مندرجات کا رخ کریں

"دعائے یا من ارجوہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 69: سطر 69:
اس دعا میں دعا کرنے والا اپنے پروردگار سے چاہتا ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی تمام نیکیاں اسے عطا کر دے اور اسی طرح دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے اسے دور رکھے۔ اس دعا کے شروع اور آخر میں خداوند متعال کی جود و بخشش کی حمد و ثنا کی جا رہی ہے، جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ پروردگار اسے بھی اپنی رحمت و مہربانی سے عطا کرتا ہے جو نہ تو اسے پہچانتا ہے اور نہ ہی اس سے کچھ طلب کرتا ہے۔<ref>ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔</ref> اور دیگر مضامین جو اس دعا میں وارد ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ انسان اپنے پروردگار سے لطف کی امید رکھے اور اپنے تمام امورکو اس کے حوالے کر دے۔.<ref>[https://makarem.ir/main.aspx?lid=0&typeinfo=4&mid=416692#_ftnref12 «شرح دعای ماه رجب»]، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر آیت الله مکارم شیرازی۔</ref>
اس دعا میں دعا کرنے والا اپنے پروردگار سے چاہتا ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی تمام نیکیاں اسے عطا کر دے اور اسی طرح دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے اسے دور رکھے۔ اس دعا کے شروع اور آخر میں خداوند متعال کی جود و بخشش کی حمد و ثنا کی جا رہی ہے، جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ پروردگار اسے بھی اپنی رحمت و مہربانی سے عطا کرتا ہے جو نہ تو اسے پہچانتا ہے اور نہ ہی اس سے کچھ طلب کرتا ہے۔<ref>ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔</ref> اور دیگر مضامین جو اس دعا میں وارد ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ انسان اپنے پروردگار سے لطف کی امید رکھے اور اپنے تمام امورکو اس کے حوالے کر دے۔.<ref>[https://makarem.ir/main.aspx?lid=0&typeinfo=4&mid=416692#_ftnref12 «شرح دعای ماه رجب»]، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر آیت الله مکارم شیرازی۔</ref>


== ڈاڑھی پر ہاتھ رکھنا اور انگلی کو جنبش دینا ==
==داڑھی پر ہاتھ رکھنا اور انگلی کو جنبش دینا ==
بعض نقل روایت کی بنیاد پر [[امام صادق علیه‌السلام|امام صادق(ع)]] جب بھی یہ دعا پڑھتے تھے تو اپنا ہاتھ ڈاڑھی پر رکھتے اور اشارے کی انگلی کو جنبش دیتے۔ امامؑ اس عمل کو کب اور کیسے انجام دیتے اس سلسلے میں چند نظریات پائے جاتے ہیں:
بعض نقل روایت کی بنیاد پر [[امام صادق علیه‌السلام|امام صادقؑ]] جب بھی یہ دعا پڑھتے تھے تو اپنا ہاتھ ڈاڑھی پر رکھتے اور اشارے کی انگلی کو جنبش دیتے۔ امامؑ اس عمل کو کب اور کیسے انجام دیتے اس سلسلے میں چند نظریات پائے جاتے ہیں:
[[علامه مجلسی]] اپنی کتاب [[زاد المعاد (کتاب)|زاد المعاد]] میں سید ابن طاووس سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ اس جملے }}عربی |یا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ{{ سے آخر دعا تک اپنا بایاں ہاتھ ڈاڑھی پر رکھتے اور داہنے ہاتھ کی اشارے کی انگلی کو جنبش دیتے تھے۔<ref>مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ ھ، ص۱۶۔</ref>
[[علامه مجلسی]] اپنی کتاب [[زاد المعاد (کتاب)|زاد المعاد]] میں سید ابن طاووس سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ اس جملے {{عربی |یا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ}} سے آخر دعا تک اپنا بایاں ہاتھ داڑھی پر رکھتے اور داہنے ہاتھ کی اشارے کی انگلی کو جنبش دیتے تھے۔<ref>مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ ھ، ص۱۶۔</ref>


[[عبدالله جوادی آملی]]، [[تفسیر قرآن|مفسر قرآن]] اس بات کے معتقد تھے کہ سید ابن طاووس کی کتاب [[الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنۃ (کتاب)|اقبال الاعمال]] کے متن کے مطابق امامؑ ابتدائے دعا سے ہی اس عمل کو انجام دیتے تھے۔<ref>جوادی، [https://www.eshia.ir/feqh/archive/text/javadi/feqh/89/900311/صادقیه درس خارج فقه مبحث بیع، ۱۱ خرداد ۱۳۹۰ش]، مدرسه فقاهت۔</ref>
[[عبدالله جوادی آملی]]، [[تفسیر قرآن|مفسر قرآن]] اس بات کے معتقد تھے کہ سید ابن طاووس کی کتاب [[الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنۃ (کتاب)|اقبال الاعمال]] کے متن کے مطابق امامؑ ابتدائے دعا سے ہی اس عمل کو انجام دیتے تھے۔<ref>جوادی، [https://www.eshia.ir/feqh/archive/text/javadi/feqh/89/900311/صادقیه درس خارج فقه مبحث بیع، ۱۱ خرداد ۱۳۹۰ش]، مدرسه فقاهت۔</ref>
سطر 81: سطر 81:




=== فلسفه اور کیفیت ===
=== فلسفہ اور کیفیت ===
عبد اللہ جوادی آملی معتقد ہیں کہ امام صادقؑ اپنے ہاتھ کو ٹھوڑی پر رکھتے تھے نہ کہ ریش مبارک پر کیونکہ انسان جب کبھی پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو ٹھوڑھی پر ہی ہاتھ رکھتا ہے، اس اعتبار سے یہ دعا، خواتین اور بچے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان عذر خواہی کے وقت اپنے ٹھوڑھی ہی پر ہاتھ رکھتا ہے۔<ref>جوادی، [https://www.eshia.ir/feqh/archive/text/javadi/feqh/89/900311/صادقیه درس خارج فقه مبحث بیع، ۱۱ خرداد ۱۳۹۰ش]، مدرسه فقاهت۔</ref>
عبد اللہ جوادی آملی معتقد ہیں کہ امام صادقؑ اپنے ہاتھ کو ٹھوڑی پر رکھتے تھے نہ کہ ریش مبارک پر کیونکہ انسان جب کبھی پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو ٹھوڑی پر ہی ہاتھ رکھتا ہے، اس اعتبار سے یہ دعا، خواتین اور بچے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان عذر خواہی کے وقت اپنے ٹھوڑی ہی پر ہاتھ رکھتا ہے۔<ref>جوادی، [https://www.eshia.ir/feqh/archive/text/javadi/feqh/89/900311/صادقیه درس خارج فقه مبحث بیع، ۱۱ خرداد ۱۳۹۰ش]، مدرسه فقاهت۔</ref>
[[طریحی]] صاحب [[مجمع البحرین و مطلع النیرین (کتاب)|مجمع البحرین]] نے اس عبارت }}عربی |یَلوذ بِسَبّابَتِه{{ کو جو روایت میں وارد ہوئی ہے<ref>ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔</ref> انگلی کے جنبش دینے کو عاجزی و انکساری کی دلیل بتایا ہے<ref> طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ش، ج۳، ص۱۸۸۔</ref> علامہ مجلسی نے بھی انگلی کو دائیں بائیں جنبش دینے کی تفسیر کی ہے۔<ref>مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ ھ، ص۱۶۔</ref> البتہ بعض علما یہ کہتے ہیں کہ انگلی کو اوپر نیچے کرنے سے مراد آہستہ آہستہ مارنے سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ حالت اس وقت طاری ہوتی ہے جب انسان پریشانی اور اضطراب کی حالت میں ہوتا ہے۔<ref>پیشگر، «گونه‌ها، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۷۰۔</ref>
[[طریحی]] صاحب [[مجمع البحرین و مطلع النیرین (کتاب)|مجمع البحرین]] نے اس عبارت {{عربی |یَلوذ بِسَبّابَتِه}} کو جو روایت میں وارد ہوئی ہے<ref>ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔</ref> انگلی کے جنبش دینے کو عاجزی و انکساری کی دلیل بتایا ہے<ref> طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ش، ج۳، ص۱۸۸۔</ref> علامہ مجلسی نے بھی انگلی کو دائیں بائیں جنبش دینے کی تفسیر کی ہے۔<ref>مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ ھ، ص۱۶۔</ref> البتہ بعض علما یہ کہتے ہیں کہ انگلی کو اوپر نیچے کرنے سے مراد آہستہ آہستہ مارنے سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ حالت اس وقت طاری ہوتی ہے جب انسان پریشانی اور اضطراب کی حالت میں ہوتا ہے۔<ref>پیشگر، «گونه‌ها، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۷۰۔</ref>




بعض لوگوں نے اس طرح سے نقل کیا ہے کہ دعا پڑھتے وقت وہ عمل جوامام صادق (ع) انجام دیتے تھے یہ امام (ع)کے حالت کی نشاندہی کرتا ہے جس کو راوی نے یہاں پر بعنوان حالت امام (ع ) ذکرکیا ہے اور اس عمل کے لئے خود مضمون دعا میں کوئی دستور نقل نہیں ہوا ہے، لہذا س عمل کو انجام دینا ضروری نہیں ہے۔<ref>پیشگر، «گونه‌ها، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۷۰۔</ref>
بعض لوگوں نے اس طرح سے نقل کیا ہے کہ دعا پڑھتے وقت وہ عمل جوامام صادق (ع) انجام دیتے تھے یہ امام (ع)کے حالت کی نشاندہی کرتا ہے جس کو راوی نے یہاں پر بعنوان حالت امامؑ ذکر کیا ہے اور اس عمل کے لئے خود مضمون دعا میں کوئی دستور نقل نہیں ہوا ہے، لہذا س عمل کو انجام دینا ضروری نہیں ہے۔<ref>پیشگر، «گونه‌ها، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۷۰۔</ref>


محمد بن عمر کشی کے نقل کے مطابق ، امام صادق(ع) نے دعا پڑھتے وقت نہ ہی ہاتھوں کو ریش مبارک پر رکھا نہ ہی انگلیوں کو حرکت دی، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کیا اور اسی حالت میں دعا کے آخری عبارت کی تلاوت فرمائی اور جب دعا ختم ہوئی تو امام(ع) نے اپنے دست مبارک کو اپنی ریش مبارک پر رکھا اور جب اٹھایا تو امام(ع) کا دست مبارک آنسوؤں سے تر تھا۔<ref>کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ ھ، ج۲، ص۶۶۷۔</ref> اس قول کے مطابق، امام(ع) نے دعا کے اختتام میں جو عمل انجام دیا وہ یہ ہے کہ امام(ع) نے اپنے دست مبارک کو ریش مبارک پر رکھا تھا اور یہ وہ عمل ہے کہ جس کے بارے میں بعض لوگ معتقد ہیں کہ یہ عمل انسان سے اس وقت سرزد ہوتا ہے جب وہ اضطراب کی حالت میں ہو۔<ref>پیشگر، «گونه‌ها، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۷۱۔</ref>
محمد بن عمر کشی کے نقل کے مطابق ، امام صادق(ع) نے دعا پڑھتے وقت نہ ہی ہاتھوں کو ریش مبارک پر رکھا نہ ہی انگلیوں کو حرکت دی، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کیا اور اسی حالت میں دعا کے آخری عبارت کی تلاوت فرمائی اور جب دعا ختم ہوئی تو امام(ع) نے اپنے دست مبارک کو اپنی ریش مبارک پر رکھا اور جب اٹھایا تو امام(ع) کا دست مبارک آنسوؤں سے تر تھا۔<ref>کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ ھ، ج۲، ص۶۶۷۔</ref> اس قول کے مطابق، امام(ع) نے دعا کے اختتام میں جو عمل انجام دیا وہ یہ ہے کہ امام(ع) نے اپنے دست مبارک کو ریش مبارک پر رکھا تھا اور یہ وہ عمل ہے کہ جس کے بارے میں بعض لوگ معتقد ہیں کہ یہ عمل انسان سے اس وقت سرزد ہوتا ہے جب وہ اضطراب کی حالت میں ہو۔<ref>پیشگر، «گونه‌ها، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۷۱۔</ref>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم