مندرجات کا رخ کریں

"الزام تراشی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{زیر تعمیر}}
{{زیر تعمیر}}
'''الزام تراشی'''، قیاس اور گمان پر مبنی غیر مناسب کاموں کو دوسروں کی طرف نسبت دینے کو کہا جاتا ہے۔ تہمت کا سرچشمہ دوسروں کے کردار پر سوء ظن (بدگمانی) رکھنا ہے۔ الزام لگانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ الزام لگانے والے کی سزا تعزیر ہے اور قرآن میں الزام لگانے والوں کے لئے عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔ تہمت، [[بہتان|بُہتان]] اور [[افترا|اِفْتِرا]] میں فرق یہ ہے کہ تمت لگانے والے کو  اس شخص میں عیب موجود ہونے میں یقین نہیں ہے لیکن بہتان اور افتراء لگانے والے کو الزام جھوٹ پر مبنی ہونے کا یقین ہے۔ اسلامی روایات میں ان جگہوں پر جانے سے منع ہوا ہے جہاں دوسروں پر الزام اور دوسروں کی نسبت بدگمانی ایجاد ہوتی ہے۔ الزامی تراشی کے آثار میں سے ایک ایمان کا ضائع ہونا ہے اور اس کا علاج دوسروں کے امور میں تجسس نہ کرنا ذکر ہوا ہے۔
'''الزام تراشی'''، دوسروں کی طرف قیاس اور گمان پر مبنی غیر مناسب کاموں کی نسبت دینے کو کہا جاتا ہے۔ تہمت اور الزام کا سرچشمہ دوسروں کے کردار پر سوء ظن (بدگمانی) رکھنا ہے۔ الزام لگانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ الزام لگانے والے کی سزا تعزیر ہے اور قرآن میں الزام لگانے والوں کے لئے عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔ تہمت، [[بہتان|بُہتان]] اور [[افترا|اِفْتِرا]] میں فرق یہ ہے کہ تمت لگانے والے کو  اس شخص میں عیب موجود ہونے میں یقین نہیں ہے لیکن بہتان اور افتراء لگانے والے کو الزام جھوٹ پر مبنی ہونے کا یقین ہے۔ اسلامی روایات میں ان جگہوں پر جانے سے منع ہوا ہے جہاں دوسروں پر الزام اور دوسروں کی نسبت بدگمانی ایجاد ہوتی ہے۔ الزامی تراشی کے آثار میں سے ایک ایمان کا ضائع ہونا ہے اور اس کا علاج دوسروں کے امور میں تجسس نہ کرنا ذکر ہوا ہے۔


بعض علماء نے [[حدیث مباہتہ|حَدیث مُباہتہ]] سے استناد کرتے ہوئے بدعت ایجاد کرنے والوں پر الزام تراشی اگر مصلحت میں ہو تو  اس صورت میں جائز قرار دیا ہے، تاہم اکثر فقہاء نے اس قول کو غلط قرار دیا ہے اور حدیث کو "مضبوط دلائل کے ساتھ اہل بدعت کو قائل کرنے" سے تعبیر کیا ہے۔
بعض علماء نے [[حدیث مباہتہ|حَدیث مُباہتہ]] سے استناد کرتے ہوئے بدعت ایجاد کرنے والوں پر الزام تراشی اگر مصلحت میں ہو تو  اس صورت میں جائز قرار دیا ہے، تاہم اکثر فقہاء نے اس قول کو غلط قرار دیا ہے اور حدیث کو "مضبوط دلائل کے ساتھ اہل بدعت کو قائل کرنے" سے تعبیر کیا ہے۔


==تعریف اور مقام==
==تعریف اور مقام==
الزام تراشی گناہ کبیرہ ہے۔<ref>ابن شعبہ، تحف العقول، 1404ق، ص331؛ حر عاملی، آداب معاشرت، 1380ش، ص204؛ دستغیب، گناہان کبیرہ، کانون ابلاغ اندیشہ ہای اسلامی، ج2، ص386.</ref> ایک حدیث میں الزام لگانے کو اس قدر برا سمجھا گیا ہے کہ شیطان بھی الزام لگانے والوں سے بیزار ہوتا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص358.</ref> احادیث کی کتابوں میں الزام تراشی حرام ہونے کے بارے میں ایک مخصوص باب بیان ہوا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص361؛ حر عاملی، وسائل الشیعة، 1424ق، ج12، ص302.</ref>
