مندرجات کا رخ کریں

"عصمت ائمہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 11: سطر 11:
آیت اللہ سبحانی کے مطابق اس اختلاف کا فرق شیعہ اور سنی دو گروہوں کے مابین امامت اور [[خلافت]] پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں عقائد سے پیدا ہوتا ہے۔ شیعوں کے نقطہ نظر سے، امامت، [[نبوت]] کی طرح ایک الہی مقام ہے اور ضروری ہے کہ خدا اس کا نگہبان مقرر کرے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۲۴۴ و۲۴۵؛ نیز نگاہ کنید بہ باذلی، «الہی بودن منصب امامت»، ص۹-۴۵۔</ref> لیکن اہلسنت کے مطابق امامت ایک عرفی منصب<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۲۳۹۔</ref> ہے اور لوگوں کا منتخب کردہ امام کہ جس کا علم و عدالت عوام کی سطح کے برابر ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے مقرر نہیں ہوتا۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۲۳۹-۲۴۲۔</ref>
آیت اللہ سبحانی کے مطابق اس اختلاف کا فرق شیعہ اور سنی دو گروہوں کے مابین امامت اور [[خلافت]] پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں عقائد سے پیدا ہوتا ہے۔ شیعوں کے نقطہ نظر سے، امامت، [[نبوت]] کی طرح ایک الہی مقام ہے اور ضروری ہے کہ خدا اس کا نگہبان مقرر کرے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۲۴۴ و۲۴۵؛ نیز نگاہ کنید بہ باذلی، «الہی بودن منصب امامت»، ص۹-۴۵۔</ref> لیکن اہلسنت کے مطابق امامت ایک عرفی منصب<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۲۳۹۔</ref> ہے اور لوگوں کا منتخب کردہ امام کہ جس کا علم و عدالت عوام کی سطح کے برابر ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے مقرر نہیں ہوتا۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۴، ص۲۳۹-۲۴۲۔</ref>


عصمت امام و ائمہ کا تذکرہ قرآن میں صراحت کے ساتھ نہیں آیا لیکن علمائے شیعہ نے بعض آیات جیسے [[آیہ اولی‌ الامر]]،<ref>دیکھئے طوسی، التبیان، دار احیاء‌ التراث العربی، ج۳،‌ص۲۳۶؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۱۰۰؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ھ، ص۱۱۳ و ۱۱۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۴،‌ ص۳۹۱۔</ref> [[آیہ تطہیر]]،<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۱۳۴؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ھ، ص۶۴۶؛ سبحانی، الالہیات، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۲۵۔</ref> [[آیہ ابتلائے ابراہیم]]<ref>دیکھئے سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۱۳۹؛ طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج۱، ص۴۴۹؛‌ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، ۱۴۲۲ھ، ص۳۳۲ و ۳۳۳؛ مظفر، دلائل الصدھ، ۱۴۲۲ھ، ج۴، ص۲۲۰۔</ref> کو عصمت امام و ائمہ سے تفسیر کیا ہے لیکن روائی مآخذ میں عصمت ائمہ کے سلسلہ میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔<ref>نمونہ کے طور پر دیکھئے صدوھ، معانی الاخبار، ۱۴۰۳ھ، ص۱۳۲ و ۱۳۳؛ خزاز قمی، کفایۃ الاثر، ۱۴۰۱ھ، ص۱۶-۱۹، ۲۹، ۳۶-۳۸، ۴۵، ۷۶، ۹۹ و ۱۰۰-۱۰۴؛‌ ابن عقدہ کوفی، فضائل امیرالمؤمنین(ع)، ۱۴۲۴ھ، ص۱۵۴ و ۱۵۵؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ھ، ص۶۶۵-۶۷۵۔</ref>
عصمت امام و ائمہ کا تذکرہ قرآن میں صراحت کے ساتھ نہیں آیا لیکن علمائے شیعہ نے بعض آیات جیسے [[آیہ اولی الامر]]،<ref>دیکھئے طوسی، التبیان، دار احیاء‌ التراث العربی، ج۳،‌ص۲۳۶؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۱۰۰؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ھ، ص۱۱۳ و ۱۱۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۴،‌ ص۳۹۱۔</ref> [[آیہ تطہیر]]،<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۱۳۴؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ھ، ص۶۴۶؛ سبحانی، الالہیات، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۲۵۔</ref> [[آیہ ابتلائے ابراہیم]]<ref>دیکھئے سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۱۳۹؛ طوسی، التبیان، دار احیاء‌التراث العربی، ج۱، ص۴۴۹؛‌ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، ۱۴۲۲ھ، ص۳۳۲ و ۳۳۳؛ مظفر، دلائل الصدھ، ۱۴۲۲ھ، ج۴، ص۲۲۰۔</ref> کو عصمت امام و ائمہ سے تفسیر کیا ہے لیکن روائی مآخذ میں عصمت ائمہ کے سلسلہ میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔<ref>نمونہ کے طور پر دیکھئے صدوھ، معانی الاخبار، ۱۴۰۳ھ، ص۱۳۲ و ۱۳۳؛ خزاز قمی، کفایۃ الاثر، ۱۴۰۱ھ، ص۱۶-۱۹، ۲۹، ۳۶-۳۸، ۴۵، ۷۶، ۹۹ و ۱۰۰-۱۰۴؛‌ ابن عقدہ کوفی، فضائل امیرالمؤمنین(ع)، ۱۴۲۴ھ، ص۱۵۴ و ۱۵۵؛ بحرانی، منار الہدی، ۱۴۰۵ھ، ص۶۶۵-۶۷۵۔</ref>


==مفہوم‌ شناسی==
==مفہوم‌ شناسی==
گمنام صارف