مندرجات کا رخ کریں

"بت شکنی کا واقعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{زیر تعمیر}}
{{زیر تعمیر}}
{{امام علی}}
{{امام علی}}
'''بت شکنی کا واقعہ''' یا '''کَسْرِ اَصْنام کا واقعہ'''، اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت علیہ السّلام کو کعبہ کے بتوں کو توڑنے کے لئے اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔ یہ واقعہ، [[شیعه]] و [[اهل‌سنت]] دونوں کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ اور یہ شب ہجرت یا [[فتح مکه]] کے موقع پر پیش آیا۔
'''بت شکنی کا واقعہ''' یا '''کَسْرِ اَصْنام کا واقعہ'''، اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت علیہ السّلام کو کعبہ کے بتوں کو توڑنے کے لئے اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔ یہ واقعہ، [[شیعہ]] و [[اہل‌سنت]] دونوں کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ اور یہ شب ہجرت یا [[فتح مکہ]] کے موقع پر پیش آیا۔


بت شکنی، [[فضائل علی]] میں شمار ہوتی ہے۔ عمر بن خطاب کے بعد خلیفہ کرنے والی چھ رکنی شورا میں حضرت علیہ السلام نے اپنی بت شکنی سے استدلال کیا۔ اسی طرح اہل سنت کے بعض منابع میں گناہ کے وسائل کو نابود کرنے کے لزوم پر استدلال ہوا ہے۔
بت شکنی، [[فضائل علی]] میں شمار ہوتی ہے۔ عمر بن خطاب کے بعد خلیفہ کرنے والی چھ رکنی شورا میں حضرت علیہ السلام نے اپنی بت شکنی سے استدلال کیا۔ اسی طرح اہل سنت کے بعض منابع میں گناہ کے وسائل کو نابود کرنے کے لزوم پر استدلال ہوا ہے۔


==واقعہ کی تفصیل==
==واقعہ کی تفصیل==
بت شکنی کا واقعہ یا کسر اصنام کو ماجرا یا «حدیث کسر الاصنام» <ref> علامه حلی، نهج‌الحق، ۱۹۸۲م، ص۲۲۳.</ref> اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت علیہ السّلام کو کعبہ کی چھت پر موجود بتوں کو توڑنے کے لئے اپنے دوش پر اٹھایا۔<ref> شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۱۸، ص۱۶۲.</ref> اس واقعہ میں ہبل جیسے کچھ بتوں کی سرنگونی کا تذکرہ ملتا ہے۔<ref> حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۵۳–۴۵۴؛ ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۵.</ref> البته اس واقعہ کے جزئیات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ روایتوں کے مطابق پہلے حضرت علی نے چاہا کہ حضور کو اپنے کاندھوں پر اٹھائیں لیکن آپ اٹھا نہیں سکے، اس لئے حضرت علی خود خوش پیغمبر پر سوار ہوئے<ref> نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲.</ref> اور بتوں کو کعبہ کے اوپر سے زمیں پر گرادیا۔ دوسری کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت علی نے شروع میں حضور اکرم سے اپنے کاندھوں پر سوار ہونے کی گزارش کی تو آپ نے فرمایا کہ یہ کام کوئی نہیں کرسکتا۔<ref> بحرانی، البرهان، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۷۹-۵۸۰.</ref> [[جابر بن عبدالله انصاری]] کے بقول یہ بار رسالت کی سنگینی کی وجہ سے تھا۔<ref> ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۵.</ref> اسی طرح اس بارے میں دوسری وجوہات بھی ذکر ہوئی ہیں <ref> صدوق، معانی الأخبار، ۱۴۰۳ق، ص۳۵۰–۳۵۲؛ بحرانی، البرهان، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۷۶–۵۷۸؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۸۲-۸۴.</ref> ایک اور نقل کے مطابق حضور اکرم نے شروع میں ہی حضرت علی سے اپنے کاندھوں پر سوار ہونے کے لئے حکم دیا۔<ref> ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱.</ref>  
بت شکنی کا واقعہ یا کسر اصنام کو ماجرا یا «حدیث کسر الاصنام» <ref> علامہ حلی، نہج‌الحق، ۱۹۸۲ء، ص۲۲۳۔</ref> اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت علیہ السّلام کو کعبہ کی چھت پر موجود بتوں کو توڑنے کے لئے اپنے دوش پر اٹھایا۔<ref> شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲۔</ref> اس واقعہ میں ہبل جیسے کچھ بتوں کی سرنگونی کا تذکرہ ملتا ہے۔<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳–۴۵۴؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> البتہ اس واقعہ کے جزئیات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ روایتوں کے مطابق پہلے حضرت علی نے چاہا کہ حضور کو اپنے کاندھوں پر اٹھائیں لیکن آپ اٹھا نہیں سکے، اس لئے حضرت علی خود خوش پیغمبر پر سوار ہوئے<ref> نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲۔</ref> اور بتوں کو کعبہ کے اوپر سے زمیں پر گرادیا۔ دوسری کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت علی نے شروع میں حضور اکرم سے اپنے کاندھوں پر سوار ہونے کی گزارش کی تو آپ نے فرمایا کہ یہ کام کوئی نہیں کرسکتا۔<ref> بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ھ، ج۳، ص۵۷۹-۵۸۰۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]] کے بقول یہ بار رسالت کی سنگینی کی وجہ سے تھا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> اسی طرح اس بارے میں دوسری وجوہات بھی ذکر ہوئی ہیں <ref> صدوق، معانی الأخبار، ۱۴۰۳ھ، ص۳۵۰–۳۵۲؛ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ھ، ج۳، ص۵۷۶–۵۷۸؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۲-۸۴۔</ref> ایک اور نقل کے مطابق حضور اکرم نے شروع میں ہی حضرت علی سے اپنے کاندھوں پر سوار ہونے کے لئے حکم دیا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱۔</ref>  


