مندرجات کا رخ کریں

"ابوذر غفاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

عدد انگلیسی
(عدد انگلیسی)
 
سطر 40: سطر 40:
}}
}}
==زندگی نامہ==
==زندگی نامہ==
ابوذر غفاری ظہور [[اسلام]] سے بیس سال پہلے متولد ہوئے۔<ref> امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج۴، ص۲۲۵</ref> آپ کے والد [[جنادہ]] غفار کے فرزند تھے جبکہ آپ کی والدہ [[رملہ بنت الوقیعہ]] کا تعلق بنی غفار بن ملیل خاندان سے تھا۔<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج ۱، ص ۲۵۲۔ </ref> آپ کے والد کے لئے یزید، عشرقہ، عبداللہ اور سکن جیسے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔<ref> ابن حبان، مشاہیر علماء الامصار، ص ۳۰۔ الثقات، ج ۳، ص ۵۵۔ تقریب التہذیب، ج ۲، ص ۳۹۵۔</ref>
ابوذر غفاری ظہور [[اسلام]] سے بیس سال پہلے متولد ہوئے۔<ref> امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج4، ص225</ref> آپ کے والد [[جنادہ]] غفار کے فرزند تھے جبکہ آپ کی والدہ [[رملہ بنت الوقیعہ]] کا تعلق بنی غفار بن ملیل خاندان سے تھا۔<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج ص 252۔ </ref> آپ کے والد کے لئے یزید، عشرقہ، عبداللہ اور سکن جیسے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔<ref> ابن حبان، مشاہیر علماء الامصار، ص 30۔ الثقات، ج ص 55۔ تقریب التہذیب، ج ص 395۔</ref>


علماء علم رجال اور صحابہ کے بارے میں لکھنے والے مورخین نے کہا ہے کہ ابوذر لمبے قد، گندمی رنگ، نحیف جسم،<ref> عسقلانی، الاصابہ، ج ۷، ص ۱۰۷۔ </ref> سفید بال اور داڑھی،<ref> ابن سعد، طبقات کبری، ج۴، ص ۲۳۔</ref> اور بعض کے مطابق صحت مند جسم کے مالک تھے۔<ref> ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ھ، ج ۲، ص ۴۷۔ </ref>
علماء علم رجال اور صحابہ کے بارے میں لکھنے والے مورخین نے کہا ہے کہ ابوذر لمبے قد، گندمی رنگ، نحیف جسم،<ref> عسقلانی، الاصابہ، ج ص 107۔ </ref> سفید بال اور داڑھی،<ref> ابن سعد، طبقات کبری، ج4، ص 23۔</ref> اور بعض کے مطابق صحت مند جسم کے مالک تھے۔<ref> ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1413ھ، ج ص 47۔ </ref>




سطر 49: سطر 49:
| نویسندہ = علامہ امینی
| نویسندہ = علامہ امینی
| نقل قول = "اللہ تعالی نے مجھے چار لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے اللہ خود بھی انہیں بہت چاہتا ہے: [[علی]]، [[مقداد بن عمرو|مقداد]]، ابوذر اور [[سلمان فارسی|سلمان]]۔"
| نقل قول = "اللہ تعالی نے مجھے چار لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے اللہ خود بھی انہیں بہت چاہتا ہے: [[علی]]، [[مقداد بن عمرو|مقداد]]، ابوذر اور [[سلمان فارسی|سلمان]]۔"
| منبع =[[الغدیر]]، ۱۳۹۷ھ، ج ۹، ص ۱۱۷.
| منبع =[[الغدیر]]، 1397ھ، ج ص 117.
| تراز =چپ
| تراز =چپ
| پس زمینہ =  
| پس زمینہ =  
سطر 57: سطر 57:
}}
}}
===نام اور القاب===
===نام اور القاب===
آپ کے اصلی نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور تاریخی کتابوں میں ان کے مختلف نام ذکر ہوئے ہیں جیسے کہ «بدر بن‌ جندب»، «بریر بن‌ عبداللہ»، «بریر بن جنادہ»، «بریرہ بن‌ عشرقہ»، «جندب بن‌ عبداللہ»، «جندب بن‌ سکن» اور «یزید بن‌ جنادہ»۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ، دار الکتاب العربی، ج۵، ص۱۸۶؛ مزی، تہذیب الکمال، ۱۴۰۶ق، ج۳۳، ص۲۹۴؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۹؛ امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج۴، ص۲۲۵.</ref> لیکن الاستیعاب میں جندب بن جنادہ زیادہ رائج اور صحیح قرار دیا گیا ہے۔<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۶۵۲.</ref>
آپ کے اصلی نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور تاریخی کتابوں میں ان کے مختلف نام ذکر ہوئے ہیں جیسے کہ «بدر بن‌ جندب»، «بریر بن‌ عبداللہ»، «بریر بن جنادہ»، «بریرہ بن‌ عشرقہ»، «جندب بن‌ عبداللہ»، «جندب بن‌ سکن» اور «یزید بن‌ جنادہ»۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ، دار الکتاب العربی، ج5، ص186؛ مزی، تہذیب الکمال، 1406ق، ج33، ص294؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1413ق، ج2، ص49؛ امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج4، ص225.</ref> لیکن الاستیعاب میں جندب بن جنادہ زیادہ رائج اور صحیح قرار دیا گیا ہے۔<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج4، ص1652.</ref>
===زوجہ اور اولاد===
===زوجہ اور اولاد===
جو کچھ منابع میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق آپ کا "ذر" نامی ایک بیٹا تھا اور اسی وجہ سے آپ کی کنیت ابوذر بن گئی اور اسی کنیت سے اکثر و بیشتر پہچانے جاتے ہیں۔{{حوالہ درکار}}[[کلینی]] باب وفات ذَر میں ایک روایت بھی بیان کرتے ہیں۔<ref> کافی، ج ۳، ص ۲۵۔</ref> آپ کی زوجہ کو بھی «ام ذر» کہا گیا ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ھ، ج ۱۵، ص ۹۹۔ </ref>
جو کچھ منابع میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق آپ کا "ذر" نامی ایک بیٹا تھا اور اسی وجہ سے آپ کی کنیت ابوذر بن گئی اور اسی کنیت سے اکثر و بیشتر پہچانے جاتے ہیں۔{{حوالہ درکار}}[[کلینی]] باب وفات ذَر میں ایک روایت بھی بیان کرتے ہیں۔<ref> کافی، ج ص 25۔</ref> آپ کی زوجہ کو بھی «ام ذر» کہا گیا ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1378ھ، ج 15، ص 99۔ </ref>


