مندرجات کا رخ کریں

"اصول دین" کے نسخوں کے درمیان فرق

11,707 بائٹ کا اضافہ ،  10 اگست 2014ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Smnazem
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 44: سطر 44:
اس رائے کے مقابلے میں بعض محققین نے ظن قوی (یا گمان غالب) کو کافی گردانا ہے اور کہا ہے کہ کہ ظن قوی سکون نفس کا سبب ہے اور شارع مقدس کے نزدیک بھی علم معتبر وہی ہے جو سکون نفس کا سبب بنے۔<ref> السيد عبد اللّه شبر، حق اليقين في معرفة اصول الدين، ص571و 575۔</ref>۔<ref>جرجانی‌، شرح المواقف، ج8، ص331۔</ref> چنانچہ جو کچھ اصول دین پر ایمان کے سلسلے میں لازمی ہے، وہ اطمینان ہے جو "یقینِ عرفی" بھی کہلاتا ہے؛ یقین عرفی میں مخالف امکان کو کو مکمل طور پر خارج نہیں کیا جاتا، لیکن چونکہ یہ احتمال و امکان ضعیف ہے اسی لئے اس کو لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا؛ "یقینِ منطقی بالمعنی الأخصّ" کے برعکس جس میں مخالف امکان مکمل طور پر خارج سمجھا جاتا ہے۔
اس رائے کے مقابلے میں بعض محققین نے ظن قوی (یا گمان غالب) کو کافی گردانا ہے اور کہا ہے کہ کہ ظن قوی سکون نفس کا سبب ہے اور شارع مقدس کے نزدیک بھی علم معتبر وہی ہے جو سکون نفس کا سبب بنے۔<ref> السيد عبد اللّه شبر، حق اليقين في معرفة اصول الدين، ص571و 575۔</ref>۔<ref>جرجانی‌، شرح المواقف، ج8، ص331۔</ref> چنانچہ جو کچھ اصول دین پر ایمان کے سلسلے میں لازمی ہے، وہ اطمینان ہے جو "یقینِ عرفی" بھی کہلاتا ہے؛ یقین عرفی میں مخالف امکان کو کو مکمل طور پر خارج نہیں کیا جاتا، لیکن چونکہ یہ احتمال و امکان ضعیف ہے اسی لئے اس کو لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا؛ "یقینِ منطقی بالمعنی الأخصّ" کے برعکس جس میں مخالف امکان مکمل طور پر خارج سمجھا جاتا ہے۔


== اصول دین میں تحقیق یا تقلیلد‌ ==


==پاورقی حاشیے==
بہت سے علماء کی رائے ہے کہ اصول دین میں [[تقلید]] جائز نہیں ہے اور اصول دین کی شناخت کا حصول تحقیق کے نتیجے میں حاصل ہونا چاہئے۔ اس رائے پر اجماع کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔<ref>ملامهدی نراقی، انیس الموحدین، ص22۔</ref>۔<ref>شهید ثانی‌، حقائق الایمان، ص59۔</ref>
{{حوالہ جات|3}}
 
اصول دین میں تقلید کے عدم جواز پر ایک استدلال:
 