باب کعبہ سے حضرت علیہ السّلام کے نیچے آنے کی کیفیت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ کچھ احادیث کے مطابق حضرت علیہ السّلام کعبہ کی چھت سے کودے اور اس وقت کعبہ کی چھت چالیس زراع{{نوٹ| ہر زراع کو 45 سے 75 سینٹی میٹر تک بیان کیا گیا ہے۔(عاملی بیاضی، الأوزان و المقادیر، ۱۳۸۱ق، ص۵۶.)}} کی ہوتی تھی<ref> ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۴۱.</ref> لیکن آپ کو کوئی چوٹ نہیں لگی۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۳۹۸.</ref>  دوسرے نقل کے مطابق، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ [[جبرئیل]] نے تمہیں یعنی کی چھت سے نیچے اتارا۔<ref> بحرانی، البرهان، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۵۸۰.</ref>
باب کعبہ سے حضرت علیہ السّلام کے نیچے آنے کی کیفیت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ کچھ احادیث کے مطابق حضرت علیہ السّلام کعبہ کی چھت سے کودے اور اس وقت کعبہ کی چھت چالیس زراع{{نوٹ| ہر زراع کو 45 سے 75 سینٹی میٹر تک بیان کیا گیا ہے۔(عاملی بیاضی، الأوزان و المقادیر، ۱۳۸۱ھ، ص۵۶۔)}} کی ہوتی تھی<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۴۱۔</ref> لیکن آپ کو کوئی چوٹ نہیں لگی۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸۔</ref>  دوسرے نقل کے مطابق، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ [[جبرئیل]] نے تمہیں یعنی کی چھت سے نیچے اتارا۔<ref> بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ھ، ج۳، ص۵۸۰۔</ref>
کچھ روایات میں ہے کہ حضور اکرم اس موقع پر آیہ {{قرآن کا متن|«وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَهُوقًا»}}<ref>سوره اسراء، آيه۸۱.</ref>  کی تلاوت فرما رہے تھے۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۳۹۸؛ ج۳، ص۶.</ref> اس لحاظ سے کسر اصنام کے واقعہ کو اس آیت کا [[سبب نزول]] بھی بیان کیا گیا ہے۔<ref> حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۵۳–۴۵۴؛ ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۵؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۸۶.</ref> سی طرح [[ابن شهر آشوب]] کی نقل کرده روایت کی بنیاد پر آیہ «وَ رَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا»<ref>سوره مریم، آیه ۵۷.</ref> اسی واقعے کی طرف سے اشارہ کرتی ہے۔<ref> ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۵.</ref>
کچھ روایات میں ہے کہ حضور اکرم اس موقع پر آیہ {{قرآن کا متن|«وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَہقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَہوقًا»}}<ref>سورہ اسراء، آيہ۸۱۔</ref>  کی تلاوت فرما رہے تھے۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸؛ ج۳، ص۶۔</ref> اس لحاظ سے کسر اصنام کے واقعہ کو اس آیت کا [[سبب نزول]] بھی بیان کیا گیا ہے۔<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳–۴۵۴؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> سی طرح [[ابن شہر آشوب]] کی نقل کردہ روایت کی بنیاد پر آیہ «وَ رَفَعْناہ مَكاناً عَلِيًّا»<ref>سورہ مریم، آیہ ۵۷۔</ref> اسی واقعے کی طرف سے اشارہ کرتی ہے۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref>


بت شکنی کا واقعہ [[شیعه]]<ref>برای نمونه: ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸.</ref> و [[سنی]]<ref> ابن ابی‌شیبه، المصنف، ۱۴۲۹ق، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲؛ طبری، تهذیب الآثار، مسند علی بن ابی‌طالب(ع)، بی‌تا، ص۲۳۶-۲۴۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۳۹۸، ج۳، ص۶.</ref> دونوں کتب میں نقل ہوا ہے۔ [[عبدالله بن عباس]]،<ref> ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱.</ref> [[جابر بن عبدالله انصاری]]<ref> حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۵۳؛ ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۵.</ref> اور ابو مریم<ref>برای نمونه: ابن ابی‌شیبه، المصنف، ۱۴۲۹ق، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲.</ref> نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ [[علامه امینی]] نے [[الغدیر (کتاب)|الغدیر]] میں ان علمائے اہل سنت کی فہرست ذکر کی ہے جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۷، ص۱۸–۲۴.</ref>
بت شکنی کا واقعہ [[شیعہ]]<ref>برای نمونہ: ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸۔</ref> و [[سنی]]<ref> ابن ابی‌شیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲؛ طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابی‌طالب(ع)، بی‌تا، ص۲۳۶-۲۴۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸، ج۳، ص۶۔</ref> دونوں کتب میں نقل ہوا ہے۔ [[عبداللہ بن عباس]]،<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> اور ابو مریم<ref>برای نمونہ: ابن ابی‌شیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲۔</ref> نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ [[علامہ امینی]] نے [[الغدیر (کتاب)|الغدیر]] میں ان علمائے اہل سنت کی فہرست ذکر کی ہے جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۷، ص۱۸–۲۴۔</ref>


==فضیلت شمار ہونا==
==فضیلت شمار ہونا==
[[فائل:شکستن بت‌ها در فتح مکه کتاب سیره النبی قرن یازدهم.jpg|alt=شکستن بت‌ها در کعبه بعد از فتح مکه در کتاب سیره النبی که در قرن یازدهم هجری به دستور سلطان مراد سوم حاکم عثمانی و توسط سید سلیمان کسیم پاشا تهیه شده است.|thumb|345x345px|کعبہ کی بت شکنی کے واقعہ کی نقاشی، جو تیرہویں صدی میں جو سلطان مراد سوم حاکم عثمانی کے حکم سے  سید سلیمان کسیم پاشا نے تیار کی۔]]
[[فائل:شکستن بت‌ہا در فتح مکہ کتاب سیرہ النبی قرن یازدہم۔jpg|alt=شکستن بت‌ہا در کعبہ بعد از فتح مکہ در کتاب سیرہ النبی کہ در قرن یازدہم ہجری بہ دستور سلطان مراد سوم حاکم عثمانی و توسط سید سلیمان کسیم پاشا تہیہ شدہ است۔|thumb|345x345px|کعبہ کی بت شکنی کے واقعہ کی نقاشی، جو تیرہویں صدی میں جو سلطان مراد سوم حاکم عثمانی کے حکم سے  سید سلیمان کسیم پاشا نے تیار کی۔]]


پیغمبر کے ذریعہ حضرت علی کو اپنے کاندھوں پر سوار کرنا حضرت علی کی مخصوص فضیلتوں میں شمار کیا گیا ہے۔<ref> نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۴۲؛ بستی، کتاب المراتب، ۱۴۲۱ق، ص۱۲۴.</ref> یہ واقعہ، فضائل کی کتابوں میں<ref> ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ق، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸.</ref> و در سروده‌های شاعران<ref> بکری، الأنوار، ۱۴۱۱ق، ص۱۴۸؛ حر عاملی، إثبات الهداة، ۱۴۲۵ق، ج۳، ص۴۲۴.</ref> آیا ہے۔  
پیغمبر کے ذریعہ حضرت علی کو اپنے کاندھوں پر سوار کرنا حضرت علی کی مخصوص فضیلتوں میں شمار کیا گیا ہے۔<ref> نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲؛ بستی، کتاب المراتب، ۱۴۲۱ھ، ص۱۲۴۔</ref> یہ واقعہ، فضائل کی کتابوں میں<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸۔</ref> و در سرودہ‌ہای شاعران<ref> بکری، الأنوار، ۱۴۱۱ھ، ص۱۴۸؛ حر عاملی، إثبات الہداۃ، ۱۴۲۵ھ، ج۳، ص۴۲۴۔</ref> آیا ہے۔  


اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلا بت شکن اور حضرت علیہ السلام کو آخری بے شکن قرار دیا۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۹۷؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۸۵.</ref> کچھ روایتوں میں حضرت علیہ السلام کو  «کاسِر الاصنام» (بتوں کو توڑنے والا) کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔<ref> ابن شاذان، الروضة، ۱۴۲۳ق، ص۳۱.</ref> یا یہ کہ حضرت علیہ السلام کو «علی» یعنی بلند مرتبہ<ref> راغب اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن، ۱۴۱۲ق، ص۵۸۳.</ref> اس لئے کیا گیا ہے کہ آپ نے دوش رسول پر سوار ہوکر بت شکنی کی۔<ref> ابن جوزی، تذکرة الخواص، ۱۴۱۸ق، ص۱۵.</ref>  
اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلا بت شکن اور حضرت علیہ السلام کو آخری بے شکن قرار دیا۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۹۷؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۵۔</ref> کچھ روایتوں میں حضرت علیہ السلام کو  «کاسِر الاصنام» (بتوں کو توڑنے والا) کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔<ref> ابن شاذان، الروضۃ، ۱۴۲۳ھ، ص۳۱۔</ref> یا یہ کہ حضرت علیہ السلام کو «علی» یعنی بلند مرتبہ<ref> راغب اصفہانی، مفردات ألفاظ القرآن، ۱۴۱۲ھ، ص۵۸۳۔</ref> اس لئے کیا گیا ہے کہ آپ نے دوش رسول پر سوار ہوکر بت شکنی کی۔<ref> ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۱۸ھ، ص۱۵۔</ref>  


'''چھ رکنی شورا میں بے شکنی کا تذکرہ'''
'''چھ رکنی شورا میں بے شکنی کا تذکرہ'''