==اسلام قبول کرنا==
==اسلام قبول کرنا==
ابوذر سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں۔<ref> ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۰۷ق، ج ۳، ص ۴۰۶؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج ۱، ص ۲۵۲.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ ابوذر [[اسلام]] سے پہلے بھی ایک خدا کو مانتے تھے اور [[رسول اللہ|حضرت پیغمبر]]ؐ کی [[بعثت]] سے تین سال پہلے بھی خدا کی عبادت کرتے تھے۔<ref> شوشتری، قاموس الرجال، ۱۴۱۹ق، ج ۱۱، ص ۳۲۲.</ref> ابن حبیب بغدادی کہتا ہے کہ ابوذر جاہلیت کے زمانے میں بھی [[شراب]] اور ازلام کو حرام سمجھتے تھے۔<ref> بغدادی، المُحبَّر، ۱۳۶۱ھ، ص۲۳۷.</ref> اور اسلام کے ظہور کے بعد رسول اکرمؐ پر سب سے پہلے [[ایمان]] لانے والوں میں سے تھے۔ روایت ہے کہ ابوذر نے کہا کہ میں اسلام لانے والوں میں سے چوتھی فرد تھا۔ میں [[حضرت پیغمبر(ص)]] کے پاس گیا اور کہا: آپ پر سلام ہو اے اللہ کے رسول؛ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کا بندہ اور بھیجا ہوا پیغمبر ہے۔ پھر آپؐ کے چہرے پر خوشی اور مسرت دیکھی تھی۔<ref> ابن حبان، الصحیح، ۱۴۱۴ق، ج۱۶، ص۸۳.</ref>
ابوذر سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں۔<ref> ذہبی، تاریخ الاسلام، 1407ق، ج ص 406؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج ص 252.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ ابوذر [[اسلام]] سے پہلے بھی ایک خدا کو مانتے تھے اور [[رسول اللہ|حضرت پیغمبر]]ؐ کی [[بعثت]] سے تین سال پہلے بھی خدا کی عبادت کرتے تھے۔<ref> شوشتری، قاموس الرجال، 1419ق، ج 11، ص 322.</ref> ابن حبیب بغدادی کہتا ہے کہ ابوذر جاہلیت کے زمانے میں بھی [[شراب]] اور ازلام کو حرام سمجھتے تھے۔<ref> بغدادی، المُحبَّر، 1361ھ، ص237.</ref> اور اسلام کے ظہور کے بعد رسول اکرمؐ پر سب سے پہلے [[ایمان]] لانے والوں میں سے تھے۔ روایت ہے کہ ابوذر نے کہا کہ میں اسلام لانے والوں میں سے چوتھی فرد تھا۔ میں [[حضرت پیغمبر(ص)]] کے پاس گیا اور کہا: آپ پر سلام ہو اے اللہ کے رسول؛ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کا بندہ اور بھیجا ہوا پیغمبر ہے۔ پھر آپؐ کے چہرے پر خوشی اور مسرت دیکھی تھی۔<ref> ابن حبان، الصحیح، 1414ق، ج16، ص83.</ref>


[[ابن عباس]] نے ابوذر کے اسلام لانے کے بارے میں یوں [[روایت]] کی ہے کہ جب ابوذر کو مکہ میں حضرت پیغمبرؐ کی بعثت کی خبر ملی، تو آپ نے اپنے بھائی انیس سے کہا کہ اس سر زمین پر جاؤ اور مجھے اس مرد کے علم کے بارے میں خبر لے آو جس کا دعوی ہے کہ اسے آسمان سے خبریں آتی ہیں، ان کی باتوں کو سن کر میرے پاس واپس آجاو۔ اس کا بھائی [[مکہ]] پہنچا، اور [[رسول اللہ|حضرت پیغمبر]]ؐ کی باتوں کو سن کر واپس ابوذر کے پاس پہنچا۔ پھر ابوذر مکہ گئے اور حضرت پیغمبرؐ کی تلاش میں نکلے۔ ابوذر کہتے ہیں: جب صبح ہوئی تو میں امام علی (ع) کے ہمراہ حضرت پیغمبرؐ کے گھر گیا<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۶۵۴.</ref> اور اسلامی رسم کے مطابق کہا: آپ پر سلام ہو اے رسول خداؐ اور میں پہلا فرد تھا جو آپؐ پر اس طرح سلام بھیجتا تھا ۔۔۔ اور پھر رسول خداؐ نے مجھے اسلام کی پیشکش دی اور میں نے [[شہادتین]] اپنی زبان پر جاری کیا۔<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، ح ۴، ص ۱۶۵۴۔ </ref>
[[ابن عباس]] نے ابوذر کے اسلام لانے کے بارے میں یوں [[روایت]] کی ہے کہ جب ابوذر کو مکہ میں حضرت پیغمبرؐ کی بعثت کی خبر ملی، تو آپ نے اپنے بھائی انیس سے کہا کہ اس سر زمین پر جاؤ اور مجھے اس مرد کے علم کے بارے میں خبر لے آو جس کا دعوی ہے کہ اسے آسمان سے خبریں آتی ہیں، ان کی باتوں کو سن کر میرے پاس واپس آجاو۔ اس کا بھائی [[مکہ]] پہنچا، اور [[رسول اللہ|حضرت پیغمبر]]ؐ کی باتوں کو سن کر واپس ابوذر کے پاس پہنچا۔ پھر ابوذر مکہ گئے اور حضرت پیغمبرؐ کی تلاش میں نکلے۔ ابوذر کہتے ہیں: جب صبح ہوئی تو میں امام علی (ع) کے ہمراہ حضرت پیغمبرؐ کے گھر گیا<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج4، ص1654.</ref> اور اسلامی رسم کے مطابق کہا: آپ پر سلام ہو اے رسول خداؐ اور میں پہلا فرد تھا جو آپؐ پر اس طرح سلام بھیجتا تھا ۔۔۔ اور پھر رسول خداؐ نے مجھے اسلام کی پیشکش دی اور میں نے [[شہادتین]] اپنی زبان پر جاری کیا۔<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، ح ص 1654۔ </ref>
ابوذر کے اسلام لانے کا ماجرا [[شیعہ]] کتابوں میں کسی اور طریقے سے بیان ہوا ہے اور کلینی نے ابوذر کے اسلام لانے کے ماجرا کو امام صادق ؑ سے منقول ایک روایت میں بیان کیا ہے۔<ref> کلینی، کافی، ۱۳۶۳ش، ج۸، ص۲۹۷ و ۲۹۸.</ref>
ابوذر کے اسلام لانے کا ماجرا [[شیعہ]] کتابوں میں کسی اور طریقے سے بیان ہوا ہے اور کلینی نے ابوذر کے اسلام لانے کے ماجرا کو امام صادق ؑ سے منقول ایک روایت میں بیان کیا ہے۔<ref> کلینی، کافی، 1363ش، ج8، ص297 و 298.</ref>


== فضائل اور مناقب==
== فضائل اور مناقب==
[[پیغمبر اکرمؐ]] انہیں یوں خطاب فرماتے تھے: مرحبا اے ابوذر! تم ہمارے [[اہل بیت]] میں سے ہو۔<ref> طوسی، امالی طوسی، ۱۴۱۴ق، ص۵۲۵؛ طبرسی، مکارم الاخلاق، ۱۳۹۲ق، ص ۲۵۶.</ref> اور ایک اور جگہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ابوذر سے زیادہ سچے آدمی پر نہ آسمان کا سایہ پڑا ہے اور نہ ہی زمین نے کسی ایسے شخص کو اپنے اندر جگہ دی ہے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ج ۲۲، ص۴۰۴۔ </ref> ایک اور روایت میں رسول خداؐ نے ابوذر کو زہد اور انکساری میں حضرت عیسی بن مریمؐ سے تشبیہ دی ہے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۴۲۰.</ref>
[[پیغمبر اکرمؐ]] انہیں یوں خطاب فرماتے تھے: مرحبا اے ابوذر! تم ہمارے [[اہل بیت]] میں سے ہو۔<ref> طوسی، امالی طوسی، 1414ق، ص525؛ طبرسی، مکارم الاخلاق، 1392ق، ص 256.</ref> اور ایک اور جگہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ابوذر سے زیادہ سچے آدمی پر نہ آسمان کا سایہ پڑا ہے اور نہ ہی زمین نے کسی ایسے شخص کو اپنے اندر جگہ دی ہے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ج 22، ص404۔ </ref> ایک اور روایت میں رسول خداؐ نے ابوذر کو زہد اور انکساری میں حضرت عیسی بن مریمؐ سے تشبیہ دی ہے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج22، ص420.</ref>


[[امام علیؑ]] سے ابوذر کے بارے میں سوال کیا گیا تو امامؑ نے فرمایا: ان کے پاس ایسا علم ہے جس سے لوگ محروم ہیں اور وہ ایسے علم سے مستفید ہو رہا ہے جو کبھی کم نہیں ہوتا۔<ref> ابن عبد البر، احمد، الاستیعاب، ج ۱، ص ۲۵۵۔ </ref> امیرالمومنینؑ ابوذر کا شمار ان افراد میں کرتے تھے جن کی جنت مشتاق ہے۔<ref> صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۳۰۳.</ref>
[[امام علیؑ]] سے ابوذر کے بارے میں سوال کیا گیا تو امامؑ نے فرمایا: ان کے پاس ایسا علم ہے جس سے لوگ محروم ہیں اور وہ ایسے علم سے مستفید ہو رہا ہے جو کبھی کم نہیں ہوتا۔<ref> ابن عبد البر، احمد، الاستیعاب، ج ص 255۔ </ref> امیرالمومنینؑ ابوذر کا شمار ان افراد میں کرتے تھے جن کی جنت مشتاق ہے۔<ref> صدوق، الخصال، 1403ق، ص303.</ref>


[[امام محمد باقرؑ]] فرماتے ہیں: [[رسول اللہ|رسول خداؐ]] کے بعد سب لوگ امام علیؑ کو چھوڑ گئے اور آپ کا انکار کیا سوائے تین لوگوں کے، سلمان، ابوذر اور مقداد۔ عمار نے بھی آپؑ کو چھوڑا لیکن دوبارہ آپؑ کی جانب واپس پلٹ آئے۔<ref> مفید، الاختصاص، ۱۴۱۴ق، ص۱۰.</ref>
[[امام محمد باقرؑ]] فرماتے ہیں: [[رسول اللہ|رسول خداؐ]] کے بعد سب لوگ امام علیؑ کو چھوڑ گئے اور آپ کا انکار کیا سوائے تین لوگوں کے، سلمان، ابوذر اور مقداد۔ عمار نے بھی آپؑ کو چھوڑا لیکن دوبارہ آپؑ کی جانب واپس پلٹ آئے۔<ref> مفید، الاختصاص، 1414ق، ص10.</ref>
[[امام جعفر صادقؑ]] نے ابوذر کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ ابوذر کی بیشتر عبادت غور و فکر تھی ... خدا کے خوف سے اس قدر روئے کہ آنکھیں زخمی ہو گئیں۔<ref> صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۴۰ و ۴۲.</ref> امام جعفر صادقؑ نے ایک اور روایت میں فرمایا ہے کہ ابوذر کہتے ہیں کہ مجھے تین ایسی چیزیں ملیں جنہیں لوگ ناپسند کرتے ہیں، میں ان کو پسند کرتا ہوں، موت، غربت، بیماری۔ امامؑ نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ابوذر کا مطلب یہ ہے کہ موت خدا کی اطاعت میں اس زندگی سے بہتر ہے جس میں خدا کی معصیت ہو اور بیماری خدا کی اطاعت میں اس صحت سے بہتر ہے جس میں خدا کی نافرمانی ہو اور غربت خدا کی اطاعت میں اس امیری سے بہتر ہے جس میں خدا کی معصیت ہو۔<ref> کلینی، کافی، ج ۸، ص ۲۲۔ </ref>
[[امام جعفر صادقؑ]] نے ابوذر کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ ابوذر کی بیشتر عبادت غور و فکر تھی ... خدا کے خوف سے اس قدر روئے کہ آنکھیں زخمی ہو گئیں۔<ref> صدوق، الخصال، 1403ق، ص40 و 42.</ref> امام جعفر صادقؑ نے ایک اور روایت میں فرمایا ہے کہ ابوذر کہتے ہیں کہ مجھے تین ایسی چیزیں ملیں جنہیں لوگ ناپسند کرتے ہیں، میں ان کو پسند کرتا ہوں، موت، غربت، بیماری۔ امامؑ نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ابوذر کا مطلب یہ ہے کہ موت خدا کی اطاعت میں اس زندگی سے بہتر ہے جس میں خدا کی معصیت ہو اور بیماری خدا کی اطاعت میں اس صحت سے بہتر ہے جس میں خدا کی نافرمانی ہو اور غربت خدا کی اطاعت میں اس امیری سے بہتر ہے جس میں خدا کی معصیت ہو۔<ref> کلینی، کافی، ج ص 22۔ </ref>
شیعہ کتابوں میں، سلمان، مقداد اور عمار کے ساتھ ابوذر غفاری کو اسلام میں موجود چار ارکان میں سے ایک قرار دیا ہے۔<ref> طوسی، رجال طوسی، ۱۴۱۵ق، ص۵۹۸؛ مفید، الاختصاص، ۱۴۱۴ق، ص۶ و ۷.</ref> [[شیخ مفید]]، [[امام موسی کاظم علیہ السلام]] سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ [[قیامت]] کے دن، ایک ندا آئے گی کہ کہاں ہیں رسول خداؐ کے وہ حواری جنہوں نے عہد نہیں توڑا تھا؟ تو اس وقت سلمان، مقداد اور ابوذر اپنی جگہ سے اٹھیں گے۔<ref> مفید، الاختصاص، ص ۶۱۔ </ref>
شیعہ کتابوں میں، سلمان، مقداد اور عمار کے ساتھ ابوذر غفاری کو اسلام میں موجود چار ارکان میں سے ایک قرار دیا ہے۔<ref> طوسی، رجال طوسی، 1415ق، ص598؛ مفید، الاختصاص، 1414ق، ص6 و 7.</ref> [[شیخ مفید]]، [[امام موسی کاظم علیہ السلام]] سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ [[قیامت]] کے دن، ایک ندا آئے گی کہ کہاں ہیں رسول خداؐ کے وہ حواری جنہوں نے عہد نہیں توڑا تھا؟ تو اس وقت سلمان، مقداد اور ابوذر اپنی جگہ سے اٹھیں گے۔<ref> مفید، الاختصاص، ص 61۔ </ref>


[[آقا بزرگ تہرانی]] نے ابوذر کے حالات زندگی اور فضائل کے بارے میں دو کتابیں، ابو منصور ظفر بن حمدون بادرائی کی کتاب اخبار ابی ذر،<ref> تہرانی، الذریعہ، ج ۱، ص ۳۱۶۔ </ref> اور شیخ صدوق کی کتاب، اخبار ابی ذر الغفاری و فضائلہ<ref> تہرانی، الذریعہ، ج ۱، ص ۳۱۷۔ </ref> کا ذکر کیا ہے۔
[[آقا بزرگ تہرانی]] نے ابوذر کے حالات زندگی اور فضائل کے بارے میں دو کتابیں، ابو منصور ظفر بن حمدون بادرائی کی کتاب اخبار ابی ذر،<ref> تہرانی، الذریعہ، ج ص 316۔ </ref> اور شیخ صدوق کی کتاب، اخبار ابی ذر الغفاری و فضائلہ<ref> تہرانی، الذریعہ، ج ص 317۔ </ref> کا ذکر کیا ہے۔
[[سید علی خان مدنی]] ابوذر کے بارے میں یوں لکھتے ہیں: وہ بڑے عالم، عبادت گزار و بلند مرتبہ تھے، اور سال میں چار سو دینار غرباء میں تقسیم کرتے تھے اور کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔<ref> مدنی، الدرجات الرفیعہ، ۱۳۹۷ھ، ص ۲۲۶۔ </ref>
[[سید علی خان مدنی]] ابوذر کے بارے میں یوں لکھتے ہیں: وہ بڑے عالم، عبادت گزار و بلند مرتبہ تھے، اور سال میں چار سو دینار غرباء میں تقسیم کرتے تھے اور کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔<ref> مدنی، الدرجات الرفیعہ، 1397ھ، ص 226۔ </ref>


[[بحر العلوم]] ابوذر کو ان حواریوں میں شمار کرتے ہیں جو سید المرسلین کی راہ پر چلے اور اہل بیتؑ کے فضائل بیان کرنے اور ان کے دشمنوں کے عیوب اور نقص بیان کرنے میں بڑے سخت تھے۔<ref> بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۴۹.</ref>
[[بحر العلوم]] ابوذر کو ان حواریوں میں شمار کرتے ہیں جو سید المرسلین کی راہ پر چلے اور اہل بیتؑ کے فضائل بیان کرنے اور ان کے دشمنوں کے عیوب اور نقص بیان کرنے میں بڑے سخت تھے۔<ref> بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363ش، ج2، ص49.</ref>
ابو نعیم اصفہانی کہتے ہیں: ابوذر نے حضرت پیغمبرؐ کی خدمت کی اور اصول سیکھے اور باقی سب کچھ ترک کیا۔ ابوذر نے اسلام اور اللہ کی شریعت کے نازل ہونے سے پہلے بھی کبھی سود نہیں لیا تھا۔ حق کی راہ میں الزام لگانے والے کبھی ان پر کوئی الزام نہیں لگا سکے اور حکومتی طاقت کبھی انہیں ذلیل و خوار نہ کر سکی۔<ref> اصفہانی، حلیہ الاولیاء، ج ۱، ص ۱۵۶ و ۱۵۷۔ </ref>
ابو نعیم اصفہانی کہتے ہیں: ابوذر نے حضرت پیغمبرؐ کی خدمت کی اور اصول سیکھے اور باقی سب کچھ ترک کیا۔ ابوذر نے اسلام اور اللہ کی شریعت کے نازل ہونے سے پہلے بھی کبھی سود نہیں لیا تھا۔ حق کی راہ میں الزام لگانے والے کبھی ان پر کوئی الزام نہیں لگا سکے اور حکومتی طاقت کبھی انہیں ذلیل و خوار نہ کر سکی۔<ref> اصفہانی، حلیہ الاولیاء، ج ص 156 و 157۔ </ref>


===امام علیؑ سے دوستی===
===امام علیؑ سے دوستی===
اربلی ایک روایت نقل کرتا ہے کہ ابوذر نے [[امام علیؑ]] کو اپنا وصی بنایا اور کہا: خدا کی قسم میں نے برحق امیرالمومنینؑ کو وصیت کی ہے۔ خدا کی قسم وہ ایسی بہار ہے کہ جس کے ساتھ سکون ملتا ہے اگرچہ لوگ ان سے جدا ہو گئے اور ان سے خلافت کا حق چھین لیا گیا۔<ref> اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ھ، ج ۱، ص ۳۵۳۔</ref> [[ابن ابی الحدید]] لکھتا ہے: ابوذر نے ربذہ میں [[ابن رافع]] سے کہا کہ بہت جلد ایک فتنہ ایجاد ہوگا، پس خدا سے ڈرو اور [[علی بن ابی طالبؑ]] کی حمایت کرو۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1378ھ،  ج ۱۳، ص ۲۲۸۔ </ref> ان کی حضرت علیؑ سے دوستی اور محبت کی یہ حد تھی کہ رات کی تاریکی میں حضرت فاطمہؑ کے جنازے کی تشییع میں شرکت کی۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۱۵.</ref>
اربلی ایک روایت نقل کرتا ہے کہ ابوذر نے [[امام علیؑ]] کو اپنا وصی بنایا اور کہا: خدا کی قسم میں نے برحق امیرالمومنینؑ کو وصیت کی ہے۔ خدا کی قسم وہ ایسی بہار ہے کہ جس کے ساتھ سکون ملتا ہے اگرچہ لوگ ان سے جدا ہو گئے اور ان سے خلافت کا حق چھین لیا گیا۔<ref> اربلی، کشف الغمہ، 1405ھ، ج ص 353۔</ref> [[ابن ابی الحدید]] لکھتا ہے: ابوذر نے ربذہ میں [[ابن رافع]] سے کہا کہ بہت جلد ایک فتنہ ایجاد ہوگا، پس خدا سے ڈرو اور [[علی بن ابی طالبؑ]] کی حمایت کرو۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1378ھ،  ج 13، ص 228۔ </ref> ان کی حضرت علیؑ سے دوستی اور محبت کی یہ حد تھی کہ رات کی تاریکی میں حضرت فاطمہؑ کے جنازے کی تشییع میں شرکت کی۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص115.</ref>


