مندرجات کا رخ کریں

"حديث ثقلین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 70: سطر 70:


==اعتبار حدیث==
==اعتبار حدیث==
شیعہ علما حدیث ثقلین کو  [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص130؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ھ، ص670؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6،‌ ص240؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص106؛ شرف‌الدین، المراجعات،‌ 1426ھ، ص70.</ref> 12ویں صدی ہجری کے شیعہ محدث [[یوسف بن احمد بحرانی|صاحبْ‌ حَدائق]] کے مطابق یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان [[تواتر معنوی|متواتر معنوی]] ہے۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص360.</ref> گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین [[محمدصالح بن احمد مازندرانی|ملا صالح مازندرانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے مضمون اور اس کے صحیح ہونے میں شیعہ اور اہل‌ سنت کا اتفاق ہے۔<ref>مازندرانی، شرح‌الکافی، 1382ھ، ج6، ص124، ج10، ص118؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص19.</ref> شیعہ متکلم؛ [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں سوائے جاہل اور دشمن کے کوئی اور شک نہیں کرسکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی۔ ص232.</ref>  
شیعہ علما حدیث ثقلین کو  [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص130؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ھ، ص670؛ مظفر، دلائل‌ الصدھ، 1422ھ، ج6،‌ ص240؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص106؛ شرف‌الدین، المراجعات،‌ 1426ھ، ص70.</ref> 12ویں صدی ہجری کے شیعہ محدث [[یوسف بن احمد بحرانی|صاحبْ‌ حَدائق]] کے مطابق یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان [[تواتر معنوی|متواتر معنوی]] ہے۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص360.</ref> گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین [[محمدصالح بن احمد مازندرانی|ملا صالح مازندرانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے مضمون اور اس کے صحیح ہونے میں شیعہ اور اہل‌ سنت کا اتفاق ہے۔<ref>مازندرانی، شرح‌الکافی، 1382ھ، ج6، ص124، ج10، ص118؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص19.</ref> شیعہ متکلم؛ [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں سوائے جاہل اور دشمن کے کوئی اور شک نہیں کرسکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی۔ ص232.</ref>  


[[صحیح البخاری (کتاب)|صحیح بخاری]] کے بعد اہل سنت کی سب سے اہم کتاب [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، ج4،‌ ص1873، حدیث 36.</ref> کے علاوہ اہل سنت کے محدث [[حاکم نیشابوری]] نے بھی [[المستدرک علی الصحیحین (کتاب)|المستدرک]] میں حدیث ثقلین کو [[زید بن ارقم|زید بن اَرقم]] سے نقل کیا ہے۔  اور  [[محمد بن اسماعیل بخاری|بُخاری]] و [[مسلم بن حجاج نیشابوری|مُسْلم نیشابوری]] کے تصریح کردہ شرائط کے مطابق اس حدیث کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص160.</ref>شافعی عالم دین [[ابن حجر ہیتمی|ابن‌حَجَر ہَیْتَمی]] نے بھی اس حدیث کو صحیح جانا ہے۔<ref>ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص439 و 653.</ref> عبدالرَّؤُوف مَناوی اپنی کتاب فَیْضُ‌القَدیر میں ہیثمی سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، 1391ھ، ج3، ص15.</ref> شافعی عالم دین علی بن عبداللہ سَمْہودی اپنی کتاب [[جواہر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواہِرُ العِقْدَیْن]] میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو [[احمد بن حنبل|احمد بن حَنْبَل]] اپنی کتاب مُسند احمد میں صحیح اسناد سے اور سلیمان‌ بن‌ احمد طَبَرانی اپنی کتاب مُعْجَمُ‌ الکبیر میں اس روایت کو ثقہ راویوں کی سند سے نقل کیا ہے۔<ref>سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول، ص82.</ref>
[[صحیح البخاری (کتاب)|صحیح بخاری]] کے بعد اہل سنت کی سب سے اہم کتاب [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، ج4،‌ ص1873، حدیث 36.</ref> کے علاوہ اہل سنت کے محدث [[حاکم نیشابوری]] نے بھی [[المستدرک علی الصحیحین (کتاب)|المستدرک]] میں حدیث ثقلین کو [[زید بن ارقم|زید بن اَرقم]] سے نقل کیا ہے۔  اور  [[محمد بن اسماعیل بخاری|بُخاری]] و [[مسلم بن حجاج نیشابوری|مُسْلم نیشابوری]] کے تصریح کردہ شرائط کے مطابق اس حدیث کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص160.</ref>شافعی عالم دین [[ابن حجر ہیتمی|ابن‌حَجَر ہَیْتَمی]] نے بھی اس حدیث کو صحیح جانا ہے۔<ref>ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص439 و 653.</ref> عبدالرَّؤُوف مَناوی اپنی کتاب فَیْضُ‌القَدیر میں ہیثمی سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، 1391ھ، ج3، ص15.</ref> شافعی عالم دین علی بن عبداللہ سَمْہودی اپنی کتاب [[جواہر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواہِرُ العِقْدَیْن]] میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو [[احمد بن حنبل|احمد بن حَنْبَل]] اپنی کتاب مُسند احمد میں صحیح اسناد سے اور سلیمان‌ بن‌ احمد طَبَرانی اپنی کتاب مُعْجَمُ‌ الکبیر میں اس روایت کو ثقہ راویوں کی سند سے نقل کیا ہے۔<ref>سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول، ص82.</ref>
سطر 135: سطر 135:
*حدیث ثقلین میں اہل بیتؑ کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے اسی لئے قرآن کی طرح ان کی پیروی اور ان سے تمسک کرنا بھی واجب ہے۔ [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] اور امام معصومؑ کے علاوہ کسی اور کی بغیر شرط کے پیروی کرنا واجب نہیں ہے۔
*حدیث ثقلین میں اہل بیتؑ کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے اسی لئے قرآن کی طرح ان کی پیروی اور ان سے تمسک کرنا بھی واجب ہے۔ [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] اور امام معصومؑ کے علاوہ کسی اور کی بغیر شرط کے پیروی کرنا واجب نہیں ہے۔
*بعض نسخوں میں ثقلین کی جگہ «خلیفتین» (دو خلیفے) کا لفظ آیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کسی شخص کی خلافت اس کی امامت اور امت کی ضرورت کے امور کی انجام دہی سے وابستہ ہے۔
*بعض نسخوں میں ثقلین کی جگہ «خلیفتین» (دو خلیفے) کا لفظ آیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کسی شخص کی خلافت اس کی امامت اور امت کی ضرورت کے امور کی انجام دہی سے وابستہ ہے۔
*حدیث میں آیا ہے کہ  جو شخص ثقلین کی پیروی کرے گا وہ ہرگز گمراہ نہیں ہوگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے امت کے گمراہ نہ ہونے کو ثقلین کی پیروی سے مربوط کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص241-244.</ref>
*حدیث میں آیا ہے کہ  جو شخص ثقلین کی پیروی کرے گا وہ ہرگز گمراہ نہیں ہوگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے امت کے گمراہ نہ ہونے کو ثقلین کی پیروی سے مربوط کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ مظفر، دلائل‌ الصدھ، 1422ھ، ج6، ص241-244.</ref>
بعض کا کہنا ہے کہ اگر شیعوں کے پاس امام علیؑ کی جانشینی اور خلافت پر حدیث ثقلین کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو بھی مخالفوں کے مقابلے میں یہی ایک حدیث کافی تھی۔<ref>ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص132.</ref>
بعض کا کہنا ہے کہ اگر شیعوں کے پاس امام علیؑ کی جانشینی اور خلافت پر حدیث ثقلین کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو بھی مخالفوں کے مقابلے میں یہی ایک حدیث کافی تھی۔<ref>ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص132.</ref>


