confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{اسلام-عمودی}} | {{اسلام-عمودی}} | ||
'''بعثت''' [[حضرت محمدؐ]] کے [[نبوت|پیغمبری]] پر مبعوث ہونے اور ان کی رسالت کے آغاز کو کہا جاتا ہے جو [[27 رجب]]، چالیس عام الفیل کو واقع ہوا۔ اسی لئے [[شیعہ]] 27 رجب کو '''عید مبعث''' کے عنوان سے مناتے ہیں۔ رسول اکرم کی بعثت [[دین اسلام]] کا آغاز اور [[حجاز]] کی سرزمین سے بت پرستی ختم ہونے کی ابتدا تھی۔ | '''بعثت''' [[حضرت محمدؐ]] کے [[نبوت|پیغمبری]] پر مبعوث ہونے اور ان کی رسالت کے آغاز کو کہا جاتا ہے جو [[27 رجب]]، چالیس عام الفیل کو واقع ہوا۔ اسی لئے [[شیعہ]] 27 رجب کو '''عید مبعث''' کے عنوان سے مناتے ہیں۔ رسول اکرم کی بعثت [[دین اسلام]] کا آغاز اور [[حجاز]] کی سرزمین سے بت پرستی ختم ہونے کی ابتدا تھی۔ | ||
===بعثت کے معنی === | ===بعثت کے معنی=== | ||
بعثت، [[خدا]] کی طرف سے کسی شخص کا پیغمبری کے لئے منتخب ہونے اور اس کی نبوت کے آغاز کو کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بعثت تمام [[انبیاءؑ]] کا نبوت پر مبعوث ہونے کو کہا جاتا ہے لیکن اس لفظ سے [[حضرت محمدؐ]] کا انتخاب ذہن میں آتا ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: مطیع، «بعثت»، ص۷۹-۲۸۰.</ref> اسی لئے اسلامی تہذیب میں مبعث یا عید مبعث اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمدؐ]] رسالت پر مبعوث ہوئے۔<ref>ہمایی، «مبحث بعثت رسول اکرمؐ»، ص۴۴.</ref> | بعثت، [[خدا]] کی طرف سے کسی شخص کا پیغمبری کے لئے منتخب ہونے اور اس کی نبوت کے آغاز کو کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بعثت تمام [[انبیاءؑ]] کا نبوت پر مبعوث ہونے کو کہا جاتا ہے لیکن اس لفظ سے [[حضرت محمدؐ]] کا انتخاب ذہن میں آتا ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: مطیع، «بعثت»، ص۷۹-۲۸۰.</ref> اسی لئے اسلامی تہذیب میں مبعث یا عید مبعث اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمدؐ]] رسالت پر مبعوث ہوئے۔<ref>ہمایی، «مبحث بعثت رسول اکرمؐ»، ص۴۴.</ref> | ||
[[ملف:غار حراء.jpg|تصغیر|240px|چپ|[[غار حراء]] جہاں [[پیغمبر اکرمؐ]] پر پہلی وحی نازل ہوئی]] | [[ملف:غار حراء.jpg|تصغیر|240px|چپ|[[غار حراء]] جہاں [[پیغمبر اکرمؐ]] پر پہلی وحی نازل ہوئی]] | ||
سطر 13: | سطر 13: | ||
==رسول اللہ کی بعثت کے آغاز کا واقعہ== | ==رسول اللہ کی بعثت کے آغاز کا واقعہ== | ||
[[حضرت محمدؐ]] غار حراء میں [[عبادت]] میں مشغول تھے اسی اثنا میں [[سورہ علق]] کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا اور [[سورہ مدثر]] کی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ وحی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۱، ص۲۳۶-۲۳۷؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۲۹۸</ref>پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ [[حضرت خدیجہؑ]]اور اپنے چچا زاد بھائی [[حضرت علیؑ]] کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ اس واقعے کے تین سال بعد [[سورہ شعراء]] کی آیت نمبر 214 <font color=green>{{حدیث|'''وَأَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ'''|ترجمہ=اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے}}</font> کے نزول کے ساتھ آپؐ کی رسالت اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہوگئی اور اسی سال [[سورہ حجر]] کی آیت نمبر 94<font color=green>{{حدیث|فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکینَ|ترجمہ= پس جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے اسے انجام دو اور مشرکان سے دوری اختیار کرو}} </font> کے نزول کے ذریعے آپؐ کو اپنی پیغمبری کا عمومی اعلان کرتے ہوئے اپنی دعوت کے دائرہ کو وسیع کرنے کا حکم آیا یوں آپؐ نے پہلی بار بازار عکاظ{{نوٹ| عُکاظ مکہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ (عرفات کے قریب اور مکہ تک تین دین کا جبکہ طائف تک ایک دن کا راستہ تھا۔) لوگ پہلی مرتبہ یکم [[ذی القعدہ]] کو بازارِ عکاظ جاتے تھے اور 20 دن تک وہاں رہتے تھے۔ ان دنوں بازار میں بڑی بھیڑ رہتی تھی اور متعدد معاملے انجام پاتے تھے، شعرا اشعار پڑھتے تھے۔ عرب قبائل کے سردار وہاں جمع ہوکر ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے تھے اور کبھی عیش و نوش میں مشغول ہوتے تھے۔ یہ بازار طائف سے دس میل کے فاصلے پر صنعا کے راستے پر واقع تھی۔ اور چونکہ [[جاہلیت]] کے حالات سے سازگار اور جاہلیت کے لئے قابل قبول بازار تھا اس لئے جاہلیت کا مشہور بازار شمار ہوتا تھا۔ ابن منظور، لسان العرب، ج۷، ص۴۴۸ نشر دارصادر، بيروت، طبع سوم۱۴۱۴ھ}} میں جہاں پر سب لوگ تجارت کے لئے جمع تھے اور کچھ لوگ بلندی پر چڑھ کر اپنے نئے اشعار اور مختلف قصے سنانے میں مشغول تھے، عمومی طور پر [[دین اسلام]] کی دعوت دی۔{{حوالہ درکار}}[[ابو لہب]] اور بعض دوسروں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے آپؐ کو اذیت وآزار پہنچائی لیکن [[حضرت ابوطالب]] نے آپؐ کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کی تنبیہ کی۔<ref>یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد ۲، ص۱۷- ۱۸</ref> | [[حضرت محمدؐ]] غار حراء میں [[عبادت]] میں مشغول تھے اسی اثنا میں [[سورہ علق]] کی پہلی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ آپؐ کی بعثت کا آغاز ہوا اور [[سورہ مدثر]] کی چند آیتوں کے نزول کے ساتھ وحی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۱، ص۲۳۶-۲۳۷؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۲۹۸</ref>پیغمبر اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ [[حضرت خدیجہؑ]]اور اپنے چچا زاد بھائی [[حضرت علیؑ]] کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ اس واقعے کے تین سال بعد [[سورہ شعراء]] کی آیت نمبر 214 <font color="green">{{حدیث|'''وَأَنذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ'''|ترجمہ=اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے}}</font> کے نزول کے ساتھ آپؐ کی رسالت اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہوگئی اور اسی سال [[سورہ حجر]] کی آیت نمبر 94<font color="green">{{حدیث|فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکینَ|ترجمہ= پس جو ذمہ داری تمہیں دی گئی ہے اسے انجام دو اور مشرکان سے دوری اختیار کرو}} </font> کے نزول کے ذریعے آپؐ کو اپنی پیغمبری کا عمومی اعلان کرتے ہوئے اپنی دعوت کے دائرہ کو وسیع کرنے کا حکم آیا یوں آپؐ نے پہلی بار بازار عکاظ{{نوٹ| عُکاظ مکہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ (عرفات کے قریب اور مکہ تک تین دین کا جبکہ طائف تک ایک دن کا راستہ تھا۔) لوگ پہلی مرتبہ یکم [[ذی القعدہ]] کو بازارِ عکاظ جاتے تھے اور 20 دن تک وہاں رہتے تھے۔ ان دنوں بازار میں بڑی بھیڑ رہتی تھی اور متعدد معاملے انجام پاتے تھے، شعرا اشعار پڑھتے تھے۔ عرب قبائل کے سردار وہاں جمع ہوکر ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے تھے اور کبھی عیش و نوش میں مشغول ہوتے تھے۔ یہ بازار طائف سے دس میل کے فاصلے پر صنعا کے راستے پر واقع تھی۔ اور چونکہ [[جاہلیت]] کے حالات سے سازگار اور جاہلیت کے لئے قابل قبول بازار تھا اس لئے جاہلیت کا مشہور بازار شمار ہوتا تھا۔ ابن منظور، لسان العرب، ج۷، ص۴۴۸ نشر دارصادر، بيروت، طبع سوم۱۴۱۴ھ}} میں جہاں پر سب لوگ تجارت کے لئے جمع تھے اور کچھ لوگ بلندی پر چڑھ کر اپنے نئے اشعار اور مختلف قصے سنانے میں مشغول تھے، عمومی طور پر [[دین اسلام]] کی دعوت دی۔{{حوالہ درکار}}[[ابو لہب]] اور بعض دوسروں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے آپؐ کو اذیت وآزار پہنچائی لیکن [[حضرت ابوطالب]] نے آپؐ کی حمایت کرتے ہوئے ان لوگوں کی تنبیہ کی۔<ref>یعقوبی، احمد، تاریخ، جلد ۲، ص۱۷- ۱۸</ref> | ||
===وحی کے فرشتے کا نزول اور پیغمبر کرمؐ کا رد عمل=== | ===وحی کے فرشتے کا نزول اور پیغمبر کرمؐ کا رد عمل=== | ||
سطر 26: | سطر 26: | ||
| حاشیه = | | حاشیه = | ||
| اندازه قلم = | | اندازه قلم = | ||
}} | |تراز منبع=چپ}} | ||
[[حضرت محمدؐ]] پر پہلی مرتبہ [[وحی]]، [[جبرائیل]] لے کر آئے تو رسالت کے اس عظیم ذمہ داری کا بوجھ آپؐ پر وزنی ہونے جارہا تھا۔ رسول اکرمؐ بچپن سے ہی اپنی اندرونی پاکی اور [[مکہ]] کے فاسد معاشرے کی وجہ سے ہمیشہ شہر سے دور اکیلا ہی رہنا پسند فرماتے تھے۔ اسی لئے آپؐ ایک مہینہ مکے کے پہاڑوں پر گزارتے اور پھر شہر واپس لوٹتے۔ آپؐ عالم غیب کے بارے میں بھی کچھ خواب دیکھے ہوئے تھے، بعثت سے پہلے وحی کی آواز فرشتے کی زبانی سننا اور ٣ سال [[اسرافیل]] اور ٢٠ سال [[جبرائیل]] سے رابطہ برقرار رکھنے<ref> یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۱۶؛ نیز ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۴۶-۵۰.</ref> کی وجہ سے آپ ذہنی طور پر پیغمبری کے لئے تیار تھے۔ | [[حضرت محمدؐ]] پر پہلی مرتبہ [[وحی]]، [[جبرائیل]] لے کر آئے تو رسالت کے اس عظیم ذمہ داری کا بوجھ آپؐ پر وزنی ہونے جارہا تھا۔ رسول اکرمؐ بچپن سے ہی اپنی اندرونی پاکی اور [[مکہ]] کے فاسد معاشرے کی وجہ سے ہمیشہ شہر سے دور اکیلا ہی رہنا پسند فرماتے تھے۔ اسی لئے آپؐ ایک مہینہ مکے کے پہاڑوں پر گزارتے اور پھر شہر واپس لوٹتے۔ آپؐ عالم غیب کے بارے میں بھی کچھ خواب دیکھے ہوئے تھے، بعثت سے پہلے وحی کی آواز فرشتے کی زبانی سننا اور ٣ سال [[اسرافیل]] اور ٢٠ سال [[جبرائیل]] سے رابطہ برقرار رکھنے<ref> یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۱۶؛ نیز ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۴۶-۵۰.</ref> کی وجہ سے آپ ذہنی طور پر پیغمبری کے لئے تیار تھے۔ | ||
البتہ بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جو [[پیغمبر اکرمؐ]] کا وحی اور فرشتوں سے ارتباط کے بارے میں ناآشنا بیان کرتی ہیں: رسول اکرمؐ کا وحی پر تعجب، یا پریشان اور خوف طاری ہونا یا جن زدگی کا خوف محسوس کرنا، خدیجہ سے مشورہ کرنا اور ورقہ بن نوفل سے پیغمبری پر مبعوث ہونے کی شہادت اور تائید لینا اور اس پر رسول اللہؐ کا سکون محسوس کرنا اس طرح کی روایات کا مضمون ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۱، ص۲۳۸؛ یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۱۷؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۲۹۹</ref>اس طرح کی روایات آپؐ کی رسالت کی اس بھاری ذمہ داری میں آپکی بصیرت و بینش اور آپ کی رسالت کے لئے ہونے والی تربیت کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔<ref>مرتضی عاملی، الصحیح، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۲۹۸-۳۰۲؛ سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۲۲۳-۲۲۵.</ref> | البتہ بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جو [[پیغمبر اکرمؐ]] کا وحی اور فرشتوں سے ارتباط کے بارے میں ناآشنا بیان کرتی ہیں: رسول اکرمؐ کا وحی پر تعجب، یا پریشان اور خوف طاری ہونا یا جن زدگی کا خوف محسوس کرنا، خدیجہ سے مشورہ کرنا اور ورقہ بن نوفل سے پیغمبری پر مبعوث ہونے کی شہادت اور تائید لینا اور اس پر رسول اللہؐ کا سکون محسوس کرنا اس طرح کی روایات کا مضمون ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۱، ص۲۳۸؛ یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۱۷؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۲۹۹</ref>اس طرح کی روایات آپؐ کی رسالت کی اس بھاری ذمہ داری میں آپکی بصیرت و بینش اور آپ کی رسالت کے لئے ہونے والی تربیت کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔<ref>مرتضی عاملی، الصحیح، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۲۹۸-۳۰۲؛ سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۵ش، ص۲۲۳-۲۲۵.</ref> | ||
سطر 34: | سطر 35: | ||
==اعمال== | ==اعمال== | ||
=== شب و روز کے اعمال=== | ===شب و روز کے اعمال=== | ||
روایات میں مبعث کی رات اور دن کے بعض اعمال ذکر ہوئے ہیں جن کو انجام دینا [[مستحب]] ہے۔ | روایات میں مبعث کی رات اور دن کے بعض اعمال ذکر ہوئے ہیں جن کو انجام دینا [[مستحب]] ہے۔ | ||
{| class="wikitable" style="width: 100%; background:#F6F9FF; font-size:100%; border:9px; text-align: justify;" | {| class="wikitable" style="width: 100%; background:#F6F9FF; font-size:100%; border:9px; text-align: justify;" | ||
|- | |- | ||
|colspan="2" style="padding: 0 0 0 10px; background:#FFF7F0; text-align:center; font-size:100%; font-weight:bold;"| | | colspan="2" style="padding: 0 0 0 10px; background:#FFF7F0; text-align:center; font-size:100%; font-weight:bold;" |مبعث کے دن اور رات کے اعمال | ||
|- | |- | ||
| رات کے اعمال | |رات کے اعمال | ||
| | | | ||
*[[غسل]] کرنا | *[[غسل]] کرنا | ||
سطر 57: | سطر 58: | ||
|} | |} | ||
== نوٹ == | ==نوٹ== | ||
{{یادداشتها}} | {{یادداشتها}} | ||
== حوالہ جات == | ==حوالہ جات== | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
== مآخذ == | ==مآخذ== | ||
{{مآخذ}} | {{مآخذ}} | ||
* قرآن کریم، [http://tanzil.net تنزیل ویب سائٹ]. | * قرآن کریم، [http://tanzil.net تنزیل ویب سائٹ]. |