مندرجات کا رخ کریں

"تقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

11 بائٹ کا ازالہ ،  1 جولائی 2023ء
سطر 39: سطر 39:
===حکم تکلیفی===
===حکم تکلیفی===
حکم تکلیفی کے لحاظ سے تقیہ کی پانچ قسمیں ہیں:<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص118؛ شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص389.</ref>
حکم تکلیفی کے لحاظ سے تقیہ کی پانچ قسمیں ہیں:<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص118؛ شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص389.</ref>
    تقیہ واجب: [[شیعہ]] فقہاء کی نظر میں اگر انسان کو اپنے مخالف کے پاس عقیدہ کے اظہار سے اس کی یا اپنے متعلقہ شخص کی جان و مال یا آبرو کے خطرے میں پڑنے کا یقین یا گمان ہو تو اس صورت میں اس خطرے کے ٹلنے کی حد تک تقیہ کرنا [[واجب]] ہے۔<ref>شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج2، ص435؛ شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص257؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74؛ سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، 1430ھ، ص67.</ref> اس مورد میں تقیہ کے واجب ہونے کا معیار یہ ہے کہ جس چیز کی تقیہ کے ذریعے حفاظت کی جارہی ہے اس کی حفاظت کرنا واجب ہو اور اسے نقصان پہنچانا [[حرام]] ہو۔<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص411؛ مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص94.</ref>
    تقیہ مستحب: تقیہ نہ کرنے کی وجہ سے فورا نقصان سے روبرو نہ ہو لیکن اس بات کا خوف ہو کہ بتدریج نقصان کو تحمل کرنا پڑے گا؛ اس صورت میں تقیہ کرنا [[مستحب]] ہے۔<ref>شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74.</ref> بعض فقہاء کی نظر میں مداراتی تقیہ یعنی خاطر داری اور مہربانی کے اظہار کے لیے تقیہ کرنا اس مورد کے مصادیق میں سے ہے۔<ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص75؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص452-451.</ref> [[شیخ انصاری]] (متوفیٰ: 1281ھ) کے نزدیک تقیہ مستحب ان موارد میں ہے جہاں روایات میں اس کی صراحت ہوئی ہو؛ جیسے [[اہل سنت]] کے ساتھ آمد و رفت برقرار کرنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، ان کی [[مساجد]] میں جاکر [[نماز]] پڑھنا، ان کی تشییع جنازہ میں شریک ہونا وغیرہ۔ [[شیخ انصاری]] کے فتوی کے مطابق روایات میں مذکور موارد سے ہٹ کر دوسری چیزوں کی نسبت تقیہ کرنا جائز نہیں۔ مثلا اتحاد بین المسلمین کے لیے شیعہ بزرگ شخصیات کی مذمت کرنا اور اس طرح کے دیگر موارد۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref>
    تقیہ مکروه: تقیہ مکروہ اس صورت میں ہے جب تقیہ کو ترک کر کے نقصان کو برداشت کرنا بہتر کام شمار ہوتا ہو۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref> [[شہید اول]] کے بقول تقیہ [[مکروہ]] اس صورت میں متحقق ہوتا ہے جب کسی مستحب کام کو انجام دینے سے نہ فورا نقصان کا سبب بنتا ہے اور نہ ہی آیندہ اس سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔<ref> شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157.</ref>
    تقیہ مباح: تقیہ کو انجام دینا اور اسے ترک کرنا کوئی فرق نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں تقیہ [[مباح]] ہوگا۔<ref>مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص37.</ref> شیخ انصاری کے بقول تقیہ مباح ایسا تقیہ ہے جس کے انجام دینے سے ایک ایسا نقصان دور ہوتا ہے جس کا موجود ہونا یا موجود نہ ہونا [[شرعی]] لحاظ سے برابر ہو۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref>
    تقیہ حرام: تقیہ کے ترک کرنے سے کسی قسم کا نقصان اور ضرر(فورا یا آیندہ) نہ پہنچتا ہو تو اس صورت میں تقیہ کرنا [[حرام]] ہے۔<ref>شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157.</ref> شیعہ [[فقہاء]] نے تقیہ حرام کے دو مصادیق بیان کیے ہیں:<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص415.</ref>


    1: تقیہ کرنا [[دین اسلام|دین]] کی نابودی کا سبب بنے یا اس میں [[بدعت]] پیدا ہونے کا سبب بنتا ہو؛ <ref>روحانی، فقه الصادق، 2423ھ، ج22، ص407-409؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 2426ھ، ج2، ص425؛ سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، 2430ھ، ص67؛ حر عاملی، وسائل الشیعه، 2423ھ، ج26، ص226.</ref>
تقیہ واجب: [[شیعہ]] فقہاء کی نظر میں اگر انسان کو اپنے مخالف کے پاس عقیدہ کے اظہار سے اس کی یا اپنے متعلقہ شخص کی جان و مال یا آبرو کے خطرے میں پڑنے کا یقین یا گمان ہو تو اس صورت میں اس خطرے کے ٹلنے کی حد تک تقیہ کرنا [[واجب]] ہے۔<ref>شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج2، ص435؛ شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص257؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74؛ سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، 1430ھ، ص67.</ref> اس مورد میں تقیہ کے واجب ہونے کا معیار یہ ہے کہ جس چیز کی تقیہ کے ذریعے حفاظت کی جارہی ہے اس کی حفاظت کرنا واجب ہو اور اسے نقصان پہنچانا [[حرام]] ہو۔<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص411؛ مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص94.</ref>
    2: مشہور شیعہ [[فقہاء]] کے مطابق، <ref>روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص405.</ref> تقیہ کرنا کسی دوسرے کے خون بہانے کا سبب بنے تو اس وقت تقیہ کرنا حرام ہے۔ مثلا کسی شخص سے کہا جائے کہ فلاں [[مومن]] کو [[قتل]] کرے ورنہ وہ خود قتل کیا جائے گا؛ اس مورد میں یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی جان بچانے کے بہانے سے اس مومن کو قتل کرے۔<ref>خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص20-21؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص429؛ کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص557.</ref>
 
تقیہ مستحب: تقیہ نہ کرنے کی وجہ سے فورا نقصان سے روبرو نہ ہو لیکن اس بات کا خوف ہو کہ بتدریج نقصان کو تحمل کرنا پڑے گا؛ اس صورت میں تقیہ کرنا [[مستحب]] ہے۔<ref>شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74.</ref> بعض فقہاء کی نظر میں مداراتی تقیہ یعنی خاطر داری اور مہربانی کے اظہار کے لیے تقیہ کرنا اس مورد کے مصادیق میں سے ہے۔<ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص75؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص452-451.</ref> [[شیخ انصاری]] (متوفیٰ: 1281ھ) کے نزدیک تقیہ مستحب ان موارد میں ہے جہاں روایات میں اس کی صراحت ہوئی ہو؛ جیسے [[اہل سنت]] کے ساتھ آمد و رفت برقرار کرنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، ان کی [[مساجد]] میں جاکر [[نماز]] پڑھنا، ان کی تشییع جنازہ میں شریک ہونا وغیرہ۔ [[شیخ انصاری]] کے فتوی کے مطابق روایات میں مذکور موارد سے ہٹ کر دوسری چیزوں کی نسبت تقیہ کرنا جائز نہیں۔ مثلا اتحاد بین المسلمین کے لیے شیعہ بزرگ شخصیات کی مذمت کرنا اور اس طرح کے دیگر موارد۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref>
 
تقیہ مکروه: تقیہ مکروہ اس صورت میں ہے جب تقیہ کو ترک کر کے نقصان کو برداشت کرنا بہتر کام شمار ہوتا ہو۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref> [[شہید اول]] کے بقول تقیہ [[مکروہ]] اس صورت میں متحقق ہوتا ہے جب کسی مستحب کام کو انجام دینے سے نہ فورا نقصان کا سبب بنتا ہے اور نہ ہی آیندہ اس سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔<ref> شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157.</ref>
 
تقیہ مباح: تقیہ کو انجام دینا اور اسے ترک کرنا کوئی فرق نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں تقیہ [[مباح]] ہوگا۔<ref>مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص37.</ref> شیخ انصاری کے بقول تقیہ مباح ایسا تقیہ ہے جس کے انجام دینے سے ایک ایسا نقصان دور ہوتا ہے جس کا موجود ہونا یا موجود نہ ہونا [[حکم شرعی|شرعی]] لحاظ سے برابر ہو۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref>
 
تقیہ حرام: تقیہ کے ترک کرنے سے کسی قسم کا نقصان اور ضرر(فورا یا آیندہ) نہ پہنچتا ہو تو اس صورت میں تقیہ کرنا [[حرام]] ہے۔<ref>شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157.</ref> شیعہ [[فقہاء]] نے تقیہ حرام کے دو مصادیق بیان کیے ہیں:<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص415.</ref>
 
1: تقیہ کرنا [[دین اسلام|دین]] کی نابودی کا سبب بنے یا اس میں [[بدعت]] پیدا ہونے کا سبب بنتا ہو؛ <ref>روحانی، فقه الصادق، 2423ھ، ج22، ص407-409؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 2426ھ، ج2، ص425؛ سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، 2430ھ، ص67؛ حر عاملی، وسائل الشیعه، 2423ھ، ج26، ص226.</ref>
2: مشہور شیعہ [[فقہاء]] کے مطابق، <ref>روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص405.</ref> تقیہ کرنا کسی دوسرے کے خون بہانے کا سبب بنے تو اس وقت تقیہ کرنا حرام ہے۔ مثلا کسی شخص سے کہا جائے کہ فلاں [[مومن]] کو قتل کرے ورنہ وہ خود قتل کیا جائے گا؛ اس مورد میں یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی جان بچانے کے بہانے سے اس مومن کو قتل کرے۔<ref>خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص20-21؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص429؛ کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص557.</ref>


===حکم وضعی===
===حکم وضعی===
confirmed، movedable
5,131

ترامیم