الزام تراشی گناہ کبیرہ ہے۔<ref>ابن شعبہ، تحف العقول، 1404ھ، ص331؛ حر عاملی، آداب معاشرت، 1380شمسی، ص204؛ دستغیب، گناہان کبیرہ، کانون ابلاغ اندیشہ ہای اسلامی، ج2، ص386.</ref> ایک حدیث میں الزام لگانے کو اس قدر برا سمجھا گیا ہے کہ شیطان بھی الزام لگانے والوں سے بیزار ہوتا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص358.</ref> احادیث کی کتابوں میں الزام تراشی حرام ہونے کے بارے میں ایک مخصوص باب بیان ہوا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص361؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1424ھ، ج12، ص302.</ref>


الزام تراشی کا مطلب اس بدگمانی کو بیان کرنا ہے<ref>زبیدی، تاج العروس، ذیل واژہ «وہم»؛ فراہیدی، العین، ذیل واژہ «وہم».</ref> جو کسی کے کردار کی وجہ سے انسان کے دل میں ایجاد ہوا ہے۔<ref>ابن فارس، معجم مقاییس اللغة، 1404ق، ج6، ص146.</ref> البتہ بدگمانی جب تک ظاہر نہ ہو [[سوء  ظن]] شمار ہوتی ہے الزام نہیں۔<ref>تہرانی، اخلاق الاہی، 1391ش، ج4، ص144.</ref> الزام اور بری نسبت خواہ وہ اشارے کے ذریعے ہو یا موبائل، کمپیوٹر اور سوشل میڈیا جیسے وسیلے کے ذریعے ہو سب الزام تراشی میں شامل ہوتے ہیں۔<ref>سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1396ش، ج2، ص208؛ [https://www.leader.ir/fa/content/23577 «تہمت زدن بہ دیگران»]،  آفیشل ویب سائٹ: دفتر مقام معظم رہبری.</ref>
الزام تراشی کا مطلب اس بدگمانی کو بیان کرنا ہے<ref>زبیدی، تاج العروس، ذیل واژہ «وہم»؛ فراہیدی، العین، ذیل واژہ «وہم».</ref> جو کسی کے کردار کی وجہ سے انسان کے دل میں ایجاد ہوا ہے۔<ref>ابن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، 1404ھ، ج6، ص146.</ref> البتہ بدگمانی جب تک ظاہر نہ ہو [[سوء  ظن]] شمار ہوتی ہے الزام نہیں۔<ref>تہرانی، اخلاق الاہی، 1391شمسی، ج4، ص144.</ref> الزام اور بری نسبت خواہ وہ اشارے کے ذریعے ہو یا موبائل، کمپیوٹر اور سوشل میڈیا جیسے وسیلے کے ذریعے ہو سب الزام تراشی میں شامل ہوتے ہیں۔<ref>سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1396شمسی، ج2، ص208؛ [https://www.leader.ir/fa/content/23577 «تہمت زدن بہ دیگران»]،  آفیشل ویب سائٹ: دفتر مقام معظم رہبری.</ref>


احادیث میں الزام تراشی کی سب سے بدترین مثال امانت میں خیانت کا الزام ہے یعنی ایسے شخص پر الزام لگائے جسے کسی کام میں امین قرار دیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج5، ص298.</ref>  
احادیث میں الزام تراشی کی سب سے بدترین مثال امانت میں خیانت کا الزام ہے یعنی ایسے شخص پر الزام لگائے جسے کسی کام میں امین قرار دیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص298.</ref>  


===بہتان اور افترا کے ساتھ فرق===
===بہتان اور افترا کے ساتھ فرق===
الزام اور تہمت معنی کے اعتبار سے بہتان اور افترا کے مترادف سمجھے جاتے ہیں اور عرف میں ایک ساتھ اور ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔ تہمت اس الزام اور بدگمانی کو کہا جاتا ہے جس کا سرچشمہ بدگمانی اور سوء ظن ہے؛<ref>تہرانی، اخلاق ربانی، 1401ش، ص33.</ref> البتہ اس بدگمانی کی کوئی حقیقت نہیں ہے یا ابھی تک ثابت نہیں ہوئی ہے۔<ref>عودہ، جرم و ارکان آن، 1390ش، ج1، ص300.</ref> لیکن بہتان اس جھوٹی نسبت کو کہا جاتا ہے<ref>عودہ، جرم و ارکان آن، 1390ش، ج1، ص300.</ref> جس کے جھوٹ ہونے کے بارے میں الزام لگانے والے کو یقین ہے۔ اور بہتان میں یہ بھی ممکن ہے کہ الزام لگانے والا دلیل بھی ساتھ لے آئے<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طبرسی، مجمع البیان، 1415ق، ج5، ص81؛ مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ق، ج2، ص446؛ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، 1368ش، ج1، ص338؛ قرشی، قاموس قرآن، 1412ق، ج1، ص239.</ref> لیکن افترا جھوٹی نسبت<ref>شیخ طبرسی، مجمع البیان، 1415ق، ج6، ص201.</ref> بغیر کسی دلیل کے دینا ہے<ref>ابن منظور، لسان العرب، ذیل واژہ «فری»؛ فراہیدی، العین، ذیل واژہ «فری».</ref> جیسے اللہ کا صاحب اولاد ہونا۔<ref>سورہ بقرہ، آیہ 116.</ref>
الزام اور تہمت معنی کے اعتبار سے بہتان اور افترا کے مترادف سمجھے جاتے ہیں اور عرف میں ایک ساتھ اور ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔ تہمت اس الزام اور بدگمانی کو کہا جاتا ہے جس کا سرچشمہ بدگمانی اور سوء ظن ہے؛<ref>تہرانی، اخلاق ربانی، 1401شمسی، ص33.</ref> البتہ اس بدگمانی کی کوئی حقیقت نہیں ہے یا ابھی تک ثابت نہیں ہوئی ہے۔<ref>عودہ، جرم و ارکان آن، 1390شمسی، ج1، ص300.</ref> لیکن بہتان اس جھوٹی نسبت کو کہا جاتا ہے<ref>عودہ، جرم و ارکان آن، 1390شمسی، ج1، ص300.</ref> جس کے جھوٹ ہونے کے بارے میں الزام لگانے والے کو یقین ہے۔ اور بہتان میں یہ بھی ممکن ہے کہ الزام لگانے والا دلیل بھی ساتھ لے آئے<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج5، ص81؛ مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج2، ص446؛ مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، 1368شمسی، ج1، ص338؛ قرشی، قاموس قرآن، 1412ھ، ج1، ص239.</ref> لیکن افترا جھوٹی نسبت<ref>شیخ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص201.</ref> بغیر کسی دلیل کے دینا ہے<ref>ابن منظور، لسان العرب، ذیل واژہ «فری»؛ فراہیدی، العین، ذیل واژہ «فری».</ref> جیسے اللہ کا صاحب اولاد ہونا۔<ref>سورہ بقرہ، آیہ 116.</ref>


==الزام تراشی کے احکام==
==الزام تراشی کے احکام==
*الزام لگانا اور اسے پھیلانا فقہی اعتبار سے [[حرام]]<ref>نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج41، ص59؛ شہید ثانی، الرسائل، 1421ق، ج1، ص293؛ شہید ثانی، کشف الریبة، 1390ق، ص21.</ref> اور اس کی سزا [[تعزیر]] ہے۔<ref>امام خمینی، استفتائات امام خمینی، 1372ش، ج3، ص452؛ فاضل لنکرانی، جامع المسائل، 1383ش، ج2، ص340؛ مکارم شیرازی، مجموعہ استفتائات جدید، 1427ق، ج1، ص356.</ref>اگر تہمت [[قذف]] ہو تو اس کی سزا [[حد قذف]] (80 کوڑے) ہے۔<ref>علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1413ق، ج3،  ص547.</ref>
*الزام لگانا اور اسے پھیلانا فقہی اعتبار سے [[حرام]]<ref>نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج41، ص59؛ شہید ثانی، الرسائل، 1421ھ، ج1، ص293؛ شہید ثانی، کشف الریبۃ، 1390ھ، ص21.</ref> اور اس کی سزا [[تعزیر]] ہے۔<ref>امام خمینی، استفتائات امام خمینی، 1372شمسی، ج3، ص452؛ فاضل لنکرانی، جامع المسائل، 1383شمسی، ج2، ص340؛ مکارم شیرازی، مجموعہ استفتائات جدید، 1427ھ، ج1، ص356.</ref>اگر تہمت [[قذف]] ہو تو اس کی سزا [[حد قذف]] (80 کوڑے) ہے۔<ref>علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج3،  ص547.</ref>


*الزام اس شخص کی موجودگی میں ہو یا اس کے پیٹھ پیچھے، دونوں صورتوں میں حرام ہے۔<ref>تہرانی، اخلاق ربانی، 1401ش، ص33.</ref>
*الزام اس شخص کی موجودگی میں ہو یا اس کے پیٹھ پیچھے، دونوں صورتوں میں حرام ہے۔<ref>تہرانی، اخلاق ربانی، 1401شمسی، ص33.</ref>
*اگر الزام اس شخص کے سامنے لگایا جائے تو یہ ہتک حرمت میں شامل ہوگا اور حرام ہے۔<ref> تہرانی، اخلاق ربانی، 1401ش، ص44.</ref>
*اگر الزام اس شخص کے سامنے لگایا جائے تو یہ ہتک حرمت میں شامل ہوگا اور حرام ہے۔<ref> تہرانی، اخلاق ربانی، 1401شمسی، ص44.</ref>
*دوسروں پر الزام تراشی سننا بھی جائز نہیں ہے اور سننے کی صورت میں جس پر الزام لگائی گئی ہے اس کا دفاع اور اس سے الزام کو دور کرنے ضروری ہے۔<ref>تہرانی، اخلاق ربانی، 1401ش، ص33.</ref>
*دوسروں پر الزام تراشی سننا بھی جائز نہیں ہے اور سننے کی صورت میں جس پر الزام لگائی گئی ہے اس کا دفاع اور اس سے الزام کو دور کرنے ضروری ہے۔<ref>تہرانی، اخلاق ربانی، 1401شمسی، ص33.</ref>
*الزام لگانے والا اپنے گناہ سے توبہ کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر اس شخص سے معذرت خواہی کرنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو تو ان سے اس گناہ کی بخشش کی درخواست کرے۔<ref>سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1396ش، ج2، ص209.</ref>
*الزام لگانے والا اپنے گناہ سے توبہ کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر اس شخص سے معذرت خواہی کرنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو تو ان سے اس گناہ کی بخشش کی درخواست کرے۔<ref>سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1396شمسی، ج2، ص209.</ref>
{{جعبہ نقل قول
{{جعبہ نقل قول
| عنوان =[[امام صادق علیہ السلام|امام صادق(ع)]]
| عنوان =[[امام صادق علیہ السلام|امام صادق(ع)]]
| نقل قول = جب بھی ایک مومن دوسرے مومن بھائی پر الزام لگائے تو اس کے دل سے ایمان اس طرح سے ختم ہوجاتا ہے جس طرح پانی میں نمک حل ہوجاتا ہے۔|تاریخ بایگانی| منبع = <small>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص361.</small>| تراز = چپ| عرض = 230px| اندازہ قلم= 12px|پس زمینہ =#ffeebb| گیومہ نقل قول =| تراز منبع = چپ}}
| نقل قول = جب بھی ایک مومن دوسرے مومن بھائی پر الزام لگائے تو اس کے دل سے ایمان اس طرح سے ختم ہوجاتا ہے جس طرح پانی میں نمک حل ہوجاتا ہے۔|تاریخ بایگانی| منبع = <small>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص361.</small>| تراز = چپ| عرض = 230px| اندازہ قلم= 12px|پس زمینہ =#ffeebb| گیومہ نقل قول =| تراز منبع = چپ}}


==آثار اور نتائج==
==آثار اور نتائج==
{{جعبہ نقل قول
{{جعبہ نقل قول
| عنوان =[[امام علی علیہ السلام|امام علی(ع)]]
| عنوان =[[امام علی علیہ السلام|امام علی(ع)]]
| نقل قول = {{حدیث|إیاک و مَواطِنَ التُّہمةِ و المجلسَ المَظْنونَ بہ السّوءُ، فإنَّ قَرینَ السُّوءِ یغُرُّ جَلِیسَہ|ترجمہ=تہمت والی جگہوں اور بدگمانی ایجاد ہونے والی مجاس سے بچے
| نقل قول = {{حدیث|إیاک و مَواطِنَ التُّہمۃِ و المجلسَ المَظْنونَ بہ السّوءُ، فإنَّ قَرینَ السُّوءِ یغُرُّ جَلِیسَہ|ترجمہ=تہمت والی جگہوں اور بدگمانی ایجاد ہونے والی مجاس سے بچے
  رہو کیونکہ برا دوست اپنے ہمنشین کو دھوکہ دیتا ہے۔}}|تاریخ بایگانی| منبع = <small>شیخ طوسی، الأمالی، 1414ق، ص7.</small>| تراز = چپ| عرض = 230px| اندازہ قلم= 12px|پس زمینہ =#ffeebb| گیومہ نقل قول =| تراز منبع = چپ}}
  رہو کیونکہ برا دوست اپنے ہمنشین کو دھوکہ دیتا ہے۔}}|تاریخ بایگانی| منبع = <small>شیخ طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص7.</small>| تراز = چپ| عرض = 230px| اندازہ قلم= 12px|پس زمینہ =#ffeebb| گیومہ نقل قول =| تراز منبع = چپ}}


*عذاب الہی: [[امام صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] کی ایک روایت میں [[سورہ نور کی آیت نمبر 23]] کو الزامی تراشی گناہ کبیرہ ہونے کی دلیل قرار دی گئی ہے<ref>شیخ صدوق، علل الشرائع، 1383ق، ج2، ص480.</ref>اس آیت میں اللہ تعالی نے دنیا اور آخرت کی لعنت کو اس شخص کے لئے قرار دیا ہے جو پاکدامن خواتین پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کو قذف کرتے ہیں۔ اسی طرح [[آیات افک|آیاتِ اِفْک]] میں پیغمبر اکرمؑ کے خاندان میں سے کسی ایک شخص پر تہمت لگانے والوں<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج15، ص89.</ref> کو عذاب عظیم سے ڈریا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، 1421ق، ج11، ص46.</ref>
*عذاب الہی: [[امام صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] کی ایک روایت میں [[سورہ نور کی آیت نمبر 23]] کو الزامی تراشی گناہ کبیرہ ہونے کی دلیل قرار دی گئی ہے<ref>شیخ صدوق، علل الشرائع، 1383ھ، ج2، ص480.</ref>اس آیت میں اللہ تعالی نے دنیا اور آخرت کی لعنت کو اس شخص کے لئے قرار دیا ہے جو پاکدامن خواتین پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کو قذف کرتے ہیں۔ اسی طرح [[آیات افک|آیاتِ اِفْک]] میں پیغمبر اکرمؑ کے خاندان میں سے کسی ایک شخص پر تہمت لگانے والوں<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص89.</ref> کو عذاب عظیم سے ڈریا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج11، ص46.</ref>


*الزام، مومن کا ایمان ختم ہونے کا باعث بنتا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص361.</ref>
*الزام، مومن کا ایمان ختم ہونے کا باعث بنتا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص361.</ref>
*الزام تراشی معاشرے کے افراد کے مابین بھائی چارہ اور روابط نابود ہونے کا سبب بنتی ہے اور بے اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص361.</ref>
*الزام تراشی معاشرے کے افراد کے مابین بھائی چارہ اور روابط نابود ہونے کا سبب بنتی ہے اور بے اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص361.</ref>


== الزامی تراشی سے بچاؤ کے طریقے ==
== الزامی تراشی سے بچاؤ کے طریقے ==
*برے لوگوں کی ہمنشینی سے اجتناب۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، ص152.</ref>
*برے لوگوں کی ہمنشینی سے اجتناب۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص152.</ref>
*برے لوگوں کی مجالس میں جانے گریز کرنا۔<ref>شیخ صدوق، الأمالی، 1417ق، ج1، ص587.</ref>
*برے لوگوں کی مجالس میں جانے گریز کرنا۔<ref>شیخ صدوق، الأمالی، 1417ھ، ج1، ص587.</ref>
*برے کام انجام ہونے والی جگہوں سے دور رہنا۔<ref>علامہ مجلسی، حلیة المتقین، 1424ق، ج1، ص555.</ref>
*برے کام انجام ہونے والی جگہوں سے دور رہنا۔<ref>علامہ مجلسی، حلیۃ المتقین، 1424ھ، ج1، ص555.</ref>
*دوسروں کے امور میں [[تجسس]] نہ کرنا اور دو پہلو والی باتوں کو اچھے پر حمل کرنا۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص362. ہمدانی، مصباح الفقیہ، مکتبة النجاح، ج2، ص672.</ref>