سطر 141: سطر 141:
[[محمد حسن مظفر]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں بعض ایسے فقرے ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ [[قیامت]] تک عترت پیغمبر میں سے کوئی دنیا میں باقی رہے۔ وہ فقرے درج ذیل ہیں:
[[محمد حسن مظفر]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں بعض ایسے فقرے ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ [[قیامت]] تک عترت پیغمبر میں سے کوئی دنیا میں باقی رہے۔ وہ فقرے درج ذیل ہیں:
*عبارت «اِن تَمَسَّکْتُم بِہِما لَن تَضِّلّوا» (ثقلین سے تمسک سے انسان ہرگز گمراہ نہیں ہوگا): ہرگز گمراہ نہ ہونا اس بات پر مبتنی ہے کہ جس پر تمسک کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ موجود ہو۔
*عبارت «اِن تَمَسَّکْتُم بِہِما لَن تَضِّلّوا» (ثقلین سے تمسک سے انسان ہرگز گمراہ نہیں ہوگا): ہرگز گمراہ نہ ہونا اس بات پر مبتنی ہے کہ جس پر تمسک کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ موجود ہو۔
*عبارت «لَن یَفتَرِقا» (قرآن و عترت میں جدائی ناممکن ہونا)، اگر کسی وقت عترت میں سے کوئی نہ ہو تو قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی لازم آئے گی۔ لہذا عترت میں سے کوئی ہمیشہ کے لئے دنیا میں موجود ہونا چاہئے۔<ref>مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص246.</ref>
*عبارت «لَن یَفتَرِقا» (قرآن و عترت میں جدائی ناممکن ہونا)، اگر کسی وقت عترت میں سے کوئی نہ ہو تو قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی لازم آئے گی۔ لہذا عترت میں سے کوئی ہمیشہ کے لئے دنیا میں موجود ہونا چاہئے۔<ref>مظفر، دلائل‌ الصدھ، 1422ھ، ج6، ص246.</ref>
[[ناصر مکارم شیرازی |ناصر مکارم شیرازی]] کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ جملہ کہ «یہ دونوں ہمیشہ ساتھ ہیں یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں» سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تاریخ میں اہل بیتؑ میں سے ایک معصوم پیشوا ہمیشہ سے موجود ہو۔ جس طرح سے قرآن ہمیشہ کے لئے چراغِ ہدایت ہے اہل بیتؑ بھی چراغ ہدایت ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75.</ref>
[[ناصر مکارم شیرازی |ناصر مکارم شیرازی]] کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ جملہ کہ «یہ دونوں ہمیشہ ساتھ ہیں یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں» سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تاریخ میں اہل بیتؑ میں سے ایک معصوم پیشوا ہمیشہ سے موجود ہو۔ جس طرح سے قرآن ہمیشہ کے لئے چراغِ ہدایت ہے اہل بیتؑ بھی چراغ ہدایت ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75.</ref>


سطر 196: سطر 196:
آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت اشعری مذہب کے متکلم سعد الدین تفتازانی کہتے ہیں کہ حدیث ثقلین میں اس بات کا اشارہ ہے کہ اہل بیتؑ باقیوں پر برتری رکھتے ہیں اور اس برتری کا معیار علم اور تقوی اور نسبی شرافت ہے۔ یہ بات اہل بیت کا قرآن کے ساتھ ذکر کرنے اور ان سے تمسک کرنا واجب ہونے سے معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ قرآن سے تمسک کرنا قرآن اور اہل بیت کے علم اور ہدایت پر عمل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔<ref>تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ھ، ج5، ص302، 303.</ref>  
آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت اشعری مذہب کے متکلم سعد الدین تفتازانی کہتے ہیں کہ حدیث ثقلین میں اس بات کا اشارہ ہے کہ اہل بیتؑ باقیوں پر برتری رکھتے ہیں اور اس برتری کا معیار علم اور تقوی اور نسبی شرافت ہے۔ یہ بات اہل بیت کا قرآن کے ساتھ ذکر کرنے اور ان سے تمسک کرنا واجب ہونے سے معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ قرآن سے تمسک کرنا قرآن اور اہل بیت کے علم اور ہدایت پر عمل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔<ref>تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ھ، ج5، ص302، 303.</ref>  


نویں اور دسویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین [[فضل بن روزبہان]] کے مطابق حدیث ثقلین گفتار اور عمل میں اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک، ان کا احترام اور مودت پر دلالت کرتی ہے لیکن امامت اور خلافت میں تصریح نہیں ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص238، 239.</ref>
نویں اور دسویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین [[فضل بن روزبہان]] کے مطابق حدیث ثقلین گفتار اور عمل میں اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک، ان کا احترام اور مودت پر دلالت کرتی ہے لیکن امامت اور خلافت میں تصریح نہیں ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مظفر، دلائل‌ الصدھ، 1422ھ، ج6، ص238، 239.</ref>


==مونوگراف==
==مونوگراف==
سطر 274: سطر 274:
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
* مسلم نیشابوری، مسلم بن‌ حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
* مسلم نیشابوری، مسلم بن‌ حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
* مظفر، محمدحسن، دلائل‌الصدھ، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ اول، 1422ھ۔
* مظفر، محمدحسن، دلائل‌ الصدھ، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ اول، 1422ھ۔
* معزی ملایری، اسماعیل، جامع احادیث الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، تحت اشراف و نظارت سید حسین طباطبایی بروجردی، قم، نشر مؤلف، 1373شمسی/1415ھ۔
* معزی ملایری، اسماعیل، جامع احادیث الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، تحت اشراف و نظارت سید حسین طباطبایی بروجردی، قم، نشر مؤلف، 1373شمسی/1415ھ۔
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللّہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللّہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم