مندرجات کا رخ کریں

"استمناء" کے نسخوں کے درمیان فرق

2,945 بائٹ کا اضافہ ،  24 دسمبر 2023ء
ویرائش اساسی
م (ویرائش اساسی)
(ویرائش اساسی)
سطر 5: سطر 5:
==مفہوم==
==مفہوم==
استمناء کا مطلب انسان جان بوجھ کر شہوت کے ساتھ اپنی منی خود یا کسی اور کے ذریعے خارج کرے<ref>عبدالمنعم، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقهیة، دار الفضیلة، ج۱، ص۱۶۱.</ref> استمناء کا لفظ مردوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور عورت کے لئے استشہا کہا جاتا ہے۔<ref>سهراب‌پور، خلوت شیطانی، ۱۳۹۰ش، ص۱۵.</ref> استمناء کے بارے میں [[روزہ]]<ref>سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ق، ص۱۷۸؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۱۷۲.</ref> [[اعتکاف]]،<ref>علامه حلی، تذکرة الفقهاء، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۲۵۷.</ref> [[حج]]<ref>ابن‌حمزه، الوسیلة، ۱۴۰۸ق، ص۱۵۹؛ علامه حلی، تذکرة الفقهاء، ۱۴۱۴ق، ج۷، ص۳۸۱.</ref> اور [[حد شرعی|حدود]] کے ابواب میں بحث کی گئی ہے۔<ref>ابن‌حمزه، الوسیلة، ۱۴۰۸ق، ص۱۵۹؛ شیخ مفید، المقنعه، ۱۴۱۰ق، ص۷۹۱.</ref>احادیث میں بھی اس کام سے ممانعت ہے۔ [[وسائل الشیعة (کتاب)|وسایل‌الشّیعه]] میں حر عاملی نے تحریم استمناء کے عنوان سے ایک باب اس سے مربوط روایات کے ساتھ مختص کیا ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۰، ص۳۵۲-۳۵۵.</ref> ایک روایت کے مطابق جو شخص استمنا کرتا ہے اللہ کی اس پر کرم کی نظر نہیں ہوتی ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۰، ص۳۵۴-۳۵۵.</ref>
استمناء کا مطلب انسان جان بوجھ کر شہوت کے ساتھ اپنی منی خود یا کسی اور کے ذریعے خارج کرے<ref>عبدالمنعم، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقهیة، دار الفضیلة، ج۱، ص۱۶۱.</ref> استمناء کا لفظ مردوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور عورت کے لئے استشہا کہا جاتا ہے۔<ref>سهراب‌پور، خلوت شیطانی، ۱۳۹۰ش، ص۱۵.</ref> استمناء کے بارے میں [[روزہ]]<ref>سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ق، ص۱۷۸؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۱۷۲.</ref> [[اعتکاف]]،<ref>علامه حلی، تذکرة الفقهاء، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۲۵۷.</ref> [[حج]]<ref>ابن‌حمزه، الوسیلة، ۱۴۰۸ق، ص۱۵۹؛ علامه حلی، تذکرة الفقهاء، ۱۴۱۴ق، ج۷، ص۳۸۱.</ref> اور [[حد شرعی|حدود]] کے ابواب میں بحث کی گئی ہے۔<ref>ابن‌حمزه، الوسیلة، ۱۴۰۸ق، ص۱۵۹؛ شیخ مفید، المقنعه، ۱۴۱۰ق، ص۷۹۱.</ref>احادیث میں بھی اس کام سے ممانعت ہے۔ [[وسائل الشیعة (کتاب)|وسایل‌الشّیعه]] میں حر عاملی نے تحریم استمناء کے عنوان سے ایک باب اس سے مربوط روایات کے ساتھ مختص کیا ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۰، ص۳۵۲-۳۵۵.</ref> ایک روایت کے مطابق جو شخص استمنا کرتا ہے اللہ کی اس پر کرم کی نظر نہیں ہوتی ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۰، ص۳۵۴-۳۵۵.</ref>
==قرآن اور حدیث میں==
==استمنا کا حرام ہونا==
[[شیعہ]] مجتہدوں نے استمنا کے بارے میں [[اجماع]] کے علاوہ سورہ مومنون کی آیہ نمبر 6 سے بھی استناد کیا ہے جس کے مطابق ہر قسم کی جنسی لذت کا حصول بیوی اور کنیز کے علاوہ دوسرے طریقوں سے ممنوع ہے۔<ref> مبسوط، ج۴، ص۲۴۲؛ فقہ القرآن، ج۲، ص۱۴۴؛ {{حدیث|إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکتْ أَیمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیرُ مَلُومِینَ}}(مومنون-۶) ؛ ملعون سبعة و فیہم الناکح کفّہ</ref>
فقہی اعتبار سے استمنا حرام ہے۔ بعض فقہا اسے گناہ کبیرہ میں شمار کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۶۴۷.</ref> حرام ہونے کو قرآنی آیات اور احادیث سے مستند کیا ہے۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف فقه اسلامی، موسوعة الفقه الاسلامی، ۱۴۲۳ق، ج۱۲، ص۲۱۹و۲۲۰.</ref> فقہا نے استمنا حرام ہونے کو سورہ مومنون کی آیہ نمبر 6 سے بھی استناد کیا ہے جس کے مطابق ہر قسم کی جنسی لذت کا حصول بیوی اور کنیز کے علاوہ دوسرے طریقوں سے ممنوع ہے۔<ref>شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۸ق، ج۴، ص۲۴۲؛ قطب الدین راوندی، فقه القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۱۴۴.</ref>
بعض فقہا نے استمنا کو ضرورت کے تحت جیسے کسی بیماری کی تشخصی یا علاج اگر اس پر موقوف ہو تو اس صورت میں جائز سمجھتے ہیں۔<ref>بنی‌هاشمی خمینی، رساله توضیح المسائل مراجع، دفتر انتشارات اسلامی، ج۱، ص۹۷۸.</ref>
بعض شیعہ فقہا کے فتوے کے مطابق استمنا اگر بیوی یا کنیز کے ہاتھ سے ہو تو جائز ہے۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف فقه اسلامی، موسوعة الفقه الاسلامی، ۱۴۲۳ق، ج۱۲، ص۲۱۹و۲۲۱.</ref> البتہ علامہ حلی اس صورت میں بھی حرام سمجھتے ہیں۔<ref>علامه حلی، تذکرة الفقها، ۱۳۸۸ق، ص۵۷۷.</ref>
 


بعض [[احادیث]] میں بھی استمنا سے منع ہوئی ہے۔ اور یہ احادیث [[وسائل الشیعہ]] کے باب تحریم استمناء کے ذیل میں نقل ہوئی ہیں۔<ref> وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۳۵۲-۳۵۵؛ مستدرک، ۱۴، ص۳۵۶</ref> اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ استمناء کرنے والے پر [[اللہ تعالی]] کی نظر نہیں ہوتی ہے۔<ref> وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۳۵۴-۳۵۵؛ {{حدیث|عَنْ أَبِی بَصِیرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِاللَّہِ(ع) یقُولُ ثَلَاثَةٌ لَا یکلِّمُہُمُ اللَّہُ یوْمَ الْقِیامَةِ وَ لَا ینْظُرُ إِلَیہِمْ وَ لَایزَکیہِمْ وَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ النَّاتِفُ شَیبَہُ وَ النَّاکحُ نَفْسَہُ وَ الْمَنْکوحُ فِی دُبُرِہِ}}</ref>
بعض [[احادیث]] میں بھی استمنا سے منع ہوئی ہے۔ اور یہ احادیث [[وسائل الشیعہ]] کے باب تحریم استمناء کے ذیل میں نقل ہوئی ہیں۔<ref> وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۳۵۲-۳۵۵؛ مستدرک، ۱۴، ص۳۵۶</ref> اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ استمناء کرنے والے پر [[اللہ تعالی]] کی نظر نہیں ہوتی ہے۔<ref> وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۳۵۴-۳۵۵؛ {{حدیث|عَنْ أَبِی بَصِیرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِاللَّہِ(ع) یقُولُ ثَلَاثَةٌ لَا یکلِّمُہُمُ اللَّہُ یوْمَ الْقِیامَةِ وَ لَا ینْظُرُ إِلَیہِمْ وَ لَایزَکیہِمْ وَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ النَّاتِفُ شَیبَہُ وَ النَّاکحُ نَفْسَہُ وَ الْمَنْکوحُ فِی دُبُرِہِ}}</ref>
سطر 14: سطر 17:


== فقہی آثار اور نتائج==
== فقہی آثار اور نتائج==
* [[جنابت]]: استمنا، جنابت کا موجب بنتا ہے اور اس کے اپنے آثار ہیں جیسے؛ [[غسل]] کا [[واجب]] ہونا، [[قرآن مجید]] کے حروف کو چھونا حرام ہونا۔
استمنا اگر منی خارج ہونے کا باعث بنے تو اس صورت میں فقہا نے اس کے لئے بعض احکام بیان کئے ہیں:
*[[روزہ]] کا باطل ہونا: استمناء جس طرح سے بھی ہونا روزہ باطل کرتا ہے اور [[رمضان]] کے مہینے میں جان بوجھ کر روزہ باطل کرنے والے پر روزے کی قضا اور [[کفارہ]] دونوں واجب ہوتے ہیں۔<ref> جواہر الکلام، ج۱۰، ص۷۹؛ سید مرتضی، انتصار، ص۱۷۸؛ شرایع الاسلام، ج۱، ص۱۷۲</ref>
* [[جنابت]]: جو شخص جنب ہوتا ہے اسے نماز پڑھنے، مسجد میں داخل ہونے اور بعض دیگر امور کے لئے [[غسل جنابت]] کرنا واجب ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ج۱، ص۵۰۷-۵۰۸.</ref>
*[[اعتکاف]] کا باطل ہونا: استمناء اگر دن میں واقع ہوجائے تو اعتکاف کو باطل کرتا ہے۔<ref> تذکرة الفقہاء، ج۶، ص۲۵۷</ref>
*[[احرام|مُحرِم]] کا استمناء کرنا حرام اور [[کفارہ|کفارے]] کا باعث ہے۔<ref>ابن حمزہ، وسیلہ، ص۱۵۸؛ تذکرة الفقہا، ج۷، ص۳۸۱</ref> اور اس کا کفّارہ ایک اونٹ ہے۔<ref>ایضاح الترددات الشریع، ج۱، ص۲۳۱</ref>،لیکن اگر یہ کام مشعر الحرام میں وقوف سے پہلے ہو تو کیا اس سے حالیہ [[حج]] باطل ہوجائے گی، یعنی ابھی کی حج کو آخر تک پہنچائے اور اگلے سال پھر سے حج بجا لائے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔<ref> ابن حمزہ: عمرہ مفردہ میں استمنا [[عمرہ]] باطل کرنے کا سبب بنتا ہے اور اس پر قضا اور کفارہ دونوں ہیں، ابن حمزہ، الوسیلہ، ص۱۵۹؛ العروة الوثقی،ج۱، ص۶۴۲، ج۲۰، ص۳۶۷۳۶۹</ref>بعض نے اس مسئلے میں توقف کر کے کوئی فتوای نہیں دیا ہے۔<ref> ذخیرة المعاد، ص۶۱۹</ref>


==ثابت کرنے کا طریقہ اور سزا==
*[[روزہ]] کا باطل ہونا: استمناء سے روزہ باطل ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے کفارہ واجب ہوتا ہے۔ شیعہ فقہا کے مطابق حرام کام سے روزہ باطل کرنے کی صورت میں [[کفاره جمع]] (یعنی تینوں کفارے غلام آزاد کرنا، دو مہینے روزہ اور 60 فقرا کو کھانا کھلانا) واجب ہوتا ہے۔<ref>شیخ بهایی، جامع عباسی، ۱۴۲۹ق، ص۴۶۲.</ref> بعض فقہا نے استمنا سے روزہ باطل ہونے کی صورت میں تینوں کفارے دینے کو [[احتیاط مستحب]] قرار دیا ہے۔<ref>بنی‌هاشمی خمینی، رساله توضیح المسائل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج۱، ص۹۷۸.</ref>
عدالت (کورٹ) میں استمناء دو طریقوں سے ثابت ہوتا ہے؛ پہلا طریقہ دو عادل مرد کی گواہی دینے سے<ref> المقنعہ، ص۷۹۱؛ جواہر الکلام، ج۴۱، ص۶۴۹</ref> دوسرا طریقہ استمنا کرنے والا خود دو مرتبہ اقرار کرے۔ لیکن بعض فقہا نے ایک بار اقرار کرنے کو بھی کافی سمجھا ہے۔<ref> جواہر الکلام، ج۴۱، ص۶۴۹</ref>بعض قدما نے ایک بار اقرار کرنے کو ثبوت کا سبب قرار نہیں دیا ہے۔<ref> کتاب السرائر، ج۳، ص۴۷۱</ref>
*[[اعتکاف]] کا باطل ہونا: استمناء سے روزہ باطل ہوجائے اور اس کی وجہ سے اعتکاف بھی باطل ہوتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۷، ص۲۰۷.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ استمنا سے اعتکاف ہی بلاواسطہ باطل ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اگر رات میں بھی استمنا ہوجائے تو اعتکاف باطل ہوتا ہے۔<ref>خویی، منهاج الصالحین، ج۱، ص۲۹۲.</ref>
 
<ref> تذکرة الفقہاء، ج۶، ص۲۵۷</ref>
استمنا کی سزا [[تعزیر]] ہے اور اس کی مقدار اور کیفیت کو حاکم شرع معین کرتا ہے۔<ref> کافی فی الفقہ، ص ۲۶۳؛ جواہر الکلام، ج۴۱، ص۶۴۷۶۴۹؛ المقنعہ، ص۷۹۱؛ ابن براج، المہذب، ج۲، ص۲۳۴؛ ابن ادریس، السرائر، ج۳، ص۵۳۶</ref>اس کام کا مکرر مرتکب ہونے کی صورت میں سخت سزا اس کے لئے معین کی جائے گی۔<ref> ر. ک: ابن حمزہ طوسی، الوسیلہ، ص۴۱۵</ref><ref>[http://nooretrah.noorsoft.org/do.asp?a=vsi%5C001%5Cvsi00228.htm الوسیلہ]</ref>
*[[احرام|مُحرِم]] کا استمناء کرنا حرام اور [[کفارہ|کفارے]] کا باعث ہے۔<ref>ابن حمزہ، الوسیلہ،  ۱۴۰۸ق، ص۱۵9؛ علامه حلی، تذکرة الفقہا، ۱۴۱۴ق، ج۷، ص۳۸۱</ref> اور اس کا کفّارہ ایک اونٹ ہے۔<ref>نجم‌الدین حلی، ایضاح الترددات الشرایع، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۲۳۱</ref> اسی طرح اکثر فقہا کا کہنا ہے کہ احرام کی حالت میں استمنا کرنے سے حج بھی باطل ہوتی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں، نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۲۰، ص۳۶۷-۳۶۸.</ref>


==استمنا کی سزا==
استمنا کی سزا [[تعزیر]] ہے اور اس کی مقدار اور کیفیت کو حاکم شرع معین کرتا ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۶۴۷،۶۴۹؛ شیخ مفید، المقنعه، ۱۴۱۰ق، ص۷۹۱؛ ابن‌ادریس حلی، کتاب السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۵۳۶.</ref>اس کام کا مکرر مرتکب ہونے کی صورت میں سزا میں اور سختی آجائے گی۔<ref>نگاه کنید به: ابن‌حمزه طوسی، الوسیله، ۱۴۰۸ق، ص۴۱۵.</ref> صاحب جواہر کا کہنا ہے کہ استمناء دو عادل مرد کی گواہی یا استمنا کرنے والے کے ایک بار اقرار سے ثابت ہوتا ہے۔<ref> نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴۱، ص۶۴۹.</ref>
==نقصانات اور علاج==
==نقصانات اور علاج==
بعض ڈاکٹروں کے مطابق استمنا ایک بیماری ہے جس کے نقصانات بھی ہیں اور ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
بعض ماہرین نے استمنا کے لئے کچھ جسمانی، ذہنی اور معاشرتی آثار اور نقصانات ذکر کئے ہیں:
 
'''جسمانی خطرات:''' نظر کمزور ہونا، جسمی طاقت کمزور ہونا، عقیم ہونا، جوڑ کمزور ہونا اور ہاتھوں کی لرزش۔


'''روحی اور فکری خطرات''': حافظہ کی کمزوری، ہوش ٹھکانے نہ رہنا، اضطراب، گوشہ نشینی، پریشانی، بےحال، چڑچڑاپن، ہمیشہ تھکا رہنا اور ارادے میں کمزوری۔
* جسمانی خطرات:''' نظر کمزور ہونا، جسمی طاقت کمزور ہونا، عقیم ہونا، جوڑ کمزور ہونا اور ہاتھوں کی لرزش۔


'''معاشرتی خطرات:''' گھریلو ناچاکی، بیوی اور [[شادی]] سے رو گردانی، جنسی رابطے میں کمزوری اور ناتوانی، دیر سے شادی کرنا۔<ref>[http://fa.parsiteb.com/news.php?nid=9128 تاثیرات استمنا بر زندگی زناشویی]</ref><ref>[http://fa.parsiteb.com/news.php?nid=9128 استمنا چہ تاثیراتی بر زندگی زناشوئی دارد؟]</ref><ref>[http://www.porseshgaran.org/main/bolughejavanan/257-1391-04-30-03-48-56.html پرسشگران]</ref>
* روحی اور فکری خطرات''': حافظہ کی کمزوری، ہوش ٹھکانے نہ رہنا، اضطراب، گوشہ نشینی، پریشانی، بےحال، چڑچڑاپن، ہمیشہ تھکا رہنا اور ارادے میں کمزوری۔


* معاشرتی خطرات:''' گھریلو ناچاکی، بیوی اور [[شادی]] سے رو گردانی، جنسی رابطے میں کمزوری اور ناتوانی، دیر سے شادی کرنا۔<ref>[http://fa.parsiteb.com/news.php?nid=9128 تاثیرات استمنا بر زندگی زناشویی]</ref>
==حوالہ جات ==
==حوالہ جات ==
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات2}}