==خلفاء کا دور==
==خلفاء کا دور==
ابوذر نے امام علیؑ کو ولایت کا حق دار سمجھنے ہوئے اس کے دفاع میں [[ابو بکر]] کی بیعت سے انکار کیا۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج۱، ص۵۲۴۔ </ref>
ابوذر نے امام علیؑ کو ولایت کا حق دار سمجھنے ہوئے اس کے دفاع میں [[ابو بکر]] کی بیعت سے انکار کیا۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج1، ص524۔ </ref>
اور [[عمر|دوسرے خلیفہ]] کے دور میں ابوذر کا ان لوگوں میں سے شمار ہوتا تھا جنہوں نے خلیفہ کی طرف سے دیا ہوا تدوین حدیث کی ممنوعیت  کے حکم کو ماننے سے انکار کیا اور کہتا تھا خدا کی قسم اگر میری زبان پر تلوار رکھیں اور اور کہیں کہ میں [[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] کی حدیث نقل نہ کروں تو میں اپنی زبان کٹوانے کو رسول اللہؐ کی احادیث بیان نہ کرنے پر ترجیح دیتا ہوں۔<ref> ابن سعد، طبقات کبری، ج ۲، ص ۳۵۴۔ </ref> اور اسی حدیث نقل کرنے کی وجہ سے عمر کے زمانے میں ابوذر دوسرے چند افراد کے ساتھ زندان میں رہا۔<ref> ابن حیان، المجروحین، ج ۱، ص ۳۵۔ </ref>
اور [[عمر|دوسرے خلیفہ]] کے دور میں ابوذر کا ان لوگوں میں سے شمار ہوتا تھا جنہوں نے خلیفہ کی طرف سے دیا ہوا تدوین حدیث کی ممنوعیت  کے حکم کو ماننے سے انکار کیا اور کہتا تھا خدا کی قسم اگر میری زبان پر تلوار رکھیں اور اور کہیں کہ میں [[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] کی حدیث نقل نہ کروں تو میں اپنی زبان کٹوانے کو رسول اللہؐ کی احادیث بیان نہ کرنے پر ترجیح دیتا ہوں۔<ref> ابن سعد، طبقات کبری، ج ص 354۔ </ref> اور اسی حدیث نقل کرنے کی وجہ سے عمر کے زمانے میں ابوذر دوسرے چند افراد کے ساتھ زندان میں رہا۔<ref> ابن حیان، المجروحین، ج ص 35۔ </ref>


===شام جلا وطنی===
===شام جلا وطنی===
[[ابن ابی الحدید]] کا کہنا ہے کہ عثمان کی طرف سے [[مروان بن حکم]]، [[زید بن ثابت]] اور چند دوسرے لوگوں کو بیت المال سے مال دینے اور اس پر ابوذر کی مخالفت اور احتجاج باعث بنا کہ انہیں شام جلا وطن کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابوذر گلی کوچوں میں علنی طور اعتراض کرتے تھے اسی وجہ سے عثمان نے انہیں مدینہ سے شام جلاوطن کر دیا۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۸، ص ۲۵۶۔ </ref>  
[[ابن ابی الحدید]] کا کہنا ہے کہ عثمان کی طرف سے [[مروان بن حکم]]، [[زید بن ثابت]] اور چند دوسرے لوگوں کو بیت المال سے مال دینے اور اس پر ابوذر کی مخالفت اور احتجاج باعث بنا کہ انہیں شام جلا وطن کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابوذر گلی کوچوں میں علنی طور اعتراض کرتے تھے اسی وجہ سے عثمان نے انہیں مدینہ سے شام جلاوطن کر دیا۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ص 256۔ </ref>  


ابوذر شام میں معاویہ کے کاموں پر اعتراض کرتے تھے اور ایک دن معاویہ نے 300 دینار ابوذر کے لیے بھیج دیا تو ابوذر نے دینار لانے والے سے کہا: اگر یہ بیت المال سے میرا اس سال کا حصہ ہے جو اب تک نہیں دیا تھا تو میں اسے رکھ دیتا ہوں لیکن اگر ہدیہ ہے تو اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے اور اسے واپس کر دیا۔ جب [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] نے دمشق میں قصر خضراء بنایا تو ابوذر نے کہا: اے معاویہ! اگر اس قصر کو بیت المال کے پیسوں سے بنایا ہے تو خیانت ہے اور اگر اپنے پیسوں سے بنایا ہے تو اسراف ہے۔
ابوذر شام میں معاویہ کے کاموں پر اعتراض کرتے تھے اور ایک دن معاویہ نے 300 دینار ابوذر کے لیے بھیج دیا تو ابوذر نے دینار لانے والے سے کہا: اگر یہ بیت المال سے میرا اس سال کا حصہ ہے جو اب تک نہیں دیا تھا تو میں اسے رکھ دیتا ہوں لیکن اگر ہدیہ ہے تو اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے اور اسے واپس کر دیا۔ جب [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] نے دمشق میں قصر خضراء بنایا تو ابوذر نے کہا: اے معاویہ! اگر اس قصر کو بیت المال کے پیسوں سے بنایا ہے تو خیانت ہے اور اگر اپنے پیسوں سے بنایا ہے تو اسراف ہے۔


اس طرح سے ہمیشہ معاویہ سے کہتا تھا: خدا کی قسم تم نے ایسے کام انجام دیا ہے جنہیں میں نہیں جانتا ہوں؛ اور خدا کی قسم! ایسے کام نہ تو [[قرآن کریم|اللہ کی کتاب]] میں ہیں اور نہ ہی پیغمبر اکرمؐ کی [[سنت]] میں؛ میں ایسے حق کو دیکھ رہا ہوں جو بجھا جا رہا ہے اور ایسے باطل کو دیکھ رہا ہوں جو زندہ ہو رہا ہے، سچ کو دیکھ رہا ہوں جسے جھٹلایا جا رہا ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ ابوذر کی انہی باتوں کی وجہ سے ایک دن معاویہ نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا اور انہیں اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ٹھہرایا۔ ابوذر نے بھی جواب میں کہہ دیا: میں نہ تو اللہ کا دشمن ہوں اور نہ ہی اللہ کے رسول کا، اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تو تم اور تمہارا باپ ہے جنہوں نے دکھاوے کے طور پر اسلام قبول کیا لیکن دل میں [[کفر]] چھپا رکھا اور اللہ کے رسول نے یقینا تم پر لعنت کی اور کئی بار تمہیں بد دعا کی کہ تمہارا پیٹ کبھی نہ بھرے۔ معاویہ نے کہا: وہ شخص میں نہیں ہوں۔ تو ابوذر نے کہا: کیوں نہیں تم ہی وہ شخص ہو؛ میں رسول اللہ کے پاس تھا آپ نے مجھ سے ہی کہا اور میں نے خود سنا ہے کہ فرماتے تھے: یا اللہ اس (معاویہ) پر لعنت بھیج اور اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے مگر مٹی سے۔ یہ سن کر معاویہ نے ابوذر کو جیل بھیجنے کا حکم دیا۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۸، صص ۲۵۶-۲۵۸.؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۴، ص۲۳۷.</ref>
اس طرح سے ہمیشہ معاویہ سے کہتا تھا: خدا کی قسم تم نے ایسے کام انجام دیا ہے جنہیں میں نہیں جانتا ہوں؛ اور خدا کی قسم! ایسے کام نہ تو [[قرآن کریم|اللہ کی کتاب]] میں ہیں اور نہ ہی پیغمبر اکرمؐ کی [[سنت]] میں؛ میں ایسے حق کو دیکھ رہا ہوں جو بجھا جا رہا ہے اور ایسے باطل کو دیکھ رہا ہوں جو زندہ ہو رہا ہے، سچ کو دیکھ رہا ہوں جسے جھٹلایا جا رہا ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ ابوذر کی انہی باتوں کی وجہ سے ایک دن معاویہ نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا اور انہیں اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ٹھہرایا۔ ابوذر نے بھی جواب میں کہہ دیا: میں نہ تو اللہ کا دشمن ہوں اور نہ ہی اللہ کے رسول کا، اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تو تم اور تمہارا باپ ہے جنہوں نے دکھاوے کے طور پر اسلام قبول کیا لیکن دل میں [[کفر]] چھپا رکھا اور اللہ کے رسول نے یقینا تم پر لعنت کی اور کئی بار تمہیں بد دعا کی کہ تمہارا پیٹ کبھی نہ بھرے۔ معاویہ نے کہا: وہ شخص میں نہیں ہوں۔ تو ابوذر نے کہا: کیوں نہیں تم ہی وہ شخص ہو؛ میں رسول اللہ کے پاس تھا آپ نے مجھ سے ہی کہا اور میں نے خود سنا ہے کہ فرماتے تھے: یا اللہ اس (معاویہ) پر لعنت بھیج اور اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے مگر مٹی سے۔ یہ سن کر معاویہ نے ابوذر کو جیل بھیجنے کا حکم دیا۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1378ق، ج8، صص 256-258.؛ امین، اعیان الشیعہ، ج4، ص237.</ref>


اسی طرح کہا گیا ہے کہ ابوذر شام میں لوگوں کو پیغمبراکرمؐ اور [[اہل بیت (ع)|اہل بیتؑ]] کے فضائل بیان کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ اسی لیے [[معاویہ]] نے لوگوں کو اس کی محفل میں شرکت کرنے سے منع کر دیا، اور [[عثمان]] کو خط لکھ کر ابوذر کے کاموں سے آگاہ کیا اور عثمان کے جواب ملنے کے بعد معاویہ نے ابوذر کو [[مدینہ منورہ|مدینہ]] کی جانب روانہ کر دیا۔<ref> امین، اعیان الشیعہ، ج ۴، ص ۲۳۷۔ </ref>
اسی طرح کہا گیا ہے کہ ابوذر شام میں لوگوں کو پیغمبراکرمؐ اور [[اہل بیت (ع)|اہل بیتؑ]] کے فضائل بیان کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ اسی لیے [[معاویہ]] نے لوگوں کو اس کی محفل میں شرکت کرنے سے منع کر دیا، اور [[عثمان]] کو خط لکھ کر ابوذر کے کاموں سے آگاہ کیا اور عثمان کے جواب ملنے کے بعد معاویہ نے ابوذر کو [[مدینہ منورہ|مدینہ]] کی جانب روانہ کر دیا۔<ref> امین، اعیان الشیعہ، ج ص 237۔ </ref>


=== ربذہ جلاوطنی===
=== ربذہ جلاوطنی===
ابوذر نے [[مدینہ]] میں [[عثمان]] سے ملاقات کی لیکن خلیفہ کی طرف سے دیے گئے دینار کو قبول نہیں کیا اور عثمان سے بھی ابوذر برداشت نہ ہوا اور  بدترین حالت میں [[ربذہ]] کی جانب جلا وطن کر دیا۔ ابوذر اور عثمان کے درمیان گفتگو اور اس کی ربذہ جلاوطنی کی تفصیل بہت سی تاریخی کتابوں میں ذکر ہوئی ہے۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۱۷۱ و ۱۷۲؛ ابن سعد، طبقات ابن سعد، ج۴، ص۲۲۶ - ۲۲۹؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۳۳۶.</ref>
ابوذر نے [[مدینہ]] میں [[عثمان]] سے ملاقات کی لیکن خلیفہ کی طرف سے دیے گئے دینار کو قبول نہیں کیا اور عثمان سے بھی ابوذر برداشت نہ ہوا اور  بدترین حالت میں [[ربذہ]] کی جانب جلا وطن کر دیا۔ ابوذر اور عثمان کے درمیان گفتگو اور اس کی ربذہ جلاوطنی کی تفصیل بہت سی تاریخی کتابوں میں ذکر ہوئی ہے۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج1، ص171 و 172؛ ابن سعد، طبقات ابن سعد، ج4، ص226 - 229؛ طبری، تاریخ طبری، 1403ق، ج3، ص336.</ref>


عثمان نے ابوذر کو ربذہ بھیجتے وقت حکم دیا کہ کوئی ان کی ہمراہی نہ کرے اور [[مروان بن حکم]] کو حکم دیا کہ وہ ابوذر کو مدینے سے خارج کرے۔ اس طریقے سے، کسی نے اس کے ساتھ جانے کی جرات نہ کی، ایسے میں، امام علیؑ اور آپ کے بھائی [[عقیل]] اور [[امام حسن]] و [[امام حسین|حسینؑ]] اور [[عمار بن یاسر|عمار یاسر]] ان سے خدا حافظی کے لئے آئے اور انہیں الوداع کیا۔<ref> مسعودی، مروج الذہب، ج۱، ص۶۹۸۔</ref>
عثمان نے ابوذر کو ربذہ بھیجتے وقت حکم دیا کہ کوئی ان کی ہمراہی نہ کرے اور [[مروان بن حکم]] کو حکم دیا کہ وہ ابوذر کو مدینے سے خارج کرے۔ اس طریقے سے، کسی نے اس کے ساتھ جانے کی جرات نہ کی، ایسے میں، امام علیؑ اور آپ کے بھائی [[عقیل]] اور [[امام حسن]] و [[امام حسین|حسینؑ]] اور [[عمار بن یاسر|عمار یاسر]] ان سے خدا حافظی کے لئے آئے اور انہیں الوداع کیا۔<ref> مسعودی، مروج الذہب، ج1، ص698۔</ref>


==وفات==
==وفات==
سطر 108: سطر 108:
| نویسندہ = تفسیر قمی
| نویسندہ = تفسیر قمی
| نقل قول = اے ابوذر! تم اکیلے زندگی گزارو گے اور تمہیں اکیلے میں موت آئے گی اور اکیلے مبعوث ہو گے اور اکیلے جنت میں داخل ہوگے۔ [[عراق]] کے وہ لوگ تمہاری وجہ سے خوش قسمت ہوں گے جو تمہیں [[غسل]] و [[کفن]] اور دفن کریں گے
| نقل قول = اے ابوذر! تم اکیلے زندگی گزارو گے اور تمہیں اکیلے میں موت آئے گی اور اکیلے مبعوث ہو گے اور اکیلے جنت میں داخل ہوگے۔ [[عراق]] کے وہ لوگ تمہاری وجہ سے خوش قسمت ہوں گے جو تمہیں [[غسل]] و [[کفن]] اور دفن کریں گے
| منبع =ج١، ص٢٩٥
| منبع =ج1، ص295
| تراز =
| تراز =
| پس زمینہ =  
| پس زمینہ =  
سطر 116: سطر 116:
}}
}}


