مندرجات کا رخ کریں

"غسل جنابت" کے نسخوں کے درمیان فرق

دوبارہ نویسی کل مدخل
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(دوبارہ نویسی کل مدخل)
سطر 2: سطر 2:
{{فقہی توصیفی مقالہ}}
{{فقہی توصیفی مقالہ}}
{{احکام}}
{{احکام}}
'''غسل جِنابَت''' وہ غسل ہے جو [[جنابت]] کی وجہ سے انجام دیا جاتا ہے۔ یہ [[غسل]] ان واجبات کے لئے انجام دینا واجب ہے جن کے لئے [[طہارت]] شرط ہے جیسے؛ [[نماز]] اور طواف وغیرہ۔ اور جس نے غسل جنابت انجام دیا ہو تو نماز کے لیے [[وضو]] کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن دوسرے غسلوں کے بعد نماز پڑھنے کے لیے وضو کرنا ضروری ہے یا نہیں، اس بارے میں نظریات مختلف ہیں۔
'''غسل جِنابَت''' وہ غسل ہے جو [[جنابت]] کی وجہ سے انجام دیا جاتا ہے۔ یہ [[غسل]] خود واجب نہیں بلکہ ان واجبات کے لئے انجام دینا واجب ہے جن کے لئے [[طہارت]] شرط ہے جیسے؛ [[نماز]] اور طواف وغیرہ۔ غسل جنابت دوسرے غسلوں کی طرح ترتیبی اور ارتماسی صورت میں انجام دیا جاتا ہے۔ غسل ترتیبی میں پہلے سر اور گردن کو دھویا جاتا ہے پھر بدن کا دایاں حصہ اور اس کے بعد بایاں حصہ دھویا جاتا ہے۔ غسل جنابت وضو کی جگہ لیتا ہے اور دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔


[[قرآن مجید]] میں مجنب شخص کے لئے نماز پڑھنے سے منع کی گئی ہے۔
==جنابت==
 
==جنابت کے اسباب==
{{اصلی|جنابت}}
{{اصلی|جنابت}}
انسان دو طرح سے جنب ہوجاتا ہے: یا تو [[منی]] خارج ہوجائے یا جنسی رابطے میں دخول واقع ہوجائے۔
غسلِ جنابت اسلام میں واجب غسلوں میں سے ایک ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص493.</ref> اس غسل اور اس کے احکام کے بارے میں حدیثی،<ref>ملاحظہ ہو: حر عاملی، وسائل الشیعه، مؤسسة آل البیت، ج2، ص273 به بعد.</ref> فقہی<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص521.</ref> کتابوں اور مراجع کی توضیح المسائل<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1381ش، ج1، ص208.</ref> میں بحث ہوتی ہے۔


==غسل جنابت قرآن و سنت میں==
منی خارج ہونے (بیداری میں ہو یا نیند میں ہو) یا ہمبستری (حتی اگر منی خارج نہ ہو) کرنے سے انسان جُنُب ہوتا ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص496-499.</ref> فقہا کے فتوے کے مطابق جس شخص پر غسل جنابت واجب ہو اس پر بعض اعمال حرام یا مکروہ ہوتی ہیں اور غسل کرنے کے بعد وہ حرام اور کراہت کا حکم ختم ہوتا ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص507.</ref> مثال کے طور پر نماز پڑھنا، مسجد میں ٹھہرنا، واجب سجدہ والی سورتوں کو پڑھنا، قرآن کے متن کو چھونا اور چودہ معصومین کے ناموں کو مَس کرنا جنابت والے شخص پر حرام ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ص507-509.</ref> اسی طرح کھانا، پینا، قرآن کی سات سے زیادہ آیتوں کی تلاوت کرنا، قرآن کے جلد کو چَھونا اور جان کنی میں مبتلا انسان کے پاس جانا وغیرہ مکروہ ہیں۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص520.</ref> البتہ ان میں سے بعض کی کراہت وضو کرنے سے بھی ختم ہوتی ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص520.</ref>
[[قرآن کریم]] میں مجنب شخص کو غسل کئے بغیر نماز پڑھنے سے منع ہوئی ہے: {{قرآن کا متن|'''یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَقْرَ‌بُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُکارَ‌یٰ حَتَّیٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِی سَبِیلٍ حَتَّیٰ تَغْتَسِلُوا'''}} ترجمہ: اے ایمان والو خبر دار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور جنابت کی حالت میں بھی مگر یہ کہ راستہ سے گزر رہے ہو جب تک غسل نہ کرلو؛<ref>سورہ نساءآیہ:۴۳</ref>


کتاب [[وسائل الشیعہ]] اور [[مستدرک وسائل الشیعہ]] کے باب طہارت میں جنابت اور غسل جنابت کے بارے میں 397 روایات ذکر ہوئی ہیں۔
==جنابت کے فورا بعد غسل کرنا==
 
مجتہدین کے فتوا کے مطابق غسل جنابت واجب غیری (کسی اور عبادت کی وجہ سے واجب ہوا ہے)؛<ref>نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج1، ص46.</ref> یعنی غسل بذات خود واجب نہیں بلکہ مستحب ہے<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص521.</ref> لیکن نماز جیسی بعض عبادتوں کے لئے واجب ہوتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص521.</ref> فقہا کا یہ بھی کہنا ہے کہ غسل جنابت کو جلدی انجام دینا واجب نہیں بلکہ واجب موسع (جس واجب کا ٹائم زیادہ ہوتا ہے) ہے؛ اس لئے جس عبادت کے لئے یہ غسل واجب ہوتا ہے اس عبادت کے وقت تک تاخیر کر سکتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌ادریس، موسوعة ابن‌ادریس الحلی، 1387ش، ج7، ص111.</ref>
==مستحب یا واجب==
==روزے کی صحت غسل جنابت پر موقوف==
مشہور قول کے مطابق [[جنابت]] حاصل ہونے کے بعد غسل جنابت مستحب ہے لیکن طہارت سے مشروط کوئی واجب عمل انجام دینے کے لئے ہو جیسے؛ واجب [[طواف]]، یا پنجگانہ نمازیں، یا روزہ وغیرہ تو ایسی صورت میں واجب ہے۔ اور اس غسل کا واجب ہونا فقہی اصطلاح میں واجب غیری کہلاتا ہے یعنی کسی کی وجہ سے واجب ہونا۔<ref> العروة الوثقی، ج۱، ص۴۹۲.</ref>اور [[جنابت]] حاصل ہوئے بغیر صرف اس خیال سے کہ غسل جنابت مستحب ہے، غسل جنابت انجام دے تو اسی غسل کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں۔
{{اصلی|جنابت پر باقی رہنا}}
اگر کسی شخص پر [[رمضان المبارک]] میں غسل جنابت واجب ہوجائے تو روزے کے لئے صبح کی [[اذان]] سے پہلے [[غسل]] کرنا چاہیے؛ اور جس پر غسل [[واجب]] ہوا ہو جان بوجھ کر اذان سے پہلے غسل بجا نہ لائے تو اس کا [[روزہ]] باطل ہے اور اس پر قضا اور [[کفارہ]] دونوں واجب ہونگے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1420ق، ج3، ص563.</ref>


==غسل جنابت کا طریقہ==
==غسل جنابت کا طریقہ==
{{اصلی|غسل}}
{{اصلی|غسل}}
دوسرے غسلوں کی طرف غسل جنابت کو بھی دو طریقے یعنی ترتیبی یا ارتماسی طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔<ref> العروة الوثقی، ج۱، ص۴۹۴</ref>
دوسرے غسلوں کی طرف غسل جنابت کو بھی دو طریقے یعنی ترتیبی یا ارتماسی طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص522-523.</ref>


==احکام==
==احکام==
* اگر جنابت صرف [[منی]] خارج ہونے سے ہو تو مشہور قول کے مطابق غسل سے پہلے استبراء کرنا مستحب ہے۔<ref> جواہر الکلام، ج۳، ص۱۰۸</ref>
* اگر جنابت صرف [[منی]] خارج ہونے سے ہو تو مشہور قول کے مطابق غسل سے پہلے استبراء کرنا مستحب ہے۔<ref> جواہر الکلام، ج3، ص108</ref>
* غسل سے پہلے ہاتھ دھونا، منہ میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور غسل کے دوران «بسم اللّہ» اور ماثور دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔<ref> العروة الوثقی، ج۱، ص۵۱۲-۵۱۳</ref>
غسل ترتیبی میں پہلے سر اور گردن، پھر بدن کے دائیں طرف اور اس کے بعد بائیں طرف دھوئے جاتے ہیں۔<ref>حکیم، مستمسک العروه، 1968م، ج3، ص79.</ref> غسل ارتماسی میں پورے بدن کو ایک ہی دفعہ پانی میں ڈبویا جاتا ہے اور ارتماسی میں سارا بدن ایک ہی دفعے میں پانی کے نیچے آنا ضروری ہے۔<ref>حکیم، مستمسک العروه، 1968م، ج3، ص85-86.</ref>
* غسل جنابت وضو کے لئے کافی ہے اور مشہور قول کے مطابق غسل جنابت کے بعد وضو مستحب نہیں ہے۔<ref> الحدائق الناضرة، ج۳، ص۱۱۸</ref> و بعض فقہاء اس وضو کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔
===غسل جنابت کے آداب===
* اگر غسل جنابت کے دوران کوئی پھر سے جنب ہوجاطے تو اس کا غسل باطل ہے اور دوبارہ شروع سے غسل کرنا واجب ہے۔ لیکن اگر حدث اصغر (پیشاب یا ریح وغیرہ) سرزد ہوجائے تو غسل باطل ہونے اور دوبارہ پھر سے انجام دینے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ غسل صحیح ہونے کا قائل قول کے مطابق کیا وضو بھی واجب ہے یا نہیں اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
*اگر غسل جنابت منی نکلنے کی وجہ سے واجب ہوا ہو تو فقہا کے فتوے کے مطابق غسل سے پہلے چھوٹا پیشاب کرنا مستحب ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج3، ص108.</ref>
* پانی نہ ملنے کا یقین ہوتے ہوئے بیوی سے [[ہمبستری]] کرنا اگرچہ غسل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہو اور نماز کا وقت بھی شروع ہوچکا ہو تب بھی جائز ہے لیکن اگر تیمم پر بھی قدرت نہیں رکھتا ہو تو پھر جائز نہیں ہے<ref> العروة الوثقی، ج۱، ص۴۷۸.</ref>
* غسل سے پہلے ہاتھ دھونا، منہ میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور غسل کے دوران [[بسم الله الرحمن الرحیم|بسم‌اللّه]]  اور ماثور دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص541-542.</ref>
==غسل جنابت کا وضو کے لئے کافی ہونا==
فقہا کے فتوے کے مطابق غسل جنابت وضو کے لئے کافی ہے<ref>شیخ طوسی، الخلاف، مؤسسه نشر اسلامی، ج1، ص131؛ نجفی، جواهر الکلام، 1363ش، ج3، ص240.</ref> اور مشہور قول کے مطابق غسل جنابت کے بعد وضو کرنا جائز نہیں ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام،1362ش، ج3، ص240.</ref> لیکن علامہ حلی کے مطابق شیخ طوسی دوسرے علما کے برخلاف غسل جنابت کے ساتھ وضو کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔<ref>علامه حلی، مختلف الشیعه، 1412ق، ج1، ص340.</ref>
 
* اگر غسل جنابت کے دوران کوئی حدث اصغر (مبطلات وضو میں سے کوئی ایک) سرزد ہوجائے؛ مثلا پیشاب نکلے یا ریح خارج ہوجائے تو غسل صحیح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ اگر غسل صحیح ہو تو اس صورت میں یہ غسل وضو کے لئے کافی ہونے میں اختلاف ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص547.</ref>[[سید محمد کاظم طباطبایی یزدی|سید محمد کاظم طباطبایی یزدی]] کے فتوے کے مطابق غسل باطل نہیں ہوتا ہے لیکن وضو کرنا ہوگا۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص547.</ref>
 
== غسل جنابت کا فلسفہ==
[[علل الشرائع (کتاب)|عِلَل الشرایع]] میں منقول روایات کے مطابق غسل جنابت واجب ہونے کا فلسفہ بدن کو نجاست سے پاک اور صاف کرنا ہے کیونکہ جنابت تمام بدن سظ خارج ہوتا ہے اسی لئے پورے بدن کو دھویا جاتا ہے۔<ref> صدوق، علل الشرایع، المكتبة الحيدرية ومطبعتها في النجف، ج1، ص281.</ref> [[تفسیر نمونه (کتاب)|تفسیر نمونه]] میں کہا گیا ہے کہ: دانشوروں کی تحقیق کے مطابق انسانی بدن میں دو طرح کے نباتاتی اعصاب ہیں جو بدن کو کنٹرول کرتے ہیں جب انسان ارگاسم انزال کے مرحلے میں پہنچتا ہے تو وہ دونوں اعصاب بگڑ جاتے ہیں اور بدن پر پانی ڈالنے سے وہ اعصاب اپنی جگہ آجاتے ہیں اور انزال کے اثرات چونکہ پورے بدن پر طاری ظاہر ہوتے ہیں اسی لئے جنابت میں پورے بدن کو دھونے کا حکم ہوا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ش، ج4، ص292-294.</ref>  


==روزے کی صحت غسل جنابت پر موقوف==
مشہور قول کے مطابق ماہ [[رمضان المبارک]] کے روزے کے لئے صبح کی [[اذان]] سے پہلے [[غسل]] کرنا چاہیے؛ اور جس پر غسل [[واجب]] ہوا ہو جان بوجھ کر اذان سے پہلے غسل بجا نہ لائے تو اس کا [[روزہ]] باطل ہے اور اس پر قضا اور [[کفارہ]] دونوں واجب ہونگے۔ اس [[فقہی اصطلاحات|فقہی]] کو جنابت پر باقی رہنا کہا جاتا ہے۔


==غسل کے بعد وضو==
غسل جنابت کا وضو کے لئے کافی ہونے میں شیعہ فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور بہت ساروں نے اس بارے میں اجماع کا ادعا کیا ہے۔<ref>[http://lib.eshia.ir/10015/1/131 الخلاف، ص۱۳۱، مسألہ ۷۴][http://lib.eshia.ir/10148/1/339 مختلف الشیعہ، ج۱، ص۳۳۹] [http://lib.eshia.ir/10088/3/240 جواہر الکلام، ج۳، ص۲۴۰]</ref> اس سے بڑھ کر بعض نے تو غسل جنابت کے بعد وضو کرنے کو نامشروع قرار دیا ہے۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10088/3/240 جواہر الکلام، ج۳، ص۲۴۰] [http://lib.eshia.ir/10134/6/497 التنقیح، ج۶، ص۴۹۷]</ref>
[[شیخ طوسی]] نے غسل جنابت کے ساتھ وضو کرنے کو مستحب سمجھا ہے۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10148/1/340 مختلف الشیعہ، ج۱، ص۳۴۰]</ref> لیکن دوسرے غسلوں کا وضو کے لئے کافی ہونے اور نہ ہونے میں مراجع تقلید کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے لیکن مشہور فقہاء نے وضو کے لیے کافی نہ ہونے کا فتوی دیا ہے۔<ref> [http://lib.eshia.ir/10088/3/240 جواہر الکلام، ج۳، ص۲۴۰]</ref>
[[سیدمرتضی]]، [[ابن جنید]]،<ref> [http://lib.eshia.ir/10148/1/340 مختلف الشیعہ، ج۱، ص۳۴۰]</ref> اور [[سید محسن حکیم]] نے اسے بعید نہیں سمجھا ہے۔<ref> [http://lib.eshia.ir/27158/3/345 مستمسک العروہ، ج۳، ص۳۴۵.]</ref>اور معاصر فقہاء میں اس نظریے کے موافق زیادہ نظر آتے ہیں۔


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 41: سطر 40:


==مآخذ==
==مآخذ==
* مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعہ، حسن بن یوسف العلامۃ الحلی (م. ۷۲۶ ق.)، بہ کوشش مرکزالابحاث والدراسات الاسلامیۃ، اول، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۱۲ ق.
{{مآخذ}}
* العروة الوثقی، سید محمد کاظم یزدی (م. ۱۳۳۷ ق.)، پنجم، قم،‌دار التفسیر، اسماعیلیان، ۱۴۱۹ ھ.
*ابن‌ادریس، موسوعة ابن‌ادریس الحلی، قم، دلیل ما، 1387ش.
* المبسوط فی فقہ الامامیہ، محمد بن الحسن الطوسی (م. ۴۶۰ ق.)، بہ کوشش محمد باقر بہبودی، تہران، مکتبۃ المرتضویۃ،[بی تا].
*بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، توضیح المسائل، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1381ش.
* جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، محمد حسن نجفی (م. ۱۲۶۶ ق.ہفتم، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی.
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسة آل البیت علیهم السلام لإحیاء التراث، بی‌تا.
* مستند العروة الوثقی، تقریرات آیۃ اللہ خوئی (م. ۱۴۱۳ ق.مرتضی بروجردی، قم، مدرسۃدار العلم، [بی تا].
*حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، نجف، بی‌نا، 1968م.  
* الحدائق الناضرة فی احکام العترۃ الطاہرہ، یوسف بحرانی (م. ۱۱۸۶ ق.)، بہ کوشش علی آخوندی، قم، نشر اسلامی، ۱۳۶۳ شمسی ہجری۔
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الخلاف، قم، مؤسسه نشر اسلامی، بی‌تا.
 
*صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، المکتبة الحیدریة ومطبعتها فی النجف، بی‌تا.
*طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی (ج1قم، مؤسسة النشر الإسلامی، الطبعة الاولی، 1417ق.
*طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی (ج3)، قم، مؤسسة النشر الإسلامی، الطبعة الاولی، 1420ق.
*علامه حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعة فی احکام الشریعه، به کوشش مرکزالابحاث والدراسات الاسلامیة، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، 1412ق.
*مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ: سی و دوم، 1374ش
*نجفی، محمدحسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ هفتم، 1362ش.
{{خاتمہ}}


{{احکام طہارت}}
{{احکام طہارت}}
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,905

ترامیم