مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ افک" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{دربارہ 2|واقعہ افک| قرآن میں واقعہ افک سے آشنائی کے لئے |آیات افک}}
{{دربارہ 2|واقعہ افک| قرآن میں واقعہ افک سے آشنائی کے لئے |آیات افک}}
{{تاریخ صدر اسلام}}
{{تاریخ صدر اسلام}}
'''واقعہ اِفک''' اس صدر اسلام کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جس میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے ازواج رسول میں سے کسی ایک پر فحشا کی تہمت لگائی تھی۔ محققین نے اس واقعے کو منافقین کی طرف سے حکومتِ نبوی کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ اس سے وہ پیغمبر اکرمؐ کی شخصیت کشی اور آپ کی قیادت کی صلاحت کو مخدوش کرنا چاہتے تھے؛ لیکن اللہ تعالی نے [[آیات افک]] کے ذریعے ان کی سازشوں کو ناکام کیا۔
'''واقعہ اِفک''' اس صدر اسلام کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جس میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے ازواج رسول میں سے کسی ایک پر فحشا کی تہمت لگائی تھی۔ محققین نے اس واقعے کو منافقین کی طرف سے حکومتِ نبوی کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ اس سے وہ پیغمبر اکرمؐ کی شخصیت کشی اور آپ کی قیادت کی صلاحت کو مخدوش کرنا چاہتے تھے؛ لیکن اللہ تعالی نے [[آیات افک]] کے ذریعے ان کی سازشوں کو ناکام کیا۔


سطر 7: سطر 6:


عایشہ پر الزام لگانے کا واقعہ اہل سنت کے ہاں مسلم ہے اور شیعوں کے ہاں بھی مشہور ہے۔ [[شیخ مفید]] اور [[شیخ طوسی]]  وغیرہ نے آیت کے [[اسباب نزول|سبب نزول]] کو مان لیا ہے؛ لیکن بعض محققین کا کہنا ہے کہ بات سند اور متن دونوں حوالے سے قابل اشکال ہے۔ اس پر متعدد اشکالات وارد ہوتی ہیں جیسے پیغمبر اکرمؐ کا عایشہ پر سوء ظن رکھنا، کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی عصمت سے سازگار نہیں ہے نیز اس اہم کام میں پیغمبر اکرم کا ایک چھوٹے بچے سے مشورت لینا اور اسی طرح دوسری جنگوں میں ازواج رسول کا ساتھ نہ آنا۔ اسی لئے یہ بات نہیں مانی جاسکتی ہے۔
عایشہ پر الزام لگانے کا واقعہ اہل سنت کے ہاں مسلم ہے اور شیعوں کے ہاں بھی مشہور ہے۔ [[شیخ مفید]] اور [[شیخ طوسی]]  وغیرہ نے آیت کے [[اسباب نزول|سبب نزول]] کو مان لیا ہے؛ لیکن بعض محققین کا کہنا ہے کہ بات سند اور متن دونوں حوالے سے قابل اشکال ہے۔ اس پر متعدد اشکالات وارد ہوتی ہیں جیسے پیغمبر اکرمؐ کا عایشہ پر سوء ظن رکھنا، کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی عصمت سے سازگار نہیں ہے نیز اس اہم کام میں پیغمبر اکرم کا ایک چھوٹے بچے سے مشورت لینا اور اسی طرح دوسری جنگوں میں ازواج رسول کا ساتھ نہ آنا۔ اسی لئے یہ بات نہیں مانی جاسکتی ہے۔
==معنی و مفہوم==
==تاریخ اسلامی میں واقعہ افک کی اہمیت==
"اِفک" اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی اصلی اور طبیعی حالت میں تبدیلی آگئی ہو۔ تہمت اور جھوٹ میں چونکہ حق سے انحراف کر کے کسی واقعے کو اس کی اصلی حالت تبدیل کی جاتی ہے اس لئے اسے بھی افک کہا جاتا ہے۔<ref>قرشی بنایی، قاموس قرآن، ج1، ص89۔</ref>
"اِفک" ([[جھوٹ]]<ref>فراهیدی، العین، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۴۱۶.</ref> اور [[تہمت]]<ref>ابن‌منظور، لسان‌العرب، ۱۴۱۴ق، ج۱۰، ص۳۹۰.</ref> کے معنی میں) پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں رونما ہونے والا ایک واقعہ ہے جس میں رسول اللہؐ کی ایک زوجہ پر ناجائز تہمت لگائی گئی جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے [[آیات افک]] (آیات ۱۱-۲۶ سوره نور) نازل کیا۔<ref>خراسانی و دشتی، آیه‌های نامدار، ۱۳۸۸ش، ص۳۸.</ref>  کہا جاتا ہے کہ تہمت لگانے والوں کا مقصد پیغمبر اکرمؐ کی شخصیت کو بدنام کرنا تھا؛ لیکن اللہ تعالی نے ان آیات کو نازل کر کے تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی اور سازش کو بےنقاب کیا۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسش‌های دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۳.</ref> بعض محققوں کی نظر میں واقعہ افک پیغمبر اکرمؐ کی حکومت کے خلاف منافقین کی طرف سے کی جانے والی ایک اہم سازش تھی؛<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۰.</ref> جس سے پیغمبر اکرمؐ کی صداقت اور رہبری کی صلاحیت کو خدشہ دار کریں<ref>رشوان، حدیث الافک من المنظور الاسلامی، ۱۴۱۵ق، ص۱۲.</ref> اور سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے آپ منزوی اور محدود ہوجائیں۔<ref>جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارش‌های حادثه افک»، ص۴۷.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ حدیث افک تاریخ اسلام میں سب سے مشکل مباحث میں سے ہے جو [[تفسیر|تفسیری]]، [[کلام اسلامی|کلامی]]، [[فقه|فقهی]]  اور [[علم رجال|رجالی]] علوم سے وابستہ ہے اور سیاسی اور مذہبی دلچسپی کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوچکا ہے۔<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۰.</ref>


==آیات افک==
==آیات افک==
{{اصلی|آیات افک}}
{{اصلی|آیات افک}}
[[قرآن|قرآن کریم]] کے [[سورہ نور]] کی آیت نمبر 11 سے 26 تک میں مذکورہ واقعے میں کسی مسلمان پر لگائی گئی [[تہمت]] کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس ناروا عمل کی سرزنش کی گئی ہے۔ مذکورہ آیات کی تفسیر میں مفسرین نے جو [[اسباب نزول|شأن نزول]] بیان کیا ہے اس سے قطع نظر؛ خود آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس فرد پر یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی بلکہ ان کا تعلق [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے گھرانے سے تھا اور تہمت لگانے والے بھی ایک یا دو شخص نہیں تھے بلکہ پورا ایک گروہ تھا۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص 89۔</ref>
[[قرآن|قرآن کریم]] کے [[سورہ نور]] کی آیت نمبر 11 سے 26 تک میں مذکورہ واقعے میں کسی مسلمان پر لگائی گئی [[تہمت]] کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس ناروا عمل کی سرزنش کی گئی ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۸۹.</ref>
[[المیزان فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر المیزان]] کے مؤلف [[محمدحسین طباطبایی]] کا کہنا ہے کہ آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس فرد پر یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی بلکہ ان کا تعلق [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے گھرانے سے تھا اور تہمت لگانے والے بھی ایک یا دو شخص نہیں تھے بلکہ پورا ایک گروہ تھا۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص 89۔</ref>
اللہ تعالی نے مذکورہ آیات میں تہمت لگانے والوں کو سخت عذاب کا وعدہ دینے کے ساتھ ساتھ [[ایمان|مومنین]] کو بھی اس قسم کی افواہ کو بغیر کسی تحقیق کے قبول کرنے پر ان کی سرزنش کی۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج11، ص 46۔</ref>


