مندرجات کا رخ کریں

"ایام تشریق" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:ایام تشـریق.jpg|250px|تصغیر]]
[[ملف:ایام تشـریق.jpg|250px|تصغیر]]


'''اَیامِ تَشْریقْ''' قمری مہینہ [[ذوالحجہ|ذی الحجہ]] کے [[11 ذی الحجہ|گیارہویں]]، [[12 ذی الحجہ|بارہویں]] اور [[13 ذی الحجہ|تیرہویں]] دن کو کہا جاتا ہے. [[خانہ خدا]] کے [[حج]] کرنے والے حاجی  [[قربانی]] اور [[رمی جمرات]] جیسے حج کے بعض اہم [[مناسک حج|مناسک]] اور اعمال انہی ایام میں انجام دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے [[اسلامی]] تہذیب میں ان دنوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بعض منابع میں ان ایام کو اسلامی عیدوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
'''اَیامِ تَشْریقْ''' قمری سال کے آخری مہینہ [[ذوالحجہ|ذی الحجہ]] کے [[11 ذی الحجہ|گیارہویں]]، [[12 ذی الحجہ|بارہویں]] اور [[13 ذی الحجہ|تیرہویں]] دن کو کہا جاتا ہے. [[خانہ خدا]] کے [[حج]] کرنے والے حاجی  [[قربانی]] اور [[رمی جمرات]] جیسے حج کے بعض اہم [[مناسک حج|مناسک]] اور اعمال انہی ایام میں انجام دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے [[اسلامی]] تہذیب میں ان دنوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بعض منابع میں ان ایام کو اسلامی عیدوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔


==وجہ تسمیہ==
==وجہ تسمیہ==
لغوی اور دینی متون میں ایام تشریق کو اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یوں بیان کی گئی ہے کہ قربانی کے گوشت کو ضرورت مندوں اور فقراء کے استعمال کے لیے دھوپ میں رکھ کر خشک کیا جاتا تھا، تاکہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ اس عمل کے لیے تیز روشنی اور گرمائش کی ضرورت ہوتی تھی۔<ref>نک: ابن ابی شیبه، ج4، ص551</ref> بعض دیگر منابع کے مطابق چونکہ طلوع آفتاب کے وقت قربانی کا آغاز ہوتا تھا اور دوران [[جاہلیت]]، عرب [[حج]] کے مناسک ادا کرتے ہوئے [[منیٰ]] میں واقع "ثبیر" نامی چوٹی سے یوں مخاطب ہوتے تھے: «(اَشرِق ثبیر) یعنی اے ثبیر! سورج کے نور سے روشن ہوجا تاکہ ہم قربانی کا آغاز کریں.» اور طلوع آفتاب کے وقت قربانی کرتے تھے۔<ref>ابن سکیت، ص92؛ ابن اثیر، ج2، ص464</ref>
لغوی اور [[دین اسلام|دینی متون]] میں ایام تشریق کو اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یوں بیان کی گئی ہے کہ قربانی کے گوشت کو ضرورت مندوں اور فقراء کو دینے کے لیے دھوپ میں رکھ کر خشک کیا جاتا تھا، تاکہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ اس عمل کے لیے تیز روشنی اور گرمائش کی ضرورت ہوتی تھی۔<ref>نک: ابن ابی شیبه، ج4، ص551</ref> بعض دیگر منابع کے مطابق طلوع آفتاب کے وقت قربانی کا آغاز ہوتا تھا اور دوران [[جاہلیت]]، عرب [[حج]] کے مناسک ادا کرتے ہوئے [[منیٰ]] میں واقع "ثبیر" نامی چوٹی سے یوں مخاطب ہوتے تھے: «اَشرِق ثبیر؛ اے ثبیر! سورج کے نور سے روشن ہوجا تاکہ ہم قربانی کا آغاز کریں.» اور طلوع آفتاب کے وقت قربانی کرتے تھے۔<ref>ابن سکیت، ص92؛ ابن اثیر، ج2، ص464</ref>


اس بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ «ایام تشریق»، دوران جاہلیت کا باقی ماندہ ایک نام ہے۔ صدر اسلام اور پچھلی صدیوں میں ان تین دنوں کے اپنے مخصوص نام ہوا کرتے تھے۔<ref>نک: آوردی، ج4، ص194؛ شوکانی، ج5، ص82</ref>
اس بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ «ایام تشریق»، دوران جاہلیت کا باقی ماندہ ایک نام ہے۔ صدر اسلام اور اس کے بعد والی صدیوں میں ان تین دنوں کے اپنے مخصوص نام ہوا کرتے تھے۔<ref>نک: آوردی، ج4، ص194؛ شوکانی، ج5، ص82</ref>


[[امام صادق(ع)]] سے منقول [[روایت]] کے مطابق [[مشرکین]] مناسک حج کے اختتام پر [[منیٰ]] میں جمع ہوتے تھے اور اپنے آباء و اجداد کو یاد کرتے ہوئے ان پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ اس وجہ سے [[مسلمانوں]] کو یہ حکم دیا گیا کہ اس دوران وہ ذکر خدا کریں۔<ref>کلینی، ج4، ص516؛ قاضی نعمان، ج1، ص340</ref>
[[امام صادق(ع)]] سے منقول [[روایت]] کے مطابق [[مشرکین]]، مناسک حج کے اختتام پر [[منیٰ]] میں جمع ہوتے تھے اور اپنے آباء و اجداد کو یاد کرتے ہوئے ان پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ اس وجہ سے [[مسلمانوں]] کو یہ حکم ہوا کہ اس دوران وہ ذکر خدا کیا کریں۔<ref>کلینی، ج4، ص516؛ قاضی نعمان، ج1، ص340</ref>


==مقام و مرتبہ==
==مقام و مرتبہ==
[[ملف:ایام تشریق.jpg|تصغیر|ایام تشریق کا منظر]]
[[ملف:ایام تشریق.jpg|تصغیر|ایام تشریق کا منظر]]
[[قرآن]] میں ایام تشریق نام کی کوئی تعبیر استعمال نہیں ہوئی ہے لیکن صدر [[اسلام]] ہی سے قرآن میں مستعمل تعبیر «ایام معدودات»<ref>سورہ بقرہ، آیہ203</ref> سے ایام تشریق مراد لی جاتی رہی ہے۔<ref>نک: بخاری، ج 1، ص32۹؛ طبری، ج 4، ص208-215؛ طوسی، تہذیب...، ج 5، ص447، 487</ref> بعض [[احادیث]] کی رو سے قرآنی تعبیر «ایام معلومات» <ref> سوره حج، آیہ2</ref> ایام تشریق کی طرف اشارہ ہے۔<ref>ابن بابویہ، معانی...، ص2۹7؛ طوسی، التبیان، ج 7، ص310</ref>
[[قرآن]] میں ایام تشریق نام کی کوئی تعبیر استعمال نہیں ہوئی ہے لیکن صدر [[اسلام]] ہی سے قرآن میں مستعمل تعبیر «ایام معدودات»<ref>سورہ بقرہ، آیہ203</ref> سے ایام تشریق مراد لی جاتی رہی ہے۔<ref>نک: بخاری، ج 1، ص32۹؛ طبری، ج 4، ص208-215؛ طوسی، تہذیب...، ج 5، ص447، 487</ref> بعض [[احادیث]] کی رو سے قرآنی تعبیر «ایام معلومات» <ref> سوره حج، آیہ2</ref> ایام تشریق کی طرف اشارہ ہے۔<ref>ابن بابویہ، معانی...، ص2۹7؛ طوسی، التبیان، ج 7، ص310</ref>
بعض [[روایات]] سے معلوم ہوتا ہے کہ [[مناسک حج]] کے ان ایام میں قرار پانے کی وجہ یہ ہے کہ خلقت زمین کے آغاز  میں [[فرشتہ|فرشتوں]] نے انہیں ایام میں [[خانہ خدا]] کی [[زیارت]] کی اور اس کا [[طواف]] کیا ہے اسی طرح گذشتہ تمام [[انبیاء]] نے حج کے اعمال انہی ایام میں سرانجام دئے ہیں۔<ref>ابن بابویه، علل، ج1، ص274، عیون...، ج1، ص127</ref>
بعض [[روایات]] سے معلوم ہوتا ہے کہ [[مناسک حج]] کے ان ایام میں قرار پانے کی وجہ یہ ہے کہ خلقت زمین کے آغاز  میں [[فرشتہ|فرشتوں]] نے انہیں ایام میں [[خانہ خدا]] کی [[زیارت]] اور اس کا [[طواف]] کیا ہے اسی طرح گذشتہ تمام [[انبیاء]] نے حج کے اعمال انہی ایام میں سرانجام دئے ہیں۔<ref>ابن بابویه، علل، ج1، ص274، عیون...، ج1، ص127</ref>


==اعمال==
==اعمال==
سطر 22: سطر 22:
* '''فقہ اہل سنت'''
* '''فقہ اہل سنت'''
[[اہل سنت]] کے متقدم فقہاء میں سے بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ قربانی صرف [[عید قربان]] یعنی دسویں ذی الحجہ کو کرنا ضروری ہے؛ لیکن مذاہب اہل سنت کے ائمہ جیسے [[ابو حنیفہ]]، مالک، احمد بن حنبل وغیرہ نے عید قربان کے دن کے علاوہ ایام تشریق کے پہلے دو دن یعنی گیارہ اور بارہ [[ذوالحجہ|ذی الحجہ]] کو بھی قربانی کرنے کو جائز سمجھا ہے اور تیرہ ذی الحجہ کو قربانی کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔<ref>نک: قفال، ج3، ص320؛ جصاص، ج5، ص68؛ مرغینانی، ج4، ص73؛ ابن عبدالبر، ج 12، ص130؛ ابن قدامہ، ج3، ص454</ref> اس سلسلے میں [[شافعی]] اور اہل شام کے فقیہ اوزاعی کا نظریہ یہ ہے کہ قربانی کرنا عید قربان کے دن سے لیکر [[13 ذی الحجہ|تیرہ ذی الحجہ]] کے دن ڈھلنے تک جائز ہے۔<ref>شافعی، ج2، ص222</ref>
[[اہل سنت]] کے متقدم فقہاء میں سے بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ قربانی صرف [[عید قربان]] یعنی دسویں ذی الحجہ کو کرنا ضروری ہے؛ لیکن مذاہب اہل سنت کے ائمہ جیسے [[ابو حنیفہ]]، مالک، احمد بن حنبل وغیرہ نے عید قربان کے دن کے علاوہ ایام تشریق کے پہلے دو دن یعنی گیارہ اور بارہ [[ذوالحجہ|ذی الحجہ]] کو بھی قربانی کرنے کو جائز سمجھا ہے اور تیرہ ذی الحجہ کو قربانی کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔<ref>نک: قفال، ج3، ص320؛ جصاص، ج5، ص68؛ مرغینانی، ج4، ص73؛ ابن عبدالبر، ج 12، ص130؛ ابن قدامہ، ج3، ص454</ref> اس سلسلے میں [[شافعی]] اور اہل شام کے فقیہ اوزاعی کا نظریہ یہ ہے کہ قربانی کرنا عید قربان کے دن سے لیکر [[13 ذی الحجہ|تیرہ ذی الحجہ]] کے دن ڈھلنے تک جائز ہے۔<ref>شافعی، ج2، ص222</ref>
* ''' فقہ امامیہ '''
* '''فقہ امامیہ'''
اس مسئلے میں [[شیعہ]] فقہاء کے مابین دو قسم کے نظریے پایے جاتے ہیں۔ شیعہ [[فقہاء]] کا رائج اور مشہور نظریہ یہ ہے کہ  سرزمین منیٰ پر عید قربان کے دن سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن تک قربانی کرنا جائز ہے؛ لیکن منیٰ کے علاوہ دوسری جگہوں پر صرف عید کے دن اور ایام تشریق کے پہلے دو دن (11 اور 12 ذی الحجہ)میں قربانی کرنا جائز ہے.<ref>محقق حلی، ج 1، ص264؛ شہید ثانی، ج 2، ص235؛ صاحب جواہر، ج 1۹، ص223</ref>
اس مسئلے میں [[شیعہ]] فقہاء کے مابین دو قسم کے نظریے پایے جاتے ہیں۔ شیعہ [[فقہاء]] کا رائج اور مشہور نظریہ یہ ہے کہ  سرزمین منیٰ پر عید قربان کے دن سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن تک قربانی کرنا جائز ہے؛ لیکن منیٰ کے علاوہ دوسری جگہوں پر صرف عید کے دن اور ایام تشریق کے پہلے دو دن (11 اور 12 ذی الحجہ)میں قربانی کرنا جائز ہے.<ref>محقق حلی، ج 1، ص264؛ شہید ثانی، ج 2، ص235؛ صاحب جواہر، ج 1۹، ص223</ref>
بعض دوسرے شیعہ فقہاء کہتے ہیں کہ ذی الحجہ کے پورے مہینے میں قربانی کرنا جائز ہے اگرچہ احوط یہ ہے کہ روز عید قربانی کی جائے <ref>لفظ احوط ایک فقہی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں کسی عمل کا احتیاط کے مطابق ہونا۔ یہ اصطلاح اگر فتویٰ کے بعد(جیسا کہ اس مسئلے میں ذکر ہوا) ذکر ہوجائے تو اس کے معنی احتیاط مستحب کے ہیں، یعنی یہ ایک مستحب عمل ہے۔ لیکن اگر اس قسم کی اصطلاح مستقل طور پر ذکر ہو اور اس اصطلاح سے پہلے اس کے برخلاف کوئی فتویٰ ذکر نہ ہو تو اس صورت میں اس پر عمل کرنا ضروری ہے البتہ مقلد اس مسئلے میں کسی دوسرے مجتہد کی تقلید پر عمل کرسکتا ہے۔ [http://www.hawzah.net/fa/question/questionview/12498]</ref> اور عید کے دن قربانی انجام نہ دینے کی صورت میں بہتر اور احتیاط کے نزدیک عمل یہ ہے کہ  اسے ایام  تشریق میں انجام دی جائے۔ <ref>نک: خمینی، ج1، ص447؛ خویی، ج5، ص205؛ قس: خوانساری، ج2، ص454</ref>
بعض دوسرے شیعہ فقہاء کہتے ہیں کہ ذی الحجہ کے پورے مہینے میں قربانی کرنا جائز ہے اگرچہ احوط<ref>لفظ احوط ایک فقہی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں کسی عمل کا احتیاط کے مطابق ہونا۔ یہ اصطلاح اگر فتویٰ کے بعد(جیسا کہ اس مسئلے میں ذکر ہوا) ذکر ہوجائے تو اس کے معنی احتیاط مستحب کے ہیں، یعنی یہ ایک مستحب عمل ہے۔ لیکن اگر اس قسم کی اصطلاح مستقل طور پر ذکر ہو اور اس اصطلاح سے پہلے اس کے برخلاف کوئی فتویٰ ذکر نہ ہو تو اس صورت میں اس پر عمل کرنا ضروری ہے البتہ مقلد اس مسئلے میں کسی دوسرے مجتہد کی تقلید پر عمل کرسکتا ہے۔ [http://www.hawzah.net/fa/question/questionview/12498]</ref> یہ ہے کہ روز عید، قربانی کی جائے  اور عید کے دن قربانی کا عمل انجام نہ دینے کی صورت میں بہتر اور احتیاط کے نزدیک عمل یہ ہے کہ  اسے ایام  تشریق میں انجام دیا جائے۔ <ref>نک: خمینی، ج1، ص447؛ خویی، ج5، ص205؛ قس: خوانساری، ج2، ص454</ref>


===بعض دوسرے اعمال===
===بعض دوسرے اعمال===
[[ملف:تصویری قدیمی از رمی جمرات.jpg|تصغیر|[[رمی جمرات]] کی ایک قدیمی تصویر]]
[[ملف:تصویری قدیمی از رمی جمرات.jpg|تصغیر|[[رمی جمرات]] کی ایک قدیمی تصویر]]
ایام تشریق کے دوران حج کے واجب اعمال میں سے ایک [[رمی جمرات]] (شیطان کو کنکریاں مارنا) اور منیٰ کے مقام پر تین دن آدھی رات تک [[بیتوتہ]](رات گزارنا) کرنا ہے۔ روایات اور فقہی کتب میں موجود احکام کے مطابق ایام تشریق میں ہر نماز کے بعد [[تکبیر]] کہنا ان ایام کے خاص آداب میں شمار ہوتا ہے۔ تکبیر کہنے کی کیفیت اور وقت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
ایام تشریق کے دوران حج کے [[واجب]] اعمال میں سے ایک [[رمی جمرات]] (شیطان کو کنکریاں مارنا) اور منیٰ کے مقام پر تین دن آدھی رات تک [[بیتوتہ]](رات گزارنا) کرنا ہے۔ [[روایات]] اور [[فقہ|فقہی] کتب میں موجود احکام کے مطابق ایام تشریق میں ہر [[نماز]] کے بعد [[تکبیر]] کہنا ان ایام کے خاص آداب میں شمار ہوتا ہے۔ تکبیر کہنے کی کیفیت اور وقت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔


بعض [[فقہاء]] کے مطابق تکبیر کہنے کا وقت عید قربان کے دن [[نماز ظہر]] سے لیکر ایام تشریق کے آخری دن کے طلوع آفتاب تک ہے اور بعض دیگر فقہاء نے کہا ہے کہ عید قربان کے دن نماز ظہر سے لیکر [[14 ذی الحجہ]] کے طلوع آفتاب تک تکبیر کہنے کا وقت ہے۔ بعض دیگر فقہاء نے ایام تشریق کے [[12 ذی الحجہ|دوسرے روز]] تک تکبیر کا وقت قرار دیا ہے۔<ref>مالک، ج1، ص171-172؛ سرخسی، ج2، ص43-44؛ ابن بابویہ، الہدایۃ، ص209-210؛ ابن قدامہ، ج2، ص254-256؛ طوسی، الخلاف، ج1، ص667</ref>
بعض [[فقہاء]] کے مطابق تکبیر کہنے کا وقت عید قربان کے دن [[نماز ظہر]] سے لیکر ایام تشریق کے آخری دن کے طلوع آفتاب تک ہے اور بعض دیگر فقہاء نے کہا ہے کہ عید قربان کے دن نماز ظہر سے لیکر [[14 ذی الحجہ]] کے طلوع آفتاب تک تکبیر کہنے کا وقت ہے۔ بعض دیگر فقہاء نے ایام تشریق کے [[12 ذی الحجہ|دوسرے روز]] تک تکبیر کا وقت قرار دیا ہے۔<ref>مالک، ج1، ص171-172؛ سرخسی، ج2، ص43-44؛ ابن بابویہ، الہدایۃ، ص209-210؛ ابن قدامہ، ج2، ص254-256؛ طوسی، الخلاف، ج1، ص667</ref>
سطر 35: سطر 35:
تاریخی اعتبار سے ان ایام میں چند اہم واقعات رونما ہوئے ہیں.
تاریخی اعتبار سے ان ایام میں چند اہم واقعات رونما ہوئے ہیں.
*ایام تشریق کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ سنہ 9 ہجری قمری کو [[پیغمبر خداؐ]] کے حکم پر [[حضرت علیؑ]] کا حاجیوں کے لیے [[سورہ توبہ]] کی قرائت کرنا ہے۔
*ایام تشریق کے دوران رونما ہونے والے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ سنہ 9 ہجری قمری کو [[پیغمبر خداؐ]] کے حکم پر [[حضرت علیؑ]] کا حاجیوں کے لیے [[سورہ توبہ]] کی قرائت کرنا ہے۔
*سنہ 13 بعثت کو ایام تشریق کے دوسرے دن [[پیغمبر خداؐ]] اور انصار کے ایک گروہ کے درمیان عقد عقبہ دوم کا انعقاد ہوا۔ جس سے آپؐ کی [[مدینہ]] کی جانب [[ہجرت]] کا میدان فراہم ہوا۔<ref>طوسی، التبیان، ج 5ص169؛ فخرالدین، ج 5ص524؛ مجلسی، ج 21ص273؛ احمد بن حنبل، ج 3ص415؛ ابن ابی عاصم، ج 1ص131؛ کلینی، ج 1ص439؛ ابن بابویه، الخصال، ص486؛ ابن شهر آشوب، ج 1ص156؛ ابن طاووس، ج 2ص39؛ شیخ بهایی، ص30؛ ان دنوں کی فضیلت اور آداب سے متعلق روایات کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ کریں: ابن بابویه، من لایحضر...، ج 2ص214؛</ref>
*سنہ 13 بعثت کو ایام تشریق کے دوسرے دن [[پیغمبر خداؐ]] اور انصار کے ایک گروہ کے درمیان عقبہ دوم کا معاہدہ منعقد ہوا۔ جس سے آپؐ کی [[مدینہ]] کی جانب [[ہجرت]] کا میدان فراہم ہوا۔<ref>طوسی، التبیان، ج 5ص169؛ فخرالدین، ج 5ص524؛ مجلسی، ج 21ص273؛ احمد بن حنبل، ج 3ص415؛ ابن ابی عاصم، ج 1ص131؛ کلینی، ج 1ص439؛ ابن بابویه، الخصال، ص486؛ ابن شهر آشوب، ج 1ص156؛ ابن طاووس، ج 2ص39؛ شیخ بهایی، ص30؛ ان دنوں کی فضیلت اور آداب سے متعلق روایات کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ کریں: ابن بابویه، من لایحضر...، ج 2ص214؛</ref>


==محرمات==
==محرمات==
ان ایام میں کچھ اعمال کا انجام دینا [[حرام]] ہے۔ ان میں سے ایک یہ کہ جو حاجی ان ایام میں منیٰ میں ہوگا ان کے لیے روزہ رکھنا حرام ہے؛ یہ حرمت صرف حاجیوں کے لیے ہے، البتہ فقہاء کی اکثریت نے ایسی کوئی قید ذکر نہیں کی ہے۔
ان ایام میں کچھ اعمال کا انجام دینا [[حرام]] ہے۔ ان میں سے ایک یہ کہ جو حاجی ان ایام میں منیٰ میں ہوگا ان کے لیے [[روزہ]] رکھنا حرام ہے؛ یہ حرمت صرف حاجیوں کے لیے ہے، البتہ [[فقہاء]] کی اکثریت نے ایسی کوئی قید ذکر نہیں کی ہے۔
<ref>مفید، ص366؛ طوسی، المبسوط، ج 1، ص370؛ محقق حلی، ج 1، ص209، 261-262؛ شهید ثانی، ج 2، ص109</ref>
<ref>مفید، ص366؛ طوسی، المبسوط، ج 1، ص370؛ محقق حلی، ج 1، ص209، 261-262؛ شهید ثانی، ج 2، ص109</ref>


اہل سنت کی فقہی کتابوں میں بھی ان ایام میں روزہ رکھنے کو ایک ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے جسے بعض نے حرمت سے تعبیر کی ہے اور بعض دیگر نے [[کراہت]] مراد لی ہے۔ شافعی مذہب کا سابقہ حکم اور [[اہل سنت]] کے بعض فقہائے عراق کا نظریہ یہ ہے کہ جو شخص [[حج تمتع]] انجام دیتا ہے اگر وہ [[یوم عرفہ]] سے پہلے تین دن روزے نہیں رکھ پائے ہوں تو وہ ایام تشریق میں [[روزہ]] رکھ سکتا ہے۔<ref>سرخسی، ج 3، ص63؛ مرغینانی، ج 1، ص155؛ ابواسحاق، ص68</ref> ان دنوں میں روزہ رکھنے سے ممانعت کی وجہ روایات میں اللہ کی نعمتوں کے دسترخوان پر حاجیوں کا مہمان ہونا قرار دیا ہے۔<ref>کلینی، ج 4، ص224؛ ابن بابویه، علل...، ج2، ص443</ref>
اہل سنت کی فقہی کتابوں میں بھی ان ایام میں روزہ رکھنے کو ایک ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے جسے بعض نے حرمت سے تعبیر کی ہے اور بعض دیگر نے [[کراہت]] مراد لی ہے۔ شافعی مذہب کا سابقہ حکم اور [[اہل سنت]] کے بعض فقہائے عراق کا نظریہ یہ ہے کہ جو شخص [[حج تمتع]] انجام دیتا ہے اگر وہ [[یوم عرفہ]] سے پہلے تین دن روزے نہیں رکھ پائے ہوں تو وہ ایام تشریق میں [[روزہ]] رکھ سکتا ہے۔<ref>سرخسی، ج 3، ص63؛ مرغینانی، ج 1، ص155؛ ابواسحاق، ص68</ref> ان دنوں میں روزہ رکھنے سے ممانعت کی وجہ [[روایات]] میں [[اللّہ]] کی نعمتوں کے دسترخوان پر حاجیوں کا مہمان ہونا قرار دیا ہے۔<ref>کلینی، ج 4، ص224؛ ابن بابویه، علل...، ج2، ص443</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed، movedable
5,473

ترامیم