گمنام صارف
"اصول دین" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan (نیا صفحہ: '''اصول دین''' ایک کلامی اصطلاح ہے جو فروع دین کے برعکس ہے اور اس کا اطلاق اعتقادات ک...) |
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''اصول دین''' ایک [[کلام امامیہ|کلامی]] اصطلاح ہے جو [[فروع دین]] کے برعکس ہے اور اس کا اطلاق اعتقادات کے اس مجموعے پر ہوتا ہے جو دین اسلام کی اساس کو تشکیل دیتے ہین اور ہر مسلمان کو ان پر عقیدہ اور یقین رکھنا پڑتا ہے ورنہ وہ مسلمان محسوب نہیں ہوتا ہے؛ یعنی اصول دین میں سے ہر ایک کا انکار موجب کفر اور باعث عذاب خداوندی | '''اصول دین''' ایک [[کلام امامیہ|کلامی]] اصطلاح ہے جو [[فروع دین]] کے برعکس ہے اور اس کا اطلاق اعتقادات کے اس مجموعے پر ہوتا ہے جو دین اسلام کی اساس کو تشکیل دیتے ہین اور ہر مسلمان کو ان پر عقیدہ اور یقین رکھنا پڑتا ہے ورنہ وہ مسلمان محسوب نہیں ہوتا ہے؛ یعنی اصول دین میں سے ہر ایک کا انکار موجب کفر اور باعث عذاب خداوندی ہے۔ | ||
علماء کی رائے ہے کہ اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے جبکہ [[فروع دین]] میں تقلید واجب ہے اور ہر مسلمان کو اصول میں تفکر کرنا پڑتا ہے اور ان میں یقینی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے اور ظنی معرفت پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ | [[شیعہ]] عقیدے کے مطابق [[توحید]]، [[نبوت]]، [[عدل]]، [[امامت]] اور [[معاد]] وہ اصول ہیں کہ سعادت کاملہ اور دین صحیح تک پہنچنے کے لئے ان پر اعتقاد رکھنا پڑتا ہے۔ البتہ دو اصولوں یعنی [[عدل]] اور [[امامت]] کو دیگر اصولوں سے الگ بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ جو شخص [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] (قیامت) کا انکار کرے تو وہ بنیادی طور پر مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اگر کوئی [[عدل]] اور [[امامت]] کا انکار کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا تاہم وہ [[تشیع]] سے خارج اور [[خالص اسلام]] سے دور ہوگیا ہے۔ اسی بنا پر ان دو اصولوں (یعنی [[عدل]] اور [[امامت]]) کو [[اصول مذہب]] کا نام دیا گیا ہے۔ | ||
علماء کی رائے ہے کہ اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے جبکہ [[فروع دین]] میں تقلید واجب ہے اور ہر مسلمان کو اصول میں تفکر کرنا پڑتا ہے اور ان میں یقینی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے اور ظنی معرفت پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ | |||
==اصول دین کے معنی== | ==اصول دین کے معنی== | ||
'''اصول دین''' ایک [[کلام امامیہ|کلامی]] اصطلاح ہے جو [[فروع دین]] کے برعکس ہے اور اس کا اطلاق اعتقادات کے اس مجموعے پر ہوتا ہے جو دین اسلام کی اساس کو تشکیل دیتے ہین اور ہر مسلمان کو ان پر عقیدہ اور یقین رکھنا پڑتا ہے ورنہ وہ مسلمان محسوب نہیں ہوتا ہے؛ یعنی اصول دین میں سے ہر ایک کا انکار موجب کفر اور باعث عذاب خداوندی ہے۔ | '''اصول دین''' ایک [[کلام امامیہ|کلامی]] اصطلاح ہے جو [[فروع دین]] کے برعکس ہے اور اس کا اطلاق اعتقادات کے اس مجموعے پر ہوتا ہے جو دین اسلام کی اساس کو تشکیل دیتے ہین اور ہر مسلمان کو ان پر عقیدہ اور یقین رکھنا پڑتا ہے ورنہ وہ مسلمان محسوب نہیں ہوتا ہے؛ یعنی اصول دین میں سے ہر ایک کا انکار موجب کفر اور باعث عذاب خداوندی ہے۔ | ||
اس اصطلاح کے دو اطلاقات ہیں: اول یہ کہ اس کا اطلاق تمام اسلامی اعتقادات پر ہوتا ہے اور [[فروع دین]] کے تقابل میں استعمال ہوتا ہے۔ اس استعمال میں اصول دین وہ اعتقادی مسائل ہیں جن میں تعقل و تفکر کرنا مطلوب ہے اور [[فروع دین]] وہ مسائل ہیں جن میں عمل مطلوب ہے خواہ وہ مقولہ فعل میں شامل [یعنی واجب یا مستحب ہوں] ہوں خواہ مقولہ ترک میں شامل [یعنی حرام یا مکروہ] ہوں۔<ref>الأنوار الإلهیة فی المسائل العقائدیة، ص74 [http://www.noorlib.ir/View/fa/Book/BookView/Image/344 مسائل أُصول الدين]۔</ref> | اس اصطلاح کے دو اطلاقات ہیں: اول یہ کہ اس کا اطلاق تمام اسلامی اعتقادات پر ہوتا ہے اور [[فروع دین]] کے تقابل میں استعمال ہوتا ہے۔ اس استعمال میں اصول دین وہ اعتقادی مسائل ہیں جن میں تعقل و تفکر کرنا مطلوب ہے اور [[فروع دین]] وہ مسائل ہیں جن میں عمل مطلوب ہے خواہ وہ مقولہ فعل میں شامل [یعنی واجب یا مستحب ہوں] ہوں خواہ مقولہ ترک میں شامل [یعنی حرام یا مکروہ] ہوں۔<ref>الأنوار الإلهیة فی المسائل العقائدیة، ص74 [http://www.noorlib.ir/View/fa/Book/BookView/Image/344 مسائل أُصول الدين]۔</ref> | ||
اس کے دوسرے اطلاق یا استعمال کا تعلق تین ـ یعنی [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] (قیامت) ـ یا پانچ اعتقادی اصولوں ـ یعنی [[توحید]]، [[نبوت]]، [[عدل]]، [[امامت]] اور [[معاد]] ـ سے ہے؛ البتہ [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] (قیامت) کو غالبا اصول دین اور دو اصولوں یعنی [[عدل]] اور [[امامت]]) کو [[اصول مذہب]] کا نام دیا جاتا ہے؛ اگرچہ بعض حوالوں میں ان سب کو اصول دین کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے۔ | اس کے دوسرے اطلاق یا استعمال کا تعلق تین ـ یعنی [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] (قیامت) ـ یا پانچ اعتقادی اصولوں ـ یعنی [[توحید]]، [[نبوت]]، [[عدل]]، [[امامت]] اور [[معاد]] ـ سے ہے؛ البتہ [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] (قیامت) کو غالبا اصول دین اور دو اصولوں یعنی [[عدل]] اور [[امامت]]) کو [[اصول مذہب]] کا نام دیا جاتا ہے؛ اگرچہ بعض حوالوں میں ان سب کو اصول دین کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے۔ | ||
=== وجۂ تسمیہ === | === وجۂ تسمیہ === | ||