==مآخذ==
==مآخذ==
{{ستون آ| 2}}
{{مآخذ}}* ابن‌ادریس حلی، محمد بن احمد، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی‌، قم‌، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۰ق‌.
* قرآن کریم.
* ابن‌حمزه طوسی، محمد بن علی، الوسیلة الی نیل الفضیلة، قم، انتشارات کتابخانه آیت الله مرعشی، ۱۴۰۸ق.
* ابن ادریس حلی، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی‌، دفتر انتشارات اسلامی، قم‌، ۱۴۱۰ق‌.
* بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل (مراجع)، جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، دفتر انتشارات اسلامی، بی‌تا.
* ابن حمزہ طوسی، الوسیلۃ، انتشارات کتابخانہ آیت اللہ مرعشی، قم، ۱۴۰۸ق.
* حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة الی تحصیل مسائل الشریعة، قم، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث، چاپ سوم، ۱۴۱۶ق.
* سید مرتضی، الانتصار فی انفرادات الإمامیۃ‌، مصحح: گروہ پژوہش دفتر انتشارات اسلامی، دفتر انتشارات اسلامی، قم، ۱۴۱۵ق‌.
* خویی، سید ابوالقاسم، منهاج الصالحين‌، قم، مدينة العلم‌، ۱۴۱۰ق.
* شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، مؤسسہ آل البیت علیہمالسلام، قم، ۱۴۰۹ق.
* سهراب‌پور، علی، خلوت شیطانی: خود ارضایی و راه درمان آن، قم، دفتر نشر معارف، ۱۳۹۰ش.
* علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء(تک جلدی)، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، قم، ۱۳۸۸ق‌.
* سید مرتضی، الانتصار فی انفرادات الإمامیة‌، مصحح: گروه پژوهش دفتر انتشارات اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۵ق‌.
* علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء(ط- جدید)، محقق/ مصحح: گروہ پژوہش مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، قم، ۱۴۱۴ق‌.
* شیخ بهایی، بهاء‌الدین، جامع عباسی و تکمیل آن محشی، چاپ جدید، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۲۹ق.
* علامہ مجلسی، بحارالأنوار، مؤسسۃ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ق.
* شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقه الامامیه، تحقیق محمد باقر بهبودی، تهران، المکتبة المرتضویة، چاپ سوم، ۱۳۸۸ق.
* قطب الدین راوندی، فقہ القرآن، انتشارات کتابخانہ آیت اللہ مرعشی، قم، ۱۴۰۵ق.
* شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعة، قم، جماعة المدرسین، ۱۴۱۰ق.
* محدث نوری، مستدرک الوسائل، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۸ق.
* عبدالمنعم، محمود عبدالرحمن، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقهیة، قاهره، دار الفضیلة، بی‌تا.
*نجم الدین حلی، إیضاح ترددات الشرائع‌، مصحح: سید مہدی رجایی‌، انتشارات کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، قم، ۱۴۲۸ق‌.
* علامه حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقهاء، قم، مؤسسه آل البیت علیهم السلام‌، ۱۳۸۸ق‌.
* علامه حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقهاء، تصحیح گروه پژوهش مؤسسه آل البیت علیهم السلام‌، قم، مؤسسه آل البیت علیهم السلام‌، ۱۴۱۴ق‌.
* قطب الدین راوندی، سعید بن هبة الله، فقه القرآن، قم، انتشارات کتابخانه آیت الله مرعشی، ۱۴۰۵ق.
* مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت علیهم السّلام، قم، مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، ۱۳۸۵ش.
* مؤسسه دایرة المعارف فقه اسلامی، موسوعة الفقه الاسلامی طبقاً لمذهب أهل البیت علیهم‌السلام، قم، مؤسسه دایره المعارف فقه اسلامی، ۱۴۲۳ق.
* محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، موسسه مطبوعاتی اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق.
* نجفی، محمدحسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، تحقیق محمود قوچانی، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ هفتم، ۱۳۶۲ش.
* نجم‌الدین حلی، إیضاح ترددات الشرائع‌، مصحح: سید مهدی رجایی‌، قم، انتشارات کتابخانه آیة الله مرعشی نجفی، ۱۴۲۸ق‌
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
{{حد اور تعزیر}}
{{حد اور تعزیر}}
سطر 62: سطر 71:
  | مناسب مآخذ سے استناد= <!--مفقود، نامکمل ، مکمل -->مکمل
  | مناسب مآخذ سے استناد= <!--مفقود، نامکمل ، مکمل -->مکمل
  | جانبداری= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | جانبداری= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | علاقائی تقاضوں سے مماثلت = <!-- نامکمل، مکمل-->نامکمل
  | علاقائی تقاضوں سے مماثلت = <!-- نامکمل، مکمل-->مکمل
  | سلاست = <!--موجود، مفقود-->موجود
  | سلاست = <!--موجود، مفقود-->موجود
  | جامعیت = <!--مفقود، موجود-->موجود
  | جامعیت = <!--مفقود، موجود-->موجود
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096

ترامیم