مندرجات کا رخ کریں

"صحیفہ سجادیہ کی پہلی دعا" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 114: سطر 114:
(۲۹) حَمْداً یکونُ وُصْلَةً إِلَی طَاعَتِهِ وَ عَفْوِهِ، وَ سَبَباً إِلَی رِضْوَانِهِ، وَ ذَرِیعَةً إِلَی مَغْفِرَتِهِ، وَ طَرِیقاً إِلَی جَنَّتِهِ، وَ خَفِیراً مِنْ نَقِمَتِهِ، وَ أَمْناً مِنْ غَضَبِهِ، وَ ظَهِیراً عَلَی طَاعَتِهِ، وَ حَاجِزاً عَنْ مَعْصِیتِهِ، وَ عَوْناً عَلَی تَأْدِیةِ حَقِّهِ وَ وَظَائِفِهِ.  
(۲۹) حَمْداً یکونُ وُصْلَةً إِلَی طَاعَتِهِ وَ عَفْوِهِ، وَ سَبَباً إِلَی رِضْوَانِهِ، وَ ذَرِیعَةً إِلَی مَغْفِرَتِهِ، وَ طَرِیقاً إِلَی جَنَّتِهِ، وَ خَفِیراً مِنْ نَقِمَتِهِ، وَ أَمْناً مِنْ غَضَبِهِ، وَ ظَهِیراً عَلَی طَاعَتِهِ، وَ حَاجِزاً عَنْ مَعْصِیتِهِ، وَ عَوْناً عَلَی تَأْدِیةِ حَقِّهِ وَ وَظَائِفِهِ.  


(۳۰) حَمْداً نَسْعَدُ بِهِ فِی السُّعَدَاءِ مِنْ أَوْلِیائِهِ، وَ نَصِیرُ بِهِ فِی نَظْمِ الشُّهَدَاءِ بِسُیوفِ أَعْدَائِهِ، إِنَّهُ وَلِی حَمِید.|<center>دعای آن حضرت است که به سپاس و ثنای خدای عزّوجلّ شروع می‌کرد آن هنگام که در عرصه‌گاه دعا قرار می‌گرفت، پس می‌گفت:</center><br>
(۳۰) حَمْداً نَسْعَدُ بِهِ فِی السُّعَدَاءِ مِنْ أَوْلِیائِهِ، وَ نَصِیرُ بِهِ فِی نَظْمِ الشُّهَدَاءِ بِسُیوفِ أَعْدَائِهِ، إِنَّهُ وَلِی حَمِید.|<center>خداوند عالم کی حمد و ستائش کی دعا</center><br>
(۱) همۀ ستایش‌ها مخصوص خداست؛ آن وجود مبارکی که اوّل است، بی‌آنکه اوّلی پیش از او بوده باشد؛ و آخر است، بی‌آنکه آخری پس از او باشد.
(1)سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو ایسا اول ہے، جس کے پہلے کوئی اول نہ تھا اور ایسا آخر ہے جس کے بعد کوئی آخر نہ ہو گا۔


(۲) دیدۀ بینندگان از دیدنش کوتاه و گمان وصف‌کنندگان از ستودنش، ناتوان است.
(2)وہ خدا جس کے دیکھنے سے دیکھنے والوں کی آنکھیں عاجز اور جس کی توصیف و ثنا سے وصف بیان کرنے والوں کی عقلیں قاصر ہیں۔


(۳) موجودات را به قدرتش آفرید، آفریدنی بی مانند؛ و آفریده‌ها را به اراده‌اش ساخت، ساختنی بی مثال.
(3)اس نے کائنات کو اپنی قدرت سے پیدا کیااور اپنے منشائے ازلی سے جیسا چاہا انہیں ایجاد کیا۔


(۴) آن‌گاه، همۀ آن‌ها را در مسیر خواستۀ خود راهی کرد و در راه محبتش برانگیخت. قدرت پس رفتن، به سوی مرزهایی که آنان را از آن‌ها پیش انداخت، ندارند؛ و توان پیش رفتن به سوی حدودی که آنان را از آن‌ها پس انداخت، ندارند.
(4)پھر انہیں اپنے ارادہ کے راستہ پر چلایا اور اپنی محبت کی راہ پر ابھارا۔
جن حدود کی طرف انہیں آگے بڑھایا ہے، ان سے پیچھے رہنا اور جن سے پیچھے رکھا ہے ان سے آگے بڑھنا ان کے قبضہ و اختیار سے باہر ہے۔


(۵) از رزق و روزی‌اش، برای هر یک از جانداران، خوراکی معلوم و قسمت شده قرار داد. سهم کسی را که فراوان داده، احدی نمی‌تواند بکاهد؛ و نصیب کسی از آنان را که کاسته، هیچ‌کس نمی‌تواند بیافزاید.
(5)اسی نے ہر (ذی) روح کے لیے اپنے (پیدا کردہ) رزق میں سے معین و معلوم روزی مقرر کر دی ہے۔ جسے زیادہ دیا ہے، اسے کوئی گھٹانے والا گھٹا نہیں سکتا اور جسے کم دیا ہے، اسے بڑھانے والا بڑھا نہیں سکتا۔


(۶) آن‌گاه در زندگی برای او زمانی معین، مقدّر فرمود؛ و پایانی محدود قرار داد؛ که با ایام عمرش به سوی آن پایان، قدم برمی‌دارد و با سال‌های زندگی‌اش به آن نزدیک می‌شود تا هنگامی‌که به پایان زندگی‌اش برسد و پیمانۀ حساب عمرش را تمام و کامل دریافت کند؛ او را به سوی آنچه از پاداش بسیار، یا عذاب دردناک، فراخوانده بود، ببرد؛ «تا به خاطر عدالتش، بدکاران را به علّت کردار ناپسندشان و نیکوکاران را به سبب کار نیکشان، پاداش بخشد».
(6)پھر یہ کہ اسی نے اس کی زندگی کا ایک وقت مقرر کر دیا اور ایک معینہ مدّت اس کے لیے ٹھرا دی۔
جس مدت کی طرف وہ اپنی زندگی کے دنوں سے بڑھتا اور اپنے زمانۂ زیست کے سالوں سے اس کے نزدیک ہوتا ہے، یہاں تک کہ جب زندگی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور اپنی عمر کا حساب پورا کر لیتا ہے تو اللہ اسے اپنے ثواب بے پایاں تک جس کی طرف اسے بلایا تھا یا خوفناک عذاب کی جانب جسے بیان کر دیا تھا، قبض روح کے بعد پہنچا دیتا ہے


(۷) این [جزا دادن] از عدالت اوست؛ پاک و مبارک است نام‌های حضرتش و پی‌درپی است نعمت‌هایش. «از آنچه انجام می‌دهد، بازخواست نشود، ولی همگان در پیشگاهش بازخواست شوند».
(7)تاکہ اپنے عدل کی بنا پر بروں کو ان کی بداعمالیوں کی سزا اور نیکوکاروں کو اچھا بدلہ دے۔
اس کے نام پاکیزہ اور اس کی نعمتوں کا سلسلہ لگاتا رہے۔ وہ جو کرتا ہے اس کی پوچھ گچھ اس سے نہیں ہوسکتی اور لوگوں سے بہرحال بازپرس ہوگی۔


(۸) و همۀ ستایش‌ها مخصوص خداست که اگر بندگانش را از شناختِ سپاس‌گزاری‌اش بر آنچه که از عطایای پیاپی‌اش که محض امتحان کردنشان به آنان عنایت فرمود و نعمت‌های پیوسته‌ای که بر آنان کامل کرد، به چاه محرومیّت می‌انداخت؛ در عطایا و نعمت‌هایش، دخل و تصرّف می‌کردند و او را سپاس نمی‌گزاردند؛ و روزیش را به فراوانی هزینه می‌کردند و به شکر عنایاتش برنمی‌خاستند.
(8)تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے کہ اگر وہ اپنے بندوں کو حمد و شکر کی معرفت سے محروم رکھتا،ان پیہم عطیوں پر جو اس نے دیئے ہیں اور ان پے در پے نعمتوں پر جو اس نے فراوانی سے بخشی ہیں تو وہ اس کی نعمتوں میں تصرف تو کرتے، مگر اس کی حمد نہ کرتے اور اس کے رزق میں فارغ البالی سے بسر تو کرتے، مگر اُس کا شکر بجانہ لاتے اور ایسے ہوتے تو انسانیت کی حدوں سے نکل کر چوپائیوں کی حد میں آجاتے اور اس توصیف کے مصداق ہوتے جو اس نے اپنی محکم کتاب میں کی ہے کہ "وہ تو بس چوپائیوں کی مانند ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ راہ راست سے بھٹکتے ہوئے"


(۹) اگر چنین بودند [که شکرگزاری نمی¬کردند]، از حدود انسانیّت بیرون می‌رفتند و به مرز حیوانیّت می‌رسیدند. در نتیجه به این صورت بودند که در کتاب محکمش وصف کرده: «آنان جز مانند چهارپایان نیستند؛ بلکه آنان گمراه‌ترند!».
(11)تمام تعریف اللہ کے لیے ہے کہ اس نے اپنی ذات کو ہمیں پہنچوایا اور حمد و شکر کا طریقہ سمجھایا اور اپنی پروردگاری پر علم و اطلاع کے دروازے ہمارے لیے کھول دیئے اور توحید میں تنزیہ و اخلاص کی طرف ہماری رہنمائی کی اور اپنے معاملہ میں شرک و کجروی سے ہمیں بچایا۔


(۱۰) و همۀ ستایش‌ها مخصوص خداست که وجودش را به ما شناساند و شکرش را به ما الهام کرد و درهای دانش را به پروردگاری‌اش به روی ما گشود و ما را بر اخلاص ورزی در یکتایی‌اش راهنمایی کرد و از انحراف در دین و تردید در دستورش، دور داشت.
(12)ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کی مخلوقات میں سے حمدگزاروں میں زندگی بسر کریں اور اس کی خوشنودی و بخشش کی طرف بڑھنے والوں سے سبقت لے جائیں۔
(13)ایسی حمد جس کی بدولت ہمارے لیے برزخ کی تاریکیاں چھٹ جائیں اور جو ہمارے لیے قیامت کی راہوں کو آسان کر دے اور حشر کے مجمع عام میں ہماری قدر و منزلت کو بلند کر دے ، جس دن ہر ایک کے کئے کا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ ہوگا۔


(۱۱) خدا را ستایش می‌‌کنم، ستایشی که با آن، در گروه ستایش¬گران از بندگانش زندگی کنم و با آن ستایش بر هر که به خشنودی و گناه بخشی‌اش پیشی جسته، سبقت گیرم.
(14)جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ایسی حمد جو ایک لکھی ہوئی کتاب میں ہے جس کی مقرب فرشتے نگہداشت کرتے ہیں،ہماری طرف سے بہشت بریں کے بلند ترین درجات تک بلند ہو۔


(۱۲) ستایشی که به سبب آن، تاریکی‌های برزخ را بر ما روشن کند؛ و به وسیلۀ آن، راه رستاخیز را بر ما آسان فرماید؛ و به کمک آن، رتبه‌های ما را نزد گواهان روز قیامت بلند گرداند. «روزی که هر وجودی، به خاطر آنچه مرتکب شده، پاداش داده شود و مورد ستم قرار نگیرد»؛ «روزی که هیچ دوستی، چیزی از عذاب را از دوستش برطرف نکند و این گنه‌کاران حرفه‌ای از جانب کسی یاری نشوند».
(15)ایسی حمد جس سے ہماری آنکھوں میں ٹھنڈک آئے جبکہ تمام آنکھیں حیرت و دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور ہمارے چہرے روشن و درخشاں ہوں، جبکہ تمام چہرے سیاہ ہوں گے۔


