"والدین کے حقوق" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 24: | سطر 24: | ||
==والدین کے حقوق== | ==والدین کے حقوق== | ||
دینی متون میں والدین کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، ان کا احترام کرنا<ref>ابوالسعود، تفسیر ابیالسعود، 1983م، ج3، ص198۔</ref>، ان کی اطاعت کرنا<ref>عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔</ref> اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے<ref>عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔</ref> کو من جملہ اولاد پر والدین کے حقوق میں شمار کیا گیا ہے۔ | دینی متون میں والدین کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، ان کا احترام کرنا<ref>ابوالسعود، تفسیر ابیالسعود، 1983م، ج3، ص198۔</ref>، ان کی اطاعت کرنا<ref>عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔</ref> اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے<ref>عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔</ref> کو من جملہ اولاد پر والدین کے حقوق میں شمار کیا گیا ہے۔ | ||
{{جعبہ نقل قول | عنوان = [[امام موسی کاظم علیہالسلام|امام کاظمؑ]]: | نقل قول = [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خداؐ]] سے کسی نے پوچھا: اولاد پر والد کے کیا حقوق ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ان کا نام لے کر نہ پکارا جائے، ان کے آگے راستہ نہ چلے، ان سے پہلے نہ بیٹھیں اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے لوگ اس کے والد کو گالیاں دے دیں۔| منبع = کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158۔ | تراز = چپ| عرض = 230px | | {{جعبہ نقل قول | عنوان = [[امام موسی کاظم علیہالسلام|امام کاظمؑ]]: | نقل قول = [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خداؐ]] سے کسی نے پوچھا: اولاد پر والد کے کیا حقوق ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ان کا نام لے کر نہ پکارا جائے، ان کے آگے راستہ نہ چلے، ان سے پہلے نہ بیٹھیں اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے لوگ اس کے والد کو گالیاں دے دیں۔| منبع = کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158۔ | تراز = چپ| عرض = 230px | پس زمینہ = #eefffb | تراز منبع = چپ}} | ||
===احسان اور احترام=== | ===احسان اور احترام=== | ||
سطر 33: | سطر 33: | ||
[[سورہ اسراء|سورہ اِسراء]] کی 23ویں اور 24ویں آیت میں والدین پر احسان کرنے کا حکم دینے کے بعد اس کے بعض مصادیق کو بھی بیان کیا گیا ہے؛ جن میں «اُف» کہنے کو تندی سے پیش آنے کی سب سے چھوتی مثال قرار دیتے ہوئے اس سے ممانعت کی گئی ہے۔<ref>فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ق، ج20، ص324۔</ref> اس کے بعد آگے چل کر اولاد کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب والدین پیری کی حالت میں پہنچ جائے تو نہ صرف ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ ان کے سامنے تواضع اور فروتنی سے پیش آنے نیز کم عمری میں اولاد کی دیکھ بھال اور تربیت کے حوالے سے برداشت کئے گئے تکلیفوں اور سختیوں کے بدلے میں ان کی زندگی اور وفات کے بعد ان کے حق میں دعا اور استغفار کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔<ref>سورہ اسراء، آیہ 23ـ24۔</ref><br>احادیث میں بھی حقوق والدین کے کچھ مصادیق ذکر کئے گئے ہیں؛ من جملہ یہ کہ اولاد کو چاہئے کہ وہ والدین کا نام لے کر ان کو نہ پکاریں، ان سے آگے آگے راستہ نہ چلیں، ان سے پہلے اور ان کی طرف پشت کر کے نہ بیٹھیں۔<ref> ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158-159؛ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج4، ص372؛ بخاری، الادب المفرد، 1409ق، ص30۔</ref> اسی طرح اگر والدین ان کو بلائیں تو جلدی سے ان کی خدمت میں پہنچ جائیں، یہاں تک کہ اگر [[نماز]] کی حالت میں بھی کیوں نہ ہو<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج71، ص37۔</ref> اور اگر والدین کے رفتار و گفتار ان کی مرضی کے برخلاف ہو تو بھی ان کے سامنے چہرہ بگاڑنے یا ان کو نا سزا کہنے سے پرہیز کریں۔