"فلسفہ اسلامی" کے نسخوں کے درمیان فرق
←عالم اسلام میں فلسفہ کے مخالفین
سطر 74: | سطر 74: | ||
لیکن اہل سنت کے غالب ماحول کے برخلاف شیعوں کے درمیان تعقل اور عقل پذیری کا ماحول رہا؛ اس طرح سے کہ شیعوں کے بہت سے بزرگ فقہاء جیسے [[خواجہ نصیر الدین طوسی]]، [[علامہ حلّی]]، [[میر داماد]]، [[محمد باقر سبزواری]]، [[فاضل ہندی]]، [[ملا ہادی سبزواری]]، [[آخوند محمد کاظم خراسانی]]، [[محمد حسین غروی اصفہانی]]، [[محمد رضا مظفر]]، [[امام خمینی]]، [[مرتضی مطہری]]، [[سید محمد باقر صدر]] اہل فلسفہ بھی تھے۔<ref>اعرافی، بررسی فقہی فلسفہورزی و فلسفہآموزی، ۱۳۹۱ش، ص۶۰-۶۷۔</ref><br /> | لیکن اہل سنت کے غالب ماحول کے برخلاف شیعوں کے درمیان تعقل اور عقل پذیری کا ماحول رہا؛ اس طرح سے کہ شیعوں کے بہت سے بزرگ فقہاء جیسے [[خواجہ نصیر الدین طوسی]]، [[علامہ حلّی]]، [[میر داماد]]، [[محمد باقر سبزواری]]، [[فاضل ہندی]]، [[ملا ہادی سبزواری]]، [[آخوند محمد کاظم خراسانی]]، [[محمد حسین غروی اصفہانی]]، [[محمد رضا مظفر]]، [[امام خمینی]]، [[مرتضی مطہری]]، [[سید محمد باقر صدر]] اہل فلسفہ بھی تھے۔<ref>اعرافی، بررسی فقہی فلسفہورزی و فلسفہآموزی، ۱۳۹۱ش، ص۶۰-۶۷۔</ref><br /> | ||
اس کے باوجود گیارہویں صدی میں کچھ شیعہ علماء، اخباریت کے نام سے منطق اور فلسفے کی مخالفت کرتے تھے۔<ref>ابراہیمی دینانی، ماجرای فکر فلسفی در جہان اسلام، ۱۳۷۶ش، ج۱، صص۱۰۴-۱۲۳۔</ref> اسی طرح ادھر آخری دہائیوں میں کچھ شیعہ علماء -<small> جو «[[مکتب تفکیک]]» کے عنوان سے متعارف تھے </small>- وہ فلسفے کے سیکھنے اور سکھانے یا فلسفے کے ذریعے دینی تعلیمات کی تفسیر کرنے کے مخالف تھے۔<ref>اعرافی، بررسی فقہی فلسفہورزی و فلسفہآموزی، ۱۳۹۱ش، صص۴۴-۴۷۔</ref> اس مکتب کے کئی طرح کے طبقے یا درجے ہیں؛ ان میں سے کچھ لوگ جیسے [[میرزا مہدی اصفہانی]] و [[شیخ محمود حلبی]] مسلمان فلاسفہ کو خادم دین نہیں بلکہ دین اسلام کو نابود کرنے والا کہتے ہیں<ref>ارشادینیا، نقد و بررسی مکتب تفکیک، ۱۳۸۲ش، ص۱۰۱، بہ نقل از: تقریرات میرزا مہدی اصفہانی، مرکز اسناد آستان قدس رضوی، ش۱۲۴۸۰، ص۲۵۔</ref> اور فلسفے کو الہی تعلیمات کا بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔<ref>موسوی، آئین و اندیشہ، ۱۳۸۲ش، ص۲۳، بہ نقل از: شیخ محمود حلبی، دروس معارف الہیہ، ص۸۔</ref> لیکن مکتب تفکیک کے اس زمانے کے حامی افراد جیسے [[سیدجعفر سیدان]] و [[محمدرضا حکیمی خراسانی]] مکمل طور سے فلسفہ کا انکار نہیں کرتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ [[دین]] کی روش اور [[فلسفہ]] کی روش کو الگ الگ قرار دینے والے مکتب کا نام مکتب تفکیک ہے۔<ref>خسروپناہ، جریانشناسی فکری ایران معاصر، ۱۳۹۰ش، ص۱۱۱-۱۱۸۔</ref> تاکہ اس طریقہ سے معارف [[وحی | اس کے باوجود گیارہویں صدی میں کچھ شیعہ علماء، اخباریت کے نام سے منطق اور فلسفے کی مخالفت کرتے تھے۔<ref>ابراہیمی دینانی، ماجرای فکر فلسفی در جہان اسلام، ۱۳۷۶ش، ج۱، صص۱۰۴-۱۲۳۔</ref> اسی طرح ادھر آخری دہائیوں میں کچھ شیعہ علماء -<small> جو «[[مکتب تفکیک]]» کے عنوان سے متعارف تھے </small>- وہ فلسفے کے سیکھنے اور سکھانے یا فلسفے کے ذریعے دینی تعلیمات کی تفسیر کرنے کے مخالف تھے۔<ref>اعرافی، بررسی فقہی فلسفہورزی و فلسفہآموزی، ۱۳۹۱ش، صص۴۴-۴۷۔</ref> اس مکتب کے کئی طرح کے طبقے یا درجے ہیں؛ ان میں سے کچھ لوگ جیسے [[میرزا مہدی اصفہانی]] و [[شیخ محمود حلبی]] مسلمان فلاسفہ کو خادم دین نہیں بلکہ دین اسلام کو نابود کرنے والا کہتے ہیں<ref>ارشادینیا، نقد و بررسی مکتب تفکیک، ۱۳۸۲ش، ص۱۰۱، بہ نقل از: تقریرات میرزا مہدی اصفہانی، مرکز اسناد آستان قدس رضوی، ش۱۲۴۸۰، ص۲۵۔</ref> اور فلسفے کو الہی تعلیمات کا بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔<ref>موسوی، آئین و اندیشہ، ۱۳۸۲ش، ص۲۳، بہ نقل از: شیخ محمود حلبی، دروس معارف الہیہ، ص۸۔</ref> لیکن مکتب تفکیک کے اس زمانے کے حامی افراد جیسے [[سیدجعفر سیدان]] و [[محمدرضا حکیمی خراسانی]] مکمل طور سے فلسفہ کا انکار نہیں کرتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ [[دین]] کی روش اور [[فلسفہ]] کی روش کو الگ الگ قرار دینے والے مکتب کا نام مکتب تفکیک ہے۔<ref>خسروپناہ، جریانشناسی فکری ایران معاصر، ۱۳۹۰ش، ص۱۱۱-۱۱۸۔</ref> تاکہ اس طریقہ سے معارف [[وحی]] الہی کو علوم بشری کے ساتھ مخلوط ہونے سے محفوظ کیا جاسکے۔<ref>حکیمی، مکتب تفکیک، ۱۳۷۵ش، ص۴۴-۴۷۔</ref> | ||
==فلسفے کے بارے میں ائمہ علیہم السلام کی نظر == | ==فلسفے کے بارے میں ائمہ علیہم السلام کی نظر == |