مندرجات کا رخ کریں

"حضرت فاطمہؑ کا مدفن" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>Mudabbirhusainrizvi
imported>Mudabbirhusainrizvi
سطر 44: سطر 44:
دورہ قاجار کے محمد حسین فراہانی، شاعر اور مصنف نے [[سنہ 1302 ہجری]] اور [[سنہ 1303 ہجری]] کے درمیان اپنے سفر نامے میں ائمہ بقیع کی قبر میں ایک ایسی قبر کی موجودگی کی اطلاع دی ہے جو حضرت فاطمہؑ اور شیعوں کی طرف منسوب ہے۔ اور شیعہ و سنی اس جگہ زیارت پڑھتے ہیں۔<ref> فراہانی، سفرنامہ میرزا محمد حسین فراہانی، ۱۳۶۲ش، ص۲۲۹۔</ref>
دورہ قاجار کے محمد حسین فراہانی، شاعر اور مصنف نے [[سنہ 1302 ہجری]] اور [[سنہ 1303 ہجری]] کے درمیان اپنے سفر نامے میں ائمہ بقیع کی قبر میں ایک ایسی قبر کی موجودگی کی اطلاع دی ہے جو حضرت فاطمہؑ اور شیعوں کی طرف منسوب ہے۔ اور شیعہ و سنی اس جگہ زیارت پڑھتے ہیں۔<ref> فراہانی، سفرنامہ میرزا محمد حسین فراہانی، ۱۳۶۲ش، ص۲۲۹۔</ref>


علمائے اہل سنت کے درمیان مشہور نظریہ یہ ہے کہ قبر حضرت فاطمہؑ بقیع میں موجود ہے۔<ref> نمونہ کے طور پر دیکھیں سمہودی، وفاء الوفاء، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۹۳؛ ابن نجار، الدرۃ الثمینہ فی اخبار المدینہ، شرکۃ دار الارقم، ص۱۶۶؛ اسی طرح دیکھیں قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۹۔</ref> ان لوگوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ امام حسنؑ نے اپنے دفن ہونے کی وصیت اپنی ماں کے قبر کے بغل میں کی تھی۔<ref> محب‌الدین طبری، ذخائر العقبی، ۱۳۵۶ھ، ص۵۴ و ۱۴۱۔</ref> اس کے مقابلہ میں شیعوں ایک روایت کی بنا پر<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۷۔</ref> اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ فاطمہ جو بقیع میں دفن ہیں وہ حضرت علیؑ کی ماں [[فاطمہ بنت اسد]] ہیں۔<ref> برای نمونہ نگاہ کنید بہ قمی، الانوار البہیۃ، الجماعۃ المدرسین بقم المشرفۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ص۱۷۴؛ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۹۔</ref> ایک شیعہ عالم، محمد صادق نجمی کا خیال ہے کہ سنی مصنفین نے فاطمہؑ کی قبر کو بقیع کے اندر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ فاطمہ کی قبر کی رازداری پر شیعہ پیروکاروں کے نظریاتی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔<ref> نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۸۔</ref>
علمائے اہل سنت کے درمیان مشہور نظریہ یہ ہے کہ قبر حضرت فاطمہؑ بقیع میں موجود ہے۔<ref> نمونہ کے طور پر دیکھیں سمہودی، وفاء الوفاء، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۹۳؛ ابن نجار، الدرۃ الثمینہ فی اخبار المدینہ، شرکۃ دار الارقم، ص۱۶۶؛ اسی طرح دیکھیں قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۹۔</ref> ان لوگوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ امام حسنؑ نے اپنے دفن ہونے کی وصیت اپنی ماں کے قبر کے پہلو میں کی تھی۔<ref> محب‌الدین طبری، ذخائر العقبی، ۱۳۵۶ھ، ص۵۴ و ۱۴۱۔</ref> اس کے مقابلہ میں شیعوں کی ایک روایت کی بنا پر<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۷۔</ref> اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ فاطمہ جو بقیع میں دفن ہیں وہ حضرت علیؑ کی ماں [[فاطمہ بنت اسد]] ہیں۔<ref> برای نمونہ نگاہ کنید بہ قمی، الانوار البہیۃ، الجماعۃ المدرسین بقم المشرفۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ص۱۷۴؛ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۹۔</ref> ایک شیعہ عالم، محمد صادق نجمی کا خیال ہے کہ سنی مصنفین نے فاطمہؑ کی قبر کو بقیع کے اندر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ فاطمہ کی قبر کی رازداری پر شیعہ پیروکاروں کے نظریاتی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔<ref> نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۸۔</ref>
اہل سنت مآخذ میں حضرت زہراؑ کے دفن کے سلسلہ میں دوسرے احتمالات بھی موجود ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: ان کا گھر،<ref>ابن جوزی، مثیر الغرام، ۱۴۱۵ھ، ص۴۶۴۔</ref> روضۃالنبی،<ref> سبط ابن جوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ۱۴۳۴ھ، ج۵، ص۶۰۔</ref> عقیل ابن ابی طالب کے گھر کا باہری حصہ<ref> ابن شبۃ، تاریخ المدینہ، ۱۳۹۹ھ، ج۱، ص۱۰۵۔</ref> اور [[بیت الاحزان۔<ref> دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۱۷۶۔</ref>
اہل سنت مآخذ میں حضرت زہراؑ کے دفن کے سلسلہ میں دوسرے احتمالات بھی موجود ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: ان کا گھر،<ref>ابن جوزی، مثیر الغرام، ۱۴۱۵ھ، ص۴۶۴۔</ref> روضۃالنبی،<ref> سبط ابن جوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ۱۴۳۴ھ، ج۵، ص۶۰۔</ref> عقیل ابن ابی طالب کے گھر کا باہری حصہ<ref> ابن شبۃ، تاریخ المدینہ، ۱۳۹۹ھ، ج۱، ص۱۰۵۔</ref> اور [[بیت الاحزان]]۔<ref> دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۱۷۶۔</ref>


==قبر مخفی ہونے کی وجہ==
==قبر مخفی ہونے کی وجہ==
گمنام صارف