*دوسروں کے امور میں [[تجسس]] نہ کرنا اور دو پہلو والی باتوں کو اچھے پر حمل کرنا۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص362. ہمدانی، مصباح الفقیہ، مکتبۃ النجاح، ج2، ص672.</ref>


==حدیث مباہتہ==
==حدیث مباہتہ==
{{اصلی|حدیث مباہتہ}}
{{اصلی|حدیث مباہتہ}}
مُباہِتہ [[فہرست اصطلاحات فقہی|اصطلاح فقہی]] است کہ از عبارت «بَاہِتُوہُمْ» در روایت منقول از [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]]<ref>کلینی، کافی، 1407ق، ج2، ص375.</ref> گرفتہ شدہ است.<ref>مجلسی اول، روضة المتقین، 1406ق، ج9، ص327؛ علامہ مجلسی، مرآة العقول، 1404ق، ج11، ص77.</ref> از نظر فقہی برخی آن  را بہ معنای تہمت زدن دانستہ اند و با استناد بہ آن، حکم بہ جواز تہمت زدن بہ [[بدعت|اہل بدعت]] دادہ اند؛<ref>خویی، مصباح الفقاہة، 1417ق، ج1، ص458؛ گلپایگانی، الدرّ المنضود، 1412ق، ج2، ص148؛ تبریزی، ارشاد الطالب، 1416ق، ج1، ص281.</ref> ولی بعضی دیگر آن  را بہ معنای استدلال محکم و مبہوت کنندہ دانستہ<ref>فیض کاشانی، الوافی، 1406ق، ج1، ص245.</ref> و در نتیجہ قائل بہ جایز نبودن تہمت زدن بہ اہل بدعت شدہ اند.<ref>محمدیان و دیگران، «تأملی در مدلول روایت موسوم بہ مباہتہ»، ص159.</ref>
مُباہِتہ [[فہرست اصطلاحات فقہی|اصطلاح فقہی]] است کہ از عبارت «بَاہِتُوہُمْ» در روایت منقول از [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]]<ref>کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص375.</ref> گرفتہ شدہ است.<ref>مجلسی اول، روضۃ المتقین، 1406ھ، ج9، ص327؛ علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج11، ص77.</ref> از نظر فقہی برخی آن  را بہ معنای تہمت زدن دانستہ اند و با استناد بہ آن، حکم بہ جواز تہمت زدن بہ [[بدعت|اہل بدعت]] دادہ اند؛<ref>خویی، مصباح الفقاہۃ، 1417ھ، ج1، ص458؛ گلپایگانی، الدرّ المنضود، 1412ھ، ج2، ص148؛ تبریزی، ارشاد الطالب، 1416ھ، ج1، ص281.</ref> ولی بعضی دیگر آن  را بہ معنای استدلال محکم و مبہوت کنندہ دانستہ<ref>فیض کاشانی، الوافی، 1406ھ، ج1، ص245.</ref> و در نتیجہ قائل بہ جایز نبودن تہمت زدن بہ اہل بدعت شدہ اند.<ref>محمدیان و دیگران، «تأملی در مدلول روایت موسوم بہ مباہتہ»، ص159.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 51: سطر 51:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن شعبہ، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول صلی اللہ علیہم، تصحیح: علی اکبر غفاری، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1404ق.
* ابن شعبہ، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول صلی اللہ علیہم، تصحیح: علی اکبر غفاری، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1404ھ۔
* ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغة، تحقیق: عبد السلام محمد  ہارون، قم، مکتب الإعلام الإسلامی، 1404ق.
* ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، تحقیق: عبد السلام محمد  ہارون، قم، مکتب الإعلام الإسلامی، 1404ھ۔
* ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت،  دار الفکر للطباعة و النشر و التوزیع، 1414ق.
* ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت،  دار الفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع، 1414ھ۔
* امام خمینی، سید روح اللہ، استفتائات امام خمینی، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1372ش.
