confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099
ترامیم
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 19: | سطر 19: | ||
[[مفسر|مفسرین]] اس آیت میں وسیلہ سے مراد خدا اور [[حضرت محمدؐ|پیغمبر اکرمؐ]] پر [[ایمان]]، [[عمل صالح]]، [[نماز]]، [[روزہ]]، [[شفاعت|پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین کی شفاعت]] اور خدا کو [[انبیاء]] اور [[ائمہ معصومین]] کے مقام و منصب کی قسم دینا قرار دیتے ہیں۔ | [[مفسر|مفسرین]] اس آیت میں وسیلہ سے مراد خدا اور [[حضرت محمدؐ|پیغمبر اکرمؐ]] پر [[ایمان]]، [[عمل صالح]]، [[نماز]]، [[روزہ]]، [[شفاعت|پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین کی شفاعت]] اور خدا کو [[انبیاء]] اور [[ائمہ معصومین]] کے مقام و منصب کی قسم دینا قرار دیتے ہیں۔ | ||
== آیت کا متن اور ترجمہ== | == آیت کا متن اور ترجمہ== | ||
{{گفتگو | {{گفتگو | ||
سطر 31: | سطر 30: | ||
|اے ایمان والو اللہ سے ڈرو! اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔(۳۵) | |اے ایمان والو اللہ سے ڈرو! اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔(۳۵) | ||
}} | }} | ||
== مضامین == | == مضامین == | ||
[[سورہ مائدہ]] کی 35ویں آیت میں وسیلہ سے مراد میل اور رغبت کے ساتھ اپنے آپ کو کسی چیز تک پہنچانا یا اس کا [[تقرب]] حاصل کرنا ہے۔ خدا تک پہنچنے کا وسیلہ حقیقت میں خدا کے بتائے ہوئے راستوں کو پہچان کر ان پر گامزن ہونا یعنی [[عبادت]] اور شریعت کی پابندی ہے؛<ref>راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ذیل واژہ وسل۔</ref> دوسرے لفظوں میں سب سے پہلے احکام الہی کی معرفت حاصل کریں اس کے بعد اس علم کی روشنی میں خدا کی عبادت و بندگی انجام دیں اور شریعت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔<ref> موسوی ہمدانی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۵، ص۵۳۵۔</ref> [[علامہ طباطبائی]] اس آیت میں وسیلہ کو انسان اور خدا کے درمیان معنوی رابطہ قرار دیتے ہیں کیونکہ خدا جسم اور مکان نہیں رکھتا اور یہ رابطہ سوائے [[عبادت|عبودیت]] اور بندگی کے ایجاد نہیں ہو سکتا۔ علامہ مزید فرماتے ہیں کہ وسیلے کی تعریف میں [[راغب اصفہانی]] نے جو علم اور عمل کی بات کی ہے حقیقت میں یہ دونوں وسیلہ کے ذرایع ہیں نہ خود وسیلہ۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۲۸۔</ref> | [[سورہ مائدہ]] کی 35ویں آیت میں وسیلہ سے مراد میل اور رغبت کے ساتھ اپنے آپ کو کسی چیز تک پہنچانا یا اس کا [[تقرب]] حاصل کرنا ہے۔ خدا تک پہنچنے کا وسیلہ حقیقت میں خدا کے بتائے ہوئے راستوں کو پہچان کر ان پر گامزن ہونا یعنی [[عبادت]] اور شریعت کی پابندی ہے؛<ref>راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ذیل واژہ وسل۔</ref> دوسرے لفظوں میں سب سے پہلے احکام الہی کی معرفت حاصل کریں اس کے بعد اس علم کی روشنی میں خدا کی عبادت و بندگی انجام دیں اور شریعت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔<ref> موسوی ہمدانی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۵، ص۵۳۵۔</ref> [[علامہ طباطبائی]] اس آیت میں وسیلہ کو انسان اور خدا کے درمیان معنوی رابطہ قرار دیتے ہیں کیونکہ خدا جسم اور مکان نہیں رکھتا اور یہ رابطہ سوائے [[عبادت|عبودیت]] اور بندگی کے ایجاد نہیں ہو سکتا۔ علامہ مزید فرماتے ہیں کہ وسیلے کی تعریف میں [[راغب اصفہانی]] نے جو علم اور عمل کی بات کی ہے حقیقت میں یہ دونوں وسیلہ کے ذرایع ہیں نہ خود وسیلہ۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۲۸۔</ref> |