"مقلد یا تو اپنے مقلَد<ref>مقلَّد وہ ہے جس کی تقلید کی جائے اور مقلِّد وہ ہے جو تقلید کرے۔</ref> کے بر حق ہونے پر واقف ہے یا واقف نہیں ہے؛ اگر واقف نہیں ہے تو اس صورت میں وہ اس کے خطاکار ہونے کو ممکن سمجھتا ہے، چنانچہ اس فرض میں اس کی تقلید قبیح ہے، کیونکہ وہ خود بھی جہل و خطا سے محفوظ نہیں ہے؛ اگر وہ جانتا ہے کہ اس کا مقلَد برحق ہے تو یہ دو صورتوں سے خارج نہيں ہے: یا یہ کہ یہ آگہی اور واقفیت اسے بداہتہً حاصل ہوئی ہے یا وہ تحقیق کرکے اس آگہی تک پہنچا ہے؛ ان دو صورتوں میں پہلی شق باطل ہے اور دوسری شق میں یا مقلَد کے برحق ہونے کی دلیل غیر تقلیدی ہے یا پھر تقلید کے ذریعے حاصل ہوئی ہے؛ اگر تقلید سے حاصل ہوئی ہے تو ان لوگوں کی تعداد کی کوئی انتہا نہ ہوگی جن کی تقلید ضروری ہے؛ پس صرف واحد فرضِ معقول (Reasonable assumption) یہ ہے کہ وہ شخص دلیل و برہان کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کا مقلَدبرحق ہے، اور یہ تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے پس اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے۔<ref>سیدمرتضی‌، الذخیرة، 164- 165۔</ref>
 
== اصول‌ دین‌ از امامیہ کے نزدیک‌ ==
 
مشہور رائے یہ ہے کہ [[اصول دین]] تین موضوعات پر مشتمل ہے: [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] (یا [[قیامت]])؛ تاہم [[عدل]] اور [[امامت]] کو بھی اصول دین میں شامل کرنا چاہئے۔ بالفاظ دیگر اگر کوئی اصول دین میں سے ایک کا انکار کرے وہ کافر ہے؛ لیکن اگر اول الذکر تین اصولوں کا اقرار کرے اور [[عدل]] و [[امامت]] کا منکر ہو تو وہ کافر نہیں لیکن وہ [[شیعہ]] بھی نہیں ہے۔<ref>میرزای‌ قمی‌، اصول‌ دین‌، 5۔</ref>
 
جمہور [[:زمرہ:شیعہ متکلمین|شیعہ متکلمین]] کے مطابق متذکرہ پانچ اصول کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
 
1۔ '''[[توحید]]:'''
 
اللہ کی معرفت اور اس حقیقت کی تصدیق کہ وہ ازل سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا اور وہ اپنی ذات میں واجب الوجود ہے، اللہ کی صفات ثبوتیہ ـ جیسے علم و حیات و قدرت ـ کی تصدیق؛ اور صفات سلبیہ ـ جیسے جہل و عجز و بےبسی ـ سے اس ذات کی تنزیہ؛ اور اس حقیقت پر یقین کہ خدا کی صفات عین ذات ہیں [اور اس پر عارض نہیں ہوئی ہیں] اور کوئی صفت اس کی ذات پر زائد نہیں ہے۔
 
2۔ '''[[عدل]]:'''
 
اس حقیقت کی معرفت کہ خدا عادل و حکیم ہے یعنی یہ کہ وہ کوئی برا کام انجام نہیں دیتا اور کبھی بھی ان افعال کو ترک نہیں کرتا جو اس کو انجام دینے چاہئے۔ خداوند متعال انسانوں سے سرزد ہونے والے برے اعمال اور بھونڈے افعال سے ہرگز راضی و خوشنود نہیں ہے اور در حقیقت انسان خدا کے دی ہوئی قدرت و اختیار کے ذریعے اپنے اعمال انجام دیتے ہیں چنانچہ وہ اپنے اچھے اور برے اعمال کے حوالے سے جوابدہ ہیں۔
 
3۔ '''[[نبوت]]:'''
 
اس حقیقت کی تصدیق کہ [[حضرت محمد(ص)]] اللہ کے نبی و پیغمبر ہیں اور وہ جو کچھ بھی وحی کے عنوان سے لائے ہیں برحق ہے۔ البتہ اس موضوع میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ جو کچھ آپ(ص) خدا کی طرف سے لائے ہیں اس کی اجمالی تصدیق کافی ہے یا یہ کہ یہ تصدیق تفصیلی ہونی چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ بعض علمائے [[امامیہ]] کا کہنا ہے کہ [[رسول اللہ(ص)]] کی عصمت اور [[ختم نبوت]] کی تصدیق بھی لازمی ہے۔ 
 
4۔ '''[[امامت]]:'''
 
[[ائمۂ اثنا عشر|بارہ اماموں]] کی امامت کی تصدیق۔ تمام [[شیعہ متکلمین]] کا اجماع ہے یہاں تک کہ یہ اصول اس مذہب کی ضروریات() کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے۔ [[ائمہ(ع)]] سب کے سب [[عصمت|معصوم]] اور حافظ شریعت ہیں اور وہ انسانوں کو حقیقت کا راستہ دکھاتے ہیں اور لازمی ہے کہ ان سب کی اطاعت کریں۔ البتہ [[امام مہدی علیہ السلام|امام زمانہ(عج)]] زندہ اور غائب ہیں اور ایک دن اللہ کے اذن سے ظہور کریں گے [اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی]۔
 
5۔ '''[[معاد]]:''' ([[قیامت]])
 
اس اصول کے مطابق انسان موت کے بعد زندہ ہونگے اور ان کے اچھے اور برے اعمال کا حساب ہوگا۔ عام مسلمان [[معاد جسمانی|معاد کے جسمانی ہونے]] کے قائل ہیں؛ یعنی موت کے بعد کی زندگی میں انسانوں کے [[اخروی ابدان|اخروی بدن]] جسمانی بدن ہوگا۔<ref>شهید ثانی‌، حقائق الایمان، ص59۔</ref>
 
== پاورقی حاشیے ==
 
{{حوالہ جات|2}}
 
== مآخذ ==
 
{{مآخذ|2}}
* آمدی‌، علی‌، الاحكام‌ فی‌ اصول‌ الاحكام‌، به‌ كوشش‌ ابراهیم‌ عجوز، بیروت‌، 1405ہجری/1985عیسوی۔
* ابن‌ تیمیه‌، احمد، موافقة صحیح‌ المنقول‌ لصریح‌ المعقول‌، بیروت‌، 1405ہجری/1985عیسوی۔
* ابن‌ میثم‌ بحرانی‌، میثم‌، قواعد المرام‌ فی‌ علم‌ الكلام‌، به‌ كوشش‌ احمد حسینی‌ و محمود مرعشی‌، تهران‌، 1406ہجری۔
* ابن‌ ندیم‌، الفهرست‌۔
* ابواسحاق‌ شیرازی‌، ابراهیم‌، التبصرة فی‌ اصول‌ الفقه‌، به‌ كوشش‌ محمدحسن‌ هیتو، دمشق‌، 1403ہجری/1983عیسوی۔
* ابوالحسین‌ بصری‌، المعتمد فی‌ اصول‌ الفقه‌، به‌ كوشش‌ محمد حمیدالله‌ و دیگران‌، دمشق‌، 1385ہجری/1965عیسوی۔
* اشعری‌، علی‌، رسالة فی‌ استحسان‌ الخوض‌ فی‌ علم‌ الكلام‌، حیدرآباد دكن‌، 1400ہجری/1979عیسوی۔
* بخاری‌، محمد، صحیح‌، استانبول‌، 1981عیسوی۔
*بغدادی‌، عبدالقاهر، اصول‌ الدین‌، بیروت‌، 1401ہجری/1981عیسوی۔
* بخاری‌، الفرق‌ بین‌ الفرق‌، به‌ كوشش‌ محمد زاهد كوثری‌، قاهره‌، 1367ہجری/1948عیسوی۔
* جرجانی‌، علی‌، شرح‌ المواقف‌، قاهره‌، 1325ہجری/1907عیسوی۔
* سراج‌الدین‌ ارموی‌، محمود، التحصیل‌ من‌ المحصول‌، به‌ كوشش‌ عبدالحمید ابوزنید، قاهره‌، 1393ہجری/1973عیسوی۔
* سیدمرتضی‌، علی‌، الذخیرة، به‌كوشش‌ احمد حسینی‌، قم‌، 1411ہجری۔
* شهید ثانی‌، زین‌الدین‌، حقائق‌ الایمان‌، به‌كوشش‌ مهدی‌ رجایی‌، قم‌، كتابخانة آیت‌الله‌ مرعشی‌۔
* شهید ثانی‌، زین‌الدین‌، حقائق‌ الایمان‌، چ‌ سنگی‌، مجموعة الرسائل‌، قم‌، 1304ہجری۔
* طالقانی‌، نظرعلی‌، كاشف‌ الاسرار، به‌ كوشش‌ مهدی‌ طیب‌، تهران‌، 1373ہجری شمسی۔
* شیخ طوسی‌، محمد بن حسن، الاقتصاد فيما يتعلق بالاعتقاد؛  قم‌، 1400ہجری۔
* علامة حلی‌، حسن‌، شرح‌ باب‌ حادی‌ عشر، تهران‌، 1370ہجری شمسی۔
* علامة حلی‌، كشف‌ الفوائد، مجموعة الرسائل‌، قم‌، 1404ہجری۔
* فخرالدین‌ رازی‌، اصول‌ دین‌، چهارده‌ رساله‌، به‌كوشش‌ محمدباقر سبزواری‌، تهران‌، 1340ہجری شمسی۔
* فخرالدین‌ رازی‌، كتاب‌ الاربعین‌ فی‌ اصول‌الدین‌، حیدرآباد دكن‌، 1353ہجری۔
* قرآن‌ كریم‌۔
*قرافی‌، احمد، شرح‌ تنقیح‌ الفصول‌، به‌ كوشش‌ طه‌ عبدالرئوف‌ سعد، بیروت‌، 1393ہجری/1973عیسوی۔
* كلینی‌، محمد، الاصول‌ من‌ الكافی‌، به‌ كوشش‌ علی‌اكبر غفاری‌، تهران‌، 1388ہجری۔
* مانكدیم‌، [ تعلیق‌ ] شرح‌ الاصول‌ الخمسة، به‌كوشش‌ عبدالكریم‌ عثمان‌، نجف‌، 1383ہجری/1963عیسوی۔
* معتقد الامامیه‌، به‌ كوشش‌ محمدتقی‌ دانش‌پژوه‌، تهران‌، 1339ہجری شمسی۔
* میرزای‌ قمی‌، ابوالقاسم‌، اصول‌ دین‌، به‌ كوشش‌ رضا استادی‌، تهران‌، مسجد جامع‌۔
* میرزای‌ قمی‌، ابوالقاسم‌، قوانین‌ الاصول‌، تهران‌، 1303ہجری۔
* انیس الموحدین، ملامهدی نراقی، انتشارات پیام مهدی (عج)، قم، 1386ہجری شمسی۔
* حقائق الإیمان، زین الدین العاملی، منشورات مكتبة المرعشی، قم، 1409ہجری۔
* ابو جعفر محمد بن محمد حسن طوسي، معروف به خواجه نصيرالدين طوسي و محقق طوسی، (متوفٰی 672 ہجری)، تلخيص المحصل، انتشارات اسماعيليان، (1414ہجری)۔
* مصطفى بن عبدالله الشهير بحاجي خليفة، كشف الظنون عن اسامى الكتب والفنون، تحقیق: شہاب الدین مرعشی نجفی، دار إحياء التراث العربي بيروت – لبنان۔
* السيد عبد اللّه شبر (متوفی 1370ہجری)، حق الیقین في معرفة أصول الدین، المطبوع في مطبعة دار النشر والتأليف نجف، سنة 1360ہجری۔
{{end}}


[[fa:اصول دین]]
[[fa:اصول دین]]
[[ar:أصول الدين]]
[[ar:أصول الدين]]
[[زمرہ:کلام]]
[[زمرہ:شیعہ عقائد]]
گمنام صارف