مذکورہ آیات میں تہمت لگانے والوں کو سخت عذاب کا وعدہ دینے کے ساتھ ساتھ [[ایمان|مومنین]] کو بھی اس قسم کی افواہ کو بغیر کسی تحقیق کے قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج11، ص 46۔</ref> مذکورہ آیات کے آخری حصے میں [[خدا|خداوندعالم]] نے لوگوں کو کسی [[پاکدامن]] عورت پر فحاشی کی تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتے ہوئے پاکدامن عورتوں کو ایسی تہمتوں سے مبراء قرار دیا ہے۔<ref>سورہ نور، آیات 20 تا 26۔</ref>
مذکورہ آیات کے آخری حصے میں [[خدا|خداوندعالم]] نے لوگوں کو کسی [[پاکدامن]] عورت پر فحاشی کی تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتے ہوئے پاکدامن عورتوں کو ایسی تہمتوں سے مبراء قرار دیا ہے۔<ref>سورہ نور، آیات 20 تا 26۔</ref>
== واقعہ افک  کے بارے میں مختلف اقوال==
واقعہ افک میں جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہے اس کے بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسش‌های دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.</ref> بعض شیعہ اقوال کے مطابق یہ تہمت [[ماریه دختر شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر لگائی گئی تھی؛ لیکن اہل سنت روایات اور بعض شیعوں کے مطابق یہ الزام عائشہ پر لگائی گئی تھی۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسش‌های دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.</ref> [[تفسیر علی بن ابراهیم قمی (کتاب)|تفسیرالقمی]] کے مؤلف [[علی بن ابراهیم قمی]]<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> کی باتوں سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک ان آیات کا ماریہ قبطیہ کے بارے میں نازل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں یا کم سے کم مشہور یہی ہے کہ یہ آیات ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۶.</ref> لیکن بعض کا کہنا ہے کہ ان آیتوں کا ماریہ کے بارے میں نازل ہونا نہ صرف مشہور ہے بلکہ قدیم علما کے ہاں آیات کا عائشہ کے بارے میں نازل ہونا مشہور تھا؛<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۸.</ref> جیسے کہ آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ اور متکلم [[علامہ حلی]] ان آیات کے نزول کو عائشہ سے مربوط سمجھتے ہیں اور اس کے برخلاف کوئی اور نظریہ ہونے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، اجوبۃ المسائل المهنّائیہ، ۱۴۰۱ق، ص۱۲۱.</ref>


==تفصیلات==
=== پہلا احتمال ===
=== پہلا احتمال ===
اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق ان قرآنی [[آیات]] میں سنہ 5 صدی ہجری کو پیش آنے والے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے بعض  [[صحابہ]]، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افراد منافقین میں سے تھے، [[حضرت عائشہ]]، [[زوجہ پیغمبرؐ]] پر بے عفتی کی تہمت لگائی یہاں تک کہ [[قرآن|قرآن کریم]] میں مذکورہ [[آیت|آیات]] کے ذریعے اس تہمت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے والوں کے اس ناروا عمل کو [[گناہ کبیرہ]] میں شمار کیا گیا ہے۔ [[اہل سنت]] حضرت عائشہ کی شان میں ان آیات کے نازل ہونے کو ان کیلئے ایک فضیلت کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔<ref>فخررازی، التفسیر الکبیر، بیروت، ج23، ص 173؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج5، ص504۔</ref>
اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق ان قرآنی [[آیات]] میں سنہ 5 صدی ہجری کو پیش آنے والے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے بعض  [[صحابہ]]، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افراد منافقین میں سے تھے، [[حضرت عائشہ]]، [[زوجہ پیغمبرؐ]] پر بے عفتی کی تہمت لگائی یہاں تک کہ [[قرآن|قرآن کریم]] میں مذکورہ [[آیت|آیات]] کے ذریعے اس تہمت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے والوں کے اس ناروا عمل کو [[گناہ کبیرہ]] میں شمار کیا گیا ہے۔ [[اہل سنت]] حضرت عائشہ کی شان میں ان آیات کے نازل ہونے کو ان کیلئے ایک فضیلت کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔<ref>فخررازی، التفسیر الکبیر، بیروت، ج23، ص 173؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج5، ص504۔</ref>


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096

ترامیم