confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 9: | سطر 9: | ||
| پارہ = 10 | | پارہ = 10 | ||
| صفحہ نمبر = | | صفحہ نمبر = | ||
| شان نزول = [[غزوہ تبوک]] میں [[ | | شان نزول = [[غزوہ تبوک]] میں [[آنحضرتؐ]] کی ہمراہی میں بعض [[مسلمانوں]] کی سستی | ||
| محل نزول = | | محل نزول = | ||
| موضوع = اللہ کی طرف سے پیغمبر | | موضوع = اللہ کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کی ںصرت | ||
| مضمون = | | مضمون = | ||
| مرتبط موضوعات = | | مرتبط موضوعات = | ||
سطر 31: | سطر 31: | ||
==شان نزول== | ==شان نزول== | ||
[[فائل:غار ثور.jpg|تصغیر|غار ثور کی تصویر]] | [[فائل:غار ثور.jpg|تصغیر|غار ثور کی تصویر]] | ||
کہا جاتا ہے [[ شیعہ]] اور [[سنی]] [[مفسرین]] کا اعتقاد ہے کہ یہ آیت اور اس سے پہلے کی دو آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمانوں میں سے کچھ نے جنگ میں شرکت نہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم ماننے میں سستی دکھائی۔ یہ آیات مسلمانوں کو [[جہاد]] کی طرف توجہ نہ دینے اور [[ پیغمبر | کہا جاتا ہے [[ شیعہ]] اور [[سنی]] [[مفسرین]] کا اعتقاد ہے کہ یہ آیت اور اس سے پہلے کی دو آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمانوں میں سے کچھ نے جنگ میں شرکت نہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم ماننے میں سستی دکھائی۔ یہ آیات مسلمانوں کو [[جہاد]] کی طرف توجہ نہ دینے اور [[ پیغمبر اکرمؐ]] کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی کرنے سے روکتی ہیں اور صراحت کے ساتھ کہتی ہیں: اگر آپ پیغمبرؐ کی اس جنگ اور جہاد میں مدد نہیں کرتے ہیں تو خدا ان کی مدد کرے گا، جس طرح پہلے مدینے کی طرف [[ہجرت]] کے موقع پر اس غار کی تنہائی میں ان کی مدد کی تھی جب ان کا کوئی یار مددگار نہ تھا سوائے اس ساتھی کہ جو خوف اور حزن کا شکار تھا۔<ref> نجار زادگان، تفسیر تطبیقی، ۱۳۸۳ش،ج۱، ص۲۴۹۔</ref> مشہور نظریہ کے مطابق جب پیغمبرؐ کو [[ وحی]] کے ذریعے قریش کے مشرکین کی طرف سے ان کے قتل کی سازش سے آگاہ ہوئے تو [[ابو بکر]] کے ساتھ [[ مکہ]] سے نکل گئے اور ایک گمنام راستے سے کی طرف سے [[یثرب]] کی جانب چلے یہاں تک کہ [[غار ثور]] پہنچے اور وہاں مخفی ہوئے۔<ref> ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ۱۳۵۵ھ، ج۲، ص۱۲۶-۱۲۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸ء، ۱، ص۲۲۷-۲۲۹۔</ref> | ||
[[علامہ طباطبائی]] کا ماننا ہے کہ روایات کی بنیاد پر یہ آیات [[غزوہ تبوک ]] کے واقعہ سے متعلق ہیں۔<ref> طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۹، ص۲۷۹۔</ref> | [[علامہ طباطبائی]] کا ماننا ہے کہ روایات کی بنیاد پر یہ آیات [[غزوہ تبوک ]] کے واقعہ سے متعلق ہیں۔<ref> طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۹، ص۲۷۹۔</ref> | ||
==شیعہ مفسرین کا رجحان == | ==شیعہ مفسرین کا رجحان == | ||
