"چودہ معصومین" کے نسخوں کے درمیان فرق
←چودہ معصومین کا مقام
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 6: | سطر 6: | ||
== چودہ معصومین کا مقام == | == چودہ معصومین کا مقام == | ||
{{اصلی|عصمت}} | {{اصلی|عصمت}} | ||
چودہ معصومین [[شیعہ|شیعوں]] کے یہاں رائج ایک عنوان ہے جسے وہ [[پیغمبر اکرم(ص)|پیغمبر اکرمؐ]]، [[حضرت فاطمہ(س)]] اور اپنے [[بارہ امام|بارہ اماموں]] پر اطلاق کرتے ہیں اور یہ عنوان ان ہستیوں کی [[عصمت]] کے صفت سے لیا گیا ہے{{حوالہ درکار}} | چودہ معصومین [[شیعہ|شیعوں]] کے یہاں رائج ایک عنوان ہے جسے وہ [[پیغمبر اکرم(ص)|پیغمبر اکرمؐ]]، [[حضرت فاطمہ(س)]] اور اپنے [[بارہ امام|بارہ اماموں]] پر اطلاق کرتے ہیں اور یہ عنوان ان ہستیوں کی [[عصمت]] کے صفت سے لیا گیا ہے{{حوالہ درکار}} | ||
[[امامیه|شیعه امامیه]] کے مطابق چودہ معصومینؑ تمام [[گناه|گناهوں]] چاہے [[گناهان کبیره|کبیره]] ہوں یا صغیرہ ا ور ہر قسم کے سهو اور خطا سے معصوم ہوتے ہیں۔<ref>عصمت پیامبر(ص) کے لئے ملاحظہ کریں: علامه حلی، كشف المراد في شرح تجريد الاعتقاد قسم الالهيات، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵و۱۵۶؛ لاهیجی، سرمايه ايمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۹۰. عصمت حضرت فاطمه(س) کے لئے ملاحظہ کریں: سیدمرتضی، الشافی فی الامامة، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۹۵؛ سبحانی، الاهیات علی هدی الکتاب و السنة و العقل، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۲۹. عصمت ائمه(ع) کے لئے ملاحظہ کریں: علامه حلی، كشف المراد في شرح تجريد الاعتقاد قسم الالهيات، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۴؛ فیاض لاهیجی، سرمايه ايمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۴و۱۱۵؛ مجلسی، امام شناسی، ۱۳۸۴ش، ص۴۹-۶۱.</ref> | [[امامیه|شیعه امامیه]] کے مطابق چودہ معصومینؑ تمام [[گناه|گناهوں]] چاہے [[گناهان کبیره|کبیره]] ہوں یا صغیرہ ا ور ہر قسم کے سهو اور خطا سے معصوم ہوتے ہیں۔<ref>عصمت پیامبر(ص) کے لئے ملاحظہ کریں: علامه حلی، كشف المراد في شرح تجريد الاعتقاد قسم الالهيات، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۵و۱۵۶؛ لاهیجی، سرمايه ايمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۹۰. عصمت حضرت فاطمه(س) کے لئے ملاحظہ کریں: سیدمرتضی، الشافی فی الامامة، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۹۵؛ سبحانی، الاهیات علی هدی الکتاب و السنة و العقل، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۲۹. عصمت ائمه(ع) کے لئے ملاحظہ کریں: علامه حلی، كشف المراد في شرح تجريد الاعتقاد قسم الالهيات، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۴؛ فیاض لاهیجی، سرمايه ايمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۴و۱۱۵؛ مجلسی، امام شناسی، ۱۳۸۴ش، ص۴۹-۶۱.</ref> |