3,486
ترامیم
Alavi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (Text replacement - "{{حوالہ جات2}}" to "{{حوالہ جات}}") ٹیگ: موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 61: | سطر 61: | ||
[[خبر واحد]] کی حجیت کو ثابت کرنے کے لئے آیہ اہلالذکر سے استناد کیا جاتا ہے؛ اس نظریے کے مطابق لفظ "فاسئلوا" اہل ذکر سے سوال کرنے کو واجب قرار دیتا ہے اور سوال کا واجب ہونے کا لازمہ اس کے وجوب کو قبول کرنا اور اس امر کی اطاعت کرنا ضروری ہے؛ ورنہ سوال کا واجب ہونا لغو ہو گا۔<ref>انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳؛ آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۳۰۰۔</ref> اس نظریے پر اشکال کیا جاتا ہے؛ پہلی بات یہ کہ مذکورہ آیت کو [[اخبار مستفیض]] کے بارے میں قبول کیا جا سکتا ہے<ref>انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳۔</ref> دوسری بات اگر مذکورہ آیت خبر واحد کی حجیت اور اس کی اطاعت کے واجب ہونے پر دلالت کرے تو اس سے مراد وہ خبر واحد ہے جس کا راوی اہل علم ہو اور وہ مورد سوال چیز کے بارے میں آگاہی رکھتا ہو، اس بنا پر وہ شخص جو کسی سے کوئی بات سن کر اسے دوسروں تک نقل کرتا ہے وہ اس کا مصداق نہیں بن سکتا؛ بنابراین مذکورہ آیت عام آدمی کا اہل علم کی [[تقلید]] کرنے کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ علم اصول کے ماہرین عام آدمی پر تقلید کے واجب ہونے کے بارے میں مذکورہ آیت سے استناد کرتے ہیں۔<ref>اصغرپور قراملکی، «اہلالذکر»، ص۱۳۳۔</ref> | [[خبر واحد]] کی حجیت کو ثابت کرنے کے لئے آیہ اہلالذکر سے استناد کیا جاتا ہے؛ اس نظریے کے مطابق لفظ "فاسئلوا" اہل ذکر سے سوال کرنے کو واجب قرار دیتا ہے اور سوال کا واجب ہونے کا لازمہ اس کے وجوب کو قبول کرنا اور اس امر کی اطاعت کرنا ضروری ہے؛ ورنہ سوال کا واجب ہونا لغو ہو گا۔<ref>انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳؛ آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۳۰۰۔</ref> اس نظریے پر اشکال کیا جاتا ہے؛ پہلی بات یہ کہ مذکورہ آیت کو [[اخبار مستفیض]] کے بارے میں قبول کیا جا سکتا ہے<ref>انصاری، فرائدالاصول، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳۔</ref> دوسری بات اگر مذکورہ آیت خبر واحد کی حجیت اور اس کی اطاعت کے واجب ہونے پر دلالت کرے تو اس سے مراد وہ خبر واحد ہے جس کا راوی اہل علم ہو اور وہ مورد سوال چیز کے بارے میں آگاہی رکھتا ہو، اس بنا پر وہ شخص جو کسی سے کوئی بات سن کر اسے دوسروں تک نقل کرتا ہے وہ اس کا مصداق نہیں بن سکتا؛ بنابراین مذکورہ آیت عام آدمی کا اہل علم کی [[تقلید]] کرنے کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ علم اصول کے ماہرین عام آدمی پر تقلید کے واجب ہونے کے بارے میں مذکورہ آیت سے استناد کرتے ہیں۔<ref>اصغرپور قراملکی، «اہلالذکر»، ص۱۳۳۔</ref> | ||
==حوالہ جات== | == نوٹ == | ||
{{یادداشتها}} | |||
== حوالہ جات == | |||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
==مآخذ== | == مآخذ == | ||
{{مآخذ}} | {{مآخذ}} | ||
* ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمدحسین شمس الدین، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔ | * ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمدحسین شمس الدین، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔ |
ترامیم