شیعہ مفسرین اور کچھ اہل سنت مفسرین (لا تحزن)کو خوفزدہ نہ ہونے کے معنی میں سمجھتے ہیں۔ اس کی توضیح و تفسیر اس طرح کی ہے: جب [[قریش]] پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکہ سے نکل جانے سے آگاہ ہوتے ہیں تو کرز بن علقمہ بن ہلال خزاعی جو کہ ماہر جستجوگر تھا، کی مدد اس راستے کا پتہ لگا لیتے ہیں یہاں تک کہ غار تک پہنچ جاتے ہیں اور پیغمبرؐ اور ابوبکر کے مل جانے سے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ابوبکر خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اگر انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو ہمیں دیکھ لیں گے۔ پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: کیا گمان کرتے ہو ان دو لوگوں کے بارے میں کہ جن کا تیسرا خدا ہے۔<ref> طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۵، ص۴۸-۴۹؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۹، ص۲۷۹.</ref> اہل سنت کے مآخذ تاریخ جیسے طبری میں اس طرح ابوبکر کے خوفزدہ ہونے کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔<ref> طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۱۰، ص۹۵.</ref> | |||
ان مفسرین کا {{عربی|فَاَنْزِلَ اللّهَ سَکینَتَهُ عَلَیهِ}}، علیہ کی ضمیر کے مرجع کے بارے میں نظریہ یہ ہے کہ اس آیت کے پہلے اور بعد کے حصے {{عربی|تَنْصُروهُ، نَصَرَهُ، اَخْرَجَهُ، یقولُ، لِصاحِبِهِ اور أَیدَهُ}} کی ضمائر کا مرجع پیغمبرؐ ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی دلیل کے بغیر اور ایک چیز کے واضح ہوتے ہوئے (علیہ) کی ضمیر کسی دوسرے کی طرف جیسے ابوبکر کی طرف پلٹے؟ اس بات کے ذیل میں کہ آیت، خدا کی پیغمبر کے لئے مدد اور ان کی تائید بیان کر رہی ہے نہ کہ کسی دوسری چیز کو۔<ref>دیکھئے: طباطبائی،المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۹، ص۲۷۹-۲۸۰۔</ref> | |||
ان مفسرین کا فَاَنْزِلَ اللّهَ سَکینَتَهُ | |||
==بعض اہل سنت مفسرین کا رجحان == | ==بعض اہل سنت مفسرین کا رجحان == | ||
بعض [[اہل سنت]] علما [[سورہ توبہ]] کی چالیسویں آیت میں ثانِی اثْنَینِ، | بعض [[اہل سنت]] علما [[سورہ توبہ]] کی چالیسویں آیت میں {{عربی|ثانِی اثْنَینِ، «لا تَحْزَنْ اور فَاَنْزَلَ اللّهُ سَکینَتَهُ عَلَیهِ}}، جیسی عبارتوں کو ابوبکر کے فضائل میں شمار کرتے ہیں<ref> بخاری، صحیح بخاری، ۱۳۱۵ق، ج۵، ص۲۰۴؛ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۳۴، ۱۳۸، ۱۳۹؛ نویری، نهایة الارب، دار الکتب، ج۱۹، ص۱۴-۱۵.</ref> اور عبارت {{عربی|ثانِی اثْنَینِ اِذْ هُما فِی الْغارِ}} کو ان کی خلافت کے قابل ہونے کی دلیل جانتے ہیں۔<ref> رجوع کیجئے: ابن سلام، بدء الاسلام، ۱۴۰۶ھ، ص۷۰۔</ref> اور بعض آیۂ {{عربی|لا تَحْزَنْ}} سے جو کہ پیغمبر کا ابوبکر سے خطاب ہے، پیمغمبر کا محزون ہونا سمجھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ {{عربی|وَ لا تَحْزَنْ عَلَیهِمْ وَ اخْفِضْ جَناحَکَ لِلْمُؤْمِنینَ}}۔ اے پیغمبر جو ایمان نہیں لاتے ان کے لیے غمگین نہ ہوں اور اپنے بازووں کو مومنین کے لئے پھیلا دیجئے۔<ref> سوره حجر، آیہ ۸۸</ref> {{عربی|وَ لا یحْزُنُکَ قَوْلُهُمْ}}<ref> سوره یونس، آیہ ۶۵</ref> {{عربی|و لا یحْزُنُکَ الَّذینَ یسارِعونَ فِی الْکُفْرِ}} <ref> سوره مائده، آیہ ۴۱۔</ref> جیسی آیات کی بنیاد پر پیغمبر کے اس حزن سے منع کرنے کو ابو بکر کی معصیت کی دلیل کے بجائے اسے پروردگار کی اطاعت سمجھتے ہیں۔<ref> میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۳۹۔</ref> اسی طرح ان کے نزدیک علیہ کی ضمیر کو ابوبکر کی طرف پلٹایا ہے اور {{عربی|فَاَنْزَلَ اللّهُ سَکینَتَهُ عَلَیهِ}}: خدا نے ان کو قرار اور سکون بخشا» کو خدا کا ابو بکر پر لطف سمجھتے ہیں۔<ref> میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۳۴، ۱۳۸؛ نویری، نہایۃ الأرب، دار الکتب، ج۱۹، ص۱۴۔</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |