"سورہ تکاثر" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م (Text replacement - "{{حوالہ جات|2}}" to "{{حوالہ جات}}") |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 20: | سطر 20: | ||
تفسیر [[مجمع البیان]] میں اس سورت کے چند ایک [[شأن نزول]] بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کے بارے میں یوں کہا گیا ہے۔یہ سورت | تفسیر [[مجمع البیان]] میں اس سورت کے چند ایک [[شأن نزول]] بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کے بارے میں یوں کہا گیا ہے۔یہ سورت | ||
[[قریش]] کے دو قبیلے [[عبدمناف بن قصی]] کی اولاد اور سہم بن عمر کی اولاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مال و ثروت اور اولاد اور تعداد کی کثرت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک دوسرے پر تفاخر کرتے تھے اس طرح اپنے اشراف کی گنتی کی تو بنی عبدمناف کے اشراف زیادہ ہوئے اسی وجہ سے سہم کی اولاد نے کہا مردوں کی بھی گنتی کرتے ہیں اور یوں قبرستان جاکر قبروں کی گنتی شروع کی۔ اس کام کے بعد سہم کی اولاد عبدمناف کی اولاد سے زیادہ ہوئی؛ کیونکہ [[جاہلیت]] کے دور میں وہ باقیوں سے زیادہ تھے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۱۱.</ref> | [[قریش]] کے دو قبیلے [[عبدمناف بن قصی]] کی اولاد اور سہم بن عمر کی اولاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مال و ثروت اور اولاد اور تعداد کی کثرت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک دوسرے پر تفاخر کرتے تھے اس طرح اپنے اشراف کی گنتی کی تو بنی عبدمناف کے اشراف زیادہ ہوئے اسی وجہ سے سہم کی اولاد نے کہا مردوں کی بھی گنتی کرتے ہیں اور یوں قبرستان جاکر قبروں کی گنتی شروع کی۔ اس کام کے بعد سہم کی اولاد عبدمناف کی اولاد سے زیادہ ہوئی؛ کیونکہ [[جاہلیت]] کے دور میں وہ باقیوں سے زیادہ تھے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۱۱.</ref> | ||
== آیت أَلْہَاكُمُ التَّكَاثُرُ امام علی کے کلام میں == | |||
[[امام علی علیہالسلام|امام علیؑ]] نے [[نہج البلاغہ]] کے ایک خطبے میں آیت أَلْہَاكُمُ التَّكَاثُرُ کی تشریح کی ہے۔ امامؑ سورہ تکاثر کی پہلی دو آیتوں کی تلاوت کے بعد مردوں سے عبرت لینے کے بجائے انہیں فخر و مباہات کا وسیلہ قرار دیتے پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ انسان کو چاہئے کہ وہ موت پر فخر کرنے کی بجائے اپنے آباء و اجداد اور انسانوں میں سے لقمہ اجل بننے والے کثیر تعداد اور ان کے مقام سے عبرت حاصل کرے اور غرور و تکبر کی جگہ تواضع اور فروتنی کا اظہار کرے۔ امام علیؑ کے مطابق مردوں سے عبرت لینے کے لئے یہی کافی ہے کہ ان مردوں پر فخر و مباہات کرنے والے ان مردوں کے کھوپڑیوں پر چل رہے ہوتے ہیں اور ان کے بدن پر زراعت کر رہے ہوتے ہیں اور ان مردوں نے جو کچھ چھوڑ کر گئے ہیں یہ لوگ انہیں چیزوں کو کھا رہے ہوتے ہیں اور ان کے ویران گھروں میں یہ لوگ سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ایک دن یہی مردے صاحب عزت اور فخر و مباہات کے مالک تھے۔ یہ لوگ یا خود پادشاہ تھے یا کسی پادشاہ کی رعیت میں سرفرازی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک یہ لوگ [[برزخ]] پہنچ گئے اور زمین نے انہیں دھنس لی، ان کے بدن کے گوشت کھا لیا گیا، ان کا خون چوس لیا گیا اور اب یہ لوگ قبر کی تنگ کوٹھری میں بے جان پڑے ہوئے ہیں۔<ref>نہج البلاغہ، خ ۲۲۱ ترجمہ محمد دشتی، http://farsi.balaghah.net/content/</ref> | |||
==اہل بیتؑ کی نعمت اور اس کے بارے میں سوال== | ==اہل بیتؑ کی نعمت اور اس کے بارے میں سوال== | ||
سورہ تکاثر کی آخری آیت میں کہا گیا ہے کہ آخرت میں نعمت کے بارے میں سوال ہوگا (یعنی کہاں پر اسے استعمال کیا)۔ [[امام صادقؑ]] سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس آیت میں نعمت سے مراد اہلبیتؑ ہیں۔ اس روایت میں کہا گیا ہے کہ [[اہل سنت]] کے مشہور عالم دین [[ابوحنیفہ]] نے امام صادقؑ سے اس [[آیت]] کا معنی پوچھا۔ تو امام نے اسے کہا تمہارے خیال میں اس آیت میں «نعیم» سے کیا مراد ہے تو ابوحنیفہ نے کہا: اس سے مراد کھانے پینے والی چیزیں ہیں۔ امام صادقؑ نے فرمایا: اگر [[قیامت]] کے دن اللہ تعالی تمہارے ہر لقمہ غذا اور ہر گھونٹ پانی کے بارے میں سوال کرنے کے لیے اپنے پاس کھڑا رکھے تو بہت سارا وقت وہاں رہنا ہوگا، جبکہ اس «نعیم» سے مراد ہم اہل بیت ہیں کہ اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت قرار دیا اور آپس میں جوڑ دیا جبکہ پہلے آپس میں اختلاف تھا اور آپس میں دشمن تھے، اور ہمارے ذریعے سے ان کو [[اسلام]] کی ہدایت دی۔ اور اسی نعمت کے بارے میں اللہ تعالی پوچھیں گے یعنی پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ۔{{حوالہ درکار}} | سورہ تکاثر کی آخری آیت میں کہا گیا ہے کہ آخرت میں نعمت کے بارے میں سوال ہوگا (یعنی کہاں پر اسے استعمال کیا)۔ [[امام صادقؑ]] سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس آیت میں نعمت سے مراد اہلبیتؑ ہیں۔ اس روایت میں کہا گیا ہے کہ [[اہل سنت]] کے مشہور عالم دین [[ابوحنیفہ]] نے امام صادقؑ سے اس [[آیت]] کا معنی پوچھا۔ تو امام نے اسے کہا تمہارے خیال میں اس آیت میں «نعیم» سے کیا مراد ہے تو ابوحنیفہ نے کہا: اس سے مراد کھانے پینے والی چیزیں ہیں۔ امام صادقؑ نے فرمایا: اگر [[قیامت]] کے دن اللہ تعالی تمہارے ہر لقمہ غذا اور ہر گھونٹ پانی کے بارے میں سوال کرنے کے لیے اپنے پاس کھڑا رکھے تو بہت سارا وقت وہاں رہنا ہوگا، جبکہ اس «نعیم» سے مراد ہم اہل بیت ہیں کہ اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت قرار دیا اور آپس میں جوڑ دیا جبکہ پہلے آپس میں اختلاف تھا اور آپس میں دشمن تھے، اور ہمارے ذریعے سے ان کو [[اسلام]] کی ہدایت دی۔ اور اسی نعمت کے بارے میں اللہ تعالی پوچھیں گے یعنی پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ۔{{حوالہ درکار}} |