* امام خمینی، سید روح اللہ، استفتائات امام خمینی، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1372ہجری شمسی۔
* تبریزی، میرزا جواد، ارشاد الطالب الی التعلیق علی المکاسب، قم، اسماعیلیان، 1416ق.
* تبریزی، میرزا جواد، ارشاد الطالب الی التعلیق علی المکاسب، قم، اسماعیلیان، 1416ھ۔
* تہرانی، مجتبی، اخلاق الاہی، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ ہفدہم، 1391ش.
* تہرانی، مجتبی، اخلاق الاہی، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ ہفدہم، 1391ہجری شمسی۔
* تہرانی، مجتبی، اخلاق ربانی دورہ 0 جلدی آفات زبان بہتان و تہمت، تہران، مؤسسہ پژوہشی فرہنگی مصابیح الہدی، 1401ش.
* تہرانی، مجتبی، اخلاق ربانی دورہ 0 جلدی آفات زبان بہتان و تہمت، تہران، مؤسسہ پژوہشی فرہنگی مصابیح الہدی، 1401ہجری شمسی۔
* [https://www.leader.ir/fa/content/23577 «تہمت زدن بہ دیگران»]، وبگاہ اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رہبری، تاریخ درج مطلب: 8 مہر 1398ش، تاریخ بازدید: 18 مہر 1402ش.
* [https://www.leader.ir/fa/content/23577 «تہمت زدن بہ دیگران»]، وبگاہ اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رہبری، تاریخ درج مطلب: 8 مہر 1398شمسی، تاریخ بازدید: 18 مہر 1402ہجری شمسی۔
* حر عاملی، محمد بن حسن، آداب معاشرت از دیدگاہ معصومین(ع)، ترجمہ: محمدعلی فارابی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1380ش.
* حر عاملی، محمد بن حسن، آداب معاشرت از دیدگاہ معصومین(ع)، ترجمہ: محمدعلی فارابی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1380ہجری شمسی۔
* حر عاملی، محمد بن حسن، وسایل الشیعہ و مستدرکہا، قم، مؤسسة النشر الإسلامی، 1424ق.
* حر عاملی، محمد بن حسن، وسایل الشیعہ و مستدرکہا، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1424ھ۔
* خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الفقاہة، قم، انصاریان، 1417ق.
* خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الفقاہۃ، قم، انصاریان، 1417ھ۔
* زبیدی، مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت،  دار الفکر، 1414ق.
* زبیدی، مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت،  دار الفکر، 1414ھ۔
* شہید ثانی، زین الدین بن علی، رسائل الشہید الثانی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1421ق.
* شہید ثانی، زین الدین بن علی، رسائل الشہید الثانی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1421ھ۔
* شہید ثانی، زین الدین بن علی، کشف الریبة، تہران،  دار المرتضوی للنشر، 1390ق.
* شہید ثانی، زین الدین بن علی، کشف الریبۃ، تہران،  دار المرتضوی للنشر، 1390ھ۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، قم، مؤسسة البعثة، 1417ق.
* شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، قم، مؤسسۃ البعثۃ، 1417ھ۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، نجف، منشورات المکتبة الحیدریة، 1383ق.
* شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، نجف، منشورات المکتبۃ الحیدریۃ، 1383ھ۔
* شیخ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، 1415ق.
* شیخ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
* شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم،  دار الثقافة، 1414ق.
* شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم،  دار الثقافۃ، 1414ھ۔
* طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ق.
* طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
* علامہ حلی،  حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفة الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول،  1413ق.
* علامہ حلی،  حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول،  1413ھ۔
* علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تہران،  دار الکتب الاسلامیة، 1404ق.
* علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تہران،  دار الکتب الاسلامیۃ، 1404ھ۔
* علامہ مجلسی، محمدباقر، حلیة المتقین فی آلادب و السنن و الاخلاق ، ترجمہ: مترجم خلیل رزق العاملی، قم، ذوی القربی ، 1424ق.
* علامہ مجلسی، محمدباقر، حلیۃ المتقین فی آلادب و السنن و الاخلاق ، ترجمہ: مترجم خلیل رزق العاملی، قم، ذوی القربی ، 1424ھ۔
* عودہ، عبدالقادر، جرم و ارکان آن (بررسی تطبیقی حقوق جزای اسلامی و قوانین عرفی)، ترجمہ: حسن فرہودی نیا، تہران، انتشارات یادآوران، 1390ش.