(۱۳) سپاسی که از سوی ما، «در پرونده‌ای که کردار نیکان در آن رقم خورده و مقرّبان درگاهش گواهان آنند»، به سوی اعلا علیّین بالا رود.
(16)ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی اذیت دہ آگ سے آزادی پا کر اس کے جوارِ رحمت میں آجائیں ۔


(۱۴) ستایشی که چون دیده‌ها در قیامت خیره شود، سبب روشنی دیده ما شود؛ و هنگامی‌که چهره‌ها سیاه گردد، به نورانیّت آن صورت‌های ما به سپیدی رسد.
(17)ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے مقرب فرشتوں کے ساتھ شانہ بشانہ بڑھتے ہوئے ٹکرائیں اور اس منزلِ جاوید و مقام عزت و رفعت میں جسے تغیر و زوال نہیں، اس کے فر ستادہ پیغمبروں کے ساتھ یکجا ہوں۔


(۱۵) ستایشی که ما را از آتش دردناک خدا آزاد و در جوار کریمانه‌اش جای دهد.
(18)تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے خلقت و آفرنیش کی تمام خوبیاں ہمارے لیے منتخب کیں اور پاک و پاکیزہ رزق کا سلسلہ ہمارے لیے جاری کیا اور ہمیں غلبہ و تسلط دے کر تمام مخلوقات پر برتری عطا کی ۔


(۱۶) ستایشی که به وسیلۀ آن، همدوش فرشتگان شویم؛ و در پیشگاه رحمتش، جای را بر آنان تنگ کنیم؛ و به سبب آن، در سرای جاودانی که از بین نمی‌رود و محل کرامتش که دگرگونی نمی‌پذیرد، با پیامبران مرسل او همراه شویم.
(19)چنانچہ تمام کائنات اس کی قدرت سے ہمارے زیر فرمان اور اس کی قوت و سربلندی کی بدولت ہماری اطاعت پر آمادہ ہے۔


(۱۷) و همۀ ستایش‌ها مخصوص خداست که زیبایی‌های آفرینش را برای ما برگزید و روزی‌های پاکیزه را به سوی ما روان ساخت.
(20)تمام تعریف اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے اپنے سوا طلب و حاجت کا ہر دروازہ ہمارے لیے بند کر دیا تو ہم ( اس حاجت و احتیاج کے ہوتے ہوئے) کیسے اس کی حمد سے عہدہ برآہوسکتے ہیں اور کب اس کا شکر ادا کرسکتے ہیں۔


(۱۸) و ما را با تسلّط بر همۀ موجودات برتری داد. در نتیجه، همۀ موجوداتش بر اساس قدرت حضرتش، فرمان‌بردار ما هستند؛ و در سایۀ عزّتش، در گردونۀ اطاعت از ما قرار دارند.
(21)نہیں! کسی وقت بھی اس کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔


(۱۹) و همۀ ستایش‌ها مخصوص خداست که درِ احتیاج و نیاز ما را از غیر خود بست؛ پس چگونه قدرتِ سپاس‌گزاری او را داریم؟ یا چه زمانی می‌توانیم به ادای شکرش اقدام کنیم؟ هیچ گاه!
(22)تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے، جس نے ہمارے ( جسموں میں) پھیلنے والے اعصاب اور سمٹنے والے عضلات ترتیب دیئے اور زندگی کی آسائشوں سے بہرہ مند کیا اور کار و کسب کے اعضاء ہمارے اندر ودیعت فرمائے اور پاک و پاکیزہ روزی سے ہماری پرورش کی اور اپنے فضل و کرم کے ذریعہ ہمیں بے نیاز کردیا اور اپنے لطف و احسان سے ہمیں ( نعمتوں کا) سرمایہ بخشا۔


(۲۰) و همۀ ستایش‌ها مخصوص خداست که در پیکر ما ابزار گشودن اندام را سوار کرد و آلات بستن آن‌ها را قرار داد و ما را با روان‌های زنده، از زندگی بهره‌مند ساخت و اعضای انجام دادن کار را در وجود ما استوار کرد و با روزی‌های پاکیزه خوراک داد و با احسانش ما را بی‌نیاز کرد و با عطایش به ما سرمایه بخشید.
(23)پھر اس نے اپنے احکام اوامر کی پیروی کا حکم دیا تاکہ فرمانبرداری میں ہم کو آزمائے اور نواہی کے ارتکاب سے منع کیا تاکہ ہمارے شکر کو جانچے، مگر ہم نے اس کے حکم کی راہ سے انحراف کیا اور نواہی کے مرکب پر سوار ہولیے ۔ پھر بھی اس نے عذاب میں جلدی نہیں کی اور سزا دینے میں تعجیل سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے کرم و رحمت سے ہمارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا اور حلم و رافت سے ہمارے باز آ جانے کا منتظر رہا۔


(۲۱) آنگاه دستوراتش را متوجّه ما فرمود تا فرمان بردن ما را بسنجد؛ و از محرّمات بر حذرمان داشت تا شکر‌کردنمان را بیازماید؛ پس از این همه عنایت، از مسیر دستورش روی‌گرداندیم؛ و بر مرکب سخت و سنگین محرّماتش سوار شدیم. با این همه به کیفرش نسبت به ما شتاب نورزید؛ و بر انتقام گرفتن از ما عجله نکرد؛ بلکه به رحمت و کرمش، از سر خشنودی و رضایت، با ما معامله کرد؛ و به مهربانی و بردباری‌اش، بازگشت ما را از مسیر گناه انتظار کشید.
(24)تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں توبہ کی راہ بتائی کہ جسے ہم نے صرف اس کے فضل و کرم کی بدولت حاصل کیا ہے۔ تو اگر ہم اس کی بخششوں میں سے اس توبہ کے سوا اور کوئی نعمت شمار میں نہ لائیں تو یہی توبہ ہمارے حق میں اس کا عمدہ انعام، بڑا احسان اور عظیم فضل ہے۔


(۲۲) و همۀ ستایش‌ها مخصوص خداست که ما را به بازگشت و توبه از گناه، راهنمایی کرد؛ توبه‌ای که آن را جز از طریق احسانش به دست نیاوردیم؛ و اگر از فضل و احسان بی‌شمارش، غیر این عنایت را که عبارت از بخشیدن نعمت توبه و بازگشت است، به حساب نیاوریم، محقّقاً آزمایشش دربارۀ ما نیکو و احسانش در حقّ ما بزرگ و بخشش او بر ما عظیم است.
(25)اس لیے کہ ہم سے پہلے لوگوں کے لیے توبہ کے بارے میں اس کا یہ رویہ نہ تھا۔


(۲۳) روش وجود مقدّسش در برنامه توبه دربارۀ کسانی که پیش از ما بودند، چنین نبود؛ آنچه را در عرصه¬گاه توبه، در طاقت و توان ما نبوده، از دوش جان ما برداشته؛ و جز به اندازه قدرت و وسعمان به ما تکلیف نفرموده؛ در میان آن همه تکالیف سخت، ما را جز به تکالیف آسان وا نداشته؛ و در این زمینه، برای هیچ یک از ما دلیل و بهانه‌ای باقی نگذاشته است.
(26)اس نے تو جس چیز کے برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے، وہ ہم سے ہٹا لی اور ہماری طاقت سے بڑھ کر ہم پرذمہ داری عائد نہیں کی اور صرف سہل و آسان چیزوں کی ہمیں تکلیف دی ہے اور ہم میں سے کسی ایک کے لیے حیل و حجت کی گنجائش نہیں رہنے دی۔


(۲۴) بنابراین، هلاک شونده از ما، کسی است که در میدان مخالفت با او هلاک گردد؛ و سعادتمند از ما کسی است که به سوی او اشتیاق داشته باشد.
(27)لہذا وہی تباہ ہونے والا ہے،جواس کی منشاء کے خلاف اپنی تباہی کا سامان کرے اور وہی خوش نصیب ہے، جو اس کی طرف توجہ و رغبت کرے۔


(۲۵) و خدا را ستایش، به همۀ آن ستایشی که نزدیک‌ترین فرشتگان به او و بزرگوارترین مخلوقاتش نزد او و پسندیده‌ترین ستایشگران آستان او، حضرتش را ستوده‌اند.
(28)اللہ کے لیے حمد و ستائش ہے،ہر وہ حمد جو اس کے مقرب فرشتے، بزرگ ترین مخلوقات اور پسندیدہ حمد کرنے والے بجا لاتے ہیں۔ ایسی ستائش جو دوسری ستائشوں سے بڑھی چڑھی ہوئی ہو،جس طرح ہمارا پروردگار تمام مخلوقات سے بڑھا ہوا ہے۔


(۲۶) ستایشی که از دیگر ستایش‌ها، برتری جوید، مانند برتری پروردگار، به همه مخلوقاتش.
(29)پھر اسی کے لیے حمد و ثنا ہے۔ اس کی ہرہر نعمت کے بدلے میں جو اس نے ہمیں اور تمام گزشتہ و باقی ماندہ بندوں کو بخشی ہے،ان تمام چیزوں کے شمار کے برابر جن پر اس کا علم حاوی ہے اور ہر نعمت کے مقابلہ میں دوگنی چوگنی جو قیامت کے دن تک دائمی و ابدی ہو ۔


(۲۷) سپس او را ستایش، به جای همۀ نعمت‌هایی که او بر ما و به تمام بندگان گذشته‌اش و همۀ آنانی که هستند و می‌آیند، دارد، ستایشی به عدد تمام اشیایی که دانشش بر آن‌ها احاطه دارد و ستایشی به جای هر یک از اشیا به چندین برابر؛ ستایشی ابدی و همیشگی تا روز قیامت.
(30)ایسی حمد جس کا کوئی آخری کنار اور جس کی گنتی کا کوئی شمار نہ ہو۔ جس کی حد نہایت دسترس سے باہر اور جس کی مدت غیر مختتم ہو۔


(۲۸) ستایشی که مرزش را پایانی و شمارۀ آن را حسابی و پایانش را نهایتی و مدّتش را سرآمدی، نباشد.
ایسی حمد جو اس کی اطاعت و بخشش کا وسیلہ، اس کی رضا مندی کا سبب، اس کی مغفرت کا ذریعہ، جنت کا راستہ، اس کے عذاب سے پناہ، اس کے غضب سے امان، اس کی اطاعت میں معین، اس کی معصیت سے مانع اور اس کے حقوق و واجبات کی ادائیگی میں مددگار ہو ۔


(۲۹) ستایشی که رشتۀ اتّصال به طاعت و بخشش و عامل رضایت و خشنودی‌اش و وسیلۀ آمرزشش و راهی به سوی بهشتش و حفاظت کننده از کیفرش و امان از خشمش و مددکاری بر طاعتش و مانع و سدّی از نافرمانی‌اش و کمکی بر ادای حق و عهد و پیمانش، باشد.
ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے خوش نصیب دوستوں میں شامل ہو کر خوش نصیب قرار پائیں اور ان شہیدوں کے زمرہ میں شمار ہوں جو اس کے دشمنوں کی تلواروں سے شہید ہوئے۔ بیشک وہی مالک و مختار اور قابل ستائش ہے۔
 
(۳۰) ستایشی که به وسیلۀ آن، در گروه سعادتمندان از دوستانش، به خوشبختی و سعادت برسیم؛ و به سبب آن با شمشیر دشمنانش در سلک شهیدان قرار گیریم. همانا او یار بندگان و خدای ستوده خصال است.}}
 
== متن اور ترجمہ ==
{| class="mw-collapsible mw-collapsed wikitable" style="margin:auto;min-width:50%;"
!
{{ quote box
| title  = <Big>دعا</Big>
|bgcolor = #ecfcf4
|title_bg = Lavender
|  align = center
}}
||
{{quote box
| title = '''ترجمہ مفتی جعفر حسین'''
||bgcolor= #ecfcf4
| title_bg = Lavender
|  align = center
}}
|-
|
{{quote box
| quote = :
<center>{{حدیث|'''بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ'''}}</center>
 
<center>{{حدیث|'''وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِذَا ابْتَدَأَ بِالدُّعَاءِ بَدَأَ بِالتَّحْمِيدِ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ'''}}</center>
 
<font color=green>{{حدیث|الْحَمْدُ لِلَّهِ الْأَوَّلِ بِلَا أَوَّلٍ كَانَ قَبْلَهُ، وَ الْآخِرِ بِلَا آخِرٍ يَكُونُ بَعْدَهُ الَّذِي قَصُرَتْ عَنْ رُؤْيَتِهِ أَبْصَارُ النَّاظِرِينَ، وَ عَجَزَتْ عَنْ نَعْتِهِ أَوْهَامُ الْوَاصِفِينَ. ابْتَدَعَ بِقُدْرَتِهِ الْخَلْقَ ابْتِدَاعاً، وَ اخْتَرَعَهُمْ عَلَى مَشِيَّتِهِ اخْتِرَاعاً. ثُمَّ سَلَكَ بِهِمْ طَرِيقَ إِرَادَتِهِ، وَ بَعَثَهُمْ فِي سَبِيلِ مَحَبَّتِهِ، لَا يَمْلِكُونَ تَأْخِيراً عَمَّا قَدَّمَهُمْ إِلَيْهِ، وَ لَا يَسْتَطِيعُونَ تَقَدُّماً إِلَى مَا أَخَّرَهُمْ عَنْهُ. وَ جَعَلَ لِكُلِّ رُوحٍ مِنْهُمْ قُوتاً مَعْلُوماً مَقْسُوماً مِنْ رِزْقِهِ، لَا يَنْقُصُ مَنْ زَادَهُ نَاقِصٌ، وَ لَا يَزِيدُ مَنْ نَقَصَ مِنْهُمْ زَائِدٌ. ثُمَّ ضَرَبَ لَهُ فِي الْحَيَاةِ أَجَلًا مَوْقُوتاً، وَ نَصَبَ لَهُ أَمَداً مَحْدُوداً، يَتَخَطَّى إِلَيْهِ بِأَيَّامِ عُمُرِهِ، وَ يَرْهَقُهُ بِأَعْوَامِ دَهْرِهِ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَقْصَى أَثَرِهِ، وَ اسْتَوْعَبَ حِسَابَ عُمُرِهِ، قَبَضَهُ إِلَى مَا نَدَبَهُ إِلَيْهِ مِنْ مَوْفُورِ ثَوَابِهِ، أَوْ مَحْذُورِ عِقَابِهِ، لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَ يَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى. عَدْلًا مِنْهُ، تَقَدَّسَتْ أَسْمَاؤُهُ، وَ تَظاَهَرَتْ آلَاؤُهُ، لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْأَلُونَ. وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَوْ حَبَسَ عَنْ عِبَادِهِ مَعْرِفَةَ حَمْدِهِ عَلَى مَا أَبْلَاهُمْ مِنْ مِنَنِهِ الْمُتَتَابِعَةِ، وَ أَسْبَغَ عَلَيْهِمْ مِنْ نِعَمِهِ الْمُتَظَاهِرَةِ، لَتَصَرَّفُوا فِي مِنَنِهِ فَلَمْ يَحْمَدُوهُ، وَ تَوَسَّعُوا فِي رِزْقِهِ فَلَمْ يَشْكُرُوهُ. وَ لَوْ كَانُوا كَذَلِكَ لَخَرَجُوا مِنْ حُدُودِ الْإِنْسَانِيَّةِ إِلَى حَدِّ الْبَهِيمِيَّةِ فَكَانُوا كَمَا وَصَفَ فِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ «إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا.» وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى مَا عَرَّفَنَا مِنْ نَفْسِهِ، وَ أَلْهَمَنَا مِنْ شُكْرِهِ، وَ فَتَحَ لَنَا مِنْ أَبْوَابِ الْعِلْمِ بِرُبُوبِيَّتِهِ، وَ دَلَّنَا عَلَيْهِ مِنَ الْإِخْلَاصِ لَهُ فِي تَوْحِيدِهِ، وَ جَنَّبَنَا مِنَ الْإِلْحَادِ وَ الشَّكِّ فِي أَمْرِهِ. حَمْداً نُعَمَّرُ بِهِ فِيمَنْ حَمِدَهُ مِنْ خَلْقِهِ، وَ نَسْبِقُ بِهِ مَنْ سَبَقَ إِلَى رِضَاهُ وَ عَفْوِهِ. حَمْداً يُضِي‏ءُ لَنَا بِهِ ظُلُمَاتِ الْبَرْزَخِ، وَ يُسَهِّلُ عَلَيْنَا بِهِ سَبِيلَ الْمَبْعَثِ، وَ يُشَرِّفُ بِهِ مَنَازِلَنَا عِنْدَ مَوَاقِفِ الْأَشْهَادِ، يَوْمَ تُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُونَ، يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئاً وَ لَا هُمْ يُنْصَرُونَ. حَمْداً يَرْتَفِعُ مِنَّا إِلَى أَعْلَى عِلِّيِّينَ فِي كِتَابٍ مَرْقُومٍ يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ. حَمْداً تَقَرُّ بِهِ عُيُونُنَا إِذَا بَرِقَتِ الْأَبْصَارُ، وَ تَبْيَضُّ بِهِ وُجُوهُنَا إِذَا اسْوَدَّتِ الْأَبْشَارُ. حَمْداً نُعْتَقُ بِهِ مِنْ أَلِيمِ نَارِ اللَّهِ إِلَى كَرِيمِ جِوَارِ اللَّهِ. حَمْداً نُزَاحِمُ بِهِ مَلَائِكَتَهُ الْمُقَرَّبِينَ، وَ نُضَامُّ بِهِ أَنْبِيَاءَهُ الْمُرْسَلِينَ فِي دَارِ الْمُقَامَةِ الَّتِي لَا تَزُولُ، وَ مَحَلِّ كَرَامَتِهِ الَّتِي لَا تَحُولُ. وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي اخْتَارَ لَنَا مَحَاسِنَ الْخَلْقِ، وَ أَجْرَى عَلَيْنَا طَيِّبَاتِ الرِّزْقِ. وَ جَعَلَ لَنَا الْفَضِيلَةَ بِالْمَلَكَةِ عَلَى جَمِيعِ الْخَلْقِ، فَكُلُّ خَلِيقَتِهِ مُنْقَادَةٌ لَنَا بِقُدْرَتِهِ، وَ صَائِرَةٌ إِلَى طَاعَتِنَا بِعِزَّتِهِ. وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَغْلَقَ عَنَّا بَابَ الْحَاجَةِ إِلَّا إِلَيْهِ، فَكَيْفَ نُطِيقُ حَمْدَهُ أَمْ مَتَى نُؤَدِّي شُكْرَهُ لَا، مَتَى. وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَكَّبَ فِينَا آلَاتِ الْبَسْطِ، وَ جَعَلَ لَنَا أَدَوَاتِ الْقَبْضِ، وَ مَتَّعَنَا بِأَرْوَاحِ الْحَيَاةِ، وَ أَثْبَتَ فِينَا جَوَارِحَ الْأَعْمَالِ، وَ غَذَّانَا بِطَيِّبَاتِ الرِّزْقِ، وَ أَغْنَانَا بِفَضْلِهِ، وَ أَقْنَانَا بِمَنِّهِ. ثُمَّ أَمَرَنَا لِيَخْتَبِرَ طَاعَتَنَا، وَ نَهَانَا لِيَبْتَلِيَ شُكْرَنَا، فَخَالَفْنَا عَنْ طَرِيقِ أَمْرِهِ، وَ رَكِبْنَا مُتُونَ زَجْرِهِ، فَلَمْ يَبْتَدِرْنَا بِعُقُوبَتِهِ، وَ لَمْ يُعَاجِلْنَا بِنِقْمَتِهِ، بَلْ تَأَنَّانَا بِرَحْمَتِهِ تَكَرُّماً، وَ انْتَظَرَ مُرَاجَعَتَنَا بِرَأْفَتِهِ حِلْماً. وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي دَلَّنَا عَلَى التَّوْبَةِ الَّتِي لَمْ نُفِدْهَا إِلَّا مِنْ فَضْلِهِ، فَلَوْ لَمْ نَعْتَدِدْ مِنْ فَضْلِهِ إِلَّا بِهَا لَقَدْ حَسُنَ بَلَاؤُهُ عِنْدَنَا، وَ جَلَّ إِحْسَانُهُ إِلَيْنَا وَ جَسُمَ فَضْلُهُ عَلَيْنَا فَمَا هَكَذَا كَانَتْ سُنَّتُهُ فِي التَّوْبَةِ لِمَنْ كَانَ قَبْلَنَا، لَقَدْ وَضَعَ عَنَّا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ، وَ لَمْ يُكَلِّفْنَا إِلَّا وُسْعاً، وَ لَمْ يُجَشِّمْنَا إِلَّا يُسْراً، وَ لَمْ يَدَعْ لِأَحَدٍ مِنَّا حُجَّةً وَ لَا عُذْراً. فَالْهَالِكُ مِنَّا مَنْ هَلَكَ عَلَيْهِ، وَ السَّعِيدُ مِنَّا مَنْ رَغِبَ إِلَيْهِ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ بِكُلِّ مَا حَمِدَهُ بِهِ أَدْنَى مَلَائِكَتِهِ إِلَيْهِ وَ أَكْرَمُ خَلِيقَتِهِ عَلَيْهِ وَ أَرْضَى حَامِدِيهِ لَدَيْهِ حَمْداً يَفْضُلُ سَائِرَ الْحَمْدِ كَفَضْلِ رَبِّنَا عَلَى جَمِيعِ خَلْقِهِ. ثُمَّ لَهُ الْحَمْدُ مَكَانَ كُلِّ نِعْمَةٍ لَهُ عَلَيْنَا وَ عَلَى جَمِيعِ عِبَادِهِ الْمَاضِينَ وَ الْبَاقِينَ عَدَدَ مَا أَحَاطَ بِهِ عِلْمُهُ مِنْ جَمِيعِ الْأَشْيَاءِ، وَ مَكَانَ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهَا عَدَدُهَا أَضْعَافاً مُضَاعَفَةً أَبَداً سَرْمَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. حَمْداً لَا مُنْتَهَى لِحَدِّهِ، وَ لَا حِسَابَ لِعَدَدِهِ، وَ لَا مَبْلَغَ لِغَايَتِهِ، وَ لَا انْقِطَاعَ لِأَمَدِهِ حَمْداً يَكُونُ وُصْلَةً إِلَى طَاعَتِهِ وَ عَفْوِهِ، وَ سَبَباً إِلَى رِضْوَانِهِ، وَ ذَرِيعَةً إِلَى مَغْفِرَتِهِ، وَ طَرِيقاً إِلَى جَنَّتِهِ، وَ خَفِيراً مِنْ نَقِمَتِهِ، وَ أَمْناً مِنْ غَضَبِهِ، وَ ظَهِيراً عَلَى طَاعَتِهِ، وَ حَاجِزاً عَنْ مَعْصِيَتِهِ، وَ عَوْناً عَلَى تَأْدِيَةِ حَقِّهِ وَ وَظَائِفِهِ. حَمْداً نَسْعَدُ بِهِ فِي السُّعَدَاءِ مِنْ أَوْلِيَائِهِ، وَ نَصِيرُ بِهِ فِي نَظْمِ الشُّهَدَاءِ بِسُيُوفِ أَعْدَائِهِ، إِنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيدٌ.}}</font>
 
| archive date =
||bgcolor= #ecfcf4
| title_bg = Lavender
|qalign =justify
| align = right
}}
|<center>خداوند عالم کی حمد و ستائش کی دعا</center> 
سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو ایسا اول ہے، جس کے پہلے کوئی اول نہ تھا اور ایسا آخر ہے جس کے بعد کوئی آخر نہ ہو گا ۔ وہ خدا جس کے دیکھنے سے دیکھنے والوں کی آنکھیں عاجز اور جس کی توصیف و ثنا سے وصف بیان کرنے والوں کی عقلیں قاصر ہیں ۔ اس نے کائنات کو اپنی قدرت سے پیدا کیااور اپنے منشائے ازلی سے جیسا چاہا انہیں ایجاد کیا۔ پھر انہیں اپنے ارادہ کے راستہ پر چلایا اور اپنی محبت کی راہ پر ابھارا۔ جن حدود کی طرف انہیں آگے بڑھایا ہے، ان سے پیچھے رہنا اور جن سے پیچھے رکھا ہے ان سے آگے بڑھنا ان کے قبضہ و اختیار سے باہر ہے۔ اسی نے ہر (ذی) روح کے لیے اپنے (پیدا کردہ) رزق میں سے معین و معلوم روزی مقرر کر دی ہے۔ جسے زیادہ دیا ہے، اسے کوئی گھٹانے والا گھٹا نہیں سکتا اور جسے کم دیا ہے، اسے بڑھانے والا بڑھا نہیں سکتا ۔ پھر یہ کہ اسی نے اس کی زندگی کا ایک وقت مقرر کر دیا اور ایک معینہ مدّت اس کے لیے ٹھرا دی ۔ جس مدت کی طرف وہ اپنی زندگی کے دنوں سے بڑھتا اور اپنے زمانۂ زیست کے سالوں سے اس کے نزدیک ہوتا ہے، یہاں تک کہ جب زندگی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور اپنی عمر کا حساب پورا کر لیتا ہے تو اللہ اسے اپنے ثواب بے پایاں تک جس کی طرف اسے بلایا تھا یا خوفناک عذاب کی جانب جسے بیان کر دیا تھا، قبض روح کے بعد پہنچا دیتا ہے تاکہ اپنے عدل کی بنا پر بروں کو ان کی بداعمالیوں کی سزا اور نیکوکاروں کو اچھا بدلہ دے ۔ اس کے نام پاکیزہ اور اس کی نعمتوں کا سلسلہ لگاتا رہے۔ وہ جو کرتا ہے اس کی پوچھ گچھ اس سے نہیں ہوسکتی اور لوگوں سے بہرحال بازپرس ہوگی۔
تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے کہ اگر وہ اپنے بندوں کو حمد و شکر کی معرفت سے محروم رکھتا،ان پیہم عطیوں پر جو اس نے دیئے ہیں اور ان پے در پے نعمتوں پر جو اس نے فراوانی سے بخشی ہیں تو وہ اس کی نعمتوں میں تصرف تو کرتے، مگر اس کی حمد نہ کرتے اور اس کے رزق میں فارغ البالی سے بسر تو کرتے، مگر اُس کا شکر بجانہ لاتے اور ایسے ہوتے تو انسانیت کی حدوں سے نکل کر چوپائیوں کی حد میں آجاتے اور اس توصیف کے مصداق ہوتے جو اس نے اپنی محکم کتاب میں کی ہے کہ "وہ تو بس چوپائیوں کی مانند ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ راہ راست سے بھٹکتے ہوئے"
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے کہ اس نے اپنی ذات کو ہمیں پہنچوایا اور حمد و شکر کا طریقہ سمجھایا اور اپنی پروردگاری پر علم و اطلاع کے دروازے ہمارے لیے کھول دیئے اور توحید میں تنزیہ و اخلاص کی طرف ہماری رہنمائی کی اور اپنے معاملہ میں شرک و کجروی سے ہمیں بچایا ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کی مخلوقات میں سے حمدگزاروں میں زندگی بسر کریں اور اس کی خوشنودی و بخشش کی طرف بڑھنے والوں سے سبقت لے جائیں۔ ایسی حمد جس کی بدولت ہمارے لیے برزخ کی تاریکیاں چھٹ جائیں اور جو ہمارے لیے قیامت کی راہوں کو آسان کر دے اور حشر کے مجمع عام میں ہماری قدر و منزلت کو بلند کر دے ، جس دن ہر ایک کے کئے کا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ ہوگا ۔ جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ایسی حمد جو ایک لکھی ہوئی کتاب میں ہے جس کی مقرب فرشتے نگہداشت کرتے ہیں،ہماری طرف سے بہشت بریں کے بلند ترین درجات تک بلند ہو۔ ایسی حمد جس سے ہماری آنکھوں میں ٹھنڈک آئے جبکہ تمام آنکھیں حیرت و دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور ہمارے چہرے روشن و درخشاں ہوں، جبکہ تمام چہرے سیاہ ہوں گے ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی اذیت دہ آگ سے آزادی پا کر اس کے جوارِ رحمت میں آجائیں ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے مقرب فرشتوں کے ساتھ شانہ بشانہ بڑھتے ہوئے ٹکرائیں اور اس منزلِ جاوید و مقام عزت و رفعت میں جسے تغیر و زوال نہیں، اس کے فر ستادہ پیغمبروں کے ساتھ یکجا ہوں۔
تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے خلقت و آفرنیش کی تمام خوبیاں ہمارے لیے منتخب کیں اور پاک و پاکیزہ رزق کا سلسلہ ہمارے لیے جاری کیا اور ہمیں غلبہ و تسلط دے کر تمام مخلوقات پر برتری عطا کی ۔ چنانچہ تمام کائنات اس کی قدرت سے ہمارے زیر فرمان اور اس کی قوت و سربلندی کی بدولت ہماری اطاعت پر آمادہ ہے۔ تمام تعریف اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے اپنے سوا طلب و حاجت کا ہر دروازہ ہمارے لیے بند کر دیا تو ہم ( اس حاجت و احتیاج کے ہوتے ہوئے) کیسے اس کی حمد سے عہدہ برآہوسکتے ہیں اور کب اس کا شکر ادا کرسکتے ہیں ۔ نہیں! کسی وقت بھی اس کا شکر ادا نہیں ہو سکتا ۔
تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے، جس نے ہمارے ( جسموں میں) پھیلنے والے اعصاب اور سمٹنے والے عضلات ترتیب دیئے اور زندگی کی آسائشوں سے بہرہ مند کیا اور کار و کسب کے اعضاء ہمارے اندر ودیعت فرمائے اور پاک و پاکیزہ روزی سے ہماری پرورش کی اور اپنے فضل و کرم کے ذریعہ ہمیں بے نیاز کردیا اور اپنے لطف و احسان سے ہمیں ( نعمتوں کا) سرمایہ بخشا۔ پھر اس نے اپنے احکام اوامر کی پیروی کا حکم دیا تاکہ فرمانبرداری میں ہم کو آزمائے اور نواہی کے ارتکاب سے منع کیا تاکہ ہمارے شکر کو جانچے، مگر ہم نے اس کے حکم کی راہ سے انحراف کیا اور نواہی کے مرکب پر سوار ہولیے ۔ پھر بھی اس نے عذاب میں جلدی نہیں کی اور سزا دینے میں تعجیل سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے کرم و رحمت سے ہمارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا اور حلم و رافت سے ہمارے باز آ جانے کا منتظر رہا۔
تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں توبہ کی راہ بتائی کہ جسے ہم نے صرف اس کے فضل و کرم کی بدولت حاصل کیا ہے۔ تو اگر ہم اس کی بخششوں میں سے اس توبہ کے سوا اور کوئی نعمت شمار میں نہ لائیں تو یہی توبہ ہمارے حق میں اس کا عمدہ انعام، بڑا احسان اور عظیم فضل ہے۔ اس لیے کہ ہم سے پہلے لوگوں کے لیے توبہ کے بارے میں اس کا یہ رویہ نہ تھا ۔ اس نے تو جس چیز کے برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے، وہ ہم سے ہٹا لی اور ہماری طاقت سے بڑھ کر ہم پرذمہ داری عائد نہیں کی اور صرف سہل و آسان چیزوں کی ہمیں تکلیف دی ہے اور ہم میں سے کسی ایک کے لیے حیل و حجت کی گنجائش نہیں رہنے دی ۔ لہذا وہی تباہ ہونے والا ہے،جواس کی منشاء کے خلاف اپنی تباہی کا سامان کرے اور وہی خوش نصیب ہے، جو اس کی طرف توجہ و رغبت کرے۔
اللہ کے لیے حمد و ستائش ہے،ہر وہ حمد جو اس کے مقرب فرشتے، بزرگ ترین مخلوقات اور پسندیدہ حمد کرنے والے بجا لاتے ہیں۔ ایسی ستائش جو دوسری ستائشوں سے بڑھی چڑھی ہوئی ہو،جس طرح ہمارا پروردگار تمام مخلوقات سے بڑھا ہوا ہے۔
پھر اسی کے لیے حمد و ثنا ہے۔ اس کی ہرہر نعمت کے بدلے میں جو اس نے ہمیں اور تمام گزشتہ و باقی ماندہ بندوں کو بخشی ہے،ان تمام چیزوں کے شمار کے برابر جن پر اس کا علم حاوی ہے اور ہر نعمت کے مقابلہ میں دوگنی چوگنی جو قیامت کے دن تک دائمی و ابدی ہو ۔ ایسی حمد جس کا کوئی آخری کنار اور جس کی گنتی کا کوئی شمار نہ ہو۔ جس کی حد نہایت دسترس سے باہر اور جس کی مدت غیر مختتم ہو۔ ایسی حمد جو اس کی اطاعت و بخشش کا وسیلہ، اس کی رضا مندی کا سبب، اس کی مغفرت کا ذریعہ، جنت کا راستہ، اس کے عذاب سے پناہ، اس کے غضب سے امان، اس کی اطاعت میں معین، اس کی معصیت سے مانع اور اس کے حقوق و واجبات کی ادائیگی میں مددگار ہو ۔ ایسی حمد جس کے ذریعہ ہم اس کے خوش نصیب دوستوں میں شامل ہو کر خوش نصیب قرار پائیں اور ان شہیدوں کے زمرہ میں شمار ہوں جو اس کے دشمنوں کی تلواروں سے شہید ہوئے۔ بیشک وہی مالک و مختار اور قابل ستائش ہے۔
|}
|}


سطر 234: سطر 195:


{{صحیفہ سجادیہ}}
{{صحیفہ سجادیہ}}
[[Category:صحیفہ سجادیہ کی دعائیں]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ سوم مقالات]]
[[Category:صحیفہ سجادیہ کی دعائیں]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ سوم مقالات]]
[[Category:صحیفہ سجادیہ کی دعائیں]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ سوم مقالات]]


[[زمرہ:صحیفہ سجادیہ کی دعائیں]]
[[زمرہ:صحیفہ سجادیہ کی دعائیں]]
[[زمرہ:حائز اہمیت درجہ سوم مقالات]]
[[زمرہ:حائز اہمیت درجہ سوم مقالات]]
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم