مندرجات کا رخ کریں

"آیت وسیلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 37: سطر 37:
اس آیت میں [[رستگاری]] اور نجات کو تین امور؛ [[تقوا|تقوای الہی]] کی رعایت، خدا تک پہنچنے کے لئے وسیلے کا انتخاب اور خدا کی راہ میں [[جہاد]] سے مشروط قرار دیتے ہیں ۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref> بعض مفسرین اس آیت میں جہاد سے اس کا عمومی معنا مراد لیتے ہیں جس میں کفار اور مشرکین کے ساتھ جہاد اور نفس کے ساتھ جہاد دونوں کو شامل کرتا ہے۔ کیونکہ خدا تک پہنچنے کے وسیلے کے انتخاب کے بعد جہاد کا تذکرہ آنا حقیقت میں عام کے بعد خاص کے تذکرے کے قانون میں سے ہے کیونکہ خدا کی راہ میں جہاد حقیقت میں خدا تک پہنچنے کے ذرایع میں سے ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۲۸۔</ref>
اس آیت میں [[رستگاری]] اور نجات کو تین امور؛ [[تقوا|تقوای الہی]] کی رعایت، خدا تک پہنچنے کے لئے وسیلے کا انتخاب اور خدا کی راہ میں [[جہاد]] سے مشروط قرار دیتے ہیں ۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref> بعض مفسرین اس آیت میں جہاد سے اس کا عمومی معنا مراد لیتے ہیں جس میں کفار اور مشرکین کے ساتھ جہاد اور نفس کے ساتھ جہاد دونوں کو شامل کرتا ہے۔ کیونکہ خدا تک پہنچنے کے وسیلے کے انتخاب کے بعد جہاد کا تذکرہ آنا حقیقت میں عام کے بعد خاص کے تذکرے کے قانون میں سے ہے کیونکہ خدا کی راہ میں جہاد حقیقت میں خدا تک پہنچنے کے ذرایع میں سے ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۵، ص۳۲۸۔</ref>


== وسیلہ کے مصادیق ==<!--
== وسیلہ کے مصادیق ==
[[مفسران]] منظور از وسیلہ را در این آیہ بسیار وسیع دانستہ و شامل ہر کاری و چیزی کہ باعث نزدیک شدن بہ خداوند گردد، می‌دانند و مہم‌ترین این وسایل را طاعت و عبادت خداوند و ترک [[معصیت]] معرفی کردہ‌اند۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۹۳؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۱، ص۳۴۹۔</ref> برخی از مفسران با استناد بہ [[روایت|روایتی]] از [[امام علی(ع)]]<ref>ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۱۴۹۔</ref> وسایل [[تقرب]] بہ خداوند را در [[ایمان]] بہ خدا و رسولش، جہاد در راہ خدا، [[نماز]]، [[روزہ]]، [[زکات]]، [[انفاق]]، [[حج]]، [[عمرہ]]، [[صلہ رحم]]، [[صدقہ| صدقہ آشکار و مخفی]] و [[ذکر| ذکر خدا]] دانستہ‌اند۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref>
[[مفسرین]] وسیلہ کے مفہوم کو بہت وسیع قرار دیتے ہیں جس میں وہ تمام امور شامل ہوتے ہیں جو خدا سے تقرب کا سبب بن سکتے ہیں اور ان میں سب سے اہم ذرایع خدا کی اطاعت و بندگی اور ترک [[معصیت]] بیان کرتے ہیں۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۳، ص۲۹۳؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۱، ص۳۴۹۔</ref> بعض مفسرین [[امام علیؑ]] سے مروی ایک حدیث<ref>ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۱۴۹۔</ref> سے استناد کرتے ہوئے خدا سے [[تقرب]] کے ذرایع کو خدا اور پیغمبر اکرمؐ پر [[ایمان]]، راہ خدا میں جہاد، [[نماز]]، [[روزہ]]، [[زکات]]، [[انفاق]]، [[حج]]، [[عمرہ]]، [[صلہ رحم]]، [[صدقہ]] اور [[ذکر| ذکر خدا]] قرار دیتے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref>
<br />
<br />
[[شفاعت]] [[پیامبران]]، [[امامان]] و بندگان صالح خدا، ہمچنین پیروی از پیامبر و امام و سوگند دادن خدا بہ مقام پیامبران، امامان و صالحان بہ ویژہ [[پیامبر اسلام(ص)]] و [[اہل بیت| اہل بیت او]] را با استناد بہ آیات<ref>سورہ نساء، آیہ ۶۴؛ سورہ یوسف، آیہ ۹۷؛ سورہ توبہ آیہ ۱۱۴۔</ref> و روایات<ref>حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۶۲۵-۶۲۶؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۶۰۔</ref> از مصادیق وسیلہ در آیہ دانستہ‌اند۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref>
[[انبیاء]]، [[اولیاء]] اور خدا کے نیک اور صالح بندوں کی [[شفاعت]]، پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی پیروی اور خدا سے انبیاء، اولیاء و صالحین خاص کر [[پیغمبر اسلامؐ]] اور [[اہل بیتؑ]] کے مقام و منزلت کی قسم دینا قرآنی آیات<ref>سورہ نساء، آیہ ۶۴؛ سورہ یوسف، آیہ ۹۷؛ سورہ توبہ آیہ ۱۱۴۔</ref> اور روایات<ref>حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۶۲۵-۶۲۶؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۶۰۔</ref> سے کی روشنی میں وسیلہ کے مصادیق میں سے قرار دیتے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۳۶۴۔</ref>
-->
 
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات2}}
{{حوالہ جات2}}
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم