"شہادت فاطمہ زہرا" کے نسخوں کے درمیان فرق
←کیا مدینہ کے گھروں میں دروازے نہیں ہوتے تھے؟
سطر 92: | سطر 92: | ||
کچھ مصنفین و محققین نے کچھ تاریخی سوالات اور اعتراضات کرکے حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہما السلام کے گھر میں آگ لگانے والی روایات میں خدشہ پیدا کیا ہے؛ مثلا یہ کہ اس زمانے میں مدینہ کے گھروں میں دروازے ہی نہیں ہوتے تھے، یا یہ کہ حضرت علی علیہ السّلام کی جانب سے فاطمہ س کے دفاع کے سلسلہ میں سوالات اٹھائے ہیں یا پھر جناب محسن کے شکم مادر میں ساقط ہونے کو لیکر تردد کیا ہے۔ ان سوالات و اعتراضات کے مقابلہ میں تاریخ نویسوں اور محققین نے منجملہ [[سید جعفر مرتضی عاملی]] (وفات: ۱۴۴۱ھ) نے جوابات بھی دئے ہیں<ref>جنوبی کے طور پر دیکھئے: عاملی، مأساۃ الزہراء، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۶۶-۲۷۷، ج۲، ص۲۲۹-۳۲۱۔</ref> | کچھ مصنفین و محققین نے کچھ تاریخی سوالات اور اعتراضات کرکے حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہما السلام کے گھر میں آگ لگانے والی روایات میں خدشہ پیدا کیا ہے؛ مثلا یہ کہ اس زمانے میں مدینہ کے گھروں میں دروازے ہی نہیں ہوتے تھے، یا یہ کہ حضرت علی علیہ السّلام کی جانب سے فاطمہ س کے دفاع کے سلسلہ میں سوالات اٹھائے ہیں یا پھر جناب محسن کے شکم مادر میں ساقط ہونے کو لیکر تردد کیا ہے۔ ان سوالات و اعتراضات کے مقابلہ میں تاریخ نویسوں اور محققین نے منجملہ [[سید جعفر مرتضی عاملی]] (وفات: ۱۴۴۱ھ) نے جوابات بھی دئے ہیں<ref>جنوبی کے طور پر دیکھئے: عاملی، مأساۃ الزہراء، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۶۶-۲۷۷، ج۲، ص۲۲۹-۳۲۱۔</ref> | ||
=== کیا مدینہ کے گھروں میں دروازے نہیں ہوتے تھے؟=== | === کیا مدینہ کے گھروں میں دروازے نہیں ہوتے تھے؟=== | ||
کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ اس زمانے میں مدینہ کے گھروں میں دروازے ہی نہیں ہوتے تھے<ref>طبسی، حیاۃ الصدیقۃ فاطمۃ، ۱۳۸۱ش، ص۱۹۷۔ کتاب کے مصنف نے اس اعتراض کو ان کی طرف نسبت دی ہے جو تاریخ سے نابلد ہیں</ref> اور خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ اس وجہ سے فاطمہ کے گھر کے دروازے کا جلایا جانا صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس کے مقابلے میں [[سید جعفر مرتضی عاملی|جعفر مرتضی]] نے کتاب [[مأساۃ الزہراء (کتاب)|مأساۃ الزہراء]] میں ایسی کتب کا تذکرہ کیا ہے جن کی رو سے گھروں میں دروازوں کا ہونا اس زمانے میں ایک رائج بات تھی اور بی بی فاطمہ کے گھر میں بھی دروازہ | کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ اس زمانے میں مدینہ کے گھروں میں دروازے ہی نہیں ہوتے تھے<ref>طبسی، حیاۃ الصدیقۃ فاطمۃ، ۱۳۸۱ش، ص۱۹۷۔ کتاب کے مصنف نے اس اعتراض کو ان کی طرف نسبت دی ہے جو تاریخ سے نابلد ہیں</ref> اور خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ اس وجہ سے فاطمہ کے گھر کے دروازے کا جلایا جانا صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس کے مقابلے میں [[سید جعفر مرتضی عاملی|جعفر مرتضی]] نے کتاب [[مأساۃ الزہراء (کتاب)|مأساۃ الزہراء]] میں ایسی کتب کا تذکرہ کیا ہے جن کی رو سے گھروں میں دروازوں کا ہونا اس زمانے میں ایک رائج بات تھی اور بی بی فاطمہ کے گھر میں بھی دروازہ تھا۔<ref>عاملی، مأساۃ الزہراء، ۱۴۱۸ھ، ج۲، ص۲۲۹-۳۲۱۔</ref> | ||
=== حضرت علی اور دوسروں نے دفاع کیوں نہیں کیا؟=== | === حضرت علی اور دوسروں نے دفاع کیوں نہیں کیا؟=== |