"مہدویت" کے نسخوں کے درمیان فرق
←مفہومشناسی
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 3: | سطر 3: | ||
==مفہومشناسی== | ==مفہومشناسی== | ||
«مَہدَویت» عربی زبان کا ایک لفظ ہے جو لفظ «[[مہدی]]» سے مشتق ہے اور لفظ «مَہدَوی» میں "تا" کے اضافہ سے بنا ہے۔ مہدوی کے معنی مہدی سے تعلق رکھنے کے ہیں جس طرح عَلَوی اور حَسَنی سے مراد علی اور حسن سے تعلق رکھنے کے ہیں۔ «ت» لفظ «مہدویت» میں "تا" تأنیث کی علامت ہے اور اس کے مصوف کے حذف ہونے کی بنا پر اضافہ ہوا ہے؛ یعنی اصل میں «طریقۃ مہدویۃ» یا اس طرح کی کوئی اور ترکیب تھی۔<ref>الویری، «گونہشناسی رویکردہای آموزۀ مہدویت در چہارچوب ظرفیت تمدنی»، ص۶۱</ref>{{نوٹ| دہخدا مہدویت کو مصدر جعلی قرار دیتے ہیں(دہخدا، لغت نامہ، ذیل مہدویّت) اور کہتے ہیں: وہ الفاظ جو کسی لفظ میں «َیّت » کے | «مَہدَویت» عربی زبان کا ایک لفظ ہے جو لفظ «[[مہدی]]» سے مشتق ہے اور لفظ «مَہدَوی» میں "تا" کے اضافہ سے بنا ہے۔ مہدوی کے معنی مہدی سے تعلق رکھنے کے ہیں جس طرح عَلَوی اور حَسَنی سے مراد علی اور حسن سے تعلق رکھنے کے ہیں۔ «ت» لفظ «مہدویت» میں "تا" تأنیث کی علامت ہے اور اس کے مصوف کے حذف ہونے کی بنا پر اضافہ ہوا ہے؛ یعنی اصل میں «طریقۃ مہدویۃ» یا اس طرح کی کوئی اور ترکیب تھی۔<ref>الویری، «گونہشناسی رویکردہای آموزۀ مہدویت در چہارچوب ظرفیت تمدنی»، ص۶۱</ref>{{نوٹ| دہخدا مہدویت کو مصدر جعلی قرار دیتے ہیں(دہخدا، لغت نامہ، ذیل مہدویّت) اور کہتے ہیں: وہ الفاظ جو کسی لفظ میں «َیّت » کی اضافے کے ساتھ بنتے ہیں، مصدر جَعلی یا صِناعی کہا جاتا ہے مانند: ایرانیّت ، انسانیّت ، آدمیّت وغیرہ۔ دہخدا، لغت نامہ، ذیل جعلی.}} | ||
صدر [[اسلام]] میں لفظ «مہدی» ہدایت یافتہ شخص یا بعض افراد کی عزت اور تکریم کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ| پیغمبر اکرمؐ]]، [[خلفائے راشدین]] اور [[ امام حسین علیہالسلام |امام حسینؑ]] کے لئے استعمال ہوا ہے۔<ref>حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص۳۴</ref> | صدر [[اسلام]] میں لفظ «مہدی» ہدایت یافتہ شخص یا بعض افراد کی عزت اور تکریم کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ| پیغمبر اکرمؐ]]، [[خلفائے راشدین]] اور [[ امام حسین علیہالسلام |امام حسینؑ]] کے لئے استعمال ہوا ہے۔<ref>حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص۳۴</ref> |