* عودہ، عبدالقادر، جرم و ارکان آن (بررسی تطبیقی حقوق جزای اسلامی و قوانین عرفی)، ترجمہ: حسن فرہودی نیا، تہران، انتشارات یادآوران، 1390ہجری شمسی۔
* سیستانی، سید علی، توضیح المسائل جامع، مشہد، دفتر حضرت آیہ اللہ العظمی سیستانی، 1396ش.
* سیستانی، سید علی، توضیح المسائل جامع، مشہد، دفتر حضرت آیہ اللہ العظمی سیستانی، 1396ہجری شمسی۔
* فاضل لنکرانی، محمد، جامع المسائل ، قم، نشر امیر، 1383ش.
* فاضل لنکرانی، محمد، جامع المسائل ، قم، نشر امیر، 1383ہجری شمسی۔
* فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تحقیق: مہدی مخزومی، قم،  دار الہجرة، 1409ق.
* فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تحقیق: مہدی مخزومی، قم،  دار الہجرۃ، 1409ھ۔
* فیض کاشانی، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام امیر المؤمنین علی(ع)، 1406ق.
* فیض کاشانی، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام امیر المؤمنین علی(ع)، 1406ھ۔
* قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، تہران،  دار الکتب الاسلامیة، 1412ق.
* قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، تہران،  دار الکتب الاسلامیۃ، 1412ھ۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق: علی اکبر غفاری، تہران،  دار الکتب الإسلامیة، 1407ق.
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق: علی اکبر غفاری، تہران،  دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
* گلپایگانی، الدرّ المنضود، تقریر کریمی جہرمی، قم،  دار القرآن الکریم، 1412ق.
* گلپایگانی، الدرّ المنضود، تقریر کریمی جہرمی، قم،  دار القرآن الکریم، 1412ھ۔
* مجلسی اول، محمدتقی، روضة المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانبور، 1406ق.
* مجلسی اول، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانبور، 1406ھ۔
* محمدیان،  علی و دیگران، [http://ensani.ir/file/download/article/20160530144737-9791-94.pdf «تأملی در مدلول روایت موسوم بہ مباہتہ»]، در مجلہ تحقیقات علوم قرآن و حدیث، شمارہ 28، زمستان 1394ش.
* محمدیان،  علی و دیگران، [http://ensani.ir/file/download/article/20160530144737-9791-94.pdf «تأملی در مدلول روایت موسوم بہ مباہتہ»]، در مجلہ تحقیقات علوم قرآن و حدیث، شمارہ 28، زمستان 1394ہجری شمسی۔
* مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، مرکز نشر آثار علامہ مصطفوی، 1368ش.
* مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، مرکز نشر آثار علامہ مصطفوی، 1368ہجری شمسی۔
* مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم،  دار الکتاب الإسلامی، 1424ق.
* مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم،  دار الکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
* مکارم شیرازی، ناصر، الامثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل، ترجمہ و تلخیص محمدعلی آذرشب، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب، 1421ق.
* مکارم شیرازی، ناصر، الامثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل، ترجمہ و تلخیص محمدعلی آذرشب، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب، 1421ھ۔
* مکارم شیرازی، ناصر، مجموعہ استفتائات جدید، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1427ق.
* مکارم شیرازی، ناصر، مجموعہ استفتائات جدید، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1427ھ۔
* نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، محقق: ابراہیم سلطانی نسب، بیروت،  دار إحیاء التراث العربی، 1404ق.
* نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، محقق: ابراہیم سلطانی نسب، بیروت،  دار إحیاء التراث العربی، 1404ھ۔
* ورام، مسعود بن عیسی، مجموعہ ورّام، آداب و اخلاق در اسلام، مترجم: محمدرضا عطایی، مشہد، بنیاد پژوہش ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1369ش.
* ورام، مسعود بن عیسی، مجموعہ ورّام، آداب و اخلاق در اسلام، مترجم: محمدرضا عطایی، مشہد، بنیاد پژوہش ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1369ہجری شمسی۔
* ہمدانی، آقارضا، مصباح الفقیہ، تہران، انتشارات مکتبة النجاح، بی تا.
* ہمدانی، آقارضا، مصباح الفقیہ، تہران، انتشارات مکتبۃ النجاح، بی تا.


{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم