"تقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
←اہل سنت کا نظریہ=
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 96: | سطر 96: | ||
اس سلسلے میں نمونے کے طور پر برادران [[حضرت یوسف]] کا واقعہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حضرت یوسف کے بھائی گندم لینے آپؑ کے پاس آئے۔ [[آیات|قرآنی آیات]] کے مطابق جب برادران یوسف کا سامان باندھا گیا تو حضرت یوسف نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھنے کی تدبیر کے طور پر سرکاری پیالی کو چھپا کر ان کے سامان میں رکھوا لیا۔ سرکاری ترجمان نے پکار کر کہا: اے قافلہ والو! تم چور ہو۔ اس سلسلے میں واردہ شدہ [[احادیث]] اور مفسرین کے مطابق حضرت یوسفؑ نے اپی ایک خاص مصلحت کے حصول کی خاطر تقیہ کرتے ہوئے توریہ اور حیلہ سےکام لیا؛ یعنی یہاں حضرت یوسف کا مقصود یہ نہیں تھا کاروان والوں نے در واقع چوری کی ہے، بلکہ آپکا مقصود یہ تھا کہ تم لوگوں نے حضرت یوسف کو ان کے باپ سے چرا کر ان کو کنواں میں پھینک دیا ہے۔ <ref>طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص355؛ کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص217؛طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1363ہجری شمسی، ج11، ص223؛ مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص68.</ref> | اس سلسلے میں نمونے کے طور پر برادران [[حضرت یوسف]] کا واقعہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حضرت یوسف کے بھائی گندم لینے آپؑ کے پاس آئے۔ [[آیات|قرآنی آیات]] کے مطابق جب برادران یوسف کا سامان باندھا گیا تو حضرت یوسف نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھنے کی تدبیر کے طور پر سرکاری پیالی کو چھپا کر ان کے سامان میں رکھوا لیا۔ سرکاری ترجمان نے پکار کر کہا: اے قافلہ والو! تم چور ہو۔ اس سلسلے میں واردہ شدہ [[احادیث]] اور مفسرین کے مطابق حضرت یوسفؑ نے اپی ایک خاص مصلحت کے حصول کی خاطر تقیہ کرتے ہوئے توریہ اور حیلہ سےکام لیا؛ یعنی یہاں حضرت یوسف کا مقصود یہ نہیں تھا کاروان والوں نے در واقع چوری کی ہے، بلکہ آپکا مقصود یہ تھا کہ تم لوگوں نے حضرت یوسف کو ان کے باپ سے چرا کر ان کو کنواں میں پھینک دیا ہے۔ <ref>طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص355؛ کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص217؛طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1363ہجری شمسی، ج11، ص223؛ مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص68.</ref> | ||
==اہل سنت کا نظریہ | ==اہل سنت کا نظریہ== | ||
کتاب "الموسوعة الفقهیة الکویتیة" (فقہ اہل سنت کے موضوع پر 45 جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا) کے مطابق علمائے [[اہل سنت]] کی اکثریت ضرورت کے موقعوں پر تقیہ کرنے کو جائز سمجھتی ہے؛ یعنی جہاں انسان کو کوئی جانی یا مالی خطرہ لاحق ہو تو اس خطرے کو ٹالنے کی حد تک تقیہ کرنا [[جائز]] ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، 1404ھ، ج13، ص186-187.</ref> | کتاب "الموسوعة الفقهیة الکویتیة" (فقہ اہل سنت کے موضوع پر 45 جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا) کے مطابق علمائے [[اہل سنت]] کی اکثریت ضرورت کے موقعوں پر تقیہ کرنے کو جائز سمجھتی ہے؛ یعنی جہاں انسان کو کوئی جانی یا مالی خطرہ لاحق ہو تو اس خطرے کو ٹالنے کی حد تک تقیہ کرنا [[جائز]] ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، 1404ھ، ج13، ص186-187.</ref> |