مندرجات کا رخ کریں

"نکاح متعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

36,856 بائٹ کا ازالہ ،  14 دسمبر 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{زیر تعمیر}}
{{احکام}}
{{احکام}}
{{فقہی توصیفی مقالہ}}
{{فقہی توصیفی مقالہ}}
'''نکاح متعہ'''، '''نکاح انقطاعی''' یا '''نکاح منقطع''' کے نام سے مشہور [[مستحب]] شادی یا ازدواج ہے جس میں خاتون ایک صیغہ پڑھ کر ایک معینہ مدت اور معینہ [[حق مہر]] کے بدلے میں اپنے آپ کو ایک مرد کے حبالہ [[نکاح]] میں لاتی ہے۔
'''مُوَقّتی نکاح''' یا '''نکاح مُتعَہ''' متعین مدت اور غیر دائمی شادی کو کہتے ہیں۔ تمام [[مسلمانوں]] کے مابین اس بات پر اتفاق ہے کہ اس طرح کی شادی عصر [[حضرت محمدؐ]] میں مشروع تھی۔ [[اہل سنت و جماعت]]، [[زیدیہ]]، [[اسماعیلیہ]] اور اباضیہ کا نظریہ ہے کہ اس نوعیت کی شادیاں رسول خداؐ کے زمانے میں کچھ مدت کے لیے رائج تھیں لیکن خود رسول اللہؐ کے زمانے میں ہی اس کا حکم  منسوخ اور ایسا کرنا [[حرام]] قرار پایا ہے؛ لیکن [[امامیہ]] کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرخداؐ نے اس حکم کو کبھی منسوخ نہیں کیا، اپنے زمانے میں بھی اسی طرح [[ابو بکر بن ابی قحافہ|ابو بکر]] کے دور خلافت میں بھی نکاح متعہ ایک مشروع عمل کی حیثیت سے باقی رہا۔
[[قرآن کریم]] میں [[آیت]] <font color=green>{{حدیث|"'''فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً'''"}}</font> (ترجمہ: تو ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو ان کی اجرتیں جو مقرر ہوں ادا کردو)؛<ref>سورہ نساء، آیت 24۔</ref> اسی قسم کے [[نکاح]] کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ مسلمانوں کا [[اجماع]] ہے کہ متعہ عصر نبوی میں جائز اور را‏ئج تھا لیکن اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان اس حکم شرعی کے باقی رہنے یا منسوخ ہو جانے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
اہل سنت کے منابع روائی میں منقول کچھ  احادیث کے مطابق پہلی بار [[عمر بن خطاب|عُمَر بن خَطّاب]] نے نکاح متعہ کو حرام قرار دیا۔ شیعہ فقہاء متعہ سے متعلق آیت قرآنی اور اہل بیتؑ کی احادیث کی بنیاد پر نکاح متعہ کو مشروع عمل سمجھتے ہوئے اس سے متعلق فقہی احکام بیان کیے ہیں۔


آج تک [[امامیہ]] کے درمیان کسی نے متعہ کے جائز اور مشروع ہونے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں کیا اور [[فقہ]] [[امامیہ|جعفریہ]] کی پیروی کرتے ہوئے متعہ کو [[ایران]] کے قانون میں تسلیم کیا گیا ہے۔
فقہائے امامیہ مذہب کا اس بات پر اجماع ہے کہ نکاح متعہ میں مدت (دورانیہ) اور مہریہ کی مقدار معلوم ہونا ضروری ہے۔ نکاح متعہ میں نکاح دائمی کے برخلاف طلاق نہیں ہوتی بلکہ متعین مدت ختم ہونے یا مرد کی طرف باقی مدت کو بخش دینے سے میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا۔


==مفہوم شناسی==
نکاح متعہ کی مدت کے اختتام یا مرد کی طرف سے باقی مدت کے بخشے جانے کے بعد مجامعت محقق ہونے کی صورت میں عورت پر واجب ہے کہ دو حیض کی مدت عدت گزارے۔
متعۃ النساء یا متعہ یا میعادی ازدواج یہ ہے کہ عورت خود یا اپنے وکیل کے ذریعے اپنے آپ کو معینہ مدت کے لئے اور معینہ [[مہر]] پر، کسی ایسے مرد کے حبالہ نکاح میں لائے جس کے ساتھ شادی میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو: یعنی یہ کہ عورت اور مرد نسب یا سبب یا رضاعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے محرم نہ ہوں؛ عورت کسی اور کے نکاح میں نہ ہو اور طلاق یا وفات کی عدت میں نہ ہو۔ متعہ میں جب معینہ مدت مکمل ہوجائے یا شوہر باقیماندہ مدت عورت کو بخش دے تو وہ اس مرد سے جدا ہو جائے گی اور اگر حق زوجیت کے طور پر مجامعت انجام پائی ہو تو عورت کو دو بار ماہواری کے برابر [[عدت]] رکھنا پڑے گی اور اگر خاتون یائسہ ہوئے بغیر ماہواری عادت نہ رکھتی ہو تو اس کو 45 دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔ تاہم اگر مجامعت انجام نہ پائی ہو تو اس مطلقہ عورت کی طرح ہوگی جس سے مجامعت نہ ہوئی ہے اور اس پر عدت نہیں ہے۔ متعہ کی اولاد شرعی احکام کے مطابق دائمی نکاح کی اولاد کی مانند ہے۔<ref>عسکری، ازدواج موقت در اسلام، ص13،14۔</ref> کنواری خواتین کا متعہ والد کے اذن سے مشروط ہے۔<ref> کنواری لڑکی کے لئے جواز متعہ والد کے اذن سے مشروط ہے۔ <br/> (آیات عظام: امام خمینی، مکارم شیرازی، سیستانی،شبیری زنجانی، تبریزی، نوری همدانی) احتیاط واجب (جس کو ترک کرنا جائز نہیں ہے) کے مطابق والد کا اذن لازم ہے) کے مطابق کنواری لڑکی کا متعہ کرنا والد کے اذن کے بغیر جائز نہیں ہے۔ <br/> (آیات عظام: خامنه ای، اراکی، خوئی، گلپایگانی، فاضل لنکرانی، صافی، وحید خراسانی) (توضیح المسائل مراجع، ج2، مسئلہ2376) <br/> والد یا دادا کی اجازت شرط ہے اور بھائی یا والدہ کی اجازت شرط نہیں ہے۔ (آیت الله اردبیلی توضیح المسائل مسألہ 2830)۔</ref>


== تاریخی پس منظر==
==مفہوم‌ اوراہمیت==
[[شیعہ]] اور [[اہل سنت|سنی]] تاریخی مآخذ بخوبی واضح کرتے ہیں کہ [[رسول خداؐ]] کے زمانے میں بھی اور آپؐ کی رحلت کے بعد بھی ـ [[ابوبکر بن ابی قحافہ|خلیفۂ اول]] کے زمانے میں بھی متعۃ النساء (خواتین کا متعہ) انجام دیا جاتا تھا؛ حتی کہ [[عمر بن خطاب|خلیفۂ دوئم]] کی خلافت کے زمانے میں بھی اس قسم کی شادی انجام پاتی تھی لیکن انھوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک واقعے کے بعد اس قسم کے ازدواج کو حرام قرار دیا! اور دھمکی دی کہ اگر کسی نے یہ "حکم" سننے کے بعد اس طرح کی شادی کا "ارتکاب" کیا تو اس کو سنگسار کیا جائے گا۔
موقتی نکاح، مرد اور عورت کی طرف سے دائمی مدت کے بغیر محدود اور معتین مدت کے لیے شادی کرنے کو کہتے ہیں۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۳۹۹.</ref> نکاح متعہ ان موارد میں سے ہے جن کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔<ref>کلانتر، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۴۵.</ref> اس نوعیت کا نکاح تمام شیعہ فقہاء کی نظر میں مشروع ہے۔<ref>شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۳.</ref> انہوں نے فقہی ابواب میں سے باب نکاح میں اس سے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۳۹۹.</ref>
نمونے کے طور پر تین روایتیں [[اہل سنت]] کے مآخذ حدیث سے نقل کی جاتی ہیں جن میں مشہور ترین واقعہ [[عمرو بن حریث]] کا ہے جو اکثر مآخذ میں نقل ہوا ہے اور اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:


::[[جابر بن عبداللہ انصاری|جابر]] کہتے ہیں کہ [[عمرو بن حریث]] [[کوفہ]] سے [[مدینہ]] آیا اور ایک آزاد شدہ کنیز کے ساتھ متعہ کیا۔ کنیز حاملہ ہوئی جس کو [[عمر بن خطاب|عمر]] کے پاس لایا گیا اور اس سے حقیقت حال کے بارے میں سوال کیا گیا۔ تو اس نے کہا: عمرو بن حریث نے میرے ساتھ وقتی نکاح کیا ہے۔ عمر نے عمرو بن حریث سے پوچھا تو اس نے بھی صراحت کے ساتھ بیوی کی بات کی تصدیق کی۔ عمر نے کہا: تم نے اس کے علاوہ کسی اور سے شادی کیوں نہیں کی؟ اور یہی وہ وقت تھا جب عمر نے وقتی شادی سے نہی کی تھی۔ <ref>الصنعانی، عبدالزاق؛ المصنف، ج7، ص500۔</ref>
ائمہ معصومینؑ سے منقول احادیث کے مطابق نکاح متعہ کے بارے میں ثواب کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔<ref>برای نمونه نگاه کنید به حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۱، ص۱۳-۱۷.</ref> البته بعض روایات میں نکاح متعہ کے بارے میں زیادہ اصرار کرنے سے نہی کی گئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۳۰ق، ج۱۱، ص۱۸-۱۹.</ref> شیعہ فقہاء نے معصومینؑ کی احادیث کی بنیاد پر نہ صرف نکاح متعہ کے حلال ہونے کا فتوا دیا ہے بلکہ اسے مستحب بھی سمجھتے ہیں۔<ref>برای نمونه نگاه کنید به حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۱، ص۱۳-۱۷؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۸.</ref>


دوسری روایت میں محمد بن اسود بن خلف سے نقل کرتے ہیں:
نکاح متعہ کے فوائد کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ معاشرے میں موجود جنسی مسائل کے حل کا بہترین راستہ ہے۔ خصوصا جوانوں اور ان لوگوں کے لیے جو دائمی نکاح کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، ۱۳۷۰ش، ص۳۸۶-۳۸۵؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، ۱۴۲۳ق، ص۹-۱۱.</ref> نیز یہ معاشرے میں رائج منکر و فحشاء اور دیگر سماجی برائیوں کے سد باب کا مناسب طریقہ بھی شمار ہوتا ہے۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، ۱۳۷۰ش، ص۳۸۷.</ref>
::[[عمرو بن حوشب]] نے [[قبیلہ بنی عامر بن لوی]] کی ایک دوشیزہ کے ساتھ متعہ کیا اور لڑکی کا حمل ٹھرا تو خبر [[عمر بن خطاب]] کو پہنچی۔ عمر نے اس سے وضاحت طلب کی اور اس نے کہا کہ عمرو بن حوشب نے اس کے ساتھ متعہ کیا ہے۔ عمر نے کہا: تم نے گواہ کس کو قرار دیا؟ راوی کہتا ہے: میں نہیں سمجھا کہ اس لڑکی نے کیا کہا کہ "اس نے اپنی ماں یا بہن یا بھائی یا باپ کو گواہ ٹہرایا! جس کے بعد عمر منبر پر بیٹھ گئے اور کہا "ان مردوں کو کیا ہوتا ہے جو وقتی شادی کرتے ہیں اور اس پر گواہ عادل قرار نہیں دیتے اور اس کو آشکار نہیں کرتے مگر یہ کہ میں ان پر شرعی حد جاری کردوں!۔<ref>صنعانی، مصنف عبدالزاق، ج7، ص501-500۔</ref>


خلیفۂ دوئم نے اس ماحول اور اس عصر کے تفاضوں اور خاص مصلحتوں کی بنا پر اپنی رائے کے مطابق متعہ پر پابندی لگا دی اور یہ پابندی "قانونی اور عرفی" تھی اور "شرعی اور دینی" تحریم نہ تھی۔ چنانچہ یہ جملہ تواتر کے ساتھ ان سے منقول ہے:
نظام جمہوریی اسلامی ایران کے دیوانی قانون (مدنی قانون) میں نکاح متعہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس ملک کے آئینی دستور کی چھٹی فصل نکاح متعہ سے متعلق قانون کے لیے مختص کی گئی ہے۔<ref>[https://rc.majlis.ir/fa/law/show/92778 «قانون مدنی»]، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی.</ref>
:<font color=green>{{حدیث|"'''مُتعَتان کانَتا عَلی عَهدِ رَسولِ اللهِ واَنا اُحَرِّمُهُما واُعاقِبُ عَلَیهِما'''"}}</font>
ترجمہ: دو متعے [[رسول اللہ|رسول خداؐ]] کے زمانے میں [[حلال]] تھے اور میں ان پر پابندی لگاتا ہوں اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کو سزا دونگا: 1) متعۂ نساء 2) متعۂ [[حج]]۔
جیسا کہ عبارت سے واضح ہے خلیفۂ دوئم نے اس پابندی کو [[رسول اللہ]]ؐ سے نسبت نہیں دی ہے بلکہ کہا ہے کہ "میں اس پر پابندی لگاتا ہوں اور جو مخالفت کرے گا اس کو سزا دونگا"؛ یہ نہیں کہتے کہ "مخالفت کرنے والے کو خدا سزا دے گا"۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، ص268</ref>


تِرمِذی نے روایت کی ہے:
==نکاح متعہ اسلامی فرقوں کی نگاہ میں==
::[[احمد بن حنبل]] سند صحیح کے ساتھ عمران بن حصین سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: "نزلت آية المتعة في كتاب اللّه وعملنا بها مع رسول اللّه فلم تنزل آية تنسخها ولم ينه عنها النبي حتى مات،
مسلمان دانشور حضرات نکاح متعہ کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں: شیعہ فقہاء کی نظر میں نکاح متعہ ایک مشروع عمل ہے؛ لیکن دیگر فِرَق منجملہ اہل‌ سنت،<ref>جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، ۱۴۲۷ق، ج۴۱، ص۳۳۳-۳۳۴؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۷.</ref> [[زیدیہ]]،<ref>ملاحظہ کریں: احمد بن عیسی، رأب الصدع، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص۸۷۶-۸۷۷.</ref>  [[اسماعیلیہ]]<ref>ملاحظہ کریں: نعمان مغربی، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۲۹.</ref> اور اباضیہ<ref>مالحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، ۱۴۳۸ق، ج۷، ص۳۵۳-۳۵۴.</ref> اسے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔
آیت متعہ نازل ہوئی اور ہم [[رسول اللہ]] کے زمانے میں اس پر عمل کرتے تھے۔ نہ کوئی آیت نازل ہوئی جس نے اس آیت کو منسوخ کیا ہو اور نہ ہی [[رسول اللہ]]ؐ نے اپنے وصال تک متعہ سے منع کیا"۔<ref>ابن حنبل، احمد، المسند، ج4 ص436۔</ref>


==قرآنی استدلال==
[[شہید ثانی]] کے مطابق تمام شیعہ فقہاء نکاح متعہ کو جائز سمھجتے ہیں۔<ref>شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۳.</ref> شیعہ فقہاء نکاح متعہ کے اثبات کے سلسلے میں قرآن کی آیات منجملہ آیت متعہ سے استناد کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: فاضل مقداد، کنز العرفان فی فقه القرآن، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۱۴۹-۱۵۳؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۷۹-۸۰؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۱۰.</ref> نیز اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ سے تواتر کی حد تک اس کی مشروعیت کے بارے میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔<ref>سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۷۹؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۱۵.</ref> دیگر فِرَق اسلامی کے علما کا کہنا ہے کہ نکاح متعہ عصر رسول خداؐ میں رائج تھا پھر اس کا حکم منسوخ اور حرام ہوچکا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، ۱۴۲۷ق، ج۴۱، ص۳۳۳-۳۳۴؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۷؛ احمد بن عیسی، رأب الصدع، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص۸۷۶-۸۷۷؛ نعمان مغربی، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۲۹؛ جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، ۱۴۳۸ق، ج۷، ص۳۵۳-۳۵۴.</ref>


===اہل سنت مفسرین کے نزدیک===
== کیا نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوچکا ہے؟ ==
[[زمخشری]] اپنی تفسیر [[الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل|الکشاف]]<ref>زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج1، ص498</ref> میں [[ابن عباس]] سے نقل کرتے ہیں کہ آیت <font color=green>"'''{{حدیث|فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً}}'''"</font> (ترجمہ: '''تو ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو ان کی اجرتیں جو مقرر ہوں ادا کردو''')؛<ref>سورہ نساء، آیت 24۔</ref> [[قرآن]] کی [[محکم و متشابہ|آیات محکم]] میں سے ہے۔ میبدی [[کشف الاسرار و عدة الابرار]]<ref>میبدی، کشف الاسرار و عدة الابرار، ج2، ص469</ref> میں حسن اور مجاہد کے حوالے سے کہتے ہیں: یہ آیت [[قرآن مجید]] کی محکم آیات میں سے ہے اور [[ثعلبی نیشابوری|ثعلبی]] [[الکشف والبیان عن تفسیرالقرآن]]<ref>ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیرالقرآن، ج 3، ص287</ref> میں [[امام علی علیہ السلام|حضرت امیرالمؤمنینؑ]] سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی ہے۔
تمام مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ نکاح متعہ پیغمر اسلامؐ کے دور میں مشروع تھا۔<ref>قرطبی، تفسیر القرطبی، ۱۳۸۴ق، ج۵، ص۱۳۲؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، ۱۴۲۳ق، ص۱۵.</ref> اہل سنت کے بعض منابع حدیثی میں خلیفہ دوم [[عمر بن خطاب|عُمَر بن خَطّاب]] سے کچھ روایتوں کو نقل کیا گیا ہے کہ عمر بن خطاب نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خود انہوں نے اس سے نہی کی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۵۲؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۲۸؛ سرخسی، المبسوط، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۲۷.</ref> ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ انہوں نے کہا دو قسم کے متعے پیغمر خداؐ کے زمانے میں جائز تھے؛ لیکن میں ان دونوں سے نہی کرتا ہوں اور اس کے ارتکاب کرنے والے کو سزا دیتا ہوں، ان میں سے ایک نکاح متعہ ہے اور دوسرا مُتعہ حج۔<ref>قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۳۸۴ق، ج۲، ص۳۹۲؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۰، ص۴۳.</ref>  


===شیعہ مفسرین کے نزدیک===
شیعہ حضرات چند احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ کو سب سے پہلے [[حضرت عمر]] نے حرام قرار دیتے ہوئے اس کی ممانعت کی ہے۔<ref>ماحظہ کریں: عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۷۵؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۰، ص۴۴.</ref> ان کے مطابق حضرت عمر کا یہ عمل دین میں بدعت پیدا کرنے کا سبب اور نص کے مقابلے میں اجتہاد ہے۔ نیز پیغمبر خداؐ کی جانب سے رائج شدہ ایک مشروع عمل کی مخالفت بھی ہے۔<ref>شرف الدین، النص و الاجتهاد، ۱۴۰۴ق، ص۲۰۷-۲۰۸؛ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۶، ص۲۱۳؛ عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۱۰.</ref> اہل سنت عالم دین عَسقلانی (۷۷۳–۸۵۲ھ) بھی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ کے پورے دوران زندگی، دوران خلافت ابو بکر اور خود حضرت عمر کے دور خلافت میں بھی کچھ مدت تک نکاح معتہ ایک جائز اور مشروع عمل کے طور پر رائجرہا؛ عمر بن خطاب نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس کی ممانعت کی اور حرام قرار دیا۔<ref>عسقلانی، فتح الباری، ۱۳۷۹ق، ج۹، ص۱۷۴.</ref>
[[تفسیر قمی]]،<ref>قمی، تفسیر قمی، ج1، ص136</ref> [[البرہان فی تفسیر القرآن]]،<ref>بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ج2، ص85</ref> [[آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن]]،<ref>بلاغی نجفی، آلاءالرحمن فی تفسیر القرآن، ج2، ص76</ref> [[تفسیر جوامع الجامع]]،<ref>طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، ج1، ص249</ref> [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن|مجمع البیان فی تفسیرالقرآن]]،<ref>طبرسی، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، ج5، ص103  101</ref> اور [[تفسیر المیزان]]،<ref>طباطبائی، المیزان، ج14، ص273  271</ref> نے تصریح کی ہے کہ <font color=green>"'''{{حدیث|فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً}}'''"</font>؛<ref>سورہ نساء، آیت 24۔</ref> میعادی نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔


لفظ متعہ ـ جس سے لفظ "{{حدیث|اسْتَمْتَعْتُم}}" مشتق ہوا ہے ـ [[اسلام]] میں وقتی شادی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اصطلاحاً اس سلسلے میں [[حقیقت شرعیہ]] ہے اور اس بات کی گواہی یہاں سے ملتی ہے کہ لفظ متعہ اسی معنی میں [[رسول اللہؐ]] سے منقولہ [[حدیث|روایات]] میں بھی اور [[صحابہ]] کے کلام میں بھی کثرت سے استعمال ہوا ہے۔
لیکن اہل سنت کے اکثر علما اپنے منابع حدیثی<ref>برای نمونه نگاه کنید به بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۲۲ق، ج۵، ص۱۳۵؛ نووی، شرح النووی علم مسلم، ۱۳۹۲ق، ج۹، ص۱۸۰.</ref> میں سے کچھ احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ پیغمبراسلامؐ کے دور میں ہی منسوخ ہوچکا تھا۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌رشد، بدایة المجتهد، ۱۴۲۵ق، ج۳، ص۸۰.</ref> علمائے اہل سنت کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عصر پیغمبر خداؐ میں سورہ مومنون کی آیات نمبر5 سے 7 تک جب نازل ہوئی تو نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوگیا۔<ref>مالحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۱۸۷ و ج۳، ص۳۳۰؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۲۹.</ref> یہ گروہ ان دو آیات سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ مومنین پاکدامن ہوتے ہیں وہ اپنی جنسی خواہشات کو صرف اپنی بیویوں اور کنیزوں سے تسکین کرتے ہیں اور جو لوگ ان دو چیزوں کے علاوہ کسی تیسرے طریقے سے اپنی جنسی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں گویا انہوں نے حدود الہی کو توڑ ڈالا ہے۔ چونکہ نکاح متعہ مذکورہ دو طریقوں سے ہٹ کر کوئی تیسرا طریقہ ہے لہذا اس پر عمل کرنا حدود الہی کی رعایت نہ کرنے کے مترادف ہے۔<ref>جصاص، احکام القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۱۸۷ و ج۳، ص۳۳۰؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۲۹.</ref>


[[اسلام]] کے نامی گرامی [[تفسر|مفسر]] [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]]، [[ابی بن کعب]]، [[جابر بن عبداللہ انصاری]]، [[عمران بن حصین]] [[سعید بن جبیر]]، [[مجاہد]]، قتادہ اور سدی جیسے اکابر [[صحابہ]] اور [[اہل سنت|سنی]] مفسرین کی ایک بڑی جماعت نیز تمام [[شیعہ]] مفسرین نے مذکورہ بالا آیت سے وقتی نکاح کا حکم اخذ کیا ہے۔ حتی کہ [[فخر رازی]] جو [[شیعہ]] سے متعلق مسائل میں شک و شبہہ اور اعتراض و تنقید کے حوالے سے مشہور ہیں، اس [[آیت]] پر مفصل بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ سورہ مومنون کی 5ویں اور 7ویں آیت مکہ میں نازل ہوئی ہیں اور جس آیت کے ذریعے نکاح متعہ کی مشروعیت ثابت کی جاتی ہے وہ ان آیات کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور نسخ کرنے والی پہلے نازل ہو اور نسخ شدہ آیت بعد میں نازل ہو، ایسا ممکن نہیں۔<ref>عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۲۱۲.</ref> اس پر مستزاد یہ کہ نکاح متعہ میں عاقدین کی جانب سے مدت متعین ہوتی ہے اور شرعی طور پر عورت مرد کی بیوی شمار ہوتی ہے لہذا اس طریقے سے ان دونوں کا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا حدود الہی کی مخالفت محسوب نہیں ہوتی۔<ref>زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۷۷؛ عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۲۱۴.</ref>


"اس بات میں کوئی حرف نہیں ہے کہ متذکرہ بالا [[آیت]] سے جواز متعہ کا حکم اخذ ہوتا ہے بلکہ ہم کہتے کہ یہ حکم کچھ عرصہ بعد [[نسخ]] ہوا ہے!
==فقہی احکام  ==
{{جعبه نقل قول
|عنوان=[[صیغه ازدواج |صیغه ازدواج موقت]]
|نقل‌قول=زن:‌ زَوَّجْتُکَ نَفْسی عَلَی المَهْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّةِ المَعْلُومَة؛ خودم را به ازدواج تو در آوردم، به مَهری که معیّن شده، در مدت معلوم.» {{سخ}} مرد: «قَبِلْتُ التَّزْویجَ عَلَی المَهْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّةِ المَعْلُومَة؛ قبول کردم ازدواج را با مهر معلوم، در مدت معلوم»<ref>نگاه کنید به بنی‌هاشمی خمینی، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج۲، ص۴۵۳.</ref>
|منبع=
|عرض=150px
}}
شیعہ فقہاء کے فتوا کےمطابق نکاحمتعہ کے چند فقہی احکام مندرجہ ذیل ہیں:


[[ائمۂ معصومین علیہم السلام|ائمۂ]] [[اہل بیت]] ـ جو اسرار [[وحی]] پر سب سے زیادہ آگہی رکھتے ہیں ـ نے متفقہ طور پر اس لفظ سے یہی معنی اخذ کئے ہیں اور اس سلسلے میں ان سے کثیر روایات منقول ہیں۔<ref>تفسیر نمونه، ج‏3، ص336 335</ref>
* نکاح متعہ کی مدت اور مہریہ کی مقدار صیغہ عقد میں معلوم و مشخص ہونا چاہیے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۶۲ و ص۱۷۲.</ref> شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق اگر نکاح متعہ میں مدت کا ذکر نہ کیا جائے تو وہ خود بخود دائمی نکاح میں تبدیل ہوجائے گا۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۷۲.</ref>
* بعض فقہاء کی رائے کے مطابق اگر عاقدین عربی زبان میں صیغہ جاری نہیں کرسکتے ہیں تو دونوں کی طرف سے عربی زبان سے آشنا کسی کو وکیل بنانا ممکن ہونے کے باوجود وہ کسی دوسری زبان میں عقد جاری کرسکتے ہیں۔<ref>خمینی، تحریر الوسیله، ۱۴۳۴ق، ج۲، ص۲۶۴.</ref> بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ بہر صورت صیغہ عقد کسی بھی زبان میں جاری کرسکتے ہیں۔<ref>شیخ انصاری، کتاب النکاح، ۱۴۳۰ق، ص۷۹؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۱۶، ص۲۱۵ و ج۲۴، ص۲۱۵؛ خویی، کتاب النکاح، دار العلم، ج۲، ص۱۶۴.</ref>
* مسلمان مرد اور اہل کتاب عورت کے مابین نکاح متعہ صحیح اور جائز ہے؛<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۹؛ بحرانی، الحدائق الناضرة، ۱۴۰۶ق، ج۲۴، ص۴.</ref> لیکن مسلمان عورت اہل کتاب مرد کے ساتھ نکاح متعہ نہیں کرسکتی۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۹.</ref> نیز مسلمان مرد اور عورت کا کسی غیر اہل کتاب(کافر) سے نکاح متعہ جائز نہیں ہے اور حرام ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۲۷.</ref>
* باکرہ لڑکی کے ساتھ نکاح متعہ مکروہ ہے اور نکاح متعہ کرنے کی صورت میں اس کی بکارت کو زائل کرنا مکروہ ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۶۰.</ref>
* نکاح متعہ کے نتیجے میں اگر مجامعت متحقق ہوچکی ہے تو نکاح متعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد عورت کو چاہیے کہ عدت پوری کرے، یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو یائسہ نہ ہوں، (یائسہ کی عدت نہیں ہوتی) وہ عورت جو حیض کی عمر میں ہو اور یائسہ نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ 45 دن عدت پوری کرے اور اگر با قاعدہ سے حیض آتا ہو تو بعض فقہاء کے فتوا کے مطابق دو حیض عدت پوری کرنی ہوگی۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۳۲.</ref>
* اگر مجامعت متحقق ہونے سے پہلے عقد کی مدت پوری ہوجائے یا مرد اس متعین مدت کو معاف کردے تو اس صورت میں عدت پوری کرنا ضروری نہیں۔<ref>سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۱۰۱.</ref>
* اگر نکاح متعہ کے دوران مرد وفات پائے تو مجامعت متحقق نہیں پانے کی صورت میں بھی عورت کو چاہیے کہ عدت وفات پوری کرے جو کہ 4 مہینے 10دس ہے۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۳۲؛ شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۷.</ref>
* نکاح متعہ میں طلاق نہیں ہوتی؛ بلکہ یہاں مدت پوری ہوجانے یا مرد کی طرف سے متعین مدت کو معاف کرنے سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔<ref>شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۵.</ref>


===نسخ آیت قرآن===
==کتابیات==
جو روایات [[رسول اللہؐ]] کے دور میں اس حکم کے نسخ (منسوخی) پر دلالت کرتی ہیں بہت پریشان اور تضادات سے بھرپور ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حکم [[غزوہ خیبر]] میں نسخ ہوا ہے، بعض کہتے ہیں کہ [[فتح مکہ]] کے دن نسخ ہوا ہے، بعض کا کہنا ہے کہ [[جنگ تبوک]] میں اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ [[جنگ اوطاس]] میں منسوخ ہوا ہے اور اس طرح کی دوسری روایات؛ چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب روایات مجعول اور موضوع ہیں اور اسی وجہ سے ان کے درمیان اس قدر تضادات پائے جاتے ہیں۔
شیعہ علما نے نکاح متعہ کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں اور رسالے تدوین کیے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم کے استاد نجم الدین طبسی نے اسی موضوع پر ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا فارسی زبان میں "ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه" کے عنوان سے ترجمہ ہوا ہے۔ اس کتاب کے کتاب نامہ والے حصے میں شیعہ علما کی طرف سے نکاح متعہ اور اس کی مشروعیت سے متعلق لکھی گئی 46 کتابوں کا تعارف کیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طبسی، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، ۱۳۹۱ش، ص۱۳۶-۱۳۹.</ref> چند آثار یہ ہیں:
*'''خلاصة الایجاز فی المتعة:''' یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں نکاح متعہ کی مشروعیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کی فضیلت، کیفیت اور دوسرے دیگر احکام کو اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔<ref>شیخ مفید، خلاصة الایجاز فی المتعة، ۱۴۱۴ق، ص۱۸.</ref> بعض علما نے اس کتاب کو شیخ مفید کی طرف نسبت دی ہے۔<ref>شیخ مفید، خلاصة الایجاز فی المتعة، ۱۴۱۴ق، ص۱۸.</ref> جبکہ بعض دیگر علما نے اسے [[شہید اول]]<ref>افندی، ریاض العلماء، ۱۴۰۱ق، ج۵، ص۱۸۸.</ref> سے منسوب کیا ہے اور کچھ علما نے اسے [[محقق کرکی]] کی طرف نسبت دی ہے۔<ref>زمانی‌نژاد، «مقدمه»، در کتاب خلاصة الایجاز فی المتعة، ۱۴۱۴ق، ص۱۱.</ref>
*'''زواج المتعة:''' اس کتاب کو [[سید جعفر مرتضی عاملی]] نے 3 جلدوں میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت اور اس کے بعض دیگر احکام کو بیان کرنے کے علاوہ اہل سنت علما کی اس کے بارے میں آراء کو بیان کیا ہے؛ ساتھ ہی ان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔<ref>برای نمونه نگاه کنید به عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۴۲.</ref>
*'''الزواج الموقت فی الاسلام:''' کے مصنف [[سید مرتضی عسکری]] ہیں۔ سید مرتضی نے اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت کو قرآن و سنت کے تناظر میں بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں شیعہ اور اہل سنت علما کے نظریات کا جائزہ بھی لیا ہے۔<ref>عسکری، الزواج الموقت فی الاسلام، ص۷.</ref>


بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس حکم کو [[رسول اللہ|رسول اکرم ؐ]] نے خود منسوخ کیا ہے چنانچہ اس [[رسول اللہ]]ؐ کی حدیث و سنت اس کو نسخ کر چکی ہے اور بعض دوسروں کا کہنا کہ اس حکم کو آیت [[طلاق]] نے نسخ کر لیا ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے:  <font color=green>"'''{{حدیث|إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ}}'''"</font>؛<ref>سورہ طلاق آیت 1۔</ref>( جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو طلاق دو زمانۂ عدّت کے لحاظ سے اور پورے عدے کے دنوں کا حساب رکھو)۔ حالانکہ اس آیت کا ہمارے موضوع بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ آیت [[طلاق]] کے موضوع پر بحث کرتی ہے اور متعہ میں طلاق نام کا کوئی حکم نہیں ہے اور اس میں علیحدگی مدت معینہ کے اختتام پر ہوتی ہے۔
==متعلقہ مضمون==
* [[شادی بیاہ]]


قدر مسلّم یہ ہے کہ اس قسم کی شادی کا جواز [[رسول اللہ]]ؐ کے دور میں قطعی اور یقینی ہے اور اس کی منسوخی کے بارے میں کوئی بھی قابل اعتماد اور ناقابل انکار دلیل دستیاب نہیں ہے۔ چنانچہ علم [[اصول الفقہ|اصول]] میں مسلّمہ قانون کے مطابق اس حکم کی بقاء کا حکم دینا پڑے گا۔
== حوالہ جات ==
 
{{حوالہ جات2}}
عمر سے منقولہ مشہور جملہ بھی اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ یہ حکم [[رسول اللہ|پیغمبر]]ؐ کے زمانے میں ہرگز منسوخ نہیں ہوا ہے۔
== مآخذ ==
 
{{مآخذ}}
[بےشک] [[رسول اللہ|پیغمبر]]ؐ کے سوا کسی کو بھی کسی شرعی حکم کی منسوخی کا حق حاصل نہیں ہے اور صرف آپؐ ہی ہیں جو اللہ کے بعض احکام کو [اسی کے حکم پر] منسوخ کر سکتے ہیں اور وصال نبیؐ کے بعد نسخ احکام کا باب مکمل طور پر بند ہو جاتا ہے ورنہ تو کوئی بھی اپنے [[اجتہاد]] کی روشنی میں اللہ کے بعض احکام کو منسوخ کرے گا اور ابدی اور زندہ جاوید شریعت میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ اور اصولی طور پر [[حدیث]] اور [[سنت]] [[رسول اللہ|رسول]]ؐ کے مقابلے میں [[اجتہاد]] "[[اجتہاد بمقابلۂ نصّ]]" کے زمرے میں آتا ہے جو کسی طور بھی معتبر نہیں ہے۔<ref>تفسیر نمونه، ج‏3، ص338۔</ref>
*ابن‌رشد، محمد بن احمد، بدایة المجتهد، قاهره، دار الحدیث، ۱۴۲۵ق.
 
*احمد بن عیسی، رأب الصدع، بیروت، دار المحجة البیضاء، ۱۴۲۸ق.
==حدیث سے استدلال==
*امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، ۱۴۱۶ق.
===اہل سنت روایات===
*بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، ۱۴۰۶ق.
[[صحیح مسلم]]،<ref>نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج 4، ص130۔</ref> [[صحیح بخاری]]،<ref>بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج3، تفسیر سوره مائده، باب 97، ص168 و کتاب نکاح، باب 8، ص337۔</ref> [[مصنف ابن ابی شیبہ]]<ref>ابن ابی شیبه، المصنّف ابن ابی شیبه، ج3، ص391۔</ref> اور [[مسند احمد]]<ref>احمد بن حنبل، مسند احمد، ج1، ص692۔</ref> میں [[عبداللہ بن مسعود]] سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم [[رسول اللہ]]ؐ کے ہمراہ جنگ کررہے تھے تو ہم نے کہا: کیا بہتر نہ تھا کہ ہم اپنے آپ کو خصی کردیتے؟ [[رسول اللہ]]ؐ نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایا اور پھر ہمیں اجازت دی کہ [[مہر]] (بصورت لباس وغیرہ) دے کر عورتوں کو وقتی طور پر اپنے حبالۂ نکاح میں لائیں۔
*بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دمشق، دار طوق النجاة، چاپ اول، ۱۴۲۲ق.
 
* بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، بی‌تا.
صحیح بخاری<ref>بخاری، صحیح بخاری، ج 3، ص346  345۔</ref> نے [[جابر بن عبداللہ انصاری|جابر بن عبداللہ]] اور [[مسلمہ بن اکوع]] سے روایت کی ہے کہ [[رسول اللہ]]ؐ کا منادی ہماری طرف آیا اور کہا: "[[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے تمہیں اجازت دی ہے کہ عورتوں کے ساتھ متعہ کرو (یعنی ان کے ساتھ وقتی طور پر رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجاؤ)"۔
*جصاص، ابوبکر احمد بن علی، احکام القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، ۱۴۱۵ق.
 
*جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، کویت، دارالسلاسل، ۱۴۲۷ق.
[[احمد بن حنبل]] نے [[ابو سعید خدری]] سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: "ہم نے [[رسول خداؐ]] کے زمانہ میں متعہ کیا اور لباس اور کپڑوں کو بعنوان [[مہر]] متعین کیا۔<ref>احمد بن حنبل، مسند احمد، ج3، ص400۔</ref>
*جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، عمان، وزارة الاوقاف و الشؤون الدینیة، چاپ اول، ۱۴۳۸ق.
 
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، ۱۴۱۶ق.
مُصَنَّف عبدالرزاق میں [[جابر بن عبداللہ بن انصاری|جابر بن عبداللہ]] سے مروی ہے کہ "ہم [[رسول خداؐ]] اور [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کے زمانے میں کچھ آٹا اور کھجور بعنوان [[مہر]] دے کر متعہ کرتے تھے حتی کہ عمر نے اس عمل کے بموجب اس کو منع کیا جو [[عمرو بن حریث]] نے انجام دیا تھا۔<ref>الصنعانی، عبدالرزاق، المصنف، ج7، ص500۔</ref>
*خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیله، تهران، مؤسسة تنظیم ونشر آثار امام الخمینی، چاپ اول، ۱۴۳۴ق.
 
*خویی، سید ابوالقاسم، کتاب النکاح، قم، دار العلم، بی‌تا.
===شیعہ روایات===
*زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ق.
[[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] سے متعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا: [[قرآن کریم]] میں ارشاد ہوا ہے کہ <font color=green>"'''{{حدیث|فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيماً حَكِيماً}}'''"</font>؛ تو ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو [واجب ہے کہ] ان کی اجرتیں جو مقرر ہوں ادا کردو اور کوئی حرج [و گناہ] نہیں کہ اس مقررہ مقدار کے بعد پھر تم آپس میں کوئی سمجھوتہ کرو، [اور رقم کو مفاہمت کے ساتھ کم یا زیادہ کرو] یقینا اللہ جاننے والا ہے، صحیح کام کرنے والا۔<ref>کلینی،فروع کافی، ج 11، ص7۔</ref>
*سبحانی، جعفر، متعة النساء فی الکتاب و السنة، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، ۱۴۲۳ق.
 
*سبزواری، سید عبدالاعلی، مهذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بی‌تا.
[[امام صادقؑ]] نے فرمایا: [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] بارہا فرمایا کرتے تھے کہ "اگر عمر مجھ پر پہل نہ کرتے [اور اپنی خلافت کے ذریعے متعے پر پابندی نہ لگاتے) تو نہایت شقی اور بدبخت (اور بہت کم) لوگوں کے سوا کوئی [[زنا]] کا مرتکب نہ ہوتا"۔<ref>کلینی،فروع کافی، ج 11، ص8۔</ref>
*سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفة، ۱۴۱۴ق.
 
*شرف الدین، عبدالحسین، النص و الاجتهاد، بیروت، ابومجتبی، ۱۴۰۴ق.
[[ابو حنیفہ]] نے [[امام صادقؑ]] سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو امامؑ نے فرمایا: "سبحان اللہ! کیا تم نے [قرآن|کتاب اللہ]] کی تلاوت نہیں کی جہاں ارشاد ہوا ہے کہ <font color=green>"'''{{حدیث|فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةًً؟}}'''"</font> تو [[ابو حنیفہ]] نے کہا: "خدا کی قسم! گویا میں نے اس آیت کو کبھی پڑھا ہی نہیں!"۔<ref>کلینی،فروع کافی، ج 11، ص11۔</ref>
*شهید ثانی، زین الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تعلیقه: سلطان العلماء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
 
*شیخ انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، قم، مجمع الفکر الاسلامی، ۱۴۳۰ق.
[[عبداللہ بن عمیر لیثی]] نے [[امام باقرؑ]] کے پاس آکر پوچھا: "متعہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو امامؑ نے فرمایا: "خداوند متعال نے اس کو اپنی کتاب اور اپنے [[رسول اللہ|پیغمبر]]ؐ کی سنت میں حلال کیا ہے پس تا قیامت حلال ہے۔<ref>کلینی،فروع کافی، ج 11، ص7۔</ref>
*شیخ مفید، محمد بن محمد، خلاصة الایجاز فی المتعة، بیروت، دار المفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
 
*طبسی، نجم الدین، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، قم، انتشارات دلیل ما، ۱۳۹۱ش.
==متعہ کے قائل اصحاب==
*عاملی، سیدجعفر مرتضی، زواج المتعة، بیروت، المرکز الإسلامی لدراسات، ۱۴۲۳ق.
معتبر تواریخ اور روایات نیز [[فقہاء|فقہائے]] [[اہل سنت]] سے ظاہر ہوتا ہے کہ [[صحابہ]] کی ایک جماعت ـ حتی کہ [[رسول خداؐ]] کے وصال کے بعد اور خلفاء کی خلافت کے دوران اور اس کے بعد بھی ـ متعہ اور میعادی نکاح کے قائل تھی اور ان کا [[فقہ|فقہی]] نظریہ یہ تھا کہ متعہ جائز اور [[مباح]] ہے۔
*عسکری، سیدمرتضی، الزواج الموقت فی الاسلام، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.
اس گروہ درج ذیل افراد شامل تھے:
*عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، بیروت، دار المعرفة، ۱۳۷۹ق.
{{ستون آ|3}}
*فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، کنز العرفان فی فقه القرآن، تهران، انتشارات مرتضوی، ۱۳۷۳ش.
*عمران بن حصین خزاعی (متوفٰی  52  ہجری)
*فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
*[[ابو سعید خدری]] (متوفٰی  74  ہجری قمری)
*[https://rc.majlis.ir/fa/law/show/92778 «قانون مدنی»]، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: ۱۵ شهریور ۱۴۰۲ش.
*[[جابر بن عبداللہ انصاری]] (متوفٰی  78  ہجری)
*قرطبی، شمس الدین، تفسیر القرطبی، قاهره، دار الکتب المصریة، چاپ دوم، ۱۳۸۴ق.
*[[زید بن ثابت |زید بن ثابت انصاری]] (متوفی  55  ہجری قمری)
* کاشف الغطاء، محمد حسین، این است آئین ما، ترجمه ناصر مکارم، مدرسه امام امیرالمؤمنین(عقم، ۱۳۷۰ش.
*[[عبداللہ بن مسعود]] (متوفٰی  32  ہجری)
*کلانتر، سیدمحمد، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تألیف شهید ثانی، قم، انتشارات داوری، ۱۴۱۰ق.
*سلمہ بن اکوع (متوفٰی  74  ہجری قمری)
*ماوردی، علی بن محمد، الحاوی الکبیر، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، ۱۴۱۹ق.
*[[امام علی علیہ السلام|علی بن ابی طالبؑ]] (شہادت  40  ہجری)
*محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تعلیقه: سیدصادق شیرازی، تهران، انتشارات استقلال، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
*[[عمرو بن حریث]] (متوفٰی  85  ہجری قمری)
*محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
*[[معاویہ بن ابی سفیان|معاویۃ بن ابی سفیان]] (متوفٰی  60  ہجری)
*مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسة الامام علی بن ابی طالب(ع)، ۱۴۲۴ق.
*سلمہ بن امیہ
*مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، قم، دایرة المعارف الفقه الاسلامی، ۱۳۸۷ش.
*ربیعہ بن امیہ
*نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، ۱۴۰۴ق.
*عمرو بن حوشب
*نعمان مغربی، محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام عن اهل بیت رسول الله علیه و علیهم افضل السلام، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیضی، قاهره، دارالمعارف، ۱۳۸۳ق.
*[[ابی بن کعب|ابی بن کعب]] (متوفٰی  30  ہجری قمری)
*نووی، ابوزکریا، شرح النووی علی مسلم، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۳۹۲ق.
*اسماء بنت ابی بکر (المتوفٰاۃ  73  ہجری)
*ام عبداللہ بنت ابی خثیمہ
*[[عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب]]
*سمیر (متوفٰی  59  ہجری قمری)
*[[انس بن مالک]] (متوفٰی  93  ہجری) 
*عبداللہ بن عمر.<ref>طبسی، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابہ و تابعین، ص68  19۔</ref>
{{ستون خ}}
 
==متعہ کے قائل تابعین و محدثین==
[[تابعین]] اور [[تبع تابعین]] کی ایک جماعت اور محدثین میں سے متعدد افراد جواز متعہ کے قائل تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں [[صحاح ستہ]] کے مؤلفین اور دیگر علماء نے اتفاق رائے سے ـ نقل حدیث کے سلسلے میں ـ قابل اعتماد اور ثقہ گردانا ہے۔ ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
{{ستون آ|4}}
*[[مالک بن انس]]،
*[[احمد بن حنبل]]،
*[[سعید بن جبیر]]،
*عبدالله بن عبدالعزیز بن جریج،
*عطاء بن ابی رباح،
*طاؤوس یمانی،
*عمرو بن دینار،
*مجاہد بن جبر،
*سدّی،
*حکم بن عتیبہ،
*ابن ابی ملیکہ،
*زفر بن اوس بن حدثان مدنی،
*طلحہ بن مصرّف الیامی.<ref>طبسی، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه و تابعین، ص95  72۔</ref>
{{ستون خ}}
 
==حامیوں اور مخالفوں کے مناظرے==
متعہ کے حلال یا حرام ہونے کے سلسلے میں [[خلیفہ دوئم]] کے حامیوں ـ جو اس کی حرمت کے قائل ہوئے تھے ـ اور مخالفین کے درمیان تنازعات اور جھگڑے رونما ہوئے:
* [[سعید بن جبیر]] کہتے ہیں: "میں نے سنا کہ [[عبداللہ بن زبیر]] خطبہ دے رہا تھا اور متعہ کے حلال ہونے کا فتوی دینے پر [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]] پر ملامت کررہا تھا۔ [[ابن عباس]] نے کہا: "اگر وہ سچ کہتا ہے تو جا کر اپنی والدہ سے پوچھے"۔ ابن زبیر نے ماں سے پوچھا اور جواب سن لیا جو یوں تھا: "ابن عباس درست کہتے ہیں، ہاں ایسا ہی تھا!۔ ابن عباس نے کہا: "اگر چاہوں تو [[قریش]] کے ان افراد کے نام لوں گا جو متعے کے نتیجے میں دنیا میں آئے ہیں"۔<ref>عسکری، ازدواج موقت در اسلام، ص49۔</ref>
* [[سعید بن جبیر|سعید]] ہی کہتے ہیں: "میں نے [[جابر بن عبداللہ انصاری|جابر]] سے کہا کہ [[عبداللہ بن زبیر|ابن زبیر]] متعہ کو ممنوع قرار دیتا ہے اور [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]] اس کے جواز کا فتوی دیتے ہیں؛ تو جابر نے کہا: "حدیث فتوی میرے ہاتھوں میں گردش کرتی ہے: ہم [[رسول خداؐ]] کے زمانے میں متعہ کرتے تھے؛ [[عمر بن خطاب]] کا دور آیا تو انھوں نے خطبہ دیا کہ خداوند عزّ و جلّ نے جو کچھ چاہا اپنے پیغمبر کے لئے حلال کیا اور [[قرآن]] اپنے مقامات پر نازل ہوا؛ اب تم اپنا [[حج]] [[عمرہ|عمرے]] سے الگ کرو اور ان عورتوں کے ساتھ نکاح (متعہ) کرنے سے باز آؤ کیونکہ اگر کوئی مرد میرے پاس لایا جائے جس نے متعہ کیا ہو میں اس کو سنگسار کروں گا"۔<ref>عسکری،ازدواج موقت در اسلام، 52  50۔</ref>
 
* [[کلینی]] کہتے ہیں: [[علی بن ابراہیم قمی]] کہتے ہیں: [[ابو حنیفہ]] نے [[مومن الطاق|ابو جعفر محمد بن نعمان صاحب طاق]] سے پوچھا: اے ابا جعفر! متعہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ کیا اس کو [[حلال]] سمجھتے ہو؟
:انھوں نے کہا: ہاں
 
کہا: پس اپنی کنیزوں کو کیوں منع کرتے ہو کہ وہ جاکر متعہ کریں اور (تمہارے لئے) آمدنی کمائیں؟
:ابو جعفر نے جواب دیا: ایسا نہیں ہے کہ ہر چیز میں شوق و رغبت ہو خواہ و حلال ہی کیوں نہ ہو۔ لوگوں کی اپنی حدود اور مراتب ہیں جن کا وہ تحفظ کرتے ہیں لیکن اے ابا حنیفہ! نبیذ ([[شراب]]) کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ کیا وہ [[حلال]] ہے؟
 
کہا: ہاں، حلال ہے۔
:کہا: تو پھر تم کیوں اپنی عورتوں کو شراب فروشی کی دکانوں میں متعین نہیں کرتے ہو تاکہ وہ تمہارے لئے آمدنی کمائیں؟
 
ابوحنیفہ نے کہا: ایک کا جواب ایک؛ لیکن تمہارا جواب زیادہ مضبوط تھا۔ اور پھر کہا: وہ آیت جو سَأَلَ سَائِلٌ<ref>سورہ معارج آیت  30: إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ؛ ترجمہ: سوا اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں ہیں کہ اس میں ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔</ref> میں ہے، متعہ کی حرمت کو ظاہری کرتی ہے اور [[رسول اللہ]]ؐ سے منقولہ روایت بھی اس آیت کو نسخ (منسوخ) کرتی ہے۔
:ابو جعفر نے کہا: [[سورہ معارج]] [[مکی اور مدنی|مکی]] ہے اور آیت متعہ<ref>سورہ نساء آیت  24۔</ref>  مدنی ہے۔<ref> پس ایسا نہیں ہوسکتا کہ کہ مکی سورت (جو مدنی سورت سے پہلے نازل ہوئی ہے) مدنی سورت کو منسوخ کرے۔</ref> اور تمہاری روایت بھی شاذّ و نادر ہے۔
 
[[ابو حنیفہ]] نے [ابو جعفر کی دلیل کا جواب دیئے بغیر] کہا: [[آیت میراث]] بھی متعہ کی منسوخی پر دلالت کرتی ہے۔
:ابو جعفر نے کہا: یہ نکاح (متعہ) ارث کے بغیر ہے۔<ref> یعنی متعہ آیت ارث کی عمومیت سے نصوص کے ذریعے خارج ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت میں خداوند متعال نے اہل کتاب کو بھی خارج کردیا۔</ref>
 
ابو حنیفہ نے کہا: ایسا کیونکر ممکن ہے (کہ نکاح بغیر ارث کے واقع ہو)؟
:ابو جعفر نے کہا: اگر ایک مسلم مرد [[اہل کتاب]] میں سے کسی عورت کے ساتھ شادی کرے اور وہ مرد مر جائے تو اس عورت کے بارے میں کیا کہوگے؟
 
ابو حنیفہ نے کہا: اہل کتاب خاتون کو مسلمان مرد کا ارث نہیں ملتا۔
:ابو جعفر نے کہا: پس بغیر ارث کے نکاح بھی موجود ہے۔
 
اس کے بعد وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔<ref>کلینی،فروع کافی، ج 11، ص13  12۔</ref>
 
==مامون کا متعہ کو جائز سمجھنا==
بنی عباس کے ساتواں خلیفہ مامون نے اس دور میں سماج میں موجود مخالفتوں کے باوجود حرمت متعہ کو ختم کر دیا اور نکاح متعہ کو جائز قرار دیا۔ لیکب بعد میں جب اس کے مشاور اور قاضی القضات اور اہل سنت عالم یحیی بن اکثم نے اس سے کہا کہ امام علی (ع) بھی اسے حرام سمجھتے تھے تو اس نے امام علی (ع) کے احترام میں اس حکم سے صرف نظر کر لیا۔
 
==دیگر اسلامی فرقوں کی رائے==
[[اہل سنت]] کے سوا ـ جو متعہ کو باطل سمجھتے ہیں<ref>[http://www.dar-alifta.org/ViewFatwa.aspx?ID=6673&LangID=1&MuftiType=0 دار الإفتاء المصریة]۔</ref> متعہ کے بارے میں دوسرے اسلامی فرقوں کی آراء کا جائزہ لیتے ہیں:
 
[[اباضیہ]] اور [[اہل سنت]] کے مشترکہ مسائل میں سے ایک متعہ کی تحریم ہے۔ اباضیہ کہتے ہیں کہ آیت متعہ منسوخ ہوئی ہے۔<ref>[http://istiqama.net/articles/ennami-figh.htm الخصائص البارزة فی الفقه الإباضی]۔</ref> <ref>[http://www.iftaa.net/fatwa_dis-457-1899.html#content مکتب الإفتاء فی سلطنة عمان]۔</ref><ref>[http://www.iftaa.net/fatwa_dis-457-1898.html#content مکتب الإفتاء فی سلطنة عمان]۔</ref>
 
[[زیدیہ]] بھی [[اہل سنت]] کی طرح متعہ کو حرام سمجھتے ہیں اور علمائے [[زیدیہ]] میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو نکاح متعہ کے جواز کا قائل ہو۔<ref>رجوع کریں: هاشمی، رأب الصدع، ج 2، ص891  876۔</ref>۔<ref>هادی،[http://www.azzaidiah.com/kotob_mojamaah/feqh/ketab_alahkaam1.html الأحکام فی الحلال والحرام]، ص349 و 353  351۔</ref>
 
[[اسماعیلیہ]] متعہ کو جائز نہیں گردانتے اور شادی بیاہ اور ازدواج کو دائمی زوجہ اور [[ملک یمین]] تک محدود سمجھتے ہیں۔ <ref>نعمان، دعائم الاسلام، ج2، ص181۔</ref>
 
==ارکان==
نکاح منقطع (یعنی متعہ) نکاح اور شادی کی دوقسموں میں سے ایک ہے اور ایک [[مستحب]] عمل ہے۔<ref>نجفی، محمد حسن، [[جواہر الکلام|جواهرالکلام]]، ج30، ص139، و 151۔</ref>
نکاح منقطع کے ارکان چار ہیں:
 
===صیغہ===
عقد متعہ بھی دیگر عقود کی مانند ایجاب اور قبول سے تشکیل پاتا ہے۔ ایجاب بقول مشہور {{حدیث|"زَوَّجْتُکَ"، "مَتَّعْتُکَ" یا "أَنْکحْتُکَ"}} میں سے کسی لفظ کے ساتھ ہونا چاہئے اور عقد دیگر الفاظ ـ جیسے "تملیک"، "ہبہ" اور "اجارہ" جیسے الفاظ = سے منعقد نہیں ہوتا۔ قبول ایسے لفظ کے انجام پاتا ہے جو قبول کرنے والے کی طرف سے رضا و رغبت پر دلالت کرے جیسے {{حدیث|"قَبِلْتُ النِّکاحَ"، "قَبِلْتُ المُتْعَةَ"، "قَبِلتُ التَّزْویجَ"}} یا صرف لفظ {{حدیث|"قَبِلْتُ"}}۔<ref>جواہرالکلام، ج30، صفحہ 154۔</ref> عقد منقطع اور عقد دائم کی شرائط ایک جیسی ہیں۔<ref>جواہرالکلام، ج30، صفحہ 155  154۔</ref>
 
عورت اور مرد میں سے کوئی بھی تمتع اور لذت لینے کی کیفیت، وقت اور مقام اور دیگر پہلؤوں کے حوالے سے ایسی شرطوں کا تعین کرسکتا ہے جن عقد کے تقاضوں کے منافی نہ ہوں۔<ref>جواہر الکلام، ج30، ص186  189۔</ref> اس سلسلے میں [فقہاء کے درمیان] اختلاف ہے کہ کیا مرد اپنی وقتی زوجہ کا حق زوجیت چار ماہ تک ترک کرسکتا ہے یا نہیں۔<ref>جواہر الکلام، ج29، ص115  117 ؛ العروة الوثقی، ج2، ص810۔</ref>
 
===زوجین===
وقتی ازدواج اور متعہ مسلمان مرد عورت اور متأخر فقہاء کے مشہور قول کے مطابق مسلمان مرد اور [[اہل کتاب|کتابی]] عورت کے درمیان صحیح ہے لیکن مسلمان عورت اور کتابی مرد کے درمیان صحیح نہیں ہے۔<ref>جواهرالکلام، ج30، صفحه 27و 28۔۔</ref>۔<ref>الحدائق الناضرة، ج24، ص5۔</ref>
 
[[مستحب]] ہے کہ جو عورت عقد منقطع کے لئے اختیار کی جاتی ہے مؤمنہ (شیعہ) اور پاکدامن ہو اور اگر اس پر کوئی الزام ہو تو اس کے بارے میں تحقیق کی جائے۔ قول مشہور یہ ہے کہ زانیہ عورت کے ساتھ متعہ کرنا [[مکروہ]] اور بعض فقہاء کے نزدیک [[حرام]] ہے اور مکروہ ہونے کا قول اختیار کرکے اس کے ساتھ متعہ کیا جائے تو اس کو زنا سے بازرکھنا اور منع کرنا [[مستحب]] ہے۔<ref>جواهر الکلام ج30، ص157  160۔</ref>
باکرہ [کنواری) لڑکی کے ساتھ متعہ کرنا [[مکروہ]] ہے اور اگر وہ متعہ کرے تو اس کی بکارت (کنوارا پن) زائل کرنا [[مکروہ]] ہے۔ عاقلہ۔ بالغہ اور رشیدہ کنواری لڑکی کے عقد منقطع کے لئے اس کے ولی (والد یا دادا) کی اجازت کی ضرورت میں اختلاف ہے اور بعض (اکثر) فقہاء اس عقد کو باطل سمجھتے ہیں۔<ref>جواهر الکلام ج30، ص186۔</ref>
 
===مہر===
عقد منقطع میں [[مہر]] کا ذکر اس کی صحت کی شرط ہے اور اگر مہر کا ذکر نہ کیا جائے تو عقد صحیح نہیں ہے۔<ref>جواهر الکلام ج30، ص162۔</ref> عورت عقد کے انعقاد کے ساتھ ہی مہر کی مالک بن جاتی ہے لیکن پورے مہر پر اس کی ملکیت مجامعت اور متعہ کی معینہ مدت کے دوران  تمکین ( مجامعت کے حوالے سے شوہر کی اطاعت) پر مشروط ہے۔<ref>جواهر الکلام ج30، ص164 و 167  168۔</ref> اگر مرد مجامعت سے قبل ہی مدت متعہ زوجہ کو بخش دے تو مہر کی آدھی رقم اس کے ذمے ثابت ہے۔<ref>جواهر الکلام ج30، ص166  167،168۔</ref>
 
===مدّت===
مدت کا ذکر اس قسم کے عقد میں صحت کی شرط ہے۔ اگر مدت ذکر نہ کی جائے تو قول مشہور یہ ہے کہ عقد دائم واقع ہوجاتا ہے (اور عورت مرد کی دائمی زوجہ ہوگی)۔ مدت کو معین کرنا چاہئے اس طرح کہ اس کو کم یا زیادہ نہ کیا جاسکے؛ مبہم اور کلی نہ جیسے حجاج کی [[مکہ]] سے وطن واپسی سے چند ماہ قبل تک وغیرہ۔
 
مرد مدت متعہ کا کچھ حصہ یا پوری مدت عورت کو بخش سکتا ہے اور اس میں عورت کی طرف سے قبول کا صیغہ جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔<ref>جواهر الکلام ج30، ص166۔</ref> متعہ میں [[طلاق]] نہیں ہے اور عورت اور مرد مدت کے اختتام یا مرد کی طرف سے مدت بخشے جانے کی صورت میں علیحدہ ہونگے۔<ref>جواهر الکلام ج30، ص168۔</ref>
 
بقول مشہور ـ مدت متعہ کے خاتمے سے قبل ـ عورت کے ساتھ عقد متعہ کی تجدید یا اس کی عقد دائم میں تبدیلی صحیح نہیں ہے۔<ref>جواهر الکلام ج30، ص202۔</ref>
 
==نکاح متعہ کی عدت==
عورت مدت متعہ کے اختتام یا مرد کی طرف سے مدت بخشے جانے کی صورت میں مجامعت و عدم حاملگی، اور [[حیض]] کی عمر میں ہوتے ہوئے ماہواری نہ آنے کی صورت میں 45 دن تک [[عدت]] رکھے گی اور اس میں اختلاف ہے کہ کیا عورت کی عدت دو ماہواریاں ہیں یا ڈيڑھ مہینہ، یا دو بار (حیض سے) پاک ہونا۔ اول الذکر قول (دو ماہواریاں) مشہور ہے اور اگر عورت حاملہ ہو تو بچے کی پیدائش تک کی مدت عدت شمار ہوگی۔<ref>جواهر الکلام، ج30، ص200۔</ref>
 
بقول مشہور وہ غیر حاملہ عورت جس کا شوہر وفات پا چکا ہے، چار ماہ تک عدت میں رہے گی اور بعض اس کی نصف مدت کے قائل ہوئے ہیں۔ [[عدت وفات]] عورت کے حاملہ ہونے کی صورت میں ـ وضع حمل اور بچے کی پیدا‏ئش تک ـ مدت کے لحاظ سے طویل ترین ہے۔<ref>مهذب الاحکام، ج26، ص95۔</ref>
 
==نکاح منقطع اور نکاح دائم میں فرق==
# جو چیز ان دو کو ایک دوسرے سے متمایز کردیتی ہے ایک یہ ہے کہ عورت اور مرد فیصلہ کرتے ہیں کہ وقتی طور پر ایک دوسرے سے [[نکاح]] کرلیں اور مدت کے خاتمے کے بعد اگر مائل ہوں تو اس کی تجدید کریں اور اگر مائل نہ ہوں تو علیحدگی اختیار کریں۔
# شرائط کے لحاظ سے دونوں کو (نکاح دائم کی نسبت) زيادہ آزادی حاصل ہے اور جس طرح کہ چاہیں معاہدہ کرتے ہیں؛ مثال کے طور پر [[نکاح دائم]] میں مرد کو ـ چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے ـ زوجہ کے روزمرہ احتیاجات ـ جیسے غذا، لباس، مکان ـ اور دیگر احتیاجات ـ جیسے علاج معالجہ اور طیبیب کے اخراجات ـ پورے کرنے پڑتے ہیں جبکہ نکاح متعہ میں یہ سب مرد اور عورت کے درمیان آزاد قرارداد پر منحصر ہے؛ ممکن ہے کہ مرد ان اخراجات کو برداشت نہ کرنا چاہے یا نہ کرسکے یا زوجہ شوہر کے مال سے اس سلسلے میں استفادہ نہ کرنا چاہے۔
# نکاح دائم میں زوجہ ـ چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے ـ مرد کو سربراہ خاندان کے طور پر قبول کرے گی اور خاندان کے مفاد اور مصلحت کے سلسلے میں اس کے اوامر کی اطاعت گزار ہوگی جبکہ نکاح متعہ میں یہ سب ان کے درمیان اس قرارداد پر منحصر ہو جو ان کے درمیان عقد کے وقت منعقد ہوگی۔
# دائمی ازدواج میں زوجہ اور شوہر ـ چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے ـ ایک دوسرے سے وراثت پاتے ہیں جبکہ نکاح متعہ میں ایسا نہیں ہے۔
# [[نکاح دائم]] میں بعض [[فقیہ|فقہاء]] کی رائے کے مطابق زوجین میں سے کوئی بھی دوسرے کی مرضی کے بغیر بچہ جننے اور تولید نسل سے امتناع و احتراز نہیں کرسکتا جبکہ نکاح متعہ میں اس سلسلے میں دوسرے کی مرضی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ درحقیقت یہ بھی ایک قسم کی دوسری آزادی ہے جو نکاح متعہ میں زوجین کو عطا ہوئی ہے۔ اگر اس نکاح سے کوئی بچہ دنیا میں آئے تو اس میں اور دائمی نکاح سے دنیا میں آنے والے بچے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
# [[مہر]] نکاح دائم میں بھی واجب و لازم ہے اور نکاح متعہ میں بھی؛ فرق صرف یہ ہے کہ نکاح متعہ میں اگر مہر کا ذکر نہ کیا جائے تو نکاح باطل ہے اور اگر نکاح دائم میں اس کا ذکر نہ کیا جائے تو عقد باطل نہیں ہوتا اور [[مہر المثل]] متعین کیا جاتا ہے۔
# جس طرح کہ عقد دائم میں زوجہ کی ماں اور بیٹی اس کے شوہر، اس کے بیٹے اور باپ پر [[حرام]] و [[محرم|محرّم]] ہے عقد متعہ میں بھی ایسا ہی ہے اور جس طرح کہ زوجۂ دائمہ کا رشتہ مانگنا دوسروں پر حرام ہے زوجۂ متعہ کا رشتہ مانگنا بھی دوسروں پر حرام ہے۔ جس طرح کہ دوسرے مرد کی زوجۂ دائمہ کے ساتھ [[زنا]] کرنا ابدی حرمت کا سبب بنتا ہے دوسرے مرد کی زوجہ متعہ کے ساتھ زنا کرنا بھی ابدی حرمت کا موجب بنتا ہے۔
# جس طرح کہ زوجۂ دائمہ کو طلاق کے بعد معینہ مدت تک عدت میں رہنا پڑتا ہے زوجۂ متعہ کو بھی معینہ مدت کے خاتمے یا اس کے شوہر کی طرف سے بخشے جانے کی صورت میں کچھ مدت تک عدت میں رہنا پڑتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ نکاح دائم سے طلاق یافتہ عورت کی عدت کی مدت تین ماہواریوں تک اور نکاح متعہ کی عدت 45 تک ہے۔
# نکاح دائم میں دو بہنوں سے شادی کرنا جائز نہیں ہے اور نکاح متعہ میں بھی دو بہنوں کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں ہے۔<ref>مجموعه ‏آثاراستاد شهید مطهری، ج‏19، ص: 63  62۔</ref>
# نکاح متعہ میں ـ نکاح دائم کے برعکس ـ عورتوں کے انتخاب کے حوالے سے کوئی حد مقرر نہیں ہے اور مرد جہاں تک چاہے متعدد عورتوں سے نکاح متعہ کرسکتا ہے؛<ref>العروة الوثقی، ج2، ص814۔</ref> جبکہ نکاح دائم میں چار عورتوں سے زیادہ سے شادی کرنا جائز نہیں ہے۔
 
==شادی شدہ مرد کا نکاح متعہ==
نکاح متعہ کے سلسلے میں رویہ کچھ ایسا ہو کہ نہ تو یہ سنت حسنہ فراموشی کے سپرد کیا جائے اور نہ ہی اس کے مستحب ہونے کے بہانے دائمی زوجہ مشترکہ زندگی اور دین اسلام سے مایوس کیا جائے؛ اگرچہ دائمی زوجہ کے ناراض ہونے یا نہ ہونے سے نکاح متعہ کے جواز اور مشروعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اس کی ناراضگی اس کی حرمت یا ممنوعیت کا سبب نہیں بنتی۔
 
[[امام علی نقی علیہ السلام|امام ہادیؑ]] نے فرمایا ہے:
::"بہتر ہے کہ نکاح متعہ کے سلسلے میں سنت کو قائم کرنے پر اکتفا کیا جائے اور اس قدر اس کی طرف توجہ نہ دی جائے کہ انسان اپنی دائمی زوجہ سے غافل ہوجائے؛ کیونکہ ایسا کرنے کی وجہ سے خواتین [[کفر]] و انکار کی طرف مائل ہوسکتی ہیں اور نکاح متعہ کا حکم دینے والوں اور [[اہل بیت علیہم السلام]] کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کرسکتی ہیں اور ان پر ملامت و نفرین کرسکتی ہی۔<ref>کلینی، اصول کافی، ج5، ص453۔</ref>
 
مروی ہے کہ [[امام علی نقی علیہ السلام|امام ہادیؑ]] سے متعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:
::"متعہ، مباح اور حلال مطلق ہے اس مرد کے لئے جس کو خداوند متعال نے دائمی ازدواج کے ذریعے بےنیاز نہیں کیا ہے (اور ابھی تک ضرورتمند ہے)، پس اگر دائمی نکاح کے ذریعے وہ نکاح متعہ سے بےنیاز ہے تو صرف اس صورت میں متعہ اس کے لئے جائز ہوگا جب زوجہ اس کے پاس نہ ہو۔<ref>کلینی، کافی، ج‏5، ص452 – 453۔</ref>
 
==متعہ کا فلسفہ==
[[مرتضی مطہری|شہید استاد مرتضی مطہری]] کہتے ہیں:
::حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان تھوڑا سا غور کرے تو ظاہر ہے کہ نکاح متعہ ایک حالت ضرورت کے لئے ہے۔<ref>مجموعه ‏آثاراستاد شهیدمطهری، ج‏27، ص: 225۔</ref> یہ جو [[اسلام]] نے متعہ کی اجازت دی ہے کچھ لوگوں کی شہوت رانی اور ہوی و ہوس کی آگ بجھانے کے لئے نہیں کہ بعض افراد جو شادی شدہ ہیں اور ایک، دو، تین یا چار بیویوں کے خاوند ہونے کے باوجود تنوع (variety) کی خاطر نکاح متعہ کی طرف چلے جاتے ہیں کہ ثواب حاصل کریں!! نہیں، ان افراد کے لئے اس کا کوئی ثواب نہیں ہے بلکہ ان کے لئے باعث گناہ بھی ہے۔<ref>رجوع کریں: پاورقی مجموعه ‏آثارشهیدمطهری، ج‏26، ص: 437۔</ref>
 
[[مرتضی مطہری|استاد مطہری]] متعہ کی ترغیب اور اس سے نہی کے سلسلے میں [[ائمۂ معصومین علیہم السلام]] سے وارد ہونے والی مختلف [[حدیث|احادیث]] کے بارے میں کہتے ہیں:
::"میری رائے کے مطابق ـ جہاں [[ائمۂ معصومین علیہم السلام|ائمۂ اطہار]] نے شادی شدہ مردوں کو متعہ سے منع کیا ہے، ان کا یہ حکم اس قانون کی حکمت اولیہ پر استوار ہے۔ انھوں نے یہ بتانا چاہا ہے کہ یہ قانون ان مردوں کے لئے وضع نہیں ہوا ہے جن کے لئے متعہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ [[امام موسی کاظم علیہ السلام|امام کاظم]]ؑ نے [[علی بن یقطین]] سے فرمایا: "تمہیں نکاح متعہ سے کیا کام حالانکہ خداوند متعال نے تم کو اس سے بے نیاز فرمایا ہے" اور ایک دوسرے شخص سے کہا: یہ قانون اس شخص کے لئے جس کو خداوند متعال نے ایک بیوی کے ذریعے اس سے بے نیاز نہیں کیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شادی شدہ ہو تو وہ صرف اس وقت نکاح متعہ کا اہتمام کرے جب زوجہ اس کی دسترس باہر ہو"۔ لیکن جہاں انھوں نے عام افراد کو اس عمل کی ترغیب دلائی ہے وہ اس قانون کی حکمت ثانویہ یعنی "سنت متروکہ کا احیاء" کا تقاضا ہے کیونکہ اگر وہ صرف ضرورتمند افراد کو اس سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دلاتے تو یہ حکم اس سنت متروکہ کے احیاء کے لئے کافی نہ تھا۔<ref>مجموعه ‏آثاراستادشهیدمطهری، ج‏19، ص: 82۔</ref>
 
[[محمد حسین کاشف الغطاء]] نکاح متعہ کے فلسفے کے بارے میں کہتے ہیں:
::[[اسلام]] نے جنسی مشکل کا راہ حل (خاص طور پر نوجوانوں اور) ان تمام لوگوں کو دکھایا ہے جو کسی وجہ سے دائمی شادی کرنے پر قدرت نہیں رکھتے؛ اور تجویز دیتا ہے کہ ان صورتوں میں عورت اور مرد ـ جو ایک دوسرے کی طرف مائل ہیں ـ دائمی نکاح کے بھاری فرائض اور ذمہ داریاں اٹھائے بغیر، محدود وقت کے لئے نکاح متعہ برقرار کرتے ہیں اور اس کو عینا دائمی شادی سمجھیں اور عورت مدت متعہ کے خاتمے کے بعد بھی [[عدت]] کا پاس رکھ کر زوجیت کے حریم کی مکمل طور پر رعایت کریں۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، ص386  385۔</ref>
 
ان کا کہنا ہے:
::نکاح متعہ فحاشی اور جنسی انحرافات کی مختلف اقسام سے بچاؤ کا ایک حربہ ہے اور نوجوانوں کی جنسی مشکلات کے ایک بڑے حصے کو حل کرسکتا ہے اور بہت سی معاشرتی برائیاں جو اس حوالے سے کسی بھی بڑے اور چھوٹے کے دامنگیر ہو سکتی ہیں کی جڑیں اکھاڑ سکتا ہے۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، ص387۔</ref>
 
==مزید مآخذ برائے مطالعہ==
{{طومار}}
[[شیعہ]] [[فقیہ|فقہاء]] و ارباب قلم نے گذشتہ زمانوں سے آج تک متعہ یا وقتی شادی کے سلسلے میں بہت زیادہ کتب و مقالات تصنیف و تالیف کرنے کا اہتمام کرکے اس کی مشروعیت و جواز پر استدلال کیا ہے۔<ref> طبسی، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابہ و تابعین (متعہ صحابہ و تابعین کی روش اور کلام کی روشنی میںص138  135۔</ref> جیسے:
* کتاب المتعہ، مولف: [[شیخ صدوق]]، (متوفی 381 ھ)؛
* کتاب المتعہ، مولف: [[شیخ مفید]]، (متوفی 413 ھ) یہ اس موضوع پر ان کی تین کتابوں میں سے ایک ہے دوسری دو یہ ہیں: الموجز فی المتعة و مختصر المتعہ۔
* کتاب المتعہ، مولف: [[شیخ مرتضی انصاری]]، (متوفی 1218 ھ)؛
* کتاب المتعہ، مولف: سید محمد تقی حکیم؛
* رسالہ فی المتعہ، مولف: [[علامہ مجلسی]] (متوفی 1111 ھ)؛
 
و دسیوں دیگر کتب و رسائل جو درج ذیل ہیں:
 
{{ستون آ|3}}
 
<small>
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابن اسحاق نہاوندی۔ (269  ہجری)؛
# رسالۃ فی المتعۃ، بقلم: شیخ إبراہیم قطفان، (1264  ہجری)؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابو یحییٰ جرجانی، اس کتاب کو [[شیخ طوسی]]، [[الفہرست]] میں ذکر کیا ہے؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: احمد بن یحییٰ قمی، (350  ہجری)؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابو جعفر قمی؛
# رسالۃ فی المتعۃ، بقلم: [[علامہ مجلسی]] (متوفّٰی  1111  ہجری)؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: بندار بن عبداللہ إمامی؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: توفیق الفکیکی، جو "مسائل موسی جاراللہ" کے رد میں لکھی گئی اور سنہ 1356  ہجری میں علاّمہ کاشف الغطاء کی تقریظ کے ساتھ شائع ہوئی؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: سید شریف مذری علوی؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: حسن بن خرّزاد قمی؛
# کتاب المتعۃ، بقلم:[[حسن بن علی بن ابی حمزۃ بطائنی]]؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابو محمد [[حسن بن علی بن فضال کوفی]]؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابو عبد اللہ سعدی قمی؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابو القاسم اشعری، (299  ہجری)؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: شیخ نظام الدین صہرشتی، جو چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں لکھی گئی ہے؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابی الفضل الورّاق؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: سید [[عبدالحسین شرف الدین عاملی]]؛
# وہ کتاب جو [[ہشام بن حکم]] کے ہم عصر علی بن إسماعیل بن شعیب بن میثم تمار الکوفی، نے تالیف کی ہے؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابی حسن مہلّبی ازدی؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابی الحسن علی بن حسین فطحی؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: علی بن حسن طائی طاطری؛
# رسالۃ فی المتعۃ، بقلم: سید علی بن سید نصیر آبادی، (1259 ہجری)؛
# رسالۃ فی المتعۃ، بقلم: شیخ علی بن عبد اللہ بحرانی،(متوفّٰی 1318 ہجری)؛
# رسالۃ فی المتعۃ، بقلم: سید نقوی جایسی، (متوفّٰی  1329  ہجری)؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابو احمد ازدی بغدادی، (متوفّٰی 217 ہجری)؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابوالفضل صابونی جعفی، جو [[مصر]] میں سکونت پذیر تھے؛
# [[کلینی رازی|الکافی کے مصنف علامہ کلینی]] کے شاگرد "الصفوانی" کی تالیف "کتاب المتعۃ" جس کا ذکر [[شیخ طوسی]] نے الفہرست میں کیا ہے؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابی الحسین رہنی شیبانی؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: [[شیخ صدوق]]، (متوفّٰی  381 ہجری)؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: [[شیخ مفید]]، (متوفّٰی  413 ہجری)؛ یہ کتاب متعہ کے موضوع پر ان کی تین کتابوں میں سے ایک ہے۔ انھوں نے اس موضوع پر دو دیگر کتب بھی تالیف کی ہیں: 1) "الموجز فی المتعۃ"، اور 2) "مختصر المتعۃ"؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: [[شیخ مرتضی انصاری]]، (متوفّٰی  1218  ہجری)؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: ابو حسین نرما شیری؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: یونس بن عبد الرحمن، یہ کتاب ان دو کتب سے الگ ہے جو انھوں نے "اسباب نکاح" اور "متعہ کے جائزے" کے عنوان سے لکھی ہیں؛
# کتاب المتعتین: متعۃ النساء و متعۃ الحجّ، بقلم: ابو اسحاق ثقفی (متوفّٰی  283  ہجری)؛
# کتاب المتعتین، بقلم: [[فضل بن شاذان نیشابوری]]؛  
# کتاب الزواج الموقّت فی مسائل المتعۃ و فوائدها للمجتمع البشری و إصلاح حال الإنسان، بقلم: [[سید ہبہ الدین شہرستانی|سید ہبۃ الدین شہرستانی]]؛
# کتاب عدّۃ المتمتّع بها، بقلم: محمد تقی داودی؛
# کتاب المتعۃ بین الشریعۃ و البدعۃ، بقلم: مرتضی موسوی اردبیلی؛
# کتاب المتعۃ و مشروعیتها فی الإسلام، بقلم: جمعی از نویسندگان؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: [[سید جعفر مرتضی]]؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: [[سید محمد تقی حکیم]]؛
# کتاب نکاح المتعۃ، بقلم: نصر بن إبراہیم مقدسی؛
# کتاب المتعۃ، بقلم: شفائی۔
# کتاب الزواج الموقّت، بقلم: اسماعیل ہادی؛
# حقیقۃ زواج المسیار و مشروعیۃ المتعۃ، بقلم: سید محمد علی بقاعی؛
# زواج المتعۃ، بقلم: جلال الوردانی۔''
 
</small>
{{ستون خ}}
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
==نکاح متعہ، ایران کے مدنی قانون میں==
[[ایران]] کے دیوانی قانون (قانون مدنی) کی دفعہ 1075 میں نکاح متعہ کو تسلیم کیا گیا۔ مادہ 1095 سے 1098 تک بعض اقدامات قرار دیئے گئے ہیں کہ عورت کا حق مہر بہر صورت اس کو ادا کیا جائے۔ دفعہ 1113 کی تصریح کے مطابق "عقد انقطاع (نکاح متعہ) میں عورت کو حق نفقہ حاصل نہیں ہے مگر یہ کہ عقد متعہ کو اس سے مشروط کیا گیا ہو یا عقد اس کی بنیاد پر جاری کیا گیا ہو"۔ دفعہ 1139 کی رو سے [[طلاق]] کا تعلق نکاح دائم سے ہے اور نکاح متعہ میں طلاق متصور نہیں ہے۔ دفعہ 1152 کا تعلق "[[عدت]] [[طلاق]]"، "فسخ [[نکاح]]" "بذل مدت" (متعہ کی صورت میں شوہر کی طرف سے مدت کے جانے)، اور "اختتام مدت" سے ہے اور دفعہ 1154 عدت وفات کے سلسلے میں ہے۔<ref>رجوع کریں: قانون مدنی جمهوری اسلامی ایران۔</ref>
== حمایت خاندان کے قانون  کی روشنی میں نکاح متعہ==
[[ایران]] کے [[قانون حمایت خاندان]] حمایت خاندان کے نئے قانون (Family Support Act) کی دفعہ 21 ـ جس کا تعلق ازدواج و طلاق کے اندراج کی سرکاری دستاویزات کے دفاتر میں نکاح متعہ کے اندراج سے ہے ـ تین چیزوں کو ضروری گردانا گیا ہے: 1) زوجہ حاملہ ہو جائے 2) فریقین سمجھوتہ کر لیں 3) شرط عقد کے ضمن میں؛؛<ref>رجوع کریں:[http://law.dotic.ir/AIPLaw/lawview.do?reqCode=lawView&lawId=187568&isLaw=1&type=all قانون حمایت خانواده]۔</ref> یعنی عقد نکاح کے ضمن میں زوجین شرط کریں کہ ان کے میعادی نکاح کا اندراج کیا جائے جبکہ سابقہ قوانین میں لازمی نہ تھا کہ اس قسم کے نکاح کا اندراج ہونا چاہئے۔
== حوالہ جات ==
<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >
{{حوالہ جات|3}}
</div>
== منابع ==
{{ستون آ|2}}
* بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر قرآن، محقق قسم الدراسات الاسلامیہ موسسہ البعثۃ، موسسہ البعثۃ، قم، 1374ہجری شمسی۔
* قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، محقق، موسوی جزایری طیب، دارالکتاب، قم 1404ہجری قمری۔
* طباطبایی، محمد حسین، تفسیر المیزان، جامعہ مدرسین، قم، 1417ہجری قمری۔
* نیشابوری، ابن مسلم، الجامع الصحیح المسمی صحیح مسلم، دارالآفاق الجدیدہ، بیروت، بی‌تا.
* محمد بن اسماعیل، بخاری، صحیح بخاری، دارالفکر، بیروت، 1997عیسوی، 1418ہجری قمری۔
* ابن ابی شیبہ کوفی، عبداللہ بن محمد، المصنف فی الأحادیث والآثار، دارالفکر، بیروت، 1409ق، 1989م.
* احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1991عیسوی، 1412ہجری قمری۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، فروع کافی، دارالحدیث، قم، 1430ق، 1388ہجری شمسی۔
* مکارم، ناصر، تفسیر نمونہ، جلدسوم، دارالکتب الاسلامیہ، تہران، 1371ہجری شمسی۔
* مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی (نور)، نرم افزار مجموعہ آثار شہید مطہری(رہ).
* عسکری، مرتضی، ازدواج موقت در اسلام، مترجم محمد جواد مکرمی، مجمع عالم اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
* نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام فی شرح شرایع الاسلام، دار احیاءالثراث العربی، بیروت، 1404ہجری قمری۔
* بلاغی نجفی، محمد جواد، آلاء الرحمن فی تفسیرالقرآن، بنیاد بعثت، قم، 1420ہجری قمری۔
* طبرسی، فضل بن محمد، تفسیر جوامع الجامع، انتشارات دانشگاہ تہران و مدیریت حوزہ علمیہ قم، تہران، 1377 ہجری شمسی۔
* طبرسی، فضل بن محمد، ترجمہ مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ترجمہ بہ وسیلہ مترجمان، انتشارات فراہانی، تہران، 1360 ہجری شمسی۔
* زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، دارالکتاب العربی، بیروت، 1407 ہجری قمری۔
* ثعلبی نیشابوری، احمد بن ابراہیم، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1422ہجری قمری۔
* صنعانی، عبدالرزاق بن ہمام، المصنّف، ج7، مجلس علمی، بی‌جا، 1390ہجری قمری، 1970عیسوی۔
* ہاشمی، احمد بن عیسی، رأب الصدع، دارالنفائس، بیروت، 1410 ہجری قمری،  1990عیسوی۔
* کاشف الغطاء، محمد حسین، این است آئین ما، ترجمہ ناصر مکارم، مدرسہ امام امیرالمومنینؑ، قم، 1370ہجری شمسی۔
* ابن حنبل، احمد، المسند وبہامشہ منتخب كنز العمال في سنن الاقوال والافعال المجلد الاول دار صادر بيروت۔
* کلینی، محمد، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، چاپ چہارم، 1407ہجری قمری۔
{{ستون خ}}


{{گھریلو احکام}}
{{گھریلو احکام}}
سطر 354: سطر 133:
[[زمرہ:شیعوں سے مخصوص احکام]]
[[زمرہ:شیعوں سے مخصوص احکام]]
[[زمرہ:ویکی شیعہ کے بنیادی مقالہ‌ جات]]
[[زمرہ:ویکی شیعہ کے بنیادی مقالہ‌ جات]]
[[تصحیح شدہ مقالے]]
confirmed، movedable
5,562

ترامیم