگوں میں [[حضرت علیؑ]] کے سپہ سالاروں میں سے تھے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج4، ص565۔</ref> [[امام علی علیہ السلام]] کا ان کے نام ایک خط۔<ref>نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، نامہ56، ص447۔</ref> میں امام نے انہیں تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت اور دنیا کے فریب اور نفس کی خواہشات سے خبردار کیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ہجری شمسی، ج11، ص182۔</ref> [[ناصر مکارم شیرازی|آیت اللہ مکارم شیرازی]] نے [[پیام امام امیرالمؤمنین (کتاب)|شرح نہج البلاغہ]] میں ان سفارشات کی وجہ معاویہ کی جانب سے امام علی کی فوج کے سپہ سالاروں کو ورغلانے کی کوشش یا زیاد بن نضر نامی ایک اور سپہ سالار کے ساتھ شریح کے اختلافات کو قرار دیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ہجری شمسی، ج11، ص182۔</ref>  


حکمیت کے واقعہ کے بعد شریح کی [[عمرو بن عاص سہمی|عَمرو بن عاص]] سے لڑائی ہوگئی اور اسے کوڑے مارے؛ کیونکہ اس نے [[ابوموسی اشعری|ابوموسی اَشْعری]] کو دھوکہ دیا تھا۔<ref> مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج2، ص399۔</ref> حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والوں میں ان کا نام آتا ہے، لیکن [[تاریخ طبری (کتاب)|تاریخ طبری]] کے مطابق شریح نے حُجر کے خلاف [[گواہی]] دینے سے انکار کردیا اور معاویہ کے نام ایک خط میں اسے زیاد بن ابیہ کا کام قرار دیا۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص270۔</ref>  
حکمیت کے واقعہ کے بعد شریح کی [[عمرو بن عاص سہمی|عَمرو بن عاص]] سے لڑائی ہوگئی اور اسے کوڑے مارے؛ کیونکہ اس نے [[ابوموسی اشعری|ابوموسی اَشْعری]] کو دھوکہ دیا تھا۔<ref> مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص399۔</ref> حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والوں میں ان کا نام آتا ہے، لیکن [[تاریخ طبری (کتاب)|تاریخ طبری]] کے مطابق شریح نے حُجر کے خلاف [[گواہی]] دینے سے انکار کردیا اور معاویہ کے نام ایک خط میں اسے زیاد بن ابیہ کا کام قرار دیا۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص270۔</ref>  


شریح نے اپنے والد حضرت علیؑ، [[عایشہ]]، [[سعد بن ابی وقاص|سعد بن ابی وَقاص]] اور [[عمر بن خطاب|عُمر بن خَطّاب]]<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج6، ص180۔</ref> وغیرہ<ref> ابن حجر، الاصابۃ، 1415ق، ج3، ص308۔</ref> سے روایت کی ہے۔<ref> ابن اثیر، اسدالغابہ، 1415ق، ج2، ص628۔</ref> ان سے ان کے بچوں مقدم اور محمد سمیت دیگر راویوں نے روایت کی ہے۔ ابن حجر کے مطابق [[احمد بن شعیب نسایی|نسایی]] اور ابن معین نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اور [[ابن حبان|ابن حِبان]] نے ان کی توثیق کی ہے۔<ref>ابن حجر، تہذیب التہذیب، 1325ق، ج4، ص330۔</ref>
شریح نے اپنے والد حضرت علیؑ، [[عایشہ]]، [[سعد بن ابی وقاص|سعد بن ابی وَقاص]] اور [[عمر بن خطاب|عُمر بن خَطّاب]]<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص180۔</ref> وغیرہ<ref> ابن حجر، الاصابۃ، 1415ھ، ج3، ص308۔</ref> سے روایت کی ہے۔<ref> ابن اثیر، اسدالغابہ، 1415ھ، ج2، ص628۔</ref> ان سے ان کے بچوں مقدم اور محمد سمیت دیگر راویوں نے روایت کی ہے۔ ابن حجر کے مطابق [[احمد بن شعیب نسایی|نسایی]] اور ابن معین نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اور [[ابن حبان|ابن حِبان]] نے ان کی توثیق کی ہے۔<ref>ابن حجر، تہذیب التہذیب، 1325ھ، ج4، ص330۔</ref>


شریح کے والد ہانی بن یزید حارثی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے، جنہیں رسول اللہؐ نے ان کے بیٹے کے نام پر ابو الشریح کا لقب دیا اور شریح کے لیے دعا کی۔<ref> ابن حجر، الاصابۃ، 1415ق، ج3، ص308۔</ref> صحابہ کے بارے میں لکھی گئی بعض کتابوں میں شریح کے سوانح ذکر ہوئے ہیں۔<ref> ابن اثیر، اسدالغابہ، 1415ق، ج2، ص628؛ ابن حجر، الاصابۃ، 1415ق، ج3، ص307-308۔</ref> ان سے نقل ہوتا ہے کہ انہوں نے پیغمبر کے زمانے کو پایا ہے لیکن آنحضرتؐ سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: ابن حجر، الاصابۃ، 1415ق، ج3، ص308۔</ref> تاہم ابن سعد نے ان کا شمار کوفہ کے تابعین میں کیا ہے۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج6، ص180۔</ref> وہ 78 ہجری میں سیستان کی جنگ میں مارا گیا۔<ref> ابن اثیر، اسدالغابہ، 1415ق، ج2، ص628۔</ref> ابن حجر کے مطابق وہ 110 سال زندہ رہے۔<ref> ابن حجر، الاصابۃ، 1415ق، ج3، ص308۔</ref>
شریح کے والد ہانی بن یزید حارثی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے، جنہیں رسول اللہؐ نے ان کے بیٹے کے نام پر ابو الشریح کا لقب دیا اور شریح کے لیے دعا کی۔<ref> ابن حجر، الاصابۃ، 1415ھ، ج3، ص308۔</ref> صحابہ کے بارے میں لکھی گئی بعض کتابوں میں شریح کے سوانح ذکر ہوئے ہیں۔<ref> ابن اثیر، اسدالغابہ، 1415ھ، ج2، ص628؛ ابن حجر، الاصابۃ، 1415ھ، ج3، ص307-308۔</ref> ان سے نقل ہوتا ہے کہ انہوں نے پیغمبر کے زمانے کو پایا ہے لیکن آنحضرتؐ سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: ابن حجر، الاصابۃ، 1415ھ، ج3، ص308۔</ref> تاہم ابن سعد نے ان کا شمار کوفہ کے تابعین میں کیا ہے۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص180۔</ref> وہ 78 ہجری میں سیستان کی جنگ میں مارا گیا۔<ref> ابن اثیر، اسدالغابہ، 1415ھ، ج2، ص628۔</ref> ابن حجر کے مطابق وہ 110 سال زندہ رہے۔<ref> ابن حجر، الاصابۃ، 1415ھ، ج3، ص308۔</ref>


{{جعبہ نقل قول| عنوان =شریح بن ہانی کے نام امام علیؑ کا خط| نقل قول =صبح و شام برابر اللہ کا خوف رکھنا اور اس فریب کار دنیا سے ڈرتے رہنا اور کسی حالت میں اس سے مطمئن نہ ہونا۔ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کو بہت دل پسند باتوں سے نہ روکا تو تمہاری نفسانی خواہشیں تمہیں بہت سے نقصانات میں ڈال دیں گی۔ لہٰذا اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے اور غصہ کے وقت اپنی جست و خیز کو دباتے کچلتے رہنا۔|تاریخ بایگانی| منبع = <small>مفتی جعفر حسین، ترجمہ نہج البلاغہ، مکتوب 56 </small>| تراز = چپ| عرض = 230px| اندازہ قلم= 12px|پس زمینہ =#ffeebb| گیومہ نقل قول =| تراز منبع = راست}}
{{جعبہ نقل قول| عنوان =شریح بن ہانی کے نام امام علیؑ کا خط| نقل قول =صبح و شام برابر اللہ کا خوف رکھنا اور اس فریب کار دنیا سے ڈرتے رہنا اور کسی حالت میں اس سے مطمئن نہ ہونا۔ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کو بہت دل پسند باتوں سے نہ روکا تو تمہاری نفسانی خواہشیں تمہیں بہت سے نقصانات میں ڈال دیں گی۔ لہٰذا اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے اور غصہ کے وقت اپنی جست و خیز کو دباتے کچلتے رہنا۔|تاریخ بایگانی| منبع = <small>مفتی جعفر حسین، ترجمہ نہج البلاغہ، مکتوب 56 </small>| تراز = چپ| عرض = 230px| اندازہ قلم= 12px|پس زمینہ =#ffeebb| گیومہ نقل قول =| تراز منبع = راست}}
confirmed، templateeditor
7,473

ترامیم