<ref> کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص 349؛ شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث، ج6، ص467۔</ref> والدین کے رازداری کا تحفظ<ref> رجوع کنید بہ کلینی، الکافی، 1407ق، ج6، ص503؛ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج4، ص372۔</ref> اور ان کا شکریہ ادا کرنا<ref>شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ق، ج1، ص 258۔</ref> بھی من جملہ والدین پر احسان کے مصادیق میں شمار کئے جاتے ہیں۔ | [[سورہ اسراء|سورہ اِسراء]] کی 23ویں اور 24ویں آیت میں والدین پر احسان کرنے کا حکم دینے کے بعد اس کے بعض مصادیق کو بھی بیان کیا گیا ہے؛ جن میں «اُف» کہنے کو تندی سے پیش آنے کی سب سے چھوتی مثال قرار دیتے ہوئے اس سے ممانعت کی گئی ہے۔<ref>فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ق، ج20، ص324۔</ref> اس کے بعد آگے چل کر اولاد کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب والدین پیری کی حالت میں پہنچ جائے تو نہ صرف ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ ان کے سامنے تواضع اور فروتنی سے پیش آنے نیز کم عمری میں اولاد کی دیکھ بھال اور تربیت کے حوالے سے برداشت کئے گئے تکلیفوں اور سختیوں کے بدلے میں ان کی زندگی اور وفات کے بعد ان کے حق میں دعا اور استغفار کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔<ref>سورہ اسراء، آیہ 23ـ24۔</ref><br>احادیث میں بھی حقوق والدین کے کچھ مصادیق ذکر کئے گئے ہیں؛ من جملہ یہ کہ اولاد کو چاہئے کہ وہ والدین کا نام لے کر ان کو نہ پکاریں، ان سے آگے آگے راستہ نہ چلیں، ان سے پہلے اور ان کی طرف پشت کر کے نہ بیٹھیں۔<ref> ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158-159؛ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج4، ص372؛ بخاری، الادب المفرد، 1409ق، ص30۔</ref> اسی طرح اگر والدین ان کو بلائیں تو جلدی سے ان کی خدمت میں پہنچ جائیں، یہاں تک کہ اگر [[نماز]] کی حالت میں بھی کیوں نہ ہو<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج71، ص37۔</ref> اور اگر والدین کے رفتار و گفتار ان کی مرضی کے برخلاف ہو تو بھی ان کے سامنے چہرہ بگاڑنے یا ان کو نا سزا کہنے سے پرہیز کریں۔<ref> کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص 349؛ شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث، ج6، ص467۔</ref> والدین کے رازداری کا تحفظ<ref> رجوع کنید بہ کلینی، الکافی، 1407ق، ج6، ص503؛ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج4، ص372۔</ref> اور ان کا شکریہ ادا کرنا<ref>شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ق، ج1، ص 258۔</ref> بھی من جملہ والدین پر احسان کے مصادیق میں شمار کئے جاتے ہیں۔ | ||
{{جعبہ نقل قول | عنوان =ارشاد باری تعالی |نقل قول = {{حدیث|وَقَضَیٰ رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا<br> |ترجمہ=اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور ان کے سامنے مہر و مہربانی کے ساتھ انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور کہو اے پروردگار تو ان دونوں پر اسی طرح رحم و کرم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپنے میں مجھے پالا( اور میری پرورش کی)۔}} |منبع = <small>سورۂ اسراء، آیۂ 23-24، ترجمۂ محمد حسین نجفی </small> | تراز = چپ| عرض = 230px | | {{جعبہ نقل قول | عنوان =ارشاد باری تعالی |نقل قول = {{حدیث|وَقَضَیٰ رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا<br> |ترجمہ=اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور ان کے سامنے مہر و مہربانی کے ساتھ انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور کہو اے پروردگار تو ان دونوں پر اسی طرح رحم و کرم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپنے میں مجھے پالا( اور میری پرورش کی)۔}} |منبع = <small>سورۂ اسراء، آیۂ 23-24، ترجمۂ محمد حسین نجفی </small> | تراز = چپ| عرض = 230px | پس زمینہ = #eefffb | تراز منبع = چپ}} | ||
===اطاعت اور نفقہ=== | ===اطاعت اور نفقہ=== | ||
سطر 47: | سطر 47: | ||
==حقوق والدین کی رعایت پر تأکید کا فلسفہ== | ==حقوق والدین کی رعایت پر تأکید کا فلسفہ== | ||
[[سید محمد حسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] قرآن میں والدین پر احسان کرنے کی تأکید کا فلسفہ یوں بیان کرتے ہیں کہ والدین اور اولاد کے درمیان عاطفی رابطہ نسل نو اور نسل گذشتہ نیز [[خاندان]] کے افراد کے درمیان مستحکم رابطے کا سبب بنتا ہے۔ اہم سماجی اکائی کے عنوان سے خاندان کے افراد میں مضبوط رابطہ انسانی معاشرتی اور سماجی رابطوں کے استحکام کا موجب بنتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج7، ص374 و ج13، ص80۔</ref><br>شیعہ عالم دین [[احمد بن محمد رازی|ابن مسکویہ]] ([[سنہ 320 ہجری قمری|320]]-[[سنہ 420 ہجری قمری|420ھ]]) اس سوال کے جواب میں کہ کیوں دین تعلیمات میں والدین کے ساتھ احسان کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی تاکید ہوئی ہے جبکہ والدین پر اولاد کے حقوق کی رعایت کرنے کے حوالے سے ایسی تاکید دیکھنے کو نہیں ملتی؟ کہتے ہیں کہ والدین اپنی اولاد کو اپنے سے جدا کوئی اور چیز تصور نہیں کرتے اس بنا پر والدین جس طرح اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں اپنی اولاد سے بھی محبت رکھتے ہیں اور ان کی ترقی کو گویا اپنی ترقی شمار کرتے ہیں، لیکن اولاد والدین کی نسبت ایسا تصور نہیں رکھتے ہیں۔<ref>مسکویہ، تہذیب الأخلاق، 1426ق، ص233۔</ref> | [[سید محمد حسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] قرآن میں والدین پر احسان کرنے کی تأکید کا فلسفہ یوں بیان کرتے ہیں کہ والدین اور اولاد کے درمیان عاطفی رابطہ نسل نو اور نسل گذشتہ نیز [[خاندان]] کے افراد کے درمیان مستحکم رابطے کا سبب بنتا ہے۔ اہم سماجی اکائی کے عنوان سے خاندان کے افراد میں مضبوط رابطہ انسانی معاشرتی اور سماجی رابطوں کے استحکام کا موجب بنتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج7، ص374 و ج13، ص80۔</ref><br>شیعہ عالم دین [[احمد بن محمد رازی|ابن مسکویہ]] ([[سنہ 320 ہجری قمری|320]]-[[سنہ 420 ہجری قمری|420ھ]]) اس سوال کے جواب میں کہ کیوں دین تعلیمات میں والدین کے ساتھ احسان کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی تاکید ہوئی ہے جبکہ والدین پر اولاد کے حقوق کی رعایت کرنے کے حوالے سے ایسی تاکید دیکھنے کو نہیں ملتی؟ کہتے ہیں کہ والدین اپنی اولاد کو اپنے سے جدا کوئی اور چیز تصور نہیں کرتے اس بنا پر والدین جس طرح اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں اپنی اولاد سے بھی محبت رکھتے ہیں اور ان کی ترقی کو گویا اپنی ترقی شمار کرتے ہیں، لیکن اولاد والدین کی نسبت ایسا تصور نہیں رکھتے ہیں۔<ref>مسکویہ، تہذیب الأخلاق، 1426ق، ص233۔</ref> | ||
{{جعبہ نقل قول | عنوان = [[امام سجاد علیہالسلام|امام سجادؑ]]: | نقل قول = [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہا: کوئی ایسا برا کام اس دنیا میں نہیں ہے جسے میں نے انجام نہ دیا ہو، آیا میرے لئے توبہ اور واپسی کا کوئی راستہ ہے؟ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا آیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہیں؟ اس شخص نے کہا ہاں میرے والد زندہ ہیں، پیغمیر اکرمؐ نے فرمایا جاؤ جا کر اپنے والد کے ساتھ نیکی کرو۔ جب وہ شخص آپؐ کے پاس سے رخصت ہوا تو آپؐ نے فرمایا اے کاش اس کی والدہ زندہ ہوتی۔| منبع = کوفی اہوازی، الزہد، 1399ق، ص35۔ | تراز = چپ| عرض = 230px| | {{جعبہ نقل قول | عنوان = [[امام سجاد علیہالسلام|امام سجادؑ]]: | نقل قول = [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہا: کوئی ایسا برا کام اس دنیا میں نہیں ہے جسے میں نے انجام نہ دیا ہو، آیا میرے لئے توبہ اور واپسی کا کوئی راستہ ہے؟ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا آیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہیں؟ اس شخص نے کہا ہاں میرے والد زندہ ہیں، پیغمیر اکرمؐ نے فرمایا جاؤ جا کر اپنے والد کے ساتھ نیکی کرو۔ جب وہ شخص آپؐ کے پاس سے رخصت ہوا تو آپؐ نے فرمایا اے کاش اس کی والدہ زندہ ہوتی۔| منبع = کوفی اہوازی، الزہد، 1399ق، ص35۔ | تراز = چپ| عرض = 230px| پس زمینہ = #eefffb | تراز منبع = چپ}} | ||
==والدہ کے حقوق پر خصوصی توجہ== | ==والدہ کے حقوق پر خصوصی توجہ== |