حضرت علیہ السّلام بت شکنی غ واقعہ پر فخر کرتے تھے<ref> ابن شهرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۶؛ ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۸۵.</ref> اور کہتے تھے: میں تھا جس نے مہر نبوت پر قدم رکھا تھا <ref> ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۶.</ref> عمر بن خطاب کے بعد خلیفہ معین کرنے کے لئے بنائی جانے والی [[چھ رکنی شورا]] میں آپ نے سب سے اقرار لیا کہ آپ کے سوا کوئی اس فضیلت کا حامل نہیں ہے۔<ref> طبرسی، الإحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۱۳۸؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۱، ص۳۳۴، ۳۷۹؛ بحرانی، حلیة الأبرار، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۲۹.</ref> اسی طرح کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب آرزو کرتے تھے کہ کاش یہ فضیلت مجھے مکمل گئی ہوتی۔<ref> ابن شهرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۶.</ref>
حضرت علیہ السّلام بت شکنی غ واقعہ پر فخر کرتے تھے<ref> ابن شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶؛ ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۸۵۔</ref> اور کہتے تھے: میں تھا جس نے مہر نبوت پر قدم رکھا تھا <ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶۔</ref> عمر بن خطاب کے بعد خلیفہ معین کرنے کے لئے بنائی جانے والی [[چھ رکنی شورا]] میں آپ نے سب سے اقرار لیا کہ آپ کے سوا کوئی اس فضیلت کا حامل نہیں ہے۔<ref> طبرسی، الإحتجاج، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۱۳۸؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۱، ص۳۳۴، ۳۷۹؛ بحرانی، حلیۃ الأبرار، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۳۲۹۔</ref> اسی طرح کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب آرزو کرتے تھے کہ کاش یہ فضیلت مجھے مکمل گئی ہوتی۔<ref> ابن شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶۔</ref>


==موقع==
==موقع==
اکثر کتب میں اس واقعہ کی تاریخ کا تذکرہ نہیں ہے اور صرف اس کے رات میں ہونے <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۳۹۸؛ ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۴۱؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۸۴-۸۵.</ref> اور خفیہ ہونے<ref> ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۵۱.</ref> پر اکتفاء کی گئی ہے۔ اس کے باوجود کچھ کتب میں اس کے شب [[هجرت]] <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۶.</ref> یا [[فتح مکه]]<ref> ابن شهر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۵، ۱۴۰؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۸۶.</ref> کے موقعہ پر ہونے کا تذکرہ ہے۔
اکثر کتب میں اس واقعہ کی تاریخ کا تذکرہ نہیں ہے اور صرف اس کے رات میں ہونے <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۴۱؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۴-۸۵۔</ref> اور خفیہ ہونے<ref> ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱۔</ref> پر اکتفاء کی گئی ہے۔ اس کے باوجود کچھ کتب میں اس کے شب [[ہجرت]] <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۳، ص۶۔</ref> یا [[فتح مکہ]]<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵، ۱۴۰؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> کے موقعہ پر ہونے کا تذکرہ ہے۔


[[علامه مجلسی]] نے [[بحارالانوار]] میں [[امام صادق علیہ السلام]] سے نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ، [[نوروز]] کے دن پیش آیا۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۸۶.</ref> البته بحار الانوار  
[[علامہ مجلسی]] نے [[بحارالانوار]] میں [[امام صادق علیہ السلام]] سے نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ، [[نوروز]] کے دن پیش آیا۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> البتہ بحار الانوار  
دوسرے مقام پر کوشش کی ہے کہ اس میں متعدد روایات کو ایک ساتھ جمع کریں۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۶، ص۱۳۸.</ref>
دوسرے مقام پر کوشش کی ہے کہ اس میں متعدد روایات کو ایک ساتھ جمع کریں۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵۶، ص۱۳۸۔</ref>


==نتائج==
==نتائج==
روایات کی بنیاد پر حضرت علیہ السلام کے ہاتھوں بت شکنی سبب بنی کہ اس کے بعد مشرکین بتوں کو کعبہ میں نہ رکھیں۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۹۷؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۳۸، ص۸۵.</ref> [[اهل‌سنت]] کے بعض مآخذ میں اس واقعہ کو گناہوں کے وسائل نابود کرنے کے لازم ہونے پر دلیل بناکر پیش کیا گیا ہے۔<ref> طبری، تهذیب الآثار، مسند علی بن ابی‌طالب(ع)، بی‌تا، ص۲۳۸-۲۴۰.</ref>
روایات کی بنیاد پر حضرت علیہ السلام کے ہاتھوں بت شکنی سبب بنی کہ اس کے بعد مشرکین بتوں کو کعبہ میں نہ رکھیں۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۹۷؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۵۔</ref> [[اہل‌سنت]] کے بعض مآخذ میں اس واقعہ کو گناہوں کے وسائل نابود کرنے کے لازم ہونے پر دلیل بناکر پیش کیا گیا ہے۔<ref> طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابی‌طالب(ع)، بی‌تا، ص۲۳۸-۲۴۰۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 38: سطر 38:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن ابی‌شیبه، عبدالله بن محمد، المصنف لابن ابی‌شیبه، تحقیق اسامة بن ابراهیم بن محمد، قاهره، فاروق الحدیثة للطباعة و النشر، ۱۴۲۹ق.
* ابن ابی‌شیبہ، عبداللہ بن محمد، المصنف لابن ابی‌شیبہ، تحقیق اسامۃ بن ابراہیم بن محمد، قاہرہ، فاروق الحدیثۃ للطباعۃ و النشر، ۱۴۲۹ھ۔
* ابن جوزی، یوسف بن حسام، تذکرة الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، ۱۴۱۸ق.
* ابن جوزی، یوسف بن حسام، تذکرۃ الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، ۱۴۱۸ھ۔
* ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیب الارنووط و عادل مرشد، بیروت، موسسة الرساله، ۱۴۱۶ق.
* ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیب الارنووط و عادل مرشد، بیروت، موسسۃ الرسالہ، ۱۴۱۶ھ۔
* ابن شاذان، شاذان بن جبرئیل قمی، الروضة فی فضائل أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب(ع)، تحقیق علی شکرچی، قم، مکتبة الأمین، ۱۴۲۳ق.
* ابن شاذان، شاذان بن جبرئیل قمی، الروضۃ فی فضائل أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب(ع)، تحقیق علی شکرچی، قم، مکتبۃ الأمین، ۱۴۲۳ھ۔
* ابن شاذان، شاذان بن جبرئیل قمی، الفضائل، قم، رضی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش.
* ابن شاذان، شاذان بن جبرئیل قمی، الفضائل، قم، رضی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش۔
* ابن شهرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب(ع)، قم، علامه، ۱۳۷۹ق.
* ابن شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب(ع)، قم، علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
* ابی‌یعلی، احمد بن علی، مسند ابی‌یعلی الموصلی، تحقیق حسین سلیم اسد، دمشق، دارالمأمون للتراث، چاپ دوم، ۱۴۱۰ق.
* ابی‌یعلی، احمد بن علی، مسند ابی‌یعلی الموصلی، تحقیق حسین سلیم اسد، دمشق، دارالمأمون للتراث، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔
* امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیه، ۱۴۱۶ق.
* امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، ۱۴۱۶ھ۔
* بحرانی، هاشم بن سلیمان، البرهان فی تفسیر القرآن، تحقیق واحد تحقیقات اسلامی بنیاد بعثت، قم، موسسه بعثت، ۱۴۱۵ق.
* بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، تحقیق واحد تحقیقات اسلامی بنیاد بعثت، قم، موسسہ بعثت، ۱۴۱۵ھ۔
* بحرانی، هاشم بن سلیمان، حلیة الأبرار فی أحوال محمد و آله الأطهار(ع)، قم، مؤسسة المعارف الإسلامیة، ۱۴۱۱ق.
* بحرانی، ہاشم بن سلیمان، حلیۃ الأبرار فی أحوال محمد و آلہ الأطہار(ع)، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، ۱۴۱۱ھ۔
* بزار، احمد بن عمرو بن عبدالخالق، البحر الزخار (مسند بزار)، تحقیق محفوظ الرحمن زین‌الله، بیروت، موسسة علوم القرآن، ۱۴۰۹ق.
* بزار، احمد بن عمرو بن عبدالخالق، البحر الزخار (مسند بزار)، تحقیق محفوظ الرحمن زین‌اللہ، بیروت، موسسۃ علوم القرآن، ۱۴۰۹ھ۔
* بستی، اسماعیل بن أحمد، کتاب المراتب فی فضائل أمیرالمؤمنین و سید الوصیین(ع)، تحقیق محمدرضا انصاری قمی، قم، دلیل ما، ۱۴۲۱ق.
* بستی، اسماعیل بن أحمد، کتاب المراتب فی فضائل أمیرالمؤمنین و سید الوصیین(ع)، تحقیق محمدرضا انصاری قمی، قم، دلیل ما، ۱۴۲۱ھ۔
* بکری، احمد بن عبدالله، الأنوار و مفتاح السرور و الأفکار فی مولد النبی المختار، قم، رضی، ۱۴۱۱ق.
* بکری، احمد بن عبداللہ، الأنوار و مفتاح السرور و الأفکار فی مولد النبی المختار، قم، رضی، ۱۴۱۱ھ۔
* حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیه، چاپ دوم، ۱۴۲۲ق.
* حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ دوم، ۱۴۲۲ھ۔
* حرعاملی، محمد بن حسن، إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، بیروت، اعلمی، ۱۴۲۵ق.
* حرعاملی، محمد بن حسن، إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، بیروت، اعلمی، ۱۴۲۵ھ۔
* حسکانی، عبیدالله بن عبدالله، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تهران، وزرات فرهنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ق.
* حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، وزرات فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
* راغب اصفهانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، تحقیق صفوان عدنان داوودی، بیروت،‌دار القلم، ۱۴۱۲ق.
* راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، تحقیق صفوان عدنان داوودی، بیروت،‌دار القلم، ۱۴۱۲ھ۔
* شوشتری، نورالله، إحقاق الحق و إزهاق الباطل، قم، کتابخانه آیت‌الله مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ق.
* شوشتری، نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ھ۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۳ق.
* شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۳ھ۔
* طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج علی أهل اللجاج، تحقیق محمدباقر خرسان، مشهد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ق.
* طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج علی أہل اللجاج، تحقیق محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ھ۔
* طبری، محمد بن جریر، تهذیب الآثار و تفصیل الثابت عن رسول الله(ص) من الاخبار، مسند علی بن ابی‌طالب، تحقیق محمود محمد شاکر، قاهره، مطبعة المدنی، بی‌تا.
* طبری، محمد بن جریر، تہذیب الآثار و تفصیل الثابت عن رسول اللہ(ص) من الاخبار، مسند علی بن ابی‌طالب، تحقیق محمود محمد شاکر، قاہرہ، مطبعۃ المدنی، بی‌تا۔
* عاملی بیاضی، ابراهیم سلیمان،‌ الأوزان و المقادیر، بیروت، بی‌نا، ۱۳۸۱ق.‌
* عاملی بیاضی، ابراہیم سلیمان،‌ الأوزان و المقادیر، بیروت، بی‌نا، ۱۳۸۱ھ۔‌
* علامه حلی، حسن بن یوسف، نهج الحق و کشف الصدق، تعلیق عین‌الله حسنی ارموی، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، ۱۹۸۲م.
* علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، تعلیق عین‌اللہ حسنی ارموی، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، ۱۹۸۲ء۔
* مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
* مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
* نسائی، احمد بن شعیب، سنن الکبری (سنن نسائی)، تحقیق عبدالغفار سلیمان البنداری و حسن سید کسروی، بیروت، دارالکتب العلمیه، ۱۴۱۱ق.
* نسائی، احمد بن شعیب، سنن الکبری (سنن نسائی)، تحقیق عبدالغفار سلیمان البنداری و حسن سید کسروی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ھ۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


17

ترامیم