یہ اصطلاح وضع کرنے والوں نے ان اعتقادات کو اس بنا پر اصول دین کا نام دیا ہے کہ ان کی رائے کے مطابق [[حدیث]]، [[فقہ]] اور [[تفسیر]] جیسے دوسرے دینی علوم ان ہی کی بنیاد پر استوار ہیں؛ بالفاظ دیگر، دینی علوم [[رسول خدا(ص)]] کی صداقت پر موقوف ہیں اور [[رسول خدا(ص)]] کی صداقت اصول دین پر موقوف ہے۔<ref>علامة حلی، شرح باب حادی عشر، 4، 6۔</ref> | یہ اصطلاح وضع کرنے والوں نے ان اعتقادات کو اس بنا پر اصول دین کا نام دیا ہے کہ ان کی رائے کے مطابق [[حدیث]]، [[فقہ]] اور [[تفسیر]] جیسے دوسرے دینی علوم ان ہی کی بنیاد پر استوار ہیں؛ بالفاظ دیگر، دینی علوم [[رسول خدا(ص)]] کی صداقت پر موقوف ہیں اور [[رسول خدا(ص)]] کی صداقت اصول دین پر موقوف ہے۔<ref>علامة حلی، شرح باب حادی عشر، 4، 6۔</ref> | ||
| | ||
اس وجۂ تسمیہ کے علاوہ، اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ اصول دین کو اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ دیگر ادیان و مذاہب کے ساتھ مذہب [[شیعہ]] اور اسلام کی سرحدیں واضح کردیں۔ اور وہ یوں کہ [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] کو قبول کرکے اسلام اور دیگر ادیان کے درمیان سرحد واضح ہوجاتی ہے [اور غیر مسلم الگ ہوجاتے ہیں]، [[امامت]] کے اصول کو تسلیم کرکے [[اہل سنت]] کے فرقوں کو اس دائرے سے نکال دیا جاتا ہے [اور [[شیعہ]] اور [[سنی]] کے درمیان اعتقادی سرحد کا تعین ہوتا ہے]؛ اور [[عدل]] کے اصول کو قبول کرکے عدلیہ (یعنی [[شیعہ]] و [[معتزلہ]]) اور غیر عدلیہ (یعنی [[اشاعرہ]]) کے درمیان فرق واضح ہوجاتا ہے۔ | اس وجۂ تسمیہ کے علاوہ، اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ اصول دین کو اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ دیگر ادیان و مذاہب کے ساتھ مذہب [[شیعہ]] اور اسلام کی سرحدیں واضح کردیں۔ اور وہ یوں کہ [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] کو قبول کرکے اسلام اور دیگر ادیان کے درمیان سرحد واضح ہوجاتی ہے [اور غیر مسلم الگ ہوجاتے ہیں]، [[امامت]] کے اصول کو تسلیم کرکے [[اہل سنت]] کے فرقوں کو اس دائرے سے نکال دیا جاتا ہے [اور [[شیعہ]] اور [[سنی]] کے درمیان اعتقادی سرحد کا تعین ہوتا ہے]؛ اور [[عدل]] کے اصول کو قبول کرکے عدلیہ (یعنی [[شیعہ]] و [[معتزلہ]]) اور غیر عدلیہ (یعنی [[اشاعرہ]]) کے درمیان فرق واضح ہوجاتا ہے۔ | ||
=== دیگر معانی === | === دیگر معانی === | ||
اس مشہور معنی کے علاوہ بعض ادوار میں اصول دین کی اصطلاح وسیع تر معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ مثال کے طور بعض اوقات اصول دین کا اطلاق [[کلام امامیہ|کلام]] پر ہوا ہے۔<ref>بحرانی، ابن میثم، قواعد المرام فی علم الكلام، ص20۔</ref>۔<ref>نمونے کے طور پر دیکھیں: محقق طوسی، تلخیص المحصّل، ص1 و حاجي خليفة، كشف الظنون، ج2، ص1503۔</ref> | اس مشہور معنی کے علاوہ بعض ادوار میں اصول دین کی اصطلاح وسیع تر معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ مثال کے طور بعض اوقات اصول دین کا اطلاق [[کلام امامیہ|کلام]] پر ہوا ہے۔<ref>بحرانی، ابن میثم، قواعد المرام فی علم الكلام، ص20۔</ref>۔<ref>نمونے کے طور پر دیکھیں: محقق طوسی، تلخیص المحصّل، ص1 و حاجي خليفة، كشف الظنون، ج2، ص1503۔</ref> | ||
== اصول دین کتاب و سنت کی روشنی میں == | == اصول دین کتاب و سنت کی روشنی میں == | ||
اصول دین کی اصطلاح [[کلام امامیہ|متکلمین]] نے وضع کی ہے اور [[قرآن کریم|قرآن]] یا [[حدیث]] نے دینی تعلیمات کو اصول اور فروع میں تقسیم نہیں کیا ہے۔ | |||
اصول دین کی اصطلاح [[کلام امامیہ|متکلمین]] نے وضع کی ہے اور [[قرآن کریم|قرآن]] یا [[حدیث]] نے دینی تعلیمات کو اصول اور فروع میں تقسیم نہیں کیا ہے۔ | |||
البتہ [[حدیث|احادیث]] ایسے اشارے ملتے ہیں کہ اسلام کے کچھ اصول اور مبادیات پر استوار ہے؛ مثال کے طور پر امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ "اسلام کے اصول کیا ہیں اور کن امور کی معرفت واجب ہے جن میں کوتاہی اور قصور کی وجہ سے انسان کا دین اور عقیدہ فاسد ہوجاتا ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو اس کا دین و عقیدہ صحیح ہوتا ہے اور اس کا عمل مقبول بارگاہ ربانی ہے؟ فرمایا: یہ کہ وہ توحید (اور اللہ کی وحدانیت) اور [[حضرت محمد(ص)|محمد(ص)]] کی نبوت کی گواہی دے؛ جو کچھ آپ(ص) خدا کی جانب سے لائے ہیں اس کی تصدیق کرے، اپنے اموال میں وجوب [[زکوۃ]] کا اقرار کرے اور [[زکوۃ]] ادا کرے، اور [[آل محمد(ص)]] کی [[ولایت]] کا اقرار کرے۔<ref>كلینی، الکافی، ج2 صص 19و20۔20۔</ref> | البتہ [[حدیث|احادیث]] ایسے اشارے ملتے ہیں کہ اسلام کے کچھ اصول اور مبادیات پر استوار ہے؛ مثال کے طور پر امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ "اسلام کے اصول کیا ہیں اور کن امور کی معرفت واجب ہے جن میں کوتاہی اور قصور کی وجہ سے انسان کا دین اور عقیدہ فاسد ہوجاتا ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو اس کا دین و عقیدہ صحیح ہوتا ہے اور اس کا عمل مقبول بارگاہ ربانی ہے؟ فرمایا: یہ کہ وہ توحید (اور اللہ کی وحدانیت) اور [[حضرت محمد(ص)|محمد(ص)]] کی نبوت کی گواہی دے؛ جو کچھ آپ(ص) خدا کی جانب سے لائے ہیں اس کی تصدیق کرے، اپنے اموال میں وجوب [[زکوۃ]] کا اقرار کرے اور [[زکوۃ]] ادا کرے، اور [[آل محمد(ص)]] کی [[ولایت]] کا اقرار کرے۔<ref>كلینی، الکافی، ج2 صص 19و20۔20۔</ref> | ||
سطر 28: | سطر 31: | ||
یا ایک [[حدیث]] میں [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقر(ع)]] سے مروی ہے کہ اسلام کے پانچ ستون ہیں: [[نماز]]، [[زكٰوۃ]]، [[روزہ]]، [[حج]] اور [[ولایت]]، اور ولایت سے اہم ہے۔<ref>كلینی، الکافی، ج2 ص18۔</ref> [جو ان کے قیام و نفاذ کی ضمانت ہے]۔ یہ [[حدیث|احادیث]] جو [[ائمۂ شیعہ]] سے منقول ہیں، بتا رہی ہیں کہ دین سے متعلق معارف و تعلیمات کا ایک حصہ ایسا ہے کہ ان پر یقین نہ رکھنا انکار دین کے مترادف (ہم معنی) ہے، جبکہ ان تعلیمات کا ایک حصہ اس سے مختلف ہے۔ | یا ایک [[حدیث]] میں [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام باقر(ع)]] سے مروی ہے کہ اسلام کے پانچ ستون ہیں: [[نماز]]، [[زكٰوۃ]]، [[روزہ]]، [[حج]] اور [[ولایت]]، اور ولایت سے اہم ہے۔<ref>كلینی، الکافی، ج2 ص18۔</ref> [جو ان کے قیام و نفاذ کی ضمانت ہے]۔ یہ [[حدیث|احادیث]] جو [[ائمۂ شیعہ]] سے منقول ہیں، بتا رہی ہیں کہ دین سے متعلق معارف و تعلیمات کا ایک حصہ ایسا ہے کہ ان پر یقین نہ رکھنا انکار دین کے مترادف (ہم معنی) ہے، جبکہ ان تعلیمات کا ایک حصہ اس سے مختلف ہے۔ | ||
== یقین یا ظن == | |||
اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ اصول دین پر [[ایمان]] رکھنا، لازمی ہے لیکن بحث اس میں ہے کہ کیا اصول دین پر ایمان، یقینی اور قطعی و جزمی علم پر استوار ہونا چاہئے یا صرف ظنی (اور گمان غالب پر مبنی) معرفت کافی ہے؟ اور اگر اصول دین پر ایمان کو قطعی علم پر استوار ہونا چاہئے تو کیا یہ علم دلیل و برہان کے ذریعے حاصل ہونا چاہئے یا تقلید کے ذریعے حاصل ہونے والا علم کافی ہے؟ اور اس سلسلے میں اقوال مختلف ہیں۔ اکثریت کی رائے ہے کہ اصول دین پر ایمان یقینی اور جزمی علم و معرفت پر استوار ہونا چاہئے اور ظنی معرفت کافی نہیں ہے۔ | |||
شہید ثانی کے بقول<ref>شهید ثانی، حقائق الإیمان، ص56۔</ref> اس نظریئے کی سند وہ آیات و [[احادیث]] ہیں جن میں ظن و گمان کی پیروی کو مذموم قرار دیا گیا ہے جیسا کہ : | |||
* '''[[سورہ یونس]] آیت 36:''' | |||
:<font color=green>'''وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنّاً إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً۔'''</font> <br/> ترجمہ: اور ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو نہیں پیروی کرتے مگر ایک طرح کے گمان کی، بلاشہ گمان حق تک پہنچنے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ | |||
* [[سورہ انعام]] آیت 116:''' | |||
:<font color=green>'''وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ۔'''</font> <br/> ترجمہ: اور اس زمین کے رہنے والوں کی اکثریت کا اگر تم کہنا مانو تو تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے، وہ نہیں پیروی کرتے مگر گمان کی اور نہیں وہ باتیں کرتے مگر اٹکل پچو۔ | |||
* '''[[سورہ جاثیہ آیت 24:''' | |||
:<font color=green>'''وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ۔'''</font> <br/> ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ نہیں ہے سوا اس دنیوی زندگی کے یہی مرنا ہے، یہی جینا ہے اور ہمیں ہلاک نہیں کرے گا مگر یہی دور زمانہ حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے، نہیں رکھتے وہ مگر ایک وہم وگمان۔ | |||
اس رائے کے مقابلے میں بعض محققین نے ظن قوی (یا گمان غالب) کو کافی گردانا ہے اور کہا ہے کہ کہ ظن قوی سکون نفس کا سبب ہے اور شارع مقدس کے نزدیک بھی علم معتبر وہی ہے جو سکون نفس کا سبب بنے۔<ref> السيد عبد اللّه شبر، حق اليقين في معرفة اصول الدين، ص571و 575۔</ref>۔<ref>جرجانی، شرح المواقف، ج8، ص331۔</ref> چنانچہ جو کچھ اصول دین پر ایمان کے سلسلے میں لازمی ہے، وہ اطمینان ہے جو "یقینِ عرفی" بھی کہلاتا ہے؛ یقین عرفی میں مخالف امکان کو کو مکمل طور پر خارج نہیں کیا جاتا، لیکن چونکہ یہ احتمال و امکان ضعیف ہے اسی لئے اس کو لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا؛ "یقینِ منطقی بالمعنی الأخصّ" کے برعکس جس میں مخالف امکان مکمل طور پر خارج سمجھا جاتا ہے۔ | |||
==پاورقی حاشیے== | |||
{{حوالہ جات|3}} | {{حوالہ جات|3}} |