ابوذر [[ذی الحجہ]] [[سنہ 32 ہجری]] اور عثمان کے دور خلافت میں ربذہ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔<ref> طبری، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۳۵۴۔</ref> ابن کثیر لکھتا ہے: وفات کے وقت ان کی بیوی اور بچوں کے علاوہ کوئی ان کے پاس موجود نہ تھا۔<ref> ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۹۸۶م، ج۷، ۱۶۵.</ref> خیر الدین زرکلی کہتا ہے: «ابوذر اس حال میں دنیا سے گئے کہ گھر میں انہیں کفن دینے کے لئے کچھ نہ تھا۔»<ref> زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۰م، ج ۲، ص ۱۴۰. </ref> مہران بن میمون بیان کرتا ہے: «جو کچھ میں نے ابوذر کے گھر میں دیکھا اس کی قیمت دو درہم سے زیادہ نہ تھی۔»<ref> امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج۴، ص۲۲۹.</ref>
ابوذر [[ذی الحجہ]] [[سنہ 32 ہجری]] اور عثمان کے دور خلافت میں ربذہ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔<ref> طبری، تاریخ طبری، ج ص 354۔</ref> ابن کثیر لکھتا ہے: وفات کے وقت ان کی بیوی اور بچوں کے علاوہ کوئی ان کے پاس موجود نہ تھا۔<ref> ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1986م، ج7، 165.</ref> خیر الدین زرکلی کہتا ہے: «ابوذر اس حال میں دنیا سے گئے کہ گھر میں انہیں کفن دینے کے لئے کچھ نہ تھا۔»<ref> زرکلی، الاعلام، 1980م، ج ص 140. </ref> مہران بن میمون بیان کرتا ہے: «جو کچھ میں نے ابوذر کے گھر میں دیکھا اس کی قیمت دو درہم سے زیادہ نہ تھی۔»<ref> امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج4، ص229.</ref>
<br />بیان ہوا ہے کہ ابوذر کی بیوی ام ذر روتے ہوئے کہتی تھیں:
<br />بیان ہوا ہے کہ ابوذر کی بیوی ام ذر روتے ہوئے کہتی تھیں:
:: تم جنگل میں مر جاؤ گے اور میرے پاس تمہیں [[کفن]] دینے کے لئے کوئی کپڑا تک نہیں، تو ابوذر کہتے تھے: تم رونا مت بلکہ تم خوش رہو کیونکہ ایک دن [[رسول اللہ|رسول خداؐ]] نے لوگوں کے درمیان جہاں میں بھی موجود تھا، فرمایا: تم میں سے ایک فرد جنگل میں اس دنیا سے جائے گا اور مومنین کی ایک جماعت اسے دفن کرے گی۔ اور اب وہ تمام لوگ جو میرے اس وقت میرے ہمراہ اس محفل میں تھے وہ شہر میں اور تمام لوگوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے جو کچھ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا تھا وہ میرے بارے میں فرمایا ہے۔<ref> امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج ۴، ص ۲۴۱۔ </ref>
:: تم جنگل میں مر جاؤ گے اور میرے پاس تمہیں [[کفن]] دینے کے لئے کوئی کپڑا تک نہیں، تو ابوذر کہتے تھے: تم رونا مت بلکہ تم خوش رہو کیونکہ ایک دن [[رسول اللہ|رسول خداؐ]] نے لوگوں کے درمیان جہاں میں بھی موجود تھا، فرمایا: تم میں سے ایک فرد جنگل میں اس دنیا سے جائے گا اور مومنین کی ایک جماعت اسے دفن کرے گی۔ اور اب وہ تمام لوگ جو میرے اس وقت میرے ہمراہ اس محفل میں تھے وہ شہر میں اور تمام لوگوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے جو کچھ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا تھا وہ میرے بارے میں فرمایا ہے۔<ref> امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج ص 241۔ </ref>
پھر اس کے بعد [[عبداللہ بن مسعود]] اور اس کے بعض دوسرے ساتھیوں کا وہاں سے گزر ہوا جس میں حجر بن ادبر، [[مالک اشتر]] اور [[انصار]] کے بعض دوسرے جوان بھی تھے انہوں نے [[غسل]] اور [[کفن]] دیا اور عبداللہ بن مسعود نے [[نماز جنازہ]] پڑھائی۔<ref> ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۵۳.؛ ابن خیاط، طبقات خلیفہ، ۱۴۱۴ق، ص۷۱.؛ ابن حبان، الثقات، ۱۳۹۳ق، ج۳، ص۵۵.</ref> تاریخ یعقوبی کے مطابق جلیل القدر [[حذیفہ بن یمانی]] بھی تدفین کرنے والوں میں شامل تھے۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج۲، ص۶۸.</ref>
پھر اس کے بعد [[عبداللہ بن مسعود]] اور اس کے بعض دوسرے ساتھیوں کا وہاں سے گزر ہوا جس میں حجر بن ادبر، [[مالک اشتر]] اور [[انصار]] کے بعض دوسرے جوان بھی تھے انہوں نے [[غسل]] اور [[کفن]] دیا اور عبداللہ بن مسعود نے [[نماز جنازہ]] پڑھائی۔<ref> ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص253.؛ ابن خیاط، طبقات خلیفہ، 1414ق، ص71.؛ ابن حبان، الثقات، 1393ق، ج3، ص55.</ref> تاریخ یعقوبی کے مطابق جلیل القدر [[حذیفہ بن یمانی]] بھی تدفین کرنے والوں میں شامل تھے۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج2، ص68.</ref>
اور تمام منابع کے مطابق، ابوذر کی قبر ربذہ میں ہے۔<ref> حموی، معجم البلدان، ۱۳۹۹ھ، ج۳، ص۲۴؛ طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۳۱.</ref> تیسری صدی کے حنبلی عالم حربی نے اپنی کتاب المناسک میں ذکر کیا ہے کہ ربذہ میں ایک [[مسجد]] پیغمبر اکرمؐ کے صحابی ابوذر کے نام تھی اور کہا گیا ہے کہ ابوذر کی قبر بھی اسی مسجد میں ہے۔<ref> حربی، المناسک، ۱۹۶۹ء، ص۳۲۷.</ref>
اور تمام منابع کے مطابق، ابوذر کی قبر ربذہ میں ہے۔<ref> حموی، معجم البلدان، 1399ھ، ج3، ص24؛ طریحی، مجمع البحرین، 1367ش، ج2، ص131.</ref> تیسری صدی کے حنبلی عالم حربی نے اپنی کتاب المناسک میں ذکر کیا ہے کہ ربذہ میں ایک [[مسجد]] پیغمبر اکرمؐ کے صحابی ابوذر کے نام تھی اور کہا گیا ہے کہ ابوذر کی قبر بھی اسی مسجد میں ہے۔<ref> حربی، المناسک، 1969ء، ص327.</ref>


==متعلقہ مضامین==
==متعلقہ مضامین==
* [[جون بن حوی]]
* [[جون بن حوی]]


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 131: سطر 130:
==مآخذ ==
==مآخذ ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ‌دار إحیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ھ۔
*ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ‌دار إحیاء الکتب العربیہ، 1378ھ۔
*ابن اثیر، علی، اسد الغابہ، بیروت، ‌دار الکتاب العربی.
*ابن اثیر، علی، اسد الغابہ، بیروت، ‌دار الکتاب العربی.
*ابن حبان، محمد، الثقات، مؤسسة الکتب الثقافیہ، ۱۳۹۳ھ۔
*ابن حبان، محمد، الثقات، مؤسسة الکتب الثقافیہ، 1393ھ۔
*ابن حبان، محمد، صحیح ابن حبان، بیروت، مؤسسة الرسالہ، ۱۴۱۴ھ۔
*ابن حبان، محمد، صحیح ابن حبان، بیروت، مؤسسة الرسالہ، 1414ھ۔
*ابن حبان، محمد، کتاب المجروحین، تحقیق: محمود إبراہیم زاید، مکہ، دار الباز، بی‌ تا.
*ابن حبان، محمد، کتاب المجروحین، تحقیق: محمود إبراہیم زاید، مکہ، دار الباز، بی‌ تا.
*ابن حبان، محمد، مشاہیر علماء الأمصار، دار الئفاء، ۱۴۱۱ھ۔
*ابن حبان، محمد، مشاہیر علماء الأمصار، دار الئفاء، 1411ھ۔
*ابن خیاط، خلیفہ، طبقات خلیفہ، بیروت، ‌دار الفکر، ۱۴۱۴ھ۔
*ابن خیاط، خلیفہ، طبقات خلیفہ، بیروت، ‌دار الفکر، 1414ھ۔
*ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، ‌دار صادر.
*ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، ‌دار صادر.
*ابن عبد البر، احمد، الاستیعاب، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ھ۔
*ابن عبد البر، احمد، الاستیعاب، بیروت، دار الجیل، 1412ھ۔
*ابن کثیر، اسماعیل، البدایة و النہایة، بیروت، دار الفکر، ۱۹۸۶ء.
*ابن کثیر، اسماعیل، البدایة و النہایة، بیروت، دار الفکر، 1986ء.
*اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، بیروت، دار الأضواء، ۱۴۰۵ھ۔
*اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، بیروت، دار الأضواء، 1405ھ۔
*الأمینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج۹، بیروت، دار الکتب العربی، ۱۳۹۷-۱۹۷۷ء.
*الأمینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج9، بیروت، دار الکتب العربی، 1397-1977ء.
*امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف.
*امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف.
*بحر العلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، تہران، مکتبة الصادق، ۱۳۶۳شمسی ہجری۔
*بحر العلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، تہران، مکتبة الصادق، 1363شمسی ہجری۔
*بغدادی، محمد بن حبیب، المحبر، مطبعة الدائرة، ۱۳۶۱ھ۔
*بغدادی، محمد بن حبیب، المحبر، مطبعة الدائرة، 1361ھ۔
*تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دار الاضواء.
*تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دار الاضواء.
*حربی، ابو اسحاق، المناسک و أماکن طرق الحج و معالم الجزيرة، ریاض، منشورات دار الیمامة للبحث والترجمة والنشر، ۱۹۶۹ء.
*حربی، ابو اسحاق، المناسک و أماکن طرق الحج و معالم الجزيرة، ریاض، منشورات دار الیمامة للبحث والترجمة والنشر، 1969ء.
*حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، ‌دار إحیاء التراث العربی، ۱۳۹۹ھ۔
*حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، ‌دار إحیاء التراث العربی، 1399ھ۔
*ذہبی، محمد، تاریخ الاسلام، بیروت، ‌دار الکتاب العربی، ۱۴۰۷ھ۔
*ذہبی، محمد، تاریخ الاسلام، بیروت، ‌دار الکتاب العربی، 1407ھ۔
*ذہبی، محمد، سیر أعلام النبلاء، بیروت، مؤسسة الرسالہ، ۱۴۱۳ھ۔
*ذہبی، محمد، سیر أعلام النبلاء، بیروت، مؤسسة الرسالہ، 1413ھ۔
*زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت، ‌دار العلم، ۱۹۸۰ء.
*زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت، ‌دار العلم، 1980ء.
*شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۹ھ۔
*شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم، جامعہ مدرسین، 1419ھ۔
*صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۳ھ۔
*صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، جامعہ مدرسین، 1403ھ۔
*طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، رضی، ۱۳۹۲ھ۔
*طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، رضی، 1392ھ۔
*طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، مؤسسة الأعلمی، ۱۴۰۳ھ۔
*طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، مؤسسة الأعلمی، 1403ھ۔
*طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، وزارت ارشاد، ۱۳۶۷شمسی ہجری۔
*طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، وزارت ارشاد، 1367شمسی ہجری۔
*طوسی، محمد بن حسن، امالی، قم، دار الثقافہ، ۱۴۱۴ھ۔
*طوسی، محمد بن حسن، امالی، قم، دار الثقافہ، 1414ھ۔
*طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ھ۔
*طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، جامعہ مدرسین، 1415ھ۔
*عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ۔
*عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
*عسقلانی، ابن حجر، تقریب التہذیب، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ۔
*عسقلانی، ابن حجر، تقریب التہذیب، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
*قمی، علی بن إبراہیم، تفسیر القمی، قم، مؤسسہ دار الکتاب، ۱۴۰۴ھ۔
*قمی، علی بن إبراہیم، تفسیر القمی، قم، مؤسسہ دار الکتاب، 1404ھ۔
*کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، تہران، ‌دار الکتب الإسلامیہ، ۱۳۶۳شمسی ہجری۔
*کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، تہران، ‌دار الکتب الإسلامیہ، 1363شمسی ہجری۔
*مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، ۱۴۰۳ھ۔
*مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، 1403ھ۔
*مدنی، سید علی خان، الدرجات الرفیعہ، قم، بصیرتی، ۱۳۹۷ھ۔
*مدنی، سید علی خان، الدرجات الرفیعہ، قم، بصیرتی، 1397ھ۔
*مزی، یوسف، تہذیب الکمال، بیروت، مؤسسة الرسالہ، ۱۴۰۶ھ۔
*مزی، یوسف، تہذیب الکمال، بیروت، مؤسسة الرسالہ، 1406ھ۔
*مفید، محمد بن نعمان، الاختصاص، بیروت، دارالمفید، ۱۴۱۴ھ۔
*مفید، محمد بن نعمان، الاختصاص، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
*نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، تہران، علمی و فرہنگی، ۱۳۷۷شمسی ہجری۔
*نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، تہران، علمی و فرہنگی، 1377شمسی ہجری۔
*یعقوبی، ابن واضح احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، علمی و فرہنگی، ۱۳۷۸شمسی ہجری۔
*یعقوبی، ابن واضح احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، علمی و فرہنگی، 1378شمسی ہجری۔
*یعقوبی، ابن واضح، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ‌دار صادر.
*یعقوبی، ابن واضح، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ‌دار صادر.
*یوسفی، محمد رضا، در جستجوی آرمان‌ شہر نبوی: رویکرد اقتصادی ـ سیاسی ابوذر، قم، مؤسسہ انتشارات دانشگاہ مفید، ۱۳۸۶شمسی ہجری۔
*یوسفی، محمد رضا، در جستجوی آرمان‌ شہر نبوی: رویکرد اقتصادی ـ سیاسی ابوذر، قم، مؤسسہ انتشارات دانشگاہ مفید، 1386